دہشت گردوں کا غرور توڑنے کی ضرورت

دہشت گردی کی سفاک لہر نے ملک بھر میں مغفرت کے عشرے کے آخری دنوں کو بھی بیگناہوں کے خون میں ڈبو دیا۔یہ خون ناحق ہے۔۔۔


Editorial August 07, 2013
فوٹو: فائل

دہشت گردی کی سفاک لہر نے ملک بھر میں مغفرت کے عشرے کے آخری دنوں کو بھی بیگناہوں کے خون میں ڈبو دیا۔یہ خون ناحق ہے جو مملکت ارض خداداد میں حقوق اور ایجنڈے کی خود ساختہ جنگ میں بیدردی سے بہایا جارہا ہے ،اور درد انگیز بات یہ ہے کہ کوئی نہیں جو ان وحشی ہاتھوں ، گمراہ ذہنوں، اور سرکشوں کی گردنیں دبوچے تاکہ پتا چلے کہ ریاستی رٹ بھی کس چڑیا کا نام ہے۔ دہشت گردوں نے قتل وغارت کا بازار منگل اور بدھ کی شب بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے مچھ میں گرم کیا جہاں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی مسافرکوچز سے نامعلوم افراد نے 24مسافروں کو اغوا کرنے کے بعد 14 کو فائرنگ کر کے قتل کیا اور لاشیں پہاڑوں میں پھینک دیں، واقعے کی ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کر لی۔ مچھ کے تحصیلدار کے مطابق مسافر کوچز پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی تعداد 200کے قریب تھی جنھوں نے15 میں سے2مسافروں سمیت7لیویز اہلکاروں کو رہاکردیا جب کہ باقی مسافروں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر اور ان کے پنجابی ہونے کا یقین کرنے کے بعد قتل کردیا، حالانکہ وہ اس دھرتی اور بلوچستان کے دیرینہ باسی تھے ان کی کوئی سیاسی لڑائی کسی محلے والے سے بھی نہیں تھی ۔

وہ بیگناہ افراد اور بلوچ روایات کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے والے افتادگان خاک تھے ۔ ان مزدوروں یا پروفیشنلز کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے ہے تو اس کا فورم سیاسی جدوجہد ہے، مزاحمتی جنگ کے بھی انسانی اور عسکری اصول ہیں۔ بلوچستان مظلوم ہے اس سے کسی کو انکار نہیں۔ دوسرا الم ناک سانحہ چلاس میں رونما ہوا ، دہشت گردوں نے جو ظاہر ہے طالبان ہی تھے ایس ایس پی دیامر کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس سے پولیس اور فوج کے3اعلیٰ افسر شہید اور ایک اہلکار زخمی ہوگیا ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمے داری بھی قبول کرلی ۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق یہ حملہ اس علاقے میں ان کے ذیلی گروپ جنود حفصہ نے کیا ہے جس کا مقصد ڈرون حملوں کی جانب عالمی توجہ مبذول کرانا ہے۔ یہ واردات در اصل اس مذہبی خبط کا شاخسانہ ہے جس کا مقصد جمہوریت اور ریاست کا خاتمہ اور اپنا من پسند نظام ملک پر مسلط کرنا ہے ،اور ان کی خواہش ہے کہ سانحہ نانگا پربت کی تحقیقات پر مامور پاک آرمی کے کرنل مصطفیٰ جان، کیپٹن اشفاق عزیز اور ایس ایس پی دیامیر محمد ہلال پر حملے اور ان کی شہادت کے بعد شاید اب سانحہ نانگا پربت کی تحقیقات کا باب بند ہوجائے گا اور سانحہ چلاس کے نام سے نئی تحقیقات کا باب کھلے گا۔

تاہم اس سانحے نے کئی اور سنگین نوعیت کے سوالات کو بھی جنم دیا ہے، مثلا ً اگر سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے چلاس میں دہشت گردوں کے خلاف سرچ آپریشنز اور چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں تو پھر یوں کھلے عام سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کرنے والے کون تھے؟سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو رات گئے ڈپٹی کمشنر چلاس سے ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟یہ اہلکار بغیر کسی سیکیورٹی پروٹوکول کے رات گئے کیوں باہرنکلے؟ کیا خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے اس حملے کی کوئی پیشگی اطلاع تھی اگر تھی تو پھر سیکیورٹی کے ٹھوس انتظامات کیوں نہیں اٹھائے گئے اور اگرکوئی اطلاع نہیں تھی توکیا یہ خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی نہیں ؟ ان سوالوں کے جواب دل سوزی اور نیک نیتی سے معلوم کیے جائیں ۔ دہشت گردوں نے مچھ اور چلاس میں بیگناہ ہم وطنوں ، رزق کی تلاش میں بلوچستان جاکر بسنے والے محنت کشوں ، اور پاک فوج و پولیس کے جان نثاروں کو ہلاک کرکے انسانیت کے خلاف ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

صدر زرداری، وزیر اعظم نوازشریف اور دیگر سیاسی رہنمائوں نے مچھ میں دہشتگردوں کے ہاتھوں مسافروں کے قتل عام پردلی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ واقعے میں ملوث دہشتگردوں کی گرفتاری فوری عمل میں لائی جائے، وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک نے بھی واقعے کی رپورٹ طلب کی ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثاراحمد خان نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ٹیلیفون کرکے مچھ واقعے اور بلوچستان میں حالیہ سیلاب کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔وفاقی وزیر نے ڈاکٹرعبدالمالک کو وفاقی حکومت کے بھرپور تعاون اور امدادکی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام اس مشکل گھڑی میں خودکوتنہا نہ سمجھیں جب کہ مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر سینئر صوبائی وزیر چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری نے بولان واقعہ کو انسانیت سوز اور دلخراش قرار دیا ۔اس کے علاوہ دہشت گردی کا تیسرا ہولناک واقعہ لیاری میں جھٹ پٹ مارکیٹ کے قریب رات سوا دو بجے اس وقت ہوا جب کم عمر فٹ بالروں کا فٹ بال فائنل ختم ہوا تو بم دھماکے میں 7 افراد ہلاک جب کہ 27 زخمی ہوئے،ہلاک ہونے والوں میں کم عمرفٹ بالر شامل تھے ۔

اس حملے میں پی پی کے رکن سندھ اسمبلی جاوید ناگوری بال بال بچ گئے، اس سے قبل ایک گھنٹے میں 4 دھماکے صرف خوف وہراس پھیلانے کی خاطر کیے گئے ۔ان وارداتوں میں ملوث کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا، یہی ناکامی اسٹیبلشمنٹ کے ضمیر کی خلش بننی چاہیے۔ دہشت گردوں کو موقع پر دبوچنے کا عمل کب شروع ہوگا ، کب تک شہری اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے ، دہشت گرد دندناتے پھریںگے، کبھی ادھر حملہ کریں گے ،کبھی ادھر دھاوا بول دیں گے ، یہ ''ہٹ اینڈ رن '' کا کھیل کب ختم ہوگا، خلق خدا دہشت گردوں کی لاشوں کے چیتھڑے بھی ہوا میں کب اڑتے دیکھے گی، وہ دن آئے گا یا نہیں ؟ ارباب اختیار اور ملکی سلامتی پر مامور حکام روایتی مذمتی بیانات سے فضا کو مزید بوجھل نہ کریں ۔ریاست کا دست فولاد باہر نکالیں۔ مصلحت کی چادر ہٹائیں ، دہشت گردی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں، ان سے ٹکرائیں، یہ وقت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حتمی قومی پالیسی اور ایکشن پلان پر سرفروشی کے ساتھ عمل کا ہے ۔

یہ خوش آیند بات ہے کہ وفاقی حکومت نے دہشت گردی کو قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے سدباب کے لیے حکمت عملی کو حتمی شکل دی ہے جب کہ تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ دہشت گرد قوم اور ملک کے دشمن ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ حکومتی رٹ اور آئین اور قانون پر کوئی کمپرو مائز نہیں ہوگا۔ عیدالفطر پر دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر ملک بھر میں سیکیورٹی الرٹ کردی گئی ہے ۔ ادھر آئی جی ریلوے کی ہدایت پر ایس پی ریلوے نے کینٹ اور سٹی ریلوے اسٹیشن پر ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظرسیکیورٹی کا نظام فوج کے سپردکر دیا ، اگرچہ اس ادراک حقیقت میں کچھ تاخیر ہوئی ہے پھر بھی تاخیر کو قوم گوارا کرلے گی مگر اب''ڈو آر ڈائی''کا ملک گیر نتیجہ دہشت گردی کے خاتمہ کی شکل میں نکلنا ضروری ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کو فوکس کریگی ۔ بلوچ سرمچاروں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ قتل عام کرکے کیوں شاندار اور زرین بلوچ روایات کو ملیامیٹ کررہے ہیں۔ وفاق کو چاروں صوبوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے دہشت گردی کا خاتمہ کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے ۔قوم دہشت گردوں کے غرور ، موجودہ جمود اور خود ہزیمتی سے تنگ آچکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں