بہن کے ہاتھوں بہن کا قتل

ماحول کی ابتری، مجموعی خوف و ہراس کی فضا اور نا امیدی کے بڑھتے ہوئے سایوں نے ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔

moosaafendi@gmail.com

ماحول کی ابتری، مجموعی خوف و ہراس کی فضا اور نا امیدی کے بڑھتے ہوئے سایوں نے ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ ہم جانوروں سے بھی بدتر درجوں کے اندر چلے گئے ہیں۔ آئے دن ایسی خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جنھیں پڑھ کر اپنے آپ سے خوف آنے لگتا ہے۔ ایک ایسی تحریک ہوتی ہے کہ آدمی خود کو قابو میں نہیں رکھ سکتا اور بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی کر گزرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

یہ بات نہیں ہے کہ جن دیگر معاشروں میں نسبتاً سکون اور اطمینان پایا جاتا ہے وہاں اس نوعیت کے گھناونے واقعات نہیں ہوتے۔ ضرور ہوتے ہیں لیکن اسقدر سرعت اور اتنی تعداد میں روزمرہ کے معمولات کے طور پر نہیں ہوتے۔ زندگی کا یہ کرب محض داخلی ہی نہیں رہا بلکہ خارجی بن چکا ہے۔ جب آدمی ہر طرف سے غیر یقینی کا شکار ہو جاتا ہے تو اس سے کوئی بھی حرکت سرزد ہو سکتی ہے۔ جس تسلسل سے اس قسم کے واقعات ہو رہے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔

پہلے قتل جیسے گھنائونے جرم بڑی بڑی دشمنیوں کے نتیجے میں کیے جاتے تھے۔ جائیدادوں کی غیر منصفانہ تقسم کا انجام ہوتے تھے۔ رشتوں ناتوں میں محرومی یا پھر غیرت کے نام پر کیے جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہو رہا ہے اب قتل ان باتوں پر کیے جا رہے ہیں جو کچھ بات نہیں ہوتی۔ مثلاً خبر آئی کہ موبائل فون کا میموری کارڈ نہ دینے پر چھوٹی بہن نے بڑی بہن کو قتل کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق گجرانوالہ میں موبائل کا میموری کارڈ نہ دینے پر چھوٹی بہن نے بڑی بہن کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔ پولیس نے ملزمہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق گھوڑے شاہ کی رہائشی شاہینہ نے اپنی چھوٹی بہن رضیہ کا میموری کارڈ لے لیا جس پر دونوں بہنوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ اس دوران رضیہ سخت غصّے میں آ گئی اور اس نے بڑی بہن پر چھریوں سے حملہ کر دیا جس سے شاہینہ موقعے پر ہی جاں بحق ہو گئی۔

مقتولہ شاہینہ کے بارے میں خبر میں بتایا گیا ہے کہ وہ سات بچوں کی ما ں تھی اور اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ اپنی ماں کے گھر عید منانے آئی ہوئی تھی۔ دیکھا آپ نے ذرا سی بات پر کتنے قیمتی رشتے پامال ہو گئے اور کس قدر گہرے زخم اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔ ایک عورت اپنی ماں کے گھر عید کی خوشیاں منانے اپنے بال بچوں کے ساتھ جاتی ہے وہ یہ خوشیاں صرف گھر میں موجود ماں کے ساتھ ہی نہیں مناتی بلکہ گھر کے اندر موجود دیگر بہن بھائیوں اور عزیز واقارب کے ساتھ بھی مناتی ہے۔ اس کے بچے ماں کے ساتھ تو رہتے ہی ہیں لیکن عید کی خوشیاں خالائوں اور نانی کے ساتھ منانے گئے تھے۔ خالہ کا رشتہ ماں کی مانند ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں نہایت عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے دنیا کے ہر معاشرے میں خالہ بچوں کے لیے ایک محبت اور شفقت کا سمبل ہوتی ہے۔ اس خالہ نے ان سات معصوم بچوں کو ماں کے سائے سے محروم کر دیا کس بات پر ایک موبائل کے میموری کارڈ پر۔

سالی کے رشتے کے بارے میں کہا جاتا ہے آدھی گھر والی۔ اس رشتے کے تقدس کو رضیہ نے اس طرح پامال کیا بچوں کے باپ کو بیٹھے بیٹھے ما ں بھی بنا ڈالا۔ ذرا سوچیں وہ شخص اگر کچھ عرصہ بعد دوسری شادی کر بیٹھا تو ان بچوں کا کیا بنے گا۔ یہ بچے کون پالے گا۔ کیا ایک معمولی میموری کارڈ کا لینا دینا اتنی لمبی اور درد ناک سزائوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ سزائیں تو ان بچوں کی ملیں گی جنھیں شاید ابھی جرم و سزا کے الفاظ سے شناسائی تک نہیں ہو گی۔


اب ذرا سوچئے اس ماں کے کرب کو جس کی بیٹی قتل ہوئی جو اس کے گھر عید منانے آئی تھی۔ اُسے ڈاکوئوں نے نہیں مارا، دہشت گردوں نے نہیں مارا۔ جائیداد کی بندر بانٹ پر نہیں مارا، رشتوں کی پسند نا پسند پر نہیں مارا غیرت نام کی کسی چیز یا بات پر نہیں مارا۔ ایک موبائل کے میموری کارڈ پر مار دیا۔ مارنے والی جیل چلی گئی اور مرنے والی قبر کے اندر۔ بوڑھی ماں کو اس غم میں یہ عذاب اپنی ہی بیٹی نے دیا کسی دہشت گرد نے نہیں دیا۔

کوئی اخبار میں خبر پڑھنے والا۔ ٹیلیویژن پر یہ خبر دیکھنے والا۔ ریڈیو پر سننے والا اس دل ہلا دینے والے کرب اور ہولناک صورت حال کا اندازہ تک نہیں لگا سکتا جو حقیقت میں اس واقعے کے حقیقی کرداروں نے گزرنا ہے اب تو ان کے نصیب میں مسائل ہی مسائل ہونگے۔ مصیبتیں ہی مصیبتیں ہوں گی۔ آیندہ زندگی ان سب کرداروں کے لیے ایک عبرتناک عذاب ہی بنی رہے گی جس کی واحد اور واحد وجہ ایک بہن کا غصّہ تھا۔ سگی بہن کا غصہ وہ غصہ کیوں تھا یا ایک معمولی سی بات پر کیوں اسقدر بڑھ گیا کہ نوبت قتل تک چلی گئی۔ اس کا جواب تو شاید قاتلہ ہی بتا سکتی ہے۔ لیکن قاتلہ کا اب پشیمان ہونا بھی اس واقعے کے متاثرین کے لیے کسی بھی قسم کا مداوا نہیں بن سکتا۔

ہمارا ملک ایک فلاحی ملک بھی نہیں ہے کہ کسی طرف سے امید بندھ جاتی۔ ہمارے ہا ں تو ذلیل ترین قسم کے حادثات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی فی کس قیمت لگا دی جاتی ہے۔ جو اکثر لواحقین کو کبھی نہیں ملتی۔ ویسے بھی جس ملک کے اندر سیکڑوں کی تعداد میں کامیابی کے ساتھ ساتھی چھڑانے کے لیے جیلوں پر یلغار کی روایت زور پکڑ رہی ہو اس ملک یا معاشرے میں شاہینہ کا قتل کیا حیثیت رکھتا ہے۔ جب بہت سارے لوگ آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے ہو جائیں کان رکھتے ہوئے بہرے بن جائیں۔ زبانیں ہوں پر گونگے بن جائیں وہاں رضیہ کو اپنی ہی بہن پر چھریاں چلانے سے کون روک سکتا ہے۔ اپنی ہی خالہ کو بھانجوں سے ماں چھیننے سے کون روک سکتا ہے۔ اپنی ہی ماں کو دو بیٹیوں ایک قتل اور دوسری کی قید کے کرب میں مبتلا کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ پھر یہ تو وہ واقعات ہیں جو منظر عام پر آ جاتے ہیں اُن ان گنت واقعات کو ہونے سے کون روک سکتا ہے جو سامنے نہیں آ پاتے جس کے باعث کسی توجہ کے مستحق نہیں گردانے جاتے۔

کتنی عجیب بات کے جس وقت یہ قتل ہوا ہم لوگ عشرہ نجات سے گزر رہے تھے یہ اپنے گناہوں اور جرائم سے توبہ کرنے کا عشرہ تھا کہ دوزخ کی دہکتی آگ سے بچا جا سکے۔ یہ زیادتیوں سے تلافی کا عشرہ تا کہ ایک دوسرے کے آگے سرخرو ہوا جا سکے۔ یہ پاک صاف اور پاکیزہ ہونے کا عشرہ تھا تا کہ زندگی آلودگیوں اور آلائیشوں سے چھٹکارا حاصل کر لے۔ یہ غلط فہمیوں اور بغض اور حسد سے بیزاری کا عشرہ تھا یہ گلے لگانے کا عشرہ تھا جڑنے کا عشرہ تھا بھائی بننے کا عشرہ کتنے بد نصیب ہیں کہ اس عشرہ کو بہن کے قتل کا عشرہ بنا دیا اور ان سب باتوں سے زیادہ کرب کی بات یہ ہے دین کے کسی ٹھیکیدار نے شاہینہ اور رضیہ کا ذکر تک نہیں کیا جو ہابیل و قابیل کے قرآن پاک میں ذکر سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
Load Next Story