پاک بھارت کشیدگی پاکستان کی بہتر حکمت عملی بھارت کو عالمی و ملکی سطح پر سُبکی کا سامنا

ماہرین امور خارجہ ، دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


ماہرین امور خارجہ ، دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

پلوامہ حملہ کے بعد سے پاک بھارت تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہیں۔ پاکستان نے نہ صرف دفاعی لحاظ سے بھارت کو بھرپور جواب دیا بلکہ خارجی محاذ پر بھی ہندوستان کو منہ کی کھانا پڑی۔وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو امن کی دعوت دی اور دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے تاہم اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔

''خطے کی موجودہ صورتحال'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سابق سفارتکار اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

جاوید حسین
(سابق سفارتکار)

21 ویں صدی میں امریکا اور چین کے درمیان لڑائی کی فضا بن رہی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا مگر جب چین نے معاشی ترقی حاصل کی تو امریکا کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر یہ اسی طرح ترقی کرتا رہا تو دنیا میں امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرے گا لہٰذا چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا امریکا کا سٹرٹیجک ہدف ہے جو مستقبل قریب میں تبدیل ہونے والا نہیں بلکہ پوری 21 ویں صدی میں عالمی سطح پر یہ توجہ کا مرکز رہے گا۔

ہمارے لیے اس میں یہ پہلو نکلتا ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنے کیلئے امریکا نے بھارت کے ساتھ اپنی سٹرٹیجک پارٹنر شپ قائم کی ہے، وہ بھارت سے ہر شعبے میں تعاون کر رہا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ یہ پارٹنر شپ ابھی شروع نہیں ہوئی بلکہ 1995ء کے بعد امریکی صدر کلنٹن نے شروع کی جسے صدر بش و باراک اوباما نے جاری رکھا اور اب ٹرمپ اسے آگے لے کر چل رہے ہیں۔ امریکا ، چین کو روکنے کے لیے بہت سارے اقدامات کر رہا ہے مگر بھارت کے ساتھ تعاون اس کی لانگ ٹرم پالیسی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں چین کے مقابل اگر بھارت کو کھڑا کیا جائے تو وہ خطے میں چین کیلئے رکاوٹ بنے گا۔

امریکا کی یہ بھی کوشش ہے کہ پاکستان اس مشن میں اس کے ساتھ ''لائن اپ'' ہوجائے جس کا مطلب یہ ہے پاکستان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے جس سے بھارت کمزور ہو۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بھارت اس خطے میں بالادستی کے عزائم رکھتا ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت بھارتی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ اگر اسے تسلیم کرلیا گیا تو ہماری حیثیت صرف ایک سٹیلائٹ جتنی رہ جائے گی۔ دنیا جس طرح آگے بڑھ رہی ہے اس میں عالمی قانون ، اقدار اور اقوام متحدہ کا کردار کم ہوتا جارہا ہے بلکہ اب طاقت کے ذریعے فیصلوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

فلسطین میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، اسرائیل اور امریکا طاقتور ہیں لہٰذا ابھی تک مسئلہ فلسطین حل طلب ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر پاکستان نے اپنا دفاع کرنا ہے تو ہمیں خود کو مضبوط بنانا ہوگا لیکن اگر ہم کمزور ہوجائیں گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ فوجی طاقت ہونا بہت اہم ہے۔ اگر ہمارے پاس یہ طاقت نہ ہوتی تو بھارت کو موثر جواب دینا مشکل ہوتا۔ میرے نزدیک صرف عسکری طاقت کافی نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ ہماری مقابلہ بازی صدیوں چلے گی لہٰذا ہمیں لانگ ٹرم سکیورٹی پالیسی بنانا ہوگی جو جامع ہو۔ سکیورٹی پالیسی کی چار جہتیں ہوتی ہیں۔ ایک سکیورٹی، دوسری معاشی، تیسری سیاسی اور چوتھی سفارتی ۔ اگر ان چاروں پر کام کرکے توازن قائم کیا جائے تو پھر بہتری لائی جاسکتی ہے لیکن اگر صرف ایک سمت میں کام ہوگا تو اس کا نقصان ہوسکتا ہے۔

یہ سب کو معلوم ہے کہ سوویت یونین کے ہتھیاروں کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزور معیشت کی وجہ سے ٹکرے ہوئے لہٰذا ہمیں اس سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا۔افسوس ہے کہ اس وقت ہماری معیشت انتہائی کمزور ہے جبکہ حکومت کی پالیسیاں ناکام ہیں۔ ہمارے برعکس بھارت کی معیشت تیزی سے مستحکم ہورہی ہے لہٰذا اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہمارے لیے مسائل خطرناک ہوجائیں گے۔میرے نزدیک تمام چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمیں سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہونا ہوگا۔

موجودہ صورتحال میں ہماری افواج کی موثر کارروائی سے اگرچہ خطرہ ٹل گیا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ مودی مزید تخریب کاری کی کوشش کرسکتا ہے۔ ہمیں علاقائی اور اندرونی اتحاد کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، ہمیں ذاتی مفادات کو چھوڑ کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ ایران کے ساتھ ہمیں تعلقات بہتر کرنے چاہئیں جبکہ پر امن افغانستان بھی ہماری ضرورت ہے۔ ''او آئی سی'' اسلامی ممالک کی تنظیم ہے مگر اس میں بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دینا افسوسناک ہے تاہم اس مرتبہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کی مذمت کی گئی جو بہترین ہے، پاکستان کو کشمیر کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سپورٹ جاری رکھنی چاہیے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)

پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بھارتی رویہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی مگر بھارت کی جانب سے ہر بار غلط ردعمل دیا جاتا۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ بھارت اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عالمی طاقتیں ہیں۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم داوید بن گوریون کی پہلی تقریر کا جائزہ لیا جاتا تو اس نے کہا تھا کہ دنیا میں پاکستان اور اسرائیل دو ایسے ملک ہیں جو نظریاتی طور پر وجود میں آئے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ اسرائیل ،پاکستان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

اسی طرح بھارت بھی پاکستان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے لہٰذا چونکہ اسرائیل اور بھارت دونوں ہم سے خائف ہیں اس لیے وہ مل کر ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ 1997ء میں اسلامی ممالک کی کانفرنس میں اس وقت کے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے یہ بات کی تھی کہ پاکستان کو صرف بھارت سے نہیں بلکہ اسرائیل اورامریکا سے بھی خطرہ ہے۔ بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ سب کے سامنے ہے۔ جون 2001ء میں جینز انفارمیشن گروپ نے ایک آرٹیکل چھاپا کہ اس وقت ''را'' اور ''موساد'' منصوبہ بندی کر رہی ہیں جس کے ذریعے وہ پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانا چاہتی ہیں اور اس کے ساتھ جج، جرنیل، وکلاء، صحافی وغیرہ کو ٹاگٹ بھی کیا جائے گا۔ 1997ء میں اسرائیلی ایزرویزمان نے بھارت کا پہلا دورہ کیا۔ 2000ء میں ایل کے ایڈوانی اسرائیل کے دورہ پر گئے۔ 1995ء میں اسرائیلی ایئر فورس کے چیف نے بھارت کا دورہ کیا، جن کے ساتھ ''موساد'' کا اعلیٰ سطحی وفد موجود تھا۔ اس وقت یہ بحث ہوئی تھی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ٹارگٹ کیا جائے۔

فروری 1997ء میں بھارتی ڈیفنس سیکرٹری ''ٹی کے بینرجی'' نے اسرائیل کا اعلیٰ سطحی دورہ کیا۔ اس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کا تبادلہ تھا مگر وہاں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی بات ہوئی۔ 1998ء میں بی جے پی نے الیکشن جیتا اور اس کی پالیسی تھی کہ اگر پاکستان کے ساتھ جنگ میں بھی جانا پڑے تو جائیں گے مگر اس کے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اسی دور کی بات ہے کہ اسرائیل کے دو ایف 16 طیارے پاکستان کی سرحدوں کے قریب اڑتے ہوئے پائے گئے۔ اسی زمانے میں آونتی پوری ایئر فیلڈ اور سرینگرایئر فیلڈ پر اسرائیلی ایف 16 طیارے کھڑے دیکھے گئے۔ گوہر ایوب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مجھے رات کو ان طیاروں کے بارے میں بتایا گیا تو میں نے امریکن سیکرٹری آف سٹیٹ کو فون پر کہاکہ اگر کوئی کارروائی ہوئی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا۔

جون 2000ء میں اسرائیلی طیارے بغیر کارروائی کیے واپس چلے گئے۔ جب کشمیر کی جدوجہد شروع ہوئی تو 2 ہزار اسرائیلی افسران نے بھارت کا دورہ کیا جن میں سے ان کے سپیشل ونگ کے 150 کمانڈربھی شامل تھے، یہ بھارتی افواج کو ٹریننگ دیتے رہے۔ کافی عرصہ پہلے کشمیر میں مجاہدین نے اسرائیلی سیاح کو مارا تھا۔ در حقیقت وہ سیاح نہیں تھے بلکہ وہ اسرائیلی کمانڈو ٹیم کا حصہ تھے جو بھارتی فوج کو تربیت فراہم کرنے آئے تھے۔ان واقعات سے بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ عیاں ہوچکا ہے جو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف ہیں۔ حالیہ کشیدگی پر بات کی جائے تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ بھارت نے ڈرامہ کیا تاہم ابھی بھی خطرہ موجود ہے کہ بھارت شرارت کرنے کی ناکام کوشش کرے گا۔ جس دن FATF کا اجلاس تھا اس سے پہلے پلوامہ ڈرامہ ہوگیا جس کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا مگر پاکستان نے خارجی محاذ پر درست کھیلا جس سے بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔ ہماری ایئرفورس کی بہترین کارکردگی بھی دنیا نے دیکھ لی۔ ہماری ایئر فورس دنیا کی واحد فورس ہے جو اپنے جہاز خود بناتی ہے۔

