عظیم مزدور رہنما‘ مرزا محمد ابراہیم
برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی مرزا محمد ابراہیم کو پاکستان کے محنت کشوں سے بچھڑے ہوئے 14 برس ہو گئے ہیں...
(بانی مزدور تحریک کی چودھویں برسی پر خصوصی تحریر)
برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی مرزا محمد ابراہیم کو پاکستان کے محنت کشوں سے بچھڑے ہوئے 14 برس ہو گئے ہیں ان چودہ برسوں میں حکومتی اداروں سمیت حکمرانوں اور ریلوے انتظامیہ نے پاکستان ریلوے کا بیڑا غرق کردیا۔ مرزا ابراہیم کے11 اگست 1999ء میں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اکتوبر میں ایک مرتبہ پھر ملک پر فوجی حکمرانوں نے قبضہ کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے ساتھ ریلوے میں بھی کئی حاضر اور ریٹائرڈ جنرلوں کو ساتھ لے آئے۔ ریلوے کا وزیر ریٹائرڈ جنرل، چیئرمین ایک جنرل، جنرل منیجر ایک جنرل۔ چیف پرنسپل آفیسر حاضر سروس بریