اپنی اپنی قسموں کے سیاپے
سوچ سمجھ کر تولنے اور بولنے کو چھوڑیں، خاموش رہنے میں بھی اتنی عافیت ہے کہ اس پاپی سنسار کی بے شمار نعمتیں ایک...
سوچ سمجھ کر تولنے اور بولنے کو چھوڑیں، خاموش رہنے میں بھی اتنی عافیت ہے کہ اس پاپی سنسار کی بے شمار نعمتیں ایک طرف اور دوگھڑی کے لیے اس بدبخت نرخرے کا روزہ ایک طرف۔ پر خاموش رہنا آسان نہیں۔ ہر کوئی ولی نہیں ہوتا۔ سوچ سمجھ کے بولنا بھی آسان نہیں۔ جب سوئچ آن ہو جائے تو پھر باری باری سب کچھ باہر نکل آتا ہے۔ سر سے، پیٹ سے، پیر سے، ہر جگہ سے نکلتا ہے۔ پورا اگلدان بھر جاتا ہے۔ ایک بندہ دیکھا جو ایک گھر کے باہر کھڑا مالک مکان کو اس کا نام لے لے کے تڑیاں مار رہا تھا۔ شرمناک گفتگو کر رہا تھا اور شرمناک اشارے کر رہا تھا۔ مالک مکان باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ڈنڈے کے سائز کو دیکھ کے وہ ایک دم مکر گیا۔ کہنے لگا، میں آپ کو تو نہیں آپ کے ڈرائیور کوکہہ رہا تھا۔
کہتے ہیں کہ واپسی کا ایک راستہ ہمیشہ باقی رکھنا چاہیے۔ یہاں کون سا راستہ باقی ہے؟ آئے دن کی گل افشانیوں نے سوائے کینیڈا والے قادری کے اور چک شہزاد والے کمانڈوکے، نہ تو کوئی بندہ چھوڑا ہے اور نہ ہی کوئی پارٹی، سب سے مخاصمت مول لی ہے پھر برے وقت میں کون ساتھ دے۔ ہر کسی کی بتیسی چالیس گز دور سے دکھائی دے رہی ہے اور 28 تاریخ تک دکھائی ہی دیتی رہے گی۔ اس کے بعد اگر کچھ اور ہو گیا تو وہ جو قبضہ گروپ کے دو بندے اردگرد گھوم رہے ہیں انھوں نے واردات ڈال دینی ہے۔
ان کی وفا کیسی اور وفاداری کیسی۔ وہ ہیں ہی اس تاک میں۔ بڑی عید سے پہلے پہلے ایک بڑی قربانی کے انتظار میں ہیں۔ یہ ہلا شیری بلاوجہ نہیں ہے۔ ڈٹے رہو۔ معافی نہیں مانگنی۔ غلطی بھی ہو گئی ہے تو معافی دوسروں سے منگواؤ۔ اگر خود مانگ لی تو اس سے زیادہ شرمناک بات اورکیا ہو گی۔ لہٰذا یوں ہی شرمو شرمی چڑھ جا بیٹا سولی پہ، رام بھلی کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ جو خیر خواہوں کے بھیس میں گدھ بیٹھے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک پاؤگوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کروا دینا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ حالیہ سیاست کا ایک بڑا حادثہ ہو گا اور ہماری یوتھ کے لیے اس سے بھی بڑا ایک المیہ۔ اسے تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں متحرک ہوئے۔ ایک بے سمت اور بے بنیاد انا کی خاطر اگر وہ پھر سے اسی غبار میں گم ہو گئی جہاں سے برآمد ہوئی تھی تو یہ ایک تکلیف دہ بات ہو گی۔
جہاں تک بات ہے قانون کی تو اس کی طاقت کو مذاق سمجھنا انتہائی شرمناک ہے۔ کینیڈا سے آئے ہوئے قادری نے قانون اور انصاف کے حق میں خوب نعرے لگائے تھے۔ اس کی مٹھی چابی کی تھی لیکن وہ تو اندھا ہوتا ہے اور شاید بہرہ بھی۔ اس لیے جب وہ ایک شرارتی موقف کے ساتھ قانون کے دروازے پر گئے تو اس نے وہیں ان کی چیخیں نکلوا دیں۔ قانون سے بالا ترکوئی نہیں۔ اس کی بالادستی، راہ سے بھٹکے ہوئے کسی بھی شخص کو منٹوں میں سیدھا کر سکتی ہے۔ ناک سے لکیریں نکلوا سکتی ہے۔ اور ہاں وہ صدارتی انتخاب کو آگے پیچھے بھی کر سکتی ہے۔
قطع نظر اس بات کے کہ صدارتی انتخاب کی تاریخ تبدیل کیوں ہوئی یہ تو ہوا ہے کہ اس سیاسی بھونچال میں بہت کچھ تہہ و بالا ہو گیا ہے۔ انتخاب کسی بھی تاریخ کو ہوتا اس کے نتیجے پر ٹکے کا اثر نہیں ہونا تھا۔ لیکن جنہوں نے جوش میں ہوش کھو دیا وہ اب اور بھی بہت کچھ گنوا دیں گے۔ ایک مہینے کے بعد سابقہ ہونے والے صدر سے متعلق دبے ہوئے مقدمات یکے بعد دیگرے کھلنا شروع ہو گئے تو اس کی وجہ یہی غیر معمولی ردعمل ہو گا۔ اسی بھونچال کے نتیجے میں حکومت کا اعتکاف بھی ہو گیا، شب قدر بھی اور عمرہ بھی۔ یہ عمرہ بھی ہماری تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کہ جس کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں، اداروں میں ٹکراؤ کی نوبت آ گئی اور ایک عدد انتہائی شریف النفس چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے سے فارغ ہو گیا۔
فخر الدین جی ابراہیم نے بھی عجب قسمت پائی ہے۔ ان کے استعفے ان سے بھی زیادہ مشہور ہیں۔ اب کی بار وقت زیادہ لگا اور یہ بھی ہوا کہ انھوں نے اپنا کام پورا کر دیا۔ لیکن کیسی مزے کی بات ہے کہ ان کے استعفے پر بغلیں بجانے والے ہی انھیں منتیں اور ترلے کر کر کے لائے تھے۔ پھر مثالیں دی گئیں کہ ایسی ہوتی ہیں اتفاق رائے سے کی جانے والی تقرریاں۔ نگراں حکومت کے قیام پر تنازعہ اٹھا تو پھر انھی کے تقرر کی مثال پیمانہ ٹھہرائی گئی۔ ابھی بہت سوں کو الیکشن میں اپنی ہار ہضم نہیں ہوئی ہے۔ وقت گزرے گا اور دماغ ٹھنڈا ہو گا تو تاریخ دان لکھے گا کہ فخرو بھائی کے دور میں پہلی بار ایسے انتخابات دیکھنے میں آئے جنہوں نے آیندہ کے لیے فیئر اینڈ فری الیکشنز کی بنیاد رکھی۔ خرابیوں کے باوجود اس سے بہتر ووٹرز لسٹیں پہلے کبھی نہیں بنیں۔ جس دھاندلی کا شور آپ ہر روز سنتے ہیں وہ کسی ادارے کی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی دھاندلی کا ذکر ہے۔
جس کا جہاں بس چلا اس نے مقدور بھر فتور مچا دیا۔ کچھ جماعتوں نے انتخابی اداروں میں بھی اپنے اسپائڈر چھوڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے بھی حسب توفیق کام دکھایا ہو گا۔ لیکن یہ بطور ادارہ الیکشن کمیشن کی دھاندلی کہاں سے ہو گئی؟ ویسے بھی ایسی بے قاعدگیوں نے کچھ انفرادی تناسب کو مجروح تو کیا ہے لیکن الیکشن کی حتمی شکل بہرحال وہی ہونا تھی جو اس وقت آپ کو فریم میں سجی دکھائی دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ ممنون حسین کا انتخاب۔ یہ سارے اعتراضات اپنی اپنی قسمتوں کے سیاپے ہیں جو کہیں آہ و زاری کی شکل میں اور کہیں بدزبانی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ زبان و بیان کی یہ بے راہ روی ایک ایسے اندھے کونے میں لے جایا کرتی ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ کوئی نہیں ہوتا۔ احمد آباد بھارت سے تعلق رکھنے والا میرا ایک امریکی دوست کہا کرتا ہے کہ ہم لوگوں کے منہ سے اگر کوئی غیر مناسب بات نکل جائے تو ہم زبان باہر نکال کے اس پر جوتا مارتے ہیں۔
ادھر پی پی پی کے سیاپے کا سوئچ کس نے آن کیا ہے اور اس نے ایک دم سے فرینڈلی اپوزیشن کا رول چھوڑ کے تابڑ توڑ حملے کیوں شروع کر دیے ہیں، اس کے بارے میں متضاد خبریں ہیں۔ کوئی اس کے پیچھے ''ریاست ہو گی ماں کے جیسی'' کا ورد کرنے والے کا ہاتھ بتاتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ یہ پہاڑوں سے دور رہنے کا درس دینے والے پیر صاحب کا اعجاز ہے۔ وہ شاید صدارت کو مزید پانچ سال بڑھانے والی کوئی گولی فٹ کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ کسی کا بھی کمال ہو، پارٹی کی یہ لپک، جھپک اور تڑپ دیکھ کے ایک بات یاد آتی ہے۔
اس نے پوچھا ''اے بزرگ دانا۔ میرے کپڑوں پر مچھر کے مارنے سے خون لگ گیا ہے۔ کیا نماز ہو جائے گی؟'' جواب ملا ''ارے بدبخت تو نے بے وجہ قتال کیا اور ہزاروں کی گردن اڑا دی اور تجھے فکر ہے تو بس مچھر کے خون کی۔''