ہمارے برعکس بھارت آج تک کچھ نہیں بنا سکا۔ ہم تو ٹینک بھی بنا رہے ہیں۔ ہمارا جے ایف 17 اگلے فیز میں جارہا ہے جو رافیل سے جدید ہوگا۔ بھارتی فوج تعداد میں ہم سے زیادہ ہے مگر ہماری صلاحیت بہترین ہے لہٰذا بھارت ہمارے ساتھ جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ماضی کی نسبت اس مرتبہ ہماری وزارت خارجہ نے اچھا کام کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ مزید موثر اقدامات کرے، ہمیں کسی ایکشن کا انتظار کیے بغیر ہی بہترین طریقے سے اپنا موقف دنیا کو بتانا ہوگا۔ اگر ہم اسی طرح بہتر پرفارم کرتے رہے تو معاملات ہمارے حق میں بہتر رہیں گے۔ ایک بات واضح ہے کہ اس وقت بھارت میں ہندو انتہا پسند حکومت ہے جو با زنہیں آئے گی، ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار )

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے لیڈرمسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے پر گزشتہ دنوں بحث جاری تھی۔ بھارت کی خواہش پر امریکا کافی دیر سے اس حوالے سے کوشش کر رہاہے،فرانس اور برطانیہ بھی اس کے حق میں ہیں مگر ہمارے دوست چین نے اس حوالے سے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا اور اس مرتبہ بھی چین نے قرارداد ویٹو کردی۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی کہتا آیا ہے کہ اگر اس حوالے سے کوئی ثبوت ہیں تو فراہم کیے جائیں، ہم کارروائی کریں گے۔

یہ خوش آئند ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان پہلے سے ہی شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے جسے جرمنی نے بھی سراہا ہے۔ا یک اور اہم بات یہ ہے کہ چین نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر توجہ دی جائے۔ پلوامہ حملے کے بعد سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اہمیت ملی ہے۔ مودی نے اپنے سیاسی عزائم کیلئے پاکستان کو دبانے کی کوشش میں شرمناک حرکت کی مگر اسے ناکامی ہوئی۔ اس حرکت سے مسئلہ کشمیر تیزی سے ابھر کر سامنے آیا اور اب پاکستان کو ہر فورم پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ مسئلہ کشمیریوں کا اپنا ہے اور وہاں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے ۔ میرے نزدیک اس سارے معاملے میں پاکستان کو کامیابی ملی ہے۔ امریکا، چین کے مقابلے میں بھارت کو مضبوط کر رہا ہے مگر بھارت کو تو پاکستان نے ہی پچھاڑ دیا۔ وہ تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا مستقل رکن بننے کے لیے کوشش کر رہا تھا لہٰذا اس ناکامی پر بھارت کو دھچکا لگا۔

مودی نے الیکشن کیلئے ڈرامہ رچایا مگر پاکستان نے اس معاملے پر بہتر ردعمل کا اظہار کر کے بازی پلٹ دی لہٰذا مودی اس کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا تاکہ اسے انتخابات میں فیس سیونگ مل سکے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھارت کو بھرپور جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے، ہمیں اپنے علاقائی دوستوں کو ساتھ ملا کر چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بھارت کوشش کر رہا ہے کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں خرابی پیدا ہو۔ ایران میں دہشت گرد حملوں کوبھارت میں اوور پلے کیا گیا۔پاکستان نے اس موقع پر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی سطح پر ایران سے بات کرکے غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی۔ایران کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کی کوئی دراڑ نہیں آنی چاہیے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا۔ امریکا نے ہمیشہ ہمیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جس کا نقصان ہمیں اٹھانا پڑا۔ اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ مذاکرات ہمارے گلے نہ پڑیں۔ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکا کی خوشنودی کے لیے ہم اس حد تک آگے نہ جائیں کہ اگر خدانخواستہ یہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو الزام پاکستان پر نہ آئے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت طالبان کے خلاف ہے، ہمیں افغان حکومت کے ساتھ فاصلے نہیں بڑھانے چاہئیں۔

