کیا بھارت کیا پاکستانفلمی موسیقی میں میلوڈی نہیں رہی
پانچ برس کی عمرمیں توتلی زبان میں ’’آواز دے کہاں ہے‘‘ گنگنایاکرتا تھا
موسیقی میں فنکارکو جس قدرجان جوکھم میں ڈالنی پڑتی ہے کوئی دوسرا فن اس اعتبارسے فن موسیقی کے پاسنگ نہیں۔
اور یہ کام بھی وہ ہے جس کا انت نہیں۔ پوچھنے والے نے استاد سلامت علی خان سے سُر کی انتہا کا پوچھا تو جواب آیا ''سُر کی انتہا کس نے دیکھی ہے۔ سُرکبھی ختم نہیں ہوتا، جہاں تک ہم جا سکتے ہیں، وہاں تک چلے جاتے ہیں۔'' یہ تو ٹھہری موسیقی کے بے کنار ہونے کے تعلق سے ایک بات لیکن ایک دوسری مشکل جس سے صرف ان حضرات کو واسطہ پڑتا ہے جن کا تعلق کسی گھرانے سے نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ اپنی محنت اور ریاضت سے کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ حاصل کرلیں، انھیںموسیقی کی اشرافیہ سے سند فضیلت ملتی ہے نہ ہی قبولیت، اور وہ بیچارے ساری عمرعطائی ہی کہلاتے ہیں۔
موسیقی میں گھرانوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ حسب نسب دیکھا جاتا ہے۔ فلاں ابن فلاں ابن فلاں ہونا بڑے فخر کا مقام سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر امجد پرویز نے رموز موسیقی سیکھنے کے لیے تو پتا مارا ہی لیکن ساتھ میں کسی گھرانے سے تعلق نہ ہونے سے جو رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں، انھیں بھی کامیابی سے عبور کیا۔ فن گائیکی میں وہ فوک سے شروع ہوئے، نیم کلاسیکی موسیقی میں خود کو منوایا اور پھر کلاسیکی موسیقی میں صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر امجد پرویز نے گلوکاری اور انجینئرنگ کے پروفیشنل کیریئر میں جس عمدہ طریقے سے توازن برقرار رکھتے ہوئے کامیابی حاصل کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے سفر زیست سے وہ صاحبان بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو کم فرصتی کا عذر تراش تراش کر عمر گزار دیتے ہیں۔
موسیقی ان کی گھٹی میں تھی۔ چار پانچ برس کی عمر ہی میں وہ توتلی زبان میں ''انمول گھڑی'' کا گانا ''آواز دے کہاں ہے'' گنگنایا کرتے۔ یہ تو محض ایک مثال جانیے وگرنہ اس زمانے میں ریڈیویا اِدھر اُدھر سے جو بھی کچھ کان میں پڑتا، اسے کاپی کرنے لگتے۔ موسیقی کے اس بے پایاں شوق پران کے گھرانے کو اعتراض تو کیا ہوتاالٹا وہ اس ہونہار بروا کا حوصلہ بڑھانے میں پیش پیش رہتے۔ بڑے بھائی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طالب علم تھے، انھیں کالج میں ہونے والی مختلف تقریبات میں لے جاتے تو بے بی امجد اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹتا۔
آٹھ کے سن میں پہنچے تو ریڈیو کا رخ کیا، جس کا راستہ ان کے نانا نے دکھایا۔ ریڈیو پروگرام ''ہونہار'' میں شرکت سے اپنی انٹری دی۔ زمانہ طالب علمی میںہی ریڈیو پرممتازگلوکارہ فریدہ خانم نے ''خاطراحباب''میں متعارف کرایا۔ موسیقی کا سفر بڑی فطری روانی سے آگے بڑھ رہا تھا مگر ایسا نہیں تھا کہ وہ تعلیم کے سلسلے میں غفلت برت رہے ہوں، کیوں کہ جس علمی گھرانے میں انھوں نے1945ء میں آنکھ کھولی وہاں تعلیم کی قدر باقی سب چیزوں سے سوا تھی۔ان کے نانا خواجہ دل محمد اسلامیہ کالج کے پرنسپل تھے۔ شاعرتھے۔ ان کی علمیت کا اندازہ بھگوت گیتا کے اردو ترجمے سے لگایا جا سکتا ہے۔ امجد پرویز کے والد، شیخ عبدالکریم اسلامیہ کالج میں کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رہے۔ اپنے مضمون سے متعلق کئی نصابی کتب تحریر کرنے والے اس استاد نے بیٹے کو باورکرا دیا تھا کہ موسیقی سے انھیں تعرض نہیں لیکن تعلیم کے معاملے میں کسی قسم کا رخنہ برداشت نہیں کریں گے۔
سعادت آثار بیٹے نے باپ کے کہے کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑایا نہیں، اور شوق اپنی جگہ، تعلیم اپنی جگہ کے فارمولے پر کاربند رہ کرہر دو میں سرخرو ہوکر دکھایا۔ موسیقی کے فن میں ہنرمندی پرحکومت پاکستان سے 2000ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز پایا، تو انجینئرنگ میں لیاقت کا صلہ 2010ء میں انسٹیٹیوٹ آف انجینئرز سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کی صورت میں ملا۔ دو کشتیوں کی سواری اب بھی جاری ہے۔ بتاتے ہیں: وقت کی بانٹ مناسب طریقے پر کر لی جائے تو سب کام ہوجاتے ہیں۔ مثلاً یونیورسٹی جاتے وقت میں گاڑی میں کتاب پڑھتا رہتا ہوں۔ آٹھ گھنٹے کی نوکری کے بیچ میں بھی کچھ فارغ وقت مل جاتا ہے۔ پھرویک اینڈ اور چھٹی کا روز ہوتا ہے، اس میں کام کرلیتا ہوں۔ اصل بات نیت کی ہے، یہ ٹھیک ہو تو پھر سارے کام ہوتے چلے جاتے ہیں۔''
چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ڈاکٹر امجد پرویز نے سینٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا، اس تعلیمی ادارے کی علم پرور فضا نے ذہنی افق کو وسعت بخشی۔ یہاں گزرے دو برسوں کا ذکر بڑی محبت سے کرتے ہیں، جب سائیکل سوار ڈاکٹر نذیر احمد جیسے صوفی اس درسگاہ کے پرنسپل تھے۔ ایف ایس سی کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور ان کا تعلیمی مسکن ٹھہری، جہاں سے وہ 1967ء میںمکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کرتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران موسیقی سے ربط کمزور نہیں ہوا۔ وہ تعلیمی اداروں میں موسیقی سے متعلق پروگراموں کے انعقاد اور ان میں حصہ لینے میں مستعد رہے۔
ریڈیو اورٹی وی پر مشتاق ہاشمی (نامور موسیقار خیام کے بھائی) اور ان کی جوڑی کو بڑی شہرت حاصل رہی۔ طالب علمی کے زمانے میں سینما میں فلمیں بڑے اشتیاق سے دیکھنے جاتے۔ صنوبر سینما جو اب امپائرسینما کے نام سے جانا جاتا ہے، ادھر مدھو بالا اور دلیپ کمار کی فلم ''ترانہ ''سات بار اس لیے دیکھنے گئے کہ طلعت محمود اور لتا کی آواز میں گانا ''سینے میں سلگتے ہیں ارمان'' کو بار بار سُن کرکانوں میں رس گھول سکیں۔ اس فلم کی موسیقی انل بسواس نے دی تھی۔ فلم ''سنگ دل'' دیکھنے کے لیے بھی کئی بار سینما کا رخ کیا۔ اس فلم کا گانا ''وہ تو چلے گئے اے دل یاد سے ان کی پیار کر''ان کے ورد زبان رہتاجبکہ اس زمانے میں طلعت محمود کا گانا ''یہ ہوا، یہ رات ، یہ چاندنی'' زیادہ مقبول تھا۔ اس فلم کے موسیقارسجاد حسین تھے۔
1964ء میں وہ مشتاق ہاشمی کے ساتھ بمبئی گئے۔ اپنے پسندیدہ موسیقار خیام سے مل کردل ودماغ کو نئی جِلا بخشی۔ اس وقت ان کے سان گمان میں بھی نہ ہو گا کہ خیام 22برس بعد ان کی دعوت پر پاکستان آئیں گے اور 28برس بعد ان کے البم ''تیرا انتظار'' کی موسیقی دے کر انھیں سرشار کر دیں گے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر بھی ان کے یہاں علمی ذوق و شوق میں کمی نہ آئی تومزید تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے، جہاں سے 1972ء میں ڈاکٹریٹ کر کے لوٹے۔ پاکستان آئے تو اب ''روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر'' کے مصداق نوکری ڈھونڈی، کہ نرے فن سے وابستگی تو بھوکوں مار ڈالتی۔ 1973ء میں رشتہ ازدواج میں بندھنے سے یوں بھی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ خیر سے نوکری کا سلسلہ شروع ہوگیالیکن مجال ہے جوکبھی موسیقی کے خیال سے غافل رہے ہوں۔ فوک میوزک میں اپنا رنگ جما لیا۔
اور نیم کلاسیکی موسیقی میں موجودگی کا احساس دلادیا تو کلاسیکی موسیقی سیکھنے کی دھن سوار ہو گئی۔ استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کو اپنا استاد کیا۔ راگ بھیروں سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہو گیا لیکن اس معاملے کے بیچ اس وقت کھنڈت پڑ گئی جب انھیں ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب جانا پڑ گیا۔ استادی شاگردی کا رسمی سلسلہ تو موقوف ہوگیا لیکن استاد سلامت علی خان کی محفلوں اور ریکارڈنگز سے اکتساب فیض برابر جاری رہا۔ کلاسیکی موسیقی میں استاد غلام شبیر خان، استاد غلام جعفرخان اور میاں شہریار کا شاگرد بن کر بھی بہت کچھ سیکھا۔ اختر حسین اکھیاں سے بھی موسیقی کی بابت بہت کچھ جانا۔ کلاسیکی گائیگی میں وہ سب سے اونچا درجہ استاد سلامت علی خان کو دیتے ہیں۔ روایتی گلوکاری میں نورجہاں اور مہدی حسن کے مداح ہیں۔ ڈاکٹر امجد پرویز کلاسیکی موسیقی کو عوام تک پہنچانے کے خیال کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کلاسیکی موسیقی کو نغموں کی صورت میں ڈھال کر مقبول بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی موسیقاروں میں خواجہ خورشید انور، ماسٹر عبداللہ، نثار بزمی، ماسٹر عنایت حسین اور میاں شہریار کے بہت قائل ہیں۔
راگوں کو کیسٹوں اور سی ڈیز میں محفوظ کرنے کی کاوش کو وہ خواجہ خورشید انور کا بہت بڑا کارنامہ تصور کرتے ہیں، جس سے ان کے خیال میں طالب علم راگ کی شناخت کرسکتے ہیں۔ وہ ان موسیقاروں کے دل سے قدردان ہیں، جنھوں نے کلاسیکی موسیقی کو کمال مہارت سے فلمی کمپوزیشن میں سمو دیا۔ کمرشل فلموں میں کلاسیکی موسیقی کی طرح ڈالنے کا سہرا نوشادعلی کے سر باندھتے ہیں۔ ہندوستانی موسیقاروں میں مدن موہن، خیام،انل بسواس اور سلیل چودھری کے قدردان ہیں۔ موجودہ دور میں موسیقی کا زوال انھیں آزردہ کرتا ہے۔ ان کے بقول ''ہم سے پہلے اور ہمارے والی جنریشن میں سادگی اور ٹھہراؤ تھا۔افراتفری سے ہمیں کوئی سروکارنہیں تھا۔ یہ رویہ فلم بینی میں بھی جھلکتا تھا۔ہم لوگ رومانس والی فلموں کو پسند کرتے تھے لیکن اب ایکشن والی فلموں کو زیادہ سراہا جاتا ہے۔موسیقی پرمعاشرے میں پھیلی بے چینی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔''ان کی دانست میں ہندوستان میں بھی موسیقی کی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ''وہاں بھی فلموں میں میلوڈی ختم ہوگئی۔ انڈسٹری کمرشل ہونے سے موسیقی تباہ ہوگئی۔
شور والے گانوں کو جن میں مہمل شاعری ہوتی ہے، انھیں زیادہ رواج دیا جارہا ہے۔ آئٹم سانگ سے فلم کامیاب بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم سے وہ اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ ادھر موسیقی سے متعلق سرگرمیاں زیادہ ہیں، مختلف مقابلے ہونے سے نئے گلوکار آتے رہتے ہیں، اب وہ کتنے اچھے ہوتے ہیں، یہ الگ بات ہے۔''بھارتی فلم اور موسیقی پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر امجد پرویز کے خیال میں '' پچاس سے اسی کی دھائی تک کا سفردرست سمت میں رہا۔ بڑی اچھی موسیقی کی حامل فلمیں بھی آتی رہیں۔'' اس ضمن میں 80 ء کی دھائی کی دو فلموں کا خصوصیت سے ذکر کرتے ہیں: گلزار کی ''اجازت'' کا، جس کی موسیقی آرڈی برمن نے ترتیب دی تھی، اور مظفر علی کی ''امراؤ جان '' کا جس کے موسیقار خیام تھے، ڈاکٹر امجد پرویزکے بقول،اس فلم میں لکھنؤکی طوائفوں کا کلچرایسے اچھے انداز میں پیش ہوا ہے کہ Vulgarity کا ذرا برابربھی تاثر نہیں اُبھرتا۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں شعیب منصوراور سید نور کے کام کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان جیسے اور لوگ آگے آنے سے ہی صورتحال میں بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے۔
ہندوستان میں موسیقی کی موجودہ صورتحال بیان کرنے کے لیے وہ ''ہندوستان ٹائمز'' میں دو برس قبل شائع ہونے والے خیام کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں اس مایہ نازموسیقار نے بتایا تھا: ''آج کل کے کمپوزر موسیقی کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔یہ صرف دھم دھم دھم ہے۔چند برس بعد آپ نوجوانوں پر ایسی موسیقی کے مضراثرات کو محسوس کریں گے۔ وہ اپنا سکون کھودیں گے۔ موسیقی تھکے ذہن کو سکون دینے کے لیے ہوتی ہے جبکہ آج کل کی موسیقی آپ کو اور بھی تھکا دیتی ہے۔'' خیام کے ان فرمودات سے ڈاکٹر امجد پرویز اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لتا اور آشابھوسلے کی دانست میں بھی ہندوستانی موسیقی روبہ زوال ہے۔ ڈاکٹر امجد پرویز نے بتایا کہ پاپ گانے کا اثر تھوڑی دیرکے لیے ہوتا ہے اوران کے بقول، بی بی سی پرکسی زمانے میں پاپ میوزک کا جو مقبول پروگرام چلتا تھا، اس میں یہ بات کہی جاتی تھی کہ پاپ گانے کی عمردس دن ہوتی ہے۔
کہتے ہیں '' برا گانا بھی بار بار چلانے سے ہٹ ہو جاتا ہے۔میں نے ہزاروں گانے گائے ہیں لیکن وہ چلیں گے تب ہی لوگوں کو پتا چلے گا۔ امجد اسلام امجد کی نظم ''جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے''اس لیے بہت زیادہ مقبول ہوئی کہ وہ اشفاق احمد کی سیریل ایک محبت سو افسانے کا تھیم سانگ بن گئی۔''ورسٹائل ڈاکٹر امجدپرویز کو آج بھی وہ نغمے سب سے زیادہ پسند ہیں جن میں میلوڈی کا عنصر غالب ہو۔ ڈاکٹر امجد پرویزکے خیال میں ''دنیا کی ہر چیز میں موسیقی ہے۔ ردھم ہے۔ موسیقی سائنس بھی ہے۔فلسفہ بھی۔ردھم ہر کام میں ناگزیر حیثیت رکھتا ہے یہ نہ ہو تو ہر معاملہ درہم برہم ہوجاتا ہے۔'' ڈاکٹر امجد پرویز کی شخصیت کا ایک پہلو ان کا لکھاری ہونا بھی ہے۔وہ سالہا سال سے انگریزی میں موسیقی اور اس فن سے متعلق شخصیات پرلکھ رہے ہیں۔ کتابوں پرتبصرے بھی کرتے ہیں۔تبصروں کی دو کتابیں "Symphony of Reflections" اور "Rainbow Of Reflections" کے نام سے چھپ چکی ہیں۔ 45موسیقاروں کے بارے میں ان کی کتاب "Melody Makers"حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔وہ اب اس کتاب کے اردو ترجمے اور دوسرے حصے پر کام کررہے ہیں۔ انجینئرنگ سے متعلق ان کے مضامین تو ملکی اور غیر ملکی جریدوں میں جگہ پاتے رہے ہیں ، 1976ء میں انسٹیٹیوٹ آف انجینئرز کی طرف سے انھیں بہترین مقالہ لکھنے پر گولڈمیڈل بھی مل چکا ہے۔
انگریزی صحافت سے وابستگی کا قصہ کچھ یوں ہے کہ کشور کمار کے مرنے پرانھوں نے مضمون لکھا جو ان کے دوست نے '' نیشن'' کے ایڈیٹر کو بجھوادیا،جو انھیں پسند آیا اور وہ چھپ گیا۔ یہ مضمون اس اخبار سے ان کے تعلق کی بنیاد بن گیا۔برسوں اس اخبار میں وہ لکھتے رہے۔ان کا اگلا صحافتی پڑاؤ ''ڈیلی ٹائمز'' بنا،جس سے وابستگی تاحال جاری ہے ۔ ڈاکٹر امجد پرویزکو اس بات پر فخر ہے کہ زندگی میں جو بھی کچھ حاصل کیا،اس میں محنت کو دخل ہے، سفارش سے آگے نہیں آئے۔ وہ اپنی والدہ کے بڑے ممنون احسان ہیں، جنھوں نے زندگی میں قدم قدم پر حوصلہ افزائی اور دلجوئی کی۔ بیوی کا ساتھ بھی ان کے لیے بڑی تقویت کا موجب رہا ہے۔ ڈاکٹرامجد پرویز 30برس نیسپاک میں ملازمت کے دوران بڑے کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔
2005ء میں اس ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔اس کے بعد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے بطور استاد وابستہ رہے۔ یونیورسٹی آف لاہور میں مکینیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔سب مصروفیات کے باوجود روزانہ ریاضت کے لیے دو گھنٹے ضرور نکالتے ہیں۔ اپنے لیے شام کی سیر کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ زندگی میں کبھی ایسا وقت نہیں آیا کہ وہ غم روزگار سے نجات پا کر سارا وقت میوزک کو دے دیں ،کہ ان کے خیال میں ہمارے ملک میں جہاں فن اور فنکار کی کوئی قدر نہیں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ریڈیو اور ٹی وی پرمختلف پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے ڈاکٹر امجد پرویز اس بات پرافسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ان دونوں اداروں کو موسیقی کے پروگراموں کے لیے مناسب فنڈز نہیں مل رہے۔
وہ اردو شاعری کا نتھرا ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ بہت سے معروف شاعروں کا کلام گا چکے ہیں۔میر ، غالب اور فیض کے کلام پر مشتمل ان کے البم بھی ریلیز ہوچکے ہیں۔وہ اس زمانے کو بڑی حسرت سے یاد کرتے ہیں، جب ریڈیو اور ٹی وی پرموسیقی کی اچھی تمیز رکھنے والے پروڈیوسرموجود تھے۔ دو بیٹوں، دو بیٹیوں کے والد ڈاکٹر امجد پرویز کو اولاد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے پر فخر ہے۔ڈاکٹر امجد پرویز کی مذہب سے گہری وابستگی ہے۔ وہ پچاس بار عمر ہ اور دوبار حج کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔
اور یہ کام بھی وہ ہے جس کا انت نہیں۔ پوچھنے والے نے استاد سلامت علی خان سے سُر کی انتہا کا پوچھا تو جواب آیا ''سُر کی انتہا کس نے دیکھی ہے۔ سُرکبھی ختم نہیں ہوتا، جہاں تک ہم جا سکتے ہیں، وہاں تک چلے جاتے ہیں۔'' یہ تو ٹھہری موسیقی کے بے کنار ہونے کے تعلق سے ایک بات لیکن ایک دوسری مشکل جس سے صرف ان حضرات کو واسطہ پڑتا ہے جن کا تعلق کسی گھرانے سے نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ اپنی محنت اور ریاضت سے کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ حاصل کرلیں، انھیںموسیقی کی اشرافیہ سے سند فضیلت ملتی ہے نہ ہی قبولیت، اور وہ بیچارے ساری عمرعطائی ہی کہلاتے ہیں۔
موسیقی میں گھرانوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ حسب نسب دیکھا جاتا ہے۔ فلاں ابن فلاں ابن فلاں ہونا بڑے فخر کا مقام سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر امجد پرویز نے رموز موسیقی سیکھنے کے لیے تو پتا مارا ہی لیکن ساتھ میں کسی گھرانے سے تعلق نہ ہونے سے جو رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں، انھیں بھی کامیابی سے عبور کیا۔ فن گائیکی میں وہ فوک سے شروع ہوئے، نیم کلاسیکی موسیقی میں خود کو منوایا اور پھر کلاسیکی موسیقی میں صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر امجد پرویز نے گلوکاری اور انجینئرنگ کے پروفیشنل کیریئر میں جس عمدہ طریقے سے توازن برقرار رکھتے ہوئے کامیابی حاصل کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے سفر زیست سے وہ صاحبان بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو کم فرصتی کا عذر تراش تراش کر عمر گزار دیتے ہیں۔
موسیقی ان کی گھٹی میں تھی۔ چار پانچ برس کی عمر ہی میں وہ توتلی زبان میں ''انمول گھڑی'' کا گانا ''آواز دے کہاں ہے'' گنگنایا کرتے۔ یہ تو محض ایک مثال جانیے وگرنہ اس زمانے میں ریڈیویا اِدھر اُدھر سے جو بھی کچھ کان میں پڑتا، اسے کاپی کرنے لگتے۔ موسیقی کے اس بے پایاں شوق پران کے گھرانے کو اعتراض تو کیا ہوتاالٹا وہ اس ہونہار بروا کا حوصلہ بڑھانے میں پیش پیش رہتے۔ بڑے بھائی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طالب علم تھے، انھیں کالج میں ہونے والی مختلف تقریبات میں لے جاتے تو بے بی امجد اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹتا۔
آٹھ کے سن میں پہنچے تو ریڈیو کا رخ کیا، جس کا راستہ ان کے نانا نے دکھایا۔ ریڈیو پروگرام ''ہونہار'' میں شرکت سے اپنی انٹری دی۔ زمانہ طالب علمی میںہی ریڈیو پرممتازگلوکارہ فریدہ خانم نے ''خاطراحباب''میں متعارف کرایا۔ موسیقی کا سفر بڑی فطری روانی سے آگے بڑھ رہا تھا مگر ایسا نہیں تھا کہ وہ تعلیم کے سلسلے میں غفلت برت رہے ہوں، کیوں کہ جس علمی گھرانے میں انھوں نے1945ء میں آنکھ کھولی وہاں تعلیم کی قدر باقی سب چیزوں سے سوا تھی۔ان کے نانا خواجہ دل محمد اسلامیہ کالج کے پرنسپل تھے۔ شاعرتھے۔ ان کی علمیت کا اندازہ بھگوت گیتا کے اردو ترجمے سے لگایا جا سکتا ہے۔ امجد پرویز کے والد، شیخ عبدالکریم اسلامیہ کالج میں کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رہے۔ اپنے مضمون سے متعلق کئی نصابی کتب تحریر کرنے والے اس استاد نے بیٹے کو باورکرا دیا تھا کہ موسیقی سے انھیں تعرض نہیں لیکن تعلیم کے معاملے میں کسی قسم کا رخنہ برداشت نہیں کریں گے۔
