ڈرون حملے امریکا اور پاکستان کی نئی حکومت
دنیا بھر میں امریکی ڈرون حملوں کی پالیسی پر بڑی شدید تنقید ہو رہی ہے اور یہ مطالبہ بڑی شد و مد سے کے ساتھ جاری ہےکہ...
دنیا بھر میں امریکی ڈرون حملوں کی پالیسی پر بڑی شدید تنقید ہو رہی ہے اور یہ مطالبہ بڑی شد و مد سے کے ساتھ جاری ہے کہ امریکا پاکستان اور اس کے علاوہ دیگر ممالک میں ڈرون حملوں کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ امریکی صدر اوباما نے گزشتہ مئی کی اپنی تقریر میں ڈرون حملوں کے حوالے سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آیندہ بہت احتیاط سے کام لیا جائے گا تا کہ سویلین آبادی ان حملوں کا نشانہ نہ بنے اور بے گناہ لوگوں کا خون ناحق نہ بہے۔
دریں اثناء پاکستان کی جانب سے اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اٹھایا جا چکا ہے اور گزشتہ چند روز قبل جاری کیے گئے پیو (Pew) سروے سے بھی یہ بات اب منظر عام پر آ چکی ہے کہ دنیا کے39 میں سے31 ملکوں نے ان حملوں کی شدید مخالفت کی ہے، دیگر ممالک کے علاوہ خود واشنگٹن میں بھی ان حملوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ڈینئیل مارکے نے جو کہ امریکی کونسل برائے خارجہ امور سے وابستہ ہیں، ابھی چند دن قبل فارن افیئرز میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں یہ سفارش کی تھی کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ مخصوص اہداف پر ڈرون حملوں سے قبل اسلام آباد کو نہ صرف مطلع کرے بلکہ اس سے باقاعدہ اجازت بھی طلب کرے۔
پاکستان پر ڈرون حملوں کا یہ سلسلہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں اب تک نہ صرف بہت بڑی تعداد میں بے گناہ شہری جاں بحق ہو چکے ہیں امریکا کے ان تمام جھوٹے وعدوں کے باوجود کہ یہ حملے نہایت احتیاط کے ساتھ صرف مقررہ نشانوں پر کیے جاتے ہیں، نہ جانے کتنے لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف نے بر سر اقتدار آنے سے بہت پہلے نہ صرف ان ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی تھی بلکہ پاکستان کے عوام سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے اور ان حملوں کے خلاف ایک ٹھوس پالیسی بھی اختیار کریں گے اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی ڈرون حملوں کے خلاف ایک واضح موقف سامنے آیا تھا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ ڈرون حملوں کے معاملے میں امریکا سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ چنانچہ اب جب کہ وفاقی حکومت کی باگ ڈور مسلم لیگ ن کے ہاتھوں میں اور ڈرون حملوں کا ٹارگٹ بننے والے صوبے خیبر پختونخوا پر پاکستان تحریک کا راج ہے پاکستان کے عوام یہ توقع کرنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بالآخر ہمیشہ کے لیے بند ہو جانا چاہیے اور سر دست ان میں نمایاں کمی واقع ہونی چاہیے۔
سچی اور کھلی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت اس خارجہ پالیسی کی پابند نہیں جس کا آغاز سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا اس حکومت کو یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ یہ عوام کے ایک بہت بڑے مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے جس کی بنیاد پر یہ امریکا سے دو ٹوک انداز میں بات کرنے کی پوزیشن میں ہے، دوسری جانب عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے صوبے خیبر پختونخوا میں وہاں کے عوام کی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے لہٰذا اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کو رکوانے میں میاں نواز شریف کی وفاقی حکومت کے پلڑے میں اپنا تمام تر وزن ڈال کر اس موضوع پر بات کر سکیں اس ضمن میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ میاں نواز شریف نے تا حال وزارت خارجہ کا قلم دان بھی اپنے ہی ہاتھوں میں رکھا ہوا ہے اور سرتاج عزیز اور طارق فاطمی محض ان کے مشیر اور معاون ہیں لیکن اس سلسلے میں جو سب سے اہم بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ابھی تک اپنا کوئی سفیر امریکا میں متعین نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایک بہت بڑا خلا موجود ہے جسے پر کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس کئی آپشنز موجود ہیں ان میں سب سے پہلا آپشن تو یہی ہے کہ وہ امریکی حکومت سے کھل کر یہ مطالبہ کرے کہ ڈرون حملوں کا یہ سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ امریکی حکومت کو یہ باور کرائے کہ چونکہ ان حملوں کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے اور بہت سی بے قصور جانیں بھی ضایع ہو جاتی ہیں لہٰذا مخصوص اہداف پر حملوں سے قبل پاکستانی حکومت کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا جائے اور اس کی اجازت کے بغیر یہ حملے ہرگز نہ کیے جائیں۔ تیسرا آپشن یہ ہے کہ امریکا ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان کے حوالے کر دے اور ان مخصوص اہداف کی محض نشاندہی کر دے جن پر حملوں کی اسے ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ پاکستانی علاقوں پر امریکی حملے ہماری سالمیت اور خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا منشور بھی اس قسم کی کسی بھی کارروائی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا، ہمارا امریکا سے سوال یہ ہے کہ یہی کارروائی اگر دنیا کا کوئی ملک امریکا کے خلاف کرتا تو کیا وہ اس پر خاموش ہو کر بیٹھا رہتا؟ اگر اس سوال کا جواب بالکل نفی میں ہے تو پھر امریکا یہ بتائے کہ دوسرے ممالک کے خلاف اس کے ڈرون حملے کیا ان ممالک کے خلاف امریکا کی برہنہ جارحیت کے زمرے میں نہیں آتے؟ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ امریکی ڈرون حملے قطعی غیر قانونی، غیر انسانی اور بلاجواز ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ یہ حملے Back Fire کر رہے ہیں اور ان سے امریکا کا امیج پوری دنیا میں بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ابھی حال ہی میں جب اسلام آباد کے دورے پر آئے تھے تو پاکستانی قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں امریکی ڈرون حملوں کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا تھا، امریکی وزیر خارجہ نے نہ صرف وزیر اعظم میاں نواز شریف بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جن میں ڈرون حملوں کے بنیادی مسئلے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ نے یہ ڈرامائی انکشاف بھی کیا کہ ڈرون حملوں میں رفتہ رفتہ کمی آئے گی اور بہت جلد یہ اختتام پذیر ہو جائیں گے، جلد اختتام پذیر ہونے کے حوالے سے انھوں نے انگریزی الفاظ ''Very Very Soon'' استعمال کیے لیکن ابھی ان الفاظ کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ماری ہارف کا یہ بیان سامنے آ گیا کہ امریکی ڈرون حملے امریکا کا وہ حربہ ہیں جس سے وہ خود کو کبھی محروم نہیں کرے گا۔
ان کی توجہ جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان کی جانب دلائی گئی جس میں انھوں نے ڈرون حملے بند کرنے کا عندیہ دیا تھا تو ان کا ٹکا سا جواب یہ تھا کہ ہم پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں اپنی جنگ جاری رکھنے پر مجبور ہیں اور ہم اپنے آپ کو اپنے حربے سے ہر گز محروم نہیں کریں گے'' امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان کا اصرار تھا کہ امریکی ڈرون حملوں نے القاعدہ کے کلیدی قائدین کا صفایا کر دیا ہے اور یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے محترمہ ہارف کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں امریکی ڈرون حملوں کے خاتمے کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا اس سے مراد وہ تبدیلیاں تھیں جو امریکا کے ڈرون پروگرام کے حوالے سے متوقع ہیں مگر اس بارے میں کوئی ٹائم لائن مقرر نہیں کی جا سکتی۔
تاہم امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو پاکستان کے حالیہ دورے میں ڈرون حملوں پر سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، جن میں حکومت پاکستان اپنی خود مختاری اور دہشت گردی کے خلاف عرصہ دراز سے مسلسل جاری جنگ کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ حملے Productive سے زیادہ Productive Counter ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان سے اشتعال انگیزی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور امریکا مخالف عناصر کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مشکلات پیدا ہو رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کی نئی حکومت کا موقف سابقہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ واضح اور سخت ہے لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ وزیر اعظم نے جان کیری کے ساتھ اپنی علیحدہ علیحدہ ملاقات میں ان سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا تھا یا نہیں، امریکا کی جانب سے پاکستان کی نئی حکومت کے سربراہ کو اتنی جلدی دورے کی دعوت دینا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ وہ نئی حکومت سے تعلقات کی بہتری کا خواہش مند ہے، ہماری حکومت کو اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرون حملے روکنے کے مطالبے پر زور دینا چاہیے۔