’’ایک آس ہوتی ہے کہ کوئی ملنے آئے گا‘‘

عید آنے والی ہے تو آنے دیں، وہ بھی عام دنوں کی طرح گزرجائے گی۔ اب کچھ نیا نہیں لگتا ہمیں ، سب دن یکساں لگتے ہیں۔

’’ہم اپنے اپنے دُکھ ایک دوسرے کو سنائیں گے‘‘ ،کیسے منائیں گے عید اپنوں کے ردکردہ ’’اولڈہوم‘‘ کے دُکھی باسی ۔ فوٹو : فائل

سہارا ہوم
سہارا پبلک رائٹس ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر انتظام 1988 سے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

اکبر علی رانا اس کے روح رواں ہیں۔ یہ ادارہ بے سہارا اور خصوصی افراد کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے۔ سہارا ہوم میں ماہرین نفسیات، فزیو تھراپسٹ اور طبی عملہ بھی موجود ہے۔ سہارا ہوم میں مقیم افراد گھر جیسا ماحول پاتے ہیں اور خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ ادارے میں ذہنی و جسمانی معذور اور نفسیاتی امراض کا شکار افراد کی بحالی کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

عید آتی اور خوشیاں لاتی ہے۔ کیا ایسا ہی ہے، کسے کہتے ہیں عید، ہر طرف ناامیدی ہے، معاشی نا ہم واری ہے، بے کلی اور اداسی ہے، وہ جسے اپنا پن کہتے تھے کہاں ہے وہ ، کسے کہتے ہیں اخلاص، کہاں گئے رشتے ناتے ، نہ جانے کہاں گئے، اب تو سب مصنوعی سا لگتا ہے ۔ ہم اس جگہ آ نکلے تھے جہاں سب مجسم انتظار تھے۔ اپنوں کے منتظر اور بس منتظر۔۔۔ میں ایک اولڈ ہوم آپہنچا تھا۔ عجیب سا سوال لیے کہ وہ عید پر کیا تیاری کر رہے ہیں ۔ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ پھر جو کچھ ہوا ، دیکھ لیجیے۔ ہمیں خالد معین کی ایک خوب صورت نظم یاد آگئی ۔



سسکیاں ابھرتی ہیں
پھر پس غبار شب
یہ ہَوا کا نوحہ ہے
دیپ بجھ گئے لیکن
چاند اب بھی روشن ہے
انتظار کو اوڑھے
راہ گزر کی ویرانی
یاد کچھ دلاتی ہے
جانے اس دریچے میں
تیرگی و تنہائی
اب کسے بلائیں گے
کون ہم نوا ہو گا
کس سے ہم کلامی کی
ساعتیں بسر ہوں گی
رات کی اداسی میں
یہ خیال کیوں آیا
ہم کو در بدر کرکے
کوئی خوش رہا ہوگا
یا کبھی دکھا ہوگا

روئی کے گالوں جیسے بال اور ملکوتی مسکراہٹ سجائے شمشاد بیگم ہمارے سامنے تھیں۔ وہ اپنی عمر کی صدی مکمل کرنے والی ہیں۔ 99 سالہ شمشاد بیگم کی زندگی کی کہانی اتنی مختصر نہیں کہ اسے چند جملوں میں بیان کردیا جائے۔ سینٹ جوزف کالج کی تعلیم یافتہ شمشاد بیگم کے شوہر جج تھے، جن کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہیں جو شادی شدہ ہیں، پانچ سال قبل وہ انہیں سہارا ہوم میں چھوڑ کر چلی گئی تھیں، تب سے وہ یہی ہیں۔ میں نے پوچھا عید آنے والی ہے، آپ کیا کریں گی، کیا تیاری کی ہے آپ نے؟ مسکرائیں اور کہنے لگیں:

عید آنے والی ہے تو آنے دیں، وہ بھی عام دنوں کی طرح گزرجائے گی۔ اب کچھ نیا نہیں لگتا ہمیں ، سب دن یکساں لگتے ہیں۔ پہلے تھی عید، شب برأت تو، سب خوشیاں، حقیقی خوشیاں مناتے تھے۔ دکھ سکھ سانجھے تھے۔ شادی غمی سانجھی تھی۔ عید آتی تو کوئی چہرہ اداس نہیں رہتا تھا۔ عید پر کوئی رنجش باقی نہیں رہتی تھی، سارے گلے شکوے ختم ہوجاتے تھے، عید نئے سرے سے تعلقات کی تجدید کا نام تھا۔ عید کی تیاریاں تو شعبان ہی میں شروع ہوجاتی تھیں، نئے کپڑے، جوتے اور لڑکیوں کی منہدی چوڑیاں نہ جانے کیا کیا۔ اچھا اب تو سویاں بازار میں ملتی ہیں ناں، اس وقت گھروں پر خود بنائی جاتی تھیں۔ قیمہ بنانے والی مشین سے سویاں نکالی جاتی تھیں، پھر انہیں سکھایا جاتا تھا، ان میں باریک بھی ہوتی تھیں اور موٹی بھی، اور بہت سے گھروں میں رنگا رنگ مٹھائیاں بھی بنائی جاتی تھیں اور ان کاموں میں سارے محلے کے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ اس طرح باہمی تعلقات زیادہ گہرے ہوتے تھے۔

کسی کو کوئی خوف نہیں تھا۔ ہر طرف شانتی تھی امن تھا اور جب امن ہو شانتی ہو تب ہی سارے تہوار اچھے اور بھلے لگتے ہیں۔ اب تو ہر طرف موت کا ہرکارہ اپنا کوڑا لیے گھوم رہا ہے۔ موت کا خوف، لٹنے کا خوف، بموں کا خوف نہ جانے کیا کیا خوف۔ اب کہاں رہی عید، اب تو سب کچھ پھیکا لگتا ہے۔ یہاں اولڈ ہوم میں عید، بس ٹھیک ہے اس لیے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ والدین کی عید تو بچوں کے سنگ ہوتی ہے، والدین اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور جب بچے بڑے ہوجائیں، ان کی شادیاں ہوجائیں اور ان کے بچے، تو پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے ساتھ ہوتی ہے اصل عید تو، ورنہ کیا عید، میں 5 سال سے یہاں ہوں، یہاں نئے کپڑے بھی ملتے ہیں، چوڑیاں بھی، منہدی بھی، اچھے اچھے کھانے بھی، لیکن یہ سب کچھ تو عید نہیں ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرکے اپنا غم غلط کرتے ہیں، دن گزر ہی جاتا ہے۔ ایک آس ہوتی ہے کہ کوئی ہمیں ملنے آئے گا، لیکن کسے ہے اتنی فرصت کہ ہمارے پاس آئے، بس سورج ڈوب جاتا ہے تو دل بھی ڈوب جاتا ہے۔ کیا پوچھتے ہو بیٹا، جو ہے بس ٹھیک ہی ہے، عید آئے گی اور گزر جائے گی۔

٭ وہ مجھے دیکھتے ہی سنجیدہ ہوگئیں، میں نے مسکرا کر پوچھا عید کیسے منائیں گی؟
کب ہے عید؟
میں نے کہا بس چند دن رہ گئے ہیں، آپ کو نہیں معلوم عید آنے والی ہے؟
ہاں معلوم ہے مجھے آنے والی ہے۔
تو آپ کیسے منائیں گی عید؟

میں نئے کپڑے پہنوں گی، منہدی لگوائوں گی، چوڑیاں پہنوں گی، عید ہے ناں بھئی، پھر میرا بیٹا لندن سے آئے گا کتنا مزہ آئے گا۔ پھر میں اس کے ساتھ لندن چلی جائوں گی، بس آنے ہی والا ہے میرا بیٹا، بہت اچھا ہے، بہت نیک ہے میرا بیٹا، بس مصروف ہوگیا ہے ناں وہ۔ بھئی باہر لندن میں تو کام بھی بہت ہے، وہ چھٹی بھی نہیں دیتے اور کہتے ہیں، بس کام کرو کام۔ لیکن وہ آئے گا ضرور، ضرور آئے گا میرا بیٹا۔ بہت دعائیں دیتی ہوں میں اسے، جب وہ چھوٹا تھا ناں تو عید پر بہت مزہ آتا تھا۔

عید کے لیے ہر چیز مانگتا تھا وہ، اماں یہ لے دو، وہ لے دو، پگلا، نئے کپڑے خریدتا تھا، اور ایک نہیں، نہیں صاحب! ایک جوڑا نہیں، کئی جوڑے، سینڈل، چپل اور جوتے اور اتنا پگلا تھا کہ چاند رات کو سب کچھ اپنے پلنگ پر رکھ کر سوتا تھا۔ ایک دفعہ تو نئے جوتوں کا ڈبا اپنے سینے سے لگاکر سوگیا تھا، پھر عید کے دن میں اسے تیار کرتی، اس کے ابا زندہ تھے ناں تو وہ اسے پیسے دیتے۔ وہ ان پیسوں کا پتا ہے کیا خریدتا تھا، کھلونے خریدتا تھا پھر ان سے کھیلتا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ، مت پوچھو کتنا خوش ہوتا تھا وہ، میں شیر خورمہ بناتی اور سویاں بھی تو وہ بہت خوش ہوکر کھاتا تھا۔ اب سنو! میٹھے سے پیٹ بھر گیا تو اسے کچوری چاہیے، اکلوتا تھا ناں، بس ایک بات سے بہت اداس رہتا تھا پگلا، اور پوچھتا رہتا تھا کہ اوروں کے تو بہت بہن بھائی ہیں میرے کیوں نہیں ہیں۔



بہت مشکل سے سمجھاتے تھے اسے۔ خیر سارا دن وہ خوش رہتا اور پھر ہم اسے شام کو رشتے داروں کے گھر لے کر جاتے تھے، عید کے تینوں دن وہ خوش رہتا، کبھی کلفٹن لے کر جاتے کبھی چڑیا گھر، اور چڑیا گھر میں تو وہ جانوروں کو دیکھ کے بالکل پاگل ہوجاتا تھا اور ان کی طرح نقلیں اتارتا تھا، وہاں سے واپس آنے کو تو اس کا جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ بچپن میں بہت پگلا تھا وہ۔ پھر اس کے ابا مرگئے لیکن ہم نے اسے احساس نہیں ہونے دیا، بہت محنت کی ہم نے، کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہونے دی، احساس ہی نہیں ہونے دیا اسے کہ اس کا باپ نہیں ہے۔ نازوں سے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا اور پھر وہ لندن چلا گیا۔ وہاں جاکر اس نے گوری میم سے شادی کرلی، وہ خود بھی گورا چٹا ہے جی، وہ کسی انگریز سے کم ہے کیا، چودھویں کے چاند کی طرح ہے وہ ۔ مجھے تو اس کی بہت فکر لگی رہتی ہے۔

بہت نخرے تھے اس کے کھانے پینے میں ، یہ نہیں کھائوں گا اماں، وہ نہیں کھائوں گا اماں۔ پتا نہیں کیا کھاتا ہوگا۔ گوری میم کو تو میری طرح کھانے بنانا تو نہیں آتے ہوں گے ناں۔ اب میں جائوں تو اسے بھی کھانا بنانا سکھائوں گی ۔ کیا کیا کرنا پڑتا ہے اپنے بچوں کے لیے، جان گھلانی پڑتی ہے جی۔ بہت شرارتی ہے ناں وہ، اب آئے گا وہ مجھے لے جائے گا۔ بس میں اس کے ساتھ رہوں گی، اس عید پر تو وہ ضرور آئے گا۔ ہر عید پر یہی کہتا ہے باؤلا۔ اب میرے پاس موبائل بھی نہیں ہے کہ اس سے بات کروں، بہت پریشان ہو رہا ہوگا بہت مہینوں سے بات نہیں ہوئی ناں۔


چلو اسے یہ جگہ معلوم ہے، بھئی خود ہی تو وہ چھوڑ کر گیا تھا مجھے، کہ اماں بس ایک ہفتے میں آکر لے جائوں گا، وہاں جا کر کاموں میں لگ گیا پگلا۔ میں بھی تیار ہوکر بیٹھوں گی کہ بس وہ آئے اور ہم جائیں، وقت ضائع نہ ہو ناں۔ بس اب میں تیار شروع کردوں ناں وہ آئے گا عید پر، ضرور آئے گا۔شہناز 70 سال کی ہوگئی ہیں ، انہیں فالج ہے 3 سال پہلے ان کا اکلوتا بیٹا انہیں یہاں چھوڑ گیا تھا۔ اب وہ لندن میں ہے۔ اور شہناز اس کا انتظار کررہی ہے۔

٭ انعم شاہ رسول کالونی میں رہتی تھیں۔ انہوں نے بی اے کیا ہے اور ہمیشہ امتیازی اور نمایاں پوزیشن حاصل کی ہے۔ 35 سالہ انعم کو اولڈ ہوم کا رخ کیوں کرنا پڑا، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ لڑکیوں کو سہانے خواب دکھاکر برباد کرنے والوں کی داستان۔
میں نے پوچھا عید آنے والی ہے کیا تیاری کی آپ نے؟

وہ مجھے غصے سے گھورتی رہیں۔
کیا عید؟ کیا تیاری؟ سب دھوکا ہے سب دھوکا کوئی عید وید نہیں ہوتی، بس ایسی ہی ہوتی ہے عید، لوگ مررہے ہیں، گولیاں چل ر ہی ہیں، بم پھٹ رہے ہیں، کھانے کو کچھ نہیں اور آپ کہہ رہے ہیں عید آنے والی ہے۔ عید تو خوشیاں لاتی ہے اور دنیا میں کہاں رہ گئی خوشی، بتائیں آپ کہاں ہے خوشی، ہر طرف غم ہی غم ہیں، رونا ہی رونا ہے، دکھ ہی دکھ ہیں، دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا۔ زندگی ہمیں تیرا اعتبار نہ رہا۔ رہنے دیجیے عید، کوئی خوش نہیں ہے یہاں۔ بہن بھائی، ماں باپ سب دھوکا ہیں۔ عید آئے گی تو خود ہی خوش ہوجائوں گی، کوئی آئے گا نہیں، کوئی نہیں آئے گا کوئی بھی ۔ میرے ساتھ آخر کس کا رشتہ ہے کسی کا، انسان اگر غلطی کرلے اور کون انسان ہے، جو غلطی نہ کرے، پھر وہ شرمندہ بھی ہو نادم بھی، معافی بھی مانگ لے تو کیا گھر والوں کو پھر بھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔

جب اللہ معاف کردیتا ہے تو انسان کو بھی معاف کردینا چاہیے، ٹھیک ہے میرے ساتھ دھوکا ہوگیا، غلطی ہوگئی میں پڑھی لکھی ہوں ، میں نے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی، شرمندہ بھی تھی، میں حالات کی وجہ سے بہت غصہ کرنے لگی تھی، لیکن کیا ماں باپ بھائی بہنوں کو مجھے اولڈ ہوم میں داخل کرادینا چاہیے تھا۔ چھوڑیں سب رشتے ناتے جعلی ہیں، سب مطلب کے ہیں، مطلب کی ہے ساری دنیا، کوئی کسی کا نہیں ہے۔ سنا تھا ماں اپنی بیٹی کو کبھی نہیں چھوڑتی، پھر مجھے کیوں چھوڑا۔ یہ سب بکواس ہے۔ ہاں عید پر نئے کپڑے پہنوں گی، چوڑیاں پہنوں گی، منہدی لگوائوں گی اور خود ہی دیکھ کر خوش ہوجائوں گی۔ کوئی آتا ہے تو آئے جو نہیں آئے گا، سب بھاڑ میں جائیں، میں اپنے لیے جیوں گی بس۔

٭ نسرین40 سال کی ہیں، ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ایک ہی بیٹی تھی جو سسرال والوں نے لے لی۔ ان کے والد صاحب اسٹیل ملز میں ڈیزائنر تھے، بنی سنوری سنجیدہ و متین نسرین کی کہانی بھی دل خراش ہے۔ جب عزیز رشتے داروں اور خونی رشتوں نے منہ پھیر لیا تو وہ خود ہی اولڈ ہوم آگئیں، لیکن سب کو یاد بہت کرتی ہیں۔ خاص کر اپنے گھروالوں اور بیٹی کو۔ عید کے لیے کیا تیار ی کی آپ نے؟
جی بھائی آنے والی ہے عید، مجھے معلوم ہے، رسمِ دنیا ہے نبھانی پڑے گی۔ وہی جو سب کرتے ہیں، اوپر سے خوش اور اندر سے رنجیدہ ۔ میرے ''کیوں'' کے جواب میں نسرین کہنے لگی:

بھائی آپ تو جرنلسٹ ہیں، سارا دن خبروں میں رہتے ہیں، آپ دیکھ نہیں رہے کہ کیسی مارا ماری ہے، انسان انسان کا دشمن بنا ہوا ہے، رشتے ناتے سب دھول مٹی ہوگئے ہیں، کوئی کسی کا ہاتھ تھامنے والا نہیں ہے۔ مروت نام کی کوئی قدر رہی ہی نہیں، خلوص و ایثار نجانے کسے کہتے ہیں، ایسی عجیب زندگی ہوگئی ہے۔ جو خوش نظر آرہا ہے وہ بھی خوش نہیں ہے جو رنجیدہ نظر آرہا ہے وہ رنجیدہ نہیں ہے۔ سب ڈرامے بازی اور اداکاری کررہے ہیں۔ آپ تجزیہ ہی نہیں کرسکتے کہ اصل کیا ہے ، اصل تو دھول میں گم ہوگیا ہے۔ سب کچھ اداکاری ہوگیا ہے۔ پہلے نہیں آتی تھی مجھے اداکاری، لیکن اب تو میں بھی سیکھ گئی ہوں۔ عید آئے گی تو نئے کپڑے پہنوں گی، منہدی لگوائوں گی، ہم سب مل کر اپنے اپنے دکھ ایک دوسرے کو سنائیں گے اور بس دن ہوجائے گا تمام۔ عید پر گانا بھی گائوں گی۔



جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ

عید پر آپ ضرور آئیے گا، پھر ہم منائیں گے عید، یہ لیجیے آپ کے لیے شعر

عید آئی ہے سلگتی ہوئی یادیں لیے
آج پھر اپنی اداسی پر ترس آتا ہے

٭ شہناز کی عمر 30 سال ہے، انھیں شوہر نے طلاق دے دی، والدین کا انتقال ہوگیا ہے، تو وہ بھائی کے گھر آگئیں۔ اپنی بھاوج سے ان کی نہیں نبھی اور ایک دن بھائی انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ گیا۔ وہ بات کرتے کرتے کہیں کھو جاتی ہیں ۔ روتے روتے ہنسنے لگتی ہیں اور بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتی ہیں۔

شہناز نے اپنی عید کی تیاریوں کے بارے میں بتایا۔
بھائی عید تو خوشی کو کہتے ہیں، جب انسان تن درست ہو، خوش ہو تو اس کے لیے تو ہر دن عید کا ہوتا ہے۔ اور اگر انسان اداس ہو تو عید بھی غم کا تہوار بن جاتی ہے۔ عید کے دن تو انسان اور بھی غم گین ہوتا ہے، عید تو ماں باپ ، بہن، بھائی، شوہر اور بچوں کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو پھر کیسی عید۔ بس ایک دن ہوتا ہے جسے عید کہتے ہیں، اچھے کپڑے اور اچھے کھانوں کا نام تو عید نہیں ہوتا۔ عید تو اندر سے خوش رہنے اور خوشیاں منانے اور خوشیاں باٹنے کا نام ہے۔ عید آئے گی تو ہم بھی منالیں گے۔ اب یہاں ہم سب لوگ ایک خاندان کی طرح ہیں۔ ایک دوسرے کا دکھ سنتے ہیں، خوشی میں خوش ہوتے اور غمی میں روتے ہیں۔ بس اب ہم ایک دوسرے کا سہارا ہیں، عید آئے گی تو ایک دوسرے سے ملیں گے، اچھے کھانے کھائیں گے، باتیں کریں گے اور بس گزر جائے گی عید۔

وہ باتیں کرتے کرتے پھر سے گم ہوگئیں۔
٭ وسیم حسین کے ماں باپ بہت غریب تھے۔ وہ وسیم کو پڑھا لکھا نہیں سکے۔ وسیم بچپن ہی سے کام کرنے لگے تھے اور والدین کا سہارا تھے، وہ کوٹ پینٹ اور لیدر جیکٹ سینے کے ماہر ہیں۔ حالات کے مارے ہوئے وسیم حسین اپنا ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکے اور اولڈ ہوم پہنچ گئے۔ وسیم سے ہم نے عید کی تیاریوں کے حوالے سے سوال کیا تو وہ بولے:
''عید آئے گی تو خوشیاں منائیں گے، گانے گائیں گے اور میں تو ناچوں گا بھی۔''

وسیم آپ کیا گائیں گے، انہوں نے ہمیں گانا سنایا،
عید کا دن ہے گلے ہم کو لگاکر ملیے
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے دستور بھی ہے

٭ستار بابا کو دو سال قبل ان کے بچے اولڈ ہوم میں داخل کرا گئے تھے، ستار بابا پولیس کے مخبر تھے، بچوں کے منع کرنے پر بھی وہ باز نہیں آئے تو وہ انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ گئے۔ وہ بہت باتونی ہیں ہم نے عید کی تیاریوں کا پوچھا تو کہنے لگے،''دیکھو بھائی! مخبر کے بنا پولیس کام نہیں کرسکتی اور پولیس کے بنا عدالت۔ اب میں نے قومی خدمات سرانجام دی ہیں تو بچوں کو اچھا نہیں لگا اور مجھے یہاں چھوڑ گئے، کس کے لیے میں نے اتنی محنت کی اپنی اولاد کے لیے کی ناں۔ ورنہ مجھے اتنی محنت کرنے کی کیا پڑی تھی۔ جن بچوں کے لیے اتنی محنت کی، وہی مجھ سے بے زار ہوگئے۔ چلو وہ خوش رہیں اپنا کیا ہے، وقت کٹ ہی جائے گا۔ میرے سینے میں تو ہزاروں راز دفن ہیں ۔ میں کسی اور ملک میں ہوتا تو میری عزت ہوتی اور یہاں پر یہ سلوک ہورہا ہے۔

لیکن میرے بچے ہیں بہت اچھے، عید کے دن وہ ضرور آئیں گے۔ یہاں پر ہم نئے کپڑے پہنتے ہیں، مزے دار کھانے کھاتے ہیں، ہلا گلا کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، لیکن اصل مزہ تو عید کا گھر پر ہی ہے، بچوں کے ساتھ دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا سب اچھا لگتا ہے۔ ابھی بھی عید آئے گی تو اب ہم سارے دوست سب مست ہوکر عید منائیں گے، کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے تو ہمیں بھی کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ دنیا ہی ایسی ہے، یاشیخ اپنی اپنی دیکھ۔ ہاں بھائی صاحب جو خوش ہو اسے خوش دیکھ ہی نہیں سکتے۔ بڑا عجیب وقت آگیا ہے، خون سفید ہوگیا ہے، یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔ اب کیا کریں، بس جو ہے شکر ہے پاک پروردگار کا، عید کو آنا تم بھی، گپ شپ ماریں گے، تاش واش کھیلیں گے ضرور آنا تم۔

٭ کرامت علی صاحب ساری عمر کام کرتے اور اپنے بچوں کو پالتے پوستے رہے، انہوں نے انہیں بہترین تعلیم سے آراستہ کیا، اپنا سُکھ تج کر انہیں راحت پہنچائی۔ بچوں کی شادیاں کرائیں، پھر کرامت علی کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا ، وہ کہتے رہے، لیکن بچوں نے توجہ نہیں دی۔ شوگر کے مرض میں وہ اپنی ٹانگ سے محروم ہوگئے، اور معذور ہونے کے بعد آخر انہیں اولڈ ہوم پہنچادیا گیا۔ وہ ہر دم اپنے بچوں کو دعائیں دیتے اور خاموش رہتے ہیں۔ ہم نے ان سے عید کی تیاریوں کا پوچھا تو جواب کچھ نہیں دیا۔ بس اُن کی آنکھیں برسنے لگیں۔ ہم تھوڑی دیر ان کے سامنے سر جھکاکر کر بیٹھے رہے اور پھر وہاں سے لوٹ آئے۔

٭ افتخار احمد کسی ٹیکسٹائل مل میں ملازم تھے۔ ان بہت اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔ بہت اچھی بیوی تھی ان کی جو ان کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو بہترین تعلیم سے آراستہ کیا۔ ہر طرح سے ان کا خیال رکھا۔ بچے جوان ہوئے تو ان کی شادیاں کیں۔ اب وہ سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور ان کے ابتر دنوں کا آغاز۔

وہ اپنے تینوں شادی شدہ بیٹوں کے ساتھ اس گھر میں رہتے تھے جو انہوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بنایا تھا۔ افتخار احمد کا کہنا ہے کہ بیوی کے انتقال کے بعد وہ اپنی بہوؤں کے رحم و کرم پر تھے، بیٹے اپنے کام پر چلے جاتے اور ان کی بیگمات انہیں جھڑکتی رہتیں، انہیں وقت پر کھانا پینا میسر نہیں تھا۔ وہ اپنے پوتے پوتیوں کو اپنی گود میں اٹھا کر پیار نہیں کر سکتے تھے۔ وہ اپنے بیٹوں سے شکایت کرتے تو وہ انہیں ہی ڈانٹ دیتے تھے ۔ بات آگے بڑھی تو اپنے ہی بنائے ہوئے گھر سے بے دخل کردیے گیے۔ بے دخل کیے جانے کے بعد وہ اپنے کسی عزیز کے گھر اس لیے نہیں گئے کہ انہیں اپنے بیٹوں کی عزت پیاری تھی پھر کسی نے انہیں سہارا ہوم کا بتایا تو وہ یہاں چلے آئے ۔

کیسے منائیں گے عید آپ؟ ہم نے ان سے پوچھا:
بیٹا عید تو بہت دور ہے، آئے گی تو منا ہی لیں گے اور نہیں منائیں گے تو وہ گزر ہی جائے گی۔ ہماری عمر اب عید منانے کی نہیں ہے، بس انتظار کرنے کی ہے، موت کا انتظار۔ کیا عید بیٹا بس رہنے ہی دو۔ عید کہتے ہیں خوشوں کو۔ اپنی خوشیاں ہوگئیں ختم شد۔ بس اب انتظار ہے کہ اپنی اصل منزل کی طرف سفر شروع کرنے کا۔ بس دعا کرو کہ خاتمہ خیر سے ہوجائے۔ ویسے تم آنا عید پر اور خود دیکھ لینا کیسے مناتے ہیں ہم عید۔ اچھا ہے تھوڑا مزہ آئے گا، دو پل کا خواب ہے جیون بیٹا۔ وہ کسی نے کہا ہے ناں
آتے ہوئے اذان ہوئی، جاتے ہوئے نماز
اتنے قلیل وقت میں آئے، چلے گئے
Load Next Story