ہمیں صرف طالبان نہیں بلکہ افغانستان کا دوست بننا چاہیے۔ ''او آئی سی'' کے حوالے سے ہمیں خارجی محاذ پر چیلنج درپیش آیا۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کو پاکستان میں بہت زیادہ پروٹوکول دیا گیا، وزیراعظم عمران خان نے خود ان کی گاڑی چلائی مگر اس کے برعکس انہوں نے ہماری ناراضگی کے باوجود بھارت کو او آئی سی کی تقریب میں دعوت دی ، ہمارے احتجاج کو نظر انداز کیا اور جس طرح وہاں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا استقبال کیا گیا وہ معنی خیز ہے۔ہم نے او آئی سی میں نہ جاکر بھارت کیلئے کھلا میدان چھوڑ دیا جہاں اس نے اپنا خوب رونا رویا۔ جب ہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے تو چین اور ایران کو نظر انداز کر رہے تھے۔

ہم نے امریکا کی خوشنودی کیلئے بھی چین کو نظر انداز کیا۔ میرے نزدیک خارجہ پالیسی میں توازن، مستقل مزاجی اور تحمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ تعلقات میں اپنے ملکی مفادات کو سامنے رکھنا ہوگا ۔پاکستان تاثر اور حقیقت کے درمیان جنگ لڑ رہا ہے، ہمیں اپنے خلاف بنے غلط تاثر کو دور کرنا ہوگا اور دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم حقیقت میں ہی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کررہے ہیں لہٰذا غلط تاثر قائم نہ کیا جائے۔ بھارت کے معاملے پر پاکستان کی حکومت، افواج اور اپوزیشن جماعتیں سب ایک پیج پر نظر آئیں جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی لہٰذا موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ہم آہنگی کی اس فضا کو مزید فروغ دے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ تمام چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام ضروری ہے۔

ڈاکٹر زمرد اعوان
( اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی)

سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا، نیکٹا کا ادارہ بنا اور صوبائی و وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیوںاور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان انفارمیشن کا تبادلہ اور رابطہ بہتر کرنے کی بات کی گئی۔ اس پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیاں ہوئیں خصوصاََ فاٹا اور بلوچستان میں آپریشن ہوئے، جس میں فوجی و سویلین نے قربانیاں دیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی جماعتوں نے رضامندی ظاہر کی مگراس پر اس طرح سے کام نہیں ہوسکا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت میں جب FATF نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تو اس وقت لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا مگر آج اس پر بحث ہورہی ہے۔ یہ صورتحال موجودہ حکومت کیلئے چیلنجز سے بھرپور ہے۔ FATF نے 8 جماعتوں اور 1073 افراد کی فہرست دی کہ ان کے خلاف کارروائی کریں اور کالعدم قرار دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 27 ایکشن پلان بھی دیے ۔ پاکستان نے ان میں سے 5 نکات پر کام کیا اور 4 جماعتوں کے خلاف کارروائی کی۔ FATFمیں بھارتی لابی مضبوط ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔

جب بھی کارکردگی دکھائی جاتی ہے تو وہ مزید سوالات رکھ دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ پاکستان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ انہیں سسٹم میں کون شامل کرے گا اور کیسے کیا جائے گا؟طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پانچواں دور حال ہی میں ہوا ہے۔ امریکا سیزفائر پر بات نہیں کر رہا مگر جانے کی بات کر رہا ہے۔ میرے نزدیک جب تک سیز فائر نہیں ہوگا تب تک بہتری نہیں آئے گی۔ اس کے علاوہ افغان حکومت بھی ان مذاکرات میں شامل نہیں ہے، طالبان افغان حکومت کو امریکی پپٹ قرار دیتے ہیں اور ان کی شمولیت پر رضامند نہیں ہیں۔

مذاکراتی عمل میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوگئے تو اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا لہٰذا ہمیں اپنے سکیورٹی مفادات کو سامنے رکھنا ہوگا۔پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے سب کچھ دنیا کے سامنے ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پوری سیاست پاکستان مخالف ہے۔

الیکشن کی وجہ سے مودی پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں حالانکہ اب ان کی سکیورٹی فورسز کہہ رہی ہیں کہ بات چیت کو فروغ دیں۔ میرے نزدیک کرتار پور کوریڈور سے لے کر بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی واپسی تک، پاکستان نے بہترین اقدامات کئے جنہیں عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے، اب دنیا بھی پاکستان کے موقف کی تائید کر رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے، اب دنیا بھی بھارت کو مذاکرات پر زور دے رہی ہے۔کشمیر میں بھارت نے مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ اب کشمیریوں کی چوتھی نسل ہے جو بھارتی ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی مگر مودی اس کا الزام مختلف تنظیموں پر لگا رہے ہیں جو درست نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں