یادوں کی بارات اور رفیق احمد نقش
یادوں کی بارات کا شہرہ ہم اپنے نوجوانی کے زمانے ہی سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ رشید حسن خان نے بجا طور پر کہا...
یادوں کی بارات کا شہرہ ہم اپنے نوجوانی کے زمانے ہی سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ رشید حسن خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ ''یادوں کی بارات کو خود نوشت سوانح عمری کے لحاظ سے خواہ اعلیٰ درجے کی کتاب نہ کہا جا سکے، لیکن یہ واقعہ ہے کہ دل چسپی کے لحاظ سے اردو کی بہت کم کتابیں اِس کے برابر رکھی جا سکتی ہیں...'' روزِ اول سے یہ ایک دل چسپ لیکن متنازعہ کتاب رہی ہے۔ اِس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر سحر انصاری لکھتے ہیں ''نہ اِس کتاب میں کسی عظیم مصنف کے بارے میں کوئی صائب رائے ملتی ہے اور نہ ہی کسی اہم یا غیر اہم کتاب یا فلسفہ یا نظامِ خیال کا کوئی تذکرہ شامل ہے۔ اِس کتاب میں اگر کوئی یہ تلاش کرے کہ جوشؔ صاحب کِس حد تک مفکر ہیں، کِس حد تک انقلابی ہیں اور اُن کے ذہن کی تعمیر و تشکیل میں کِن کِن عوامل کا ہاتھ رہا ہے، تو اُسے سخت مایوسی ہو گی۔'' مشتاق احمد یوسفی صاحب ''یادوں کی بارات'' کو سوانح عمری کے بجائے ''شہوانی عمری'' قرار دیتے ہیں۔
جوشؔ ملیح آبادی (شبیر حسن خان، 5دسمبر 1894 تا 22 فروری 1982) کی خود نوشت کا پہلا ایڈیشن1970ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ کتاب جوش اکیڈمی کراچی سے شایع ہوئی تھی۔ کتاب کی اشاعت کے بعد جوشؔ صاحب کو اندازہ ہوا کہ یہ تو وہ کتاب نہیں جس کا مسودہ انھوں نے اشاعت کے لیے دیا تھا۔ یہ انکشاف کسی اور کا نہیں خود حضرتِ جوش ہی کا ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں''...تم نے جمیل مظہری کا شکایتی قطعہ بھیجا تھا، یادوں کی بارات میں نہ صرف جمیل مظہری کا بلکہ دوسرے دوستوں کا بھی ذکر تھا، مگر نہ جانے کیا گڑ بڑ ہوئی کتاب چھپنے گئی تو اُس کے اصل مسودات سے بعض تذکرے کوئی لے اُڑا...''
اب یہاں سے تحقیق، تفتیش اور دریافت کا ایک نیا در وا ہوا۔ بہت سے احباب کو جستجو ہوئی، کتنے ہی ادیبوں، نقادوں، تحقیق کاروں، ادب سے دِل چسپی رکھنے والوں اور جوش کے چاہنے والوں کے دِل مچلے، ایک زمانہ جاننا چاہتا تھا کہ گم شدہ مسودے میں کِس کِس کے تذکرے ہیں؟ اور وہ کیوں ''اُڑائے'' گئے؟ یہ حرکت کِس کی تھی؟ وغیرہ۔ قسمت سے اِن اوراق کا منصّہ شہود پر آنا جوش کے شاگرد رشید ڈاکٹر ہلال نقوی کے نام لکھا تھا۔ آپ جوش شناسی کا ایک معتبر نام ہیں۔ اپریل2013ء میں آپ کی کتاب ''یادوں کی بارات کا قلمی نسخہ اور اُس کے گم شدہ و غیر مطبوعہ اوراق ایک تحقیقی دریافت'' میں گم شدہ اوراق میں سے جتنے کچھ مل پائے شایع کیے گئے۔ کتاب جوش لِٹریری سوسائٹی، کیلگری، کینیڈا نے شایع کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اردو کے اِس بڑے نام کے نام پر قائم کی گئی اس مجلس کا نام اردو میں ہوتا۔
آج کے تذکرے میں اُس مردِ قلندر کا ''تذکرہ'' مقصود ہے جِس نے یہ مخطوطات ڈاکٹر ہلال نقوی کی نذر کیے۔ ڈاکٹر صاحب متذکرہ کتاب کے صفحہ45 پر ''243 گم شدہ صفحات کا مِل جانا '' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں، ''کم و بیش 1750 صفحات پر مشتمل یادوں کی بارات کے قلمی نسخے کے تقریباً 600 گُم شدہ صفحات کی تلاش، تحقیق کے ایک ایسے جادے کا سفر رہا ہے جس میں کئی بار، انجانے موڑ، ناہموار راستوں کے اَن دیکھے نشیب و فراز اور دھندلائے ہوئے سنگِ میل جا بجا آتے رہے۔ ایسے میں کسی منزل کا نشان روشنی کے اچانک ظہور سے کم درجے کا نہیں ہوتا۔ ایک ایسی ہی تجلی سے میں اُس وقت ہمکنار ہوا جب علمی و ادبی کتابی سلسلے 'تحریر' کے مدیر رفیق احمد نقشؔ نے مارچ2012ء میں ایک ملاقات کے موقع پر، مجھ پر یہ انکشاف کیا کہ یادوں کی بارات کے وہ گمشدہ اوراق جن میں جوش ملیح آبادی نے اپنے احباب کے تذکرے لکھے ہیں اُس کے کم و بیش ڈھائی سو صفحات ایک کاپی کی صورت میں اُن کے پاس موجود ہیں۔
میں اُن دنوں اپنی علالت کے ایک تکلیف دہ حصار میں تھا، اس کے باوجود یہ اطلاع میرے لیے صحت ِ فکر و تحقیق کا سبب بن گئی۔ اس موقع پر بے ساختہ اُن سے میرا پہلا سوال یہ ہی تھا کہ انھیں یہ صفحات کہاں سے دستیاب ہوئے انھوں نے جواب دیا کہ مجھے یہ صفحات ایک ایسے مہربان دوست نے دیے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ رفیق احمد نقش ؔ نے کسی سے کیے گئے وعدے کی پاسداری کو اہمیت دی اور مجھے خاموش ہونا پڑا۔ چاہتا تو یہ ہی تھا کہ وہ یہ صفحات مجھے دے دیں لیکن مجھے اُن سے یہ بات کہنے میں ایک ہچکچاہٹ تھی۔ یہ ہی وہ مہینے تھے جب میں 'جوش شناسی' کے ساتویں شمارے 'یادوں کی بارات' نمبر کے لیے رفتہ رفتہ کچھ کام کر رہا تھا چُنانچہ میں نے اُن سے یہ ہی کہا کہ وہ گم شدہ اوراق کے حوالے سے رسالے کے لیے مضمون لکھ دیں۔
رفیق نقش ؔ نے نہ صرف یہ کہ مضمون لکھا، بلکہ کچھ دنوں بعد ان صفحات کو 'سی ڈی' پر منتقل کر کے، اس 'سی ڈی' کے ساتھ جوش صاحب کے لکھے ہوئے اوریجنل صفحات بھی یہ کہہ کر میرے سپرد کر دیے کہ 'آپ کے پاس کیوں کہ یادوں کی بارات کا قلمی نسخہ ہے تو اب آپ ہی اِس کے اصل حق دار ہیں' رفیق نقش ؔ جو کہ خود بھی تحقیق کے آدمی ہیں، اسی میدان کے شہ سوار ہیں، اور اسی قسم کے نوادرات اُن کے لیے بھی بہت کام کے نوادرات ہیں، انھوں نے جس خلوصِ نیت سے یہ صفحات مجھے دے دیے اُسے تحقیق کی دنیا میں یقیناً قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔''
تحقیق کی دنیا سے قدر افزائی کے متمنی ہلال نقوی سے یہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ جس مخطوطے کی بنیاد پر آپ نے ایک کتاب کی عمارت قائم فرمائی اگر اس کا اظہار کتاب کے سرورق پر بازیافت: رفیق احمد نقشؔ یا کسی اور طرح کر دیا جاتا تو شاید انتظار حسین نے نقشؔ صاحب کی قدر افزائی جن الفاظ میں فرمائی وہ کچھ مختلف ہوتے۔
رفیق احمد نقشؔ (15مارچ 1959ء تا 15مئی2013) یقیناً ایک ایسے ہی درویش تھے کہ جنھوں نے تمام عمر تقسیم ہی کیا ہے۔، دِیا ہے، بے تحاشا دِیا ہے۔ اس در سے فیضان ہمیشہ، ہر ایک کے لیے جاری رہا۔ علم، ادب، کتاب، تہذیب، اقدار، اور روُپیہ پیسا بانٹنے والا ایسا کوئی دوسرا نظر سے نہیں گزرا۔ رفیق احمد نقشؔ زمانہِ طالب علمی ہی سے علم و ادب کے دلدادہ رہے۔ آپ نے جامعہ سندھ سے1980ء میں اردو ادب میں اور جامعہ کراچی سے 1991ء میں لسانیات میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں ایم اے کیے۔ ہندی اور سندھی میں پوسٹ گریجویشن ڈپلوما امتیازی نمبروں سے کیا۔ آپ ایک عمدہ شاعر، محقق اور مترجم تھے۔ بھارت کے نامور مصور ایف۔ ایم حسین کی آپ بیتی ہندی سے اردو میں منتقل کرنے کے علاوہ آپ نے کئی وقیع کام سر انجام دیے۔ کتابوں سے آپ کو عشق تھا۔ آپ کے ذاتی کُتب خانے میں پندرہ ہزار سے زائد کتب و رسائل موجود ہیں۔
کئی نایاب کتب و رسائل بھی آپ کے کتب خانے میں پائی جاتی ہیں۔ آپ کی پیدائش میرپور خاص سندھ کی ہے۔ آپ میرپور خاص ہی کی نہیں اردو دنیا کی ایک معتبر شخصیت تھے۔ ضمیر نیازی اور مشفق خواجہ اپنے اخیر وقتوں میں اکثر مسودے اُس وقت تک اشاعت کے لیے نہیں بھیجتے تھے جب تک کہ املا رفیق بھائی کی نظر سے نہ گزر جائے۔ شکیل عادل زادہ عام محافل میں بھی آپ کو بر ملا 'میرے اُستاد' پکارتے تھے۔ آپ کے معیارات بہت اعلیٰ اور بے لچک تھے۔ ادب ہو یا عملی زندگی آپ کاملیت پر یقین رکھنے والے ایسے نکتہ رس تھے جس میں جمالیاتی حِس بھی بدرجہ اَتم موجود تھی۔ آپ کی مرگِ ناگہاں اردو ادب ہی کا نقصان نہیں، مجھ ایسے نہ جانے کتنوں کا ذاتی نقصان اور صدمہ بھی ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی (شبیر حسن خان، 5دسمبر 1894 تا 22 فروری 1982) کی خود نوشت کا پہلا ایڈیشن1970ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ کتاب جوش اکیڈمی کراچی سے شایع ہوئی تھی۔ کتاب کی اشاعت کے بعد جوشؔ صاحب کو اندازہ ہوا کہ یہ تو وہ کتاب نہیں جس کا مسودہ انھوں نے اشاعت کے لیے دیا تھا۔ یہ انکشاف کسی اور کا نہیں خود حضرتِ جوش ہی کا ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں''...تم نے جمیل مظہری کا شکایتی قطعہ بھیجا تھا، یادوں کی بارات میں نہ صرف جمیل مظہری کا بلکہ دوسرے دوستوں کا بھی ذکر تھا، مگر نہ جانے کیا گڑ بڑ ہوئی کتاب چھپنے گئی تو اُس کے اصل مسودات سے بعض تذکرے کوئی لے اُڑا...''
اب یہاں سے تحقیق، تفتیش اور دریافت کا ایک نیا در وا ہوا۔ بہت سے احباب کو جستجو ہوئی، کتنے ہی ادیبوں، نقادوں، تحقیق کاروں، ادب سے دِل چسپی رکھنے والوں اور جوش کے چاہنے والوں کے دِل مچلے، ایک زمانہ جاننا چاہتا تھا کہ گم شدہ مسودے میں کِس کِس کے تذکرے ہیں؟ اور وہ کیوں ''اُڑائے'' گئے؟ یہ حرکت کِس کی تھی؟ وغیرہ۔ قسمت سے اِن اوراق کا منصّہ شہود پر آنا جوش کے شاگرد رشید ڈاکٹر ہلال نقوی کے نام لکھا تھا۔ آپ جوش شناسی کا ایک معتبر نام ہیں۔ اپریل2013ء میں آپ کی کتاب ''یادوں کی بارات کا قلمی نسخہ اور اُس کے گم شدہ و غیر مطبوعہ اوراق ایک تحقیقی دریافت'' میں گم شدہ اوراق میں سے جتنے کچھ مل پائے شایع کیے گئے۔ کتاب جوش لِٹریری سوسائٹی، کیلگری، کینیڈا نے شایع کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اردو کے اِس بڑے نام کے نام پر قائم کی گئی اس مجلس کا نام اردو میں ہوتا۔
آج کے تذکرے میں اُس مردِ قلندر کا ''تذکرہ'' مقصود ہے جِس نے یہ مخطوطات ڈاکٹر ہلال نقوی کی نذر کیے۔ ڈاکٹر صاحب متذکرہ کتاب کے صفحہ45 پر ''243 گم شدہ صفحات کا مِل جانا '' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں، ''کم و بیش 1750 صفحات پر مشتمل یادوں کی بارات کے قلمی نسخے کے تقریباً 600 گُم شدہ صفحات کی تلاش، تحقیق کے ایک ایسے جادے کا سفر رہا ہے جس میں کئی بار، انجانے موڑ، ناہموار راستوں کے اَن دیکھے نشیب و فراز اور دھندلائے ہوئے سنگِ میل جا بجا آتے رہے۔ ایسے میں کسی منزل کا نشان روشنی کے اچانک ظہور سے کم درجے کا نہیں ہوتا۔ ایک ایسی ہی تجلی سے میں اُس وقت ہمکنار ہوا جب علمی و ادبی کتابی سلسلے 'تحریر' کے مدیر رفیق احمد نقشؔ نے مارچ2012ء میں ایک ملاقات کے موقع پر، مجھ پر یہ انکشاف کیا کہ یادوں کی بارات کے وہ گمشدہ اوراق جن میں جوش ملیح آبادی نے اپنے احباب کے تذکرے لکھے ہیں اُس کے کم و بیش ڈھائی سو صفحات ایک کاپی کی صورت میں اُن کے پاس موجود ہیں۔
میں اُن دنوں اپنی علالت کے ایک تکلیف دہ حصار میں تھا، اس کے باوجود یہ اطلاع میرے لیے صحت ِ فکر و تحقیق کا سبب بن گئی۔ اس موقع پر بے ساختہ اُن سے میرا پہلا سوال یہ ہی تھا کہ انھیں یہ صفحات کہاں سے دستیاب ہوئے انھوں نے جواب دیا کہ مجھے یہ صفحات ایک ایسے مہربان دوست نے دیے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ رفیق احمد نقش ؔ نے کسی سے کیے گئے وعدے کی پاسداری کو اہمیت دی اور مجھے خاموش ہونا پڑا۔ چاہتا تو یہ ہی تھا کہ وہ یہ صفحات مجھے دے دیں لیکن مجھے اُن سے یہ بات کہنے میں ایک ہچکچاہٹ تھی۔ یہ ہی وہ مہینے تھے جب میں 'جوش شناسی' کے ساتویں شمارے 'یادوں کی بارات' نمبر کے لیے رفتہ رفتہ کچھ کام کر رہا تھا چُنانچہ میں نے اُن سے یہ ہی کہا کہ وہ گم شدہ اوراق کے حوالے سے رسالے کے لیے مضمون لکھ دیں۔
رفیق نقش ؔ نے نہ صرف یہ کہ مضمون لکھا، بلکہ کچھ دنوں بعد ان صفحات کو 'سی ڈی' پر منتقل کر کے، اس 'سی ڈی' کے ساتھ جوش صاحب کے لکھے ہوئے اوریجنل صفحات بھی یہ کہہ کر میرے سپرد کر دیے کہ 'آپ کے پاس کیوں کہ یادوں کی بارات کا قلمی نسخہ ہے تو اب آپ ہی اِس کے اصل حق دار ہیں' رفیق نقش ؔ جو کہ خود بھی تحقیق کے آدمی ہیں، اسی میدان کے شہ سوار ہیں، اور اسی قسم کے نوادرات اُن کے لیے بھی بہت کام کے نوادرات ہیں، انھوں نے جس خلوصِ نیت سے یہ صفحات مجھے دے دیے اُسے تحقیق کی دنیا میں یقیناً قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔''
تحقیق کی دنیا سے قدر افزائی کے متمنی ہلال نقوی سے یہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ جس مخطوطے کی بنیاد پر آپ نے ایک کتاب کی عمارت قائم فرمائی اگر اس کا اظہار کتاب کے سرورق پر بازیافت: رفیق احمد نقشؔ یا کسی اور طرح کر دیا جاتا تو شاید انتظار حسین نے نقشؔ صاحب کی قدر افزائی جن الفاظ میں فرمائی وہ کچھ مختلف ہوتے۔
رفیق احمد نقشؔ (15مارچ 1959ء تا 15مئی2013) یقیناً ایک ایسے ہی درویش تھے کہ جنھوں نے تمام عمر تقسیم ہی کیا ہے۔، دِیا ہے، بے تحاشا دِیا ہے۔ اس در سے فیضان ہمیشہ، ہر ایک کے لیے جاری رہا۔ علم، ادب، کتاب، تہذیب، اقدار، اور روُپیہ پیسا بانٹنے والا ایسا کوئی دوسرا نظر سے نہیں گزرا۔ رفیق احمد نقشؔ زمانہِ طالب علمی ہی سے علم و ادب کے دلدادہ رہے۔ آپ نے جامعہ سندھ سے1980ء میں اردو ادب میں اور جامعہ کراچی سے 1991ء میں لسانیات میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں ایم اے کیے۔ ہندی اور سندھی میں پوسٹ گریجویشن ڈپلوما امتیازی نمبروں سے کیا۔ آپ ایک عمدہ شاعر، محقق اور مترجم تھے۔ بھارت کے نامور مصور ایف۔ ایم حسین کی آپ بیتی ہندی سے اردو میں منتقل کرنے کے علاوہ آپ نے کئی وقیع کام سر انجام دیے۔ کتابوں سے آپ کو عشق تھا۔ آپ کے ذاتی کُتب خانے میں پندرہ ہزار سے زائد کتب و رسائل موجود ہیں۔
کئی نایاب کتب و رسائل بھی آپ کے کتب خانے میں پائی جاتی ہیں۔ آپ کی پیدائش میرپور خاص سندھ کی ہے۔ آپ میرپور خاص ہی کی نہیں اردو دنیا کی ایک معتبر شخصیت تھے۔ ضمیر نیازی اور مشفق خواجہ اپنے اخیر وقتوں میں اکثر مسودے اُس وقت تک اشاعت کے لیے نہیں بھیجتے تھے جب تک کہ املا رفیق بھائی کی نظر سے نہ گزر جائے۔ شکیل عادل زادہ عام محافل میں بھی آپ کو بر ملا 'میرے اُستاد' پکارتے تھے۔ آپ کے معیارات بہت اعلیٰ اور بے لچک تھے۔ ادب ہو یا عملی زندگی آپ کاملیت پر یقین رکھنے والے ایسے نکتہ رس تھے جس میں جمالیاتی حِس بھی بدرجہ اَتم موجود تھی۔ آپ کی مرگِ ناگہاں اردو ادب ہی کا نقصان نہیں، مجھ ایسے نہ جانے کتنوں کا ذاتی نقصان اور صدمہ بھی ہے۔