سعادت آثار بیٹے نے باپ کے کہے کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑایا نہیں، اور شوق اپنی جگہ، تعلیم اپنی جگہ کے فارمولے پر کاربند رہ کرہر دو میں سرخرو ہوکر دکھایا۔ موسیقی کے فن میں ہنرمندی پرحکومت پاکستان سے 2000ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز پایا، تو انجینئرنگ میں لیاقت کا صلہ 2010ء میں انسٹیٹیوٹ آف انجینئرز سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کی صورت میں ملا۔ دو کشتیوں کی سواری اب بھی جاری ہے۔ بتاتے ہیں: وقت کی بانٹ مناسب طریقے پر کر لی جائے تو سب کام ہوجاتے ہیں۔ مثلاً یونیورسٹی جاتے وقت میں گاڑی میں کتاب پڑھتا رہتا ہوں۔ آٹھ گھنٹے کی نوکری کے بیچ میں بھی کچھ فارغ وقت مل جاتا ہے۔ پھرویک اینڈ اور چھٹی کا روز ہوتا ہے، اس میں کام کرلیتا ہوں۔ اصل بات نیت کی ہے، یہ ٹھیک ہو تو پھر سارے کام ہوتے چلے جاتے ہیں۔''
چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ڈاکٹر امجد پرویز نے سینٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا، اس تعلیمی ادارے کی علم پرور فضا نے ذہنی افق کو وسعت بخشی۔ یہاں گزرے دو برسوں کا ذکر بڑی محبت سے کرتے ہیں، جب سائیکل سوار ڈاکٹر نذیر احمد جیسے صوفی اس درسگاہ کے پرنسپل تھے۔ ایف ایس سی کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور ان کا تعلیمی مسکن ٹھہری، جہاں سے وہ 1967ء میںمکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کرتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران موسیقی سے ربط کمزور نہیں ہوا۔ وہ تعلیمی اداروں میں موسیقی سے متعلق پروگراموں کے انعقاد اور ان میں حصہ لینے میں مستعد رہے۔
ریڈیو اورٹی وی پر مشتاق ہاشمی (نامور موسیقار خیام کے بھائی) اور ان کی جوڑی کو بڑی شہرت حاصل رہی۔ طالب علمی کے زمانے میں سینما میں فلمیں بڑے اشتیاق سے دیکھنے جاتے۔ صنوبر سینما جو اب امپائرسینما کے نام سے جانا جاتا ہے، ادھر مدھو بالا اور دلیپ کمار کی فلم ''ترانہ ''سات بار اس لیے دیکھنے گئے کہ طلعت محمود اور لتا کی آواز میں گانا ''سینے میں سلگتے ہیں ارمان'' کو بار بار سُن کرکانوں میں رس گھول سکیں۔ اس فلم کی موسیقی انل بسواس نے دی تھی۔ فلم ''سنگ دل'' دیکھنے کے لیے بھی کئی بار سینما کا رخ کیا۔ اس فلم کا گانا ''وہ تو چلے گئے اے دل یاد سے ان کی پیار کر''ان کے ورد زبان رہتاجبکہ اس زمانے میں طلعت محمود کا گانا ''یہ ہوا، یہ رات ، یہ چاندنی'' زیادہ مقبول تھا۔ اس فلم کے موسیقارسجاد حسین تھے۔
1964ء میں وہ مشتاق ہاشمی کے ساتھ بمبئی گئے۔ اپنے پسندیدہ موسیقار خیام سے مل کردل ودماغ کو نئی جِلا بخشی۔ اس وقت ان کے سان گمان میں بھی نہ ہو گا کہ خیام 22برس بعد ان کی دعوت پر پاکستان آئیں گے اور 28برس بعد ان کے البم ''تیرا انتظار'' کی موسیقی دے کر انھیں سرشار کر دیں گے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر بھی ان کے یہاں علمی ذوق و شوق میں کمی نہ آئی تومزید تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے، جہاں سے 1972ء میں ڈاکٹریٹ کر کے لوٹے۔ پاکستان آئے تو اب ''روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر'' کے مصداق نوکری ڈھونڈی، کہ نرے فن سے وابستگی تو بھوکوں مار ڈالتی۔ 1973ء میں رشتہ ازدواج میں بندھنے سے یوں بھی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ خیر سے نوکری کا سلسلہ شروع ہوگیالیکن مجال ہے جوکبھی موسیقی کے خیال سے غافل رہے ہوں۔ فوک میوزک میں اپنا رنگ جما لیا۔
اور نیم کلاسیکی موسیقی میں موجودگی کا احساس دلادیا تو کلاسیکی موسیقی سیکھنے کی دھن سوار ہو گئی۔ استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کو اپنا استاد کیا۔ راگ بھیروں سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہو گیا لیکن اس معاملے کے بیچ اس وقت کھنڈت پڑ گئی جب انھیں ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب جانا پڑ گیا۔ استادی شاگردی کا رسمی سلسلہ تو موقوف ہوگیا لیکن استاد سلامت علی خان کی محفلوں اور ریکارڈنگز سے اکتساب فیض برابر جاری رہا۔ کلاسیکی موسیقی میں استاد غلام شبیر خان، استاد غلام جعفرخان اور میاں شہریار کا شاگرد بن کر بھی بہت کچھ سیکھا۔ اختر حسین اکھیاں سے بھی موسیقی کی بابت بہت کچھ جانا۔ کلاسیکی گائیگی میں وہ سب سے اونچا درجہ استاد سلامت علی خان کو دیتے ہیں۔ روایتی گلوکاری میں نورجہاں اور مہدی حسن کے مداح ہیں۔ ڈاکٹر امجد پرویز کلاسیکی موسیقی کو عوام تک پہنچانے کے خیال کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کلاسیکی موسیقی کو نغموں کی صورت میں ڈھال کر مقبول بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی موسیقاروں میں خواجہ خورشید انور، ماسٹر عبداللہ، نثار بزمی، ماسٹر عنایت حسین اور میاں شہریار کے بہت قائل ہیں۔
راگوں کو کیسٹوں اور سی ڈیز میں محفوظ کرنے کی کاوش کو وہ خواجہ خورشید انور کا بہت بڑا کارنامہ تصور کرتے ہیں، جس سے ان کے خیال میں طالب علم راگ کی شناخت کرسکتے ہیں۔ وہ ان موسیقاروں کے دل سے قدردان ہیں، جنھوں نے کلاسیکی موسیقی کو کمال مہارت سے فلمی کمپوزیشن میں سمو دیا۔ کمرشل فلموں میں کلاسیکی موسیقی کی طرح ڈالنے کا سہرا نوشادعلی کے سر باندھتے ہیں۔ ہندوستانی موسیقاروں میں مدن موہن، خیام،انل بسواس اور سلیل چودھری کے قدردان ہیں۔ موجودہ دور میں موسیقی کا زوال انھیں آزردہ کرتا ہے۔ ان کے بقول ''ہم سے پہلے اور ہمارے والی جنریشن میں سادگی اور ٹھہراؤ تھا۔افراتفری سے ہمیں کوئی سروکارنہیں تھا۔ یہ رویہ فلم بینی میں بھی جھلکتا تھا۔ہم لوگ رومانس والی فلموں کو پسند کرتے تھے لیکن اب ایکشن والی فلموں کو زیادہ سراہا جاتا ہے۔موسیقی پرمعاشرے میں پھیلی بے چینی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔''ان کی دانست میں ہندوستان میں بھی موسیقی کی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ''وہاں بھی فلموں میں میلوڈی ختم ہوگئی۔ انڈسٹری کمرشل ہونے سے موسیقی تباہ ہوگئی۔
شور والے گانوں کو جن میں مہمل شاعری ہوتی ہے، انھیں زیادہ رواج دیا جارہا ہے۔ آئٹم سانگ سے فلم کامیاب بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم سے وہ اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ ادھر موسیقی سے متعلق سرگرمیاں زیادہ ہیں، مختلف مقابلے ہونے سے نئے گلوکار آتے رہتے ہیں، اب وہ کتنے اچھے ہوتے ہیں، یہ الگ بات ہے۔''بھارتی فلم اور موسیقی پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر امجد پرویز کے خیال میں '' پچاس سے اسی کی دھائی تک کا سفردرست سمت میں رہا۔ بڑی اچھی موسیقی کی حامل فلمیں بھی آتی رہیں۔'' اس ضمن میں 80 ء کی دھائی کی دو فلموں کا خصوصیت سے ذکر کرتے ہیں: گلزار کی ''اجازت'' کا، جس کی موسیقی آرڈی برمن نے ترتیب دی تھی، اور مظفر علی کی ''امراؤ جان '' کا جس کے موسیقار خیام تھے، ڈاکٹر امجد پرویزکے بقول،اس فلم میں لکھنؤکی طوائفوں کا کلچرایسے اچھے انداز میں پیش ہوا ہے کہ Vulgarity کا ذرا برابربھی تاثر نہیں اُبھرتا۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں شعیب منصوراور سید نور کے کام کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان جیسے اور لوگ آگے آنے سے ہی صورتحال میں بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے۔
ہندوستان میں موسیقی کی موجودہ صورتحال بیان کرنے کے لیے وہ ''ہندوستان ٹائمز'' میں دو برس قبل شائع ہونے والے خیام کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں اس مایہ نازموسیقار نے بتایا تھا: ''آج کل کے کمپوزر موسیقی کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔یہ صرف دھم دھم دھم ہے۔چند برس بعد آپ نوجوانوں پر ایسی موسیقی کے مضراثرات کو محسوس کریں گے۔ وہ اپنا سکون کھودیں گے۔ موسیقی تھکے ذہن کو سکون دینے کے لیے ہوتی ہے جبکہ آج کل کی موسیقی آپ کو اور بھی تھکا دیتی ہے۔'' خیام کے ان فرمودات سے ڈاکٹر امجد پرویز اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لتا اور آشابھوسلے کی دانست میں بھی ہندوستانی موسیقی روبہ زوال ہے۔ ڈاکٹر امجد پرویز نے بتایا کہ پاپ گانے کا اثر تھوڑی دیرکے لیے ہوتا ہے اوران کے بقول، بی بی سی پرکسی زمانے میں پاپ میوزک کا جو مقبول پروگرام چلتا تھا، اس میں یہ بات کہی جاتی تھی کہ پاپ گانے کی عمردس دن ہوتی ہے۔
کہتے ہیں '' برا گانا بھی بار بار چلانے سے ہٹ ہو جاتا ہے۔میں نے ہزاروں گانے گائے ہیں لیکن وہ چلیں گے تب ہی لوگوں کو پتا چلے گا۔ امجد اسلام امجد کی نظم ''جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے''اس لیے بہت زیادہ مقبول ہوئی کہ وہ اشفاق احمد کی سیریل ایک محبت سو افسانے کا تھیم سانگ بن گئی۔''ورسٹائل ڈاکٹر امجدپرویز کو آج بھی وہ نغمے سب سے زیادہ پسند ہیں جن میں میلوڈی کا عنصر غالب ہو۔ ڈاکٹر امجد پرویزکے خیال میں ''دنیا کی ہر چیز میں موسیقی ہے۔ ردھم ہے۔ موسیقی سائنس بھی ہے۔فلسفہ بھی۔ردھم ہر کام میں ناگزیر حیثیت رکھتا ہے یہ نہ ہو تو ہر معاملہ درہم برہم ہوجاتا ہے۔'' ڈاکٹر امجد پرویز کی شخصیت کا ایک پہلو ان کا لکھاری ہونا بھی ہے۔وہ سالہا سال سے انگریزی میں موسیقی اور اس فن سے متعلق شخصیات پرلکھ رہے ہیں۔ کتابوں پرتبصرے بھی کرتے ہیں۔تبصروں کی دو کتابیں "Symphony of Reflections" اور "Rainbow Of Reflections" کے نام سے چھپ چکی ہیں۔ 45موسیقاروں کے بارے میں ان کی کتاب "Melody Makers"حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔وہ اب اس کتاب کے اردو ترجمے اور دوسرے حصے پر کام کررہے ہیں۔ انجینئرنگ سے متعلق ان کے مضامین تو ملکی اور غیر ملکی جریدوں میں جگہ پاتے رہے ہیں ، 1976ء میں انسٹیٹیوٹ آف انجینئرز کی طرف سے انھیں بہترین مقالہ لکھنے پر گولڈمیڈل بھی مل چکا ہے۔
انگریزی صحافت سے وابستگی کا قصہ کچھ یوں ہے کہ کشور کمار کے مرنے پرانھوں نے مضمون لکھا جو ان کے دوست نے '' نیشن'' کے ایڈیٹر کو بجھوادیا،جو انھیں پسند آیا اور وہ چھپ گیا۔ یہ مضمون اس اخبار سے ان کے تعلق کی بنیاد بن گیا۔برسوں اس اخبار میں وہ لکھتے رہے۔ان کا اگلا صحافتی پڑاؤ ''ڈیلی ٹائمز'' بنا،جس سے وابستگی تاحال جاری ہے ۔ ڈاکٹر امجد پرویزکو اس بات پر فخر ہے کہ زندگی میں جو بھی کچھ حاصل کیا،اس میں محنت کو دخل ہے، سفارش سے آگے نہیں آئے۔ وہ اپنی والدہ کے بڑے ممنون احسان ہیں، جنھوں نے زندگی میں قدم قدم پر حوصلہ افزائی اور دلجوئی کی۔ بیوی کا ساتھ بھی ان کے لیے بڑی تقویت کا موجب رہا ہے۔ ڈاکٹرامجد پرویز 30برس نیسپاک میں ملازمت کے دوران بڑے کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔
2005ء میں اس ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔اس کے بعد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے بطور استاد وابستہ رہے۔ یونیورسٹی آف لاہور میں مکینیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔سب مصروفیات کے باوجود روزانہ ریاضت کے لیے دو گھنٹے ضرور نکالتے ہیں۔ اپنے لیے شام کی سیر کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ زندگی میں کبھی ایسا وقت نہیں آیا کہ وہ غم روزگار سے نجات پا کر سارا وقت میوزک کو دے دیں ،کہ ان کے خیال میں ہمارے ملک میں جہاں فن اور فنکار کی کوئی قدر نہیں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ریڈیو اور ٹی وی پرمختلف پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے ڈاکٹر امجد پرویز اس بات پرافسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ان دونوں اداروں کو موسیقی کے پروگراموں کے لیے مناسب فنڈز نہیں مل رہے۔
وہ اردو شاعری کا نتھرا ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ بہت سے معروف شاعروں کا کلام گا چکے ہیں۔میر ، غالب اور فیض کے کلام پر مشتمل ان کے البم بھی ریلیز ہوچکے ہیں۔وہ اس زمانے کو بڑی حسرت سے یاد کرتے ہیں، جب ریڈیو اور ٹی وی پرموسیقی کی اچھی تمیز رکھنے والے پروڈیوسرموجود تھے۔ دو بیٹوں، دو بیٹیوں کے والد ڈاکٹر امجد پرویز کو اولاد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے پر فخر ہے۔ڈاکٹر امجد پرویز کی مذہب سے گہری وابستگی ہے۔ وہ پچاس بار عمر ہ اور دوبار حج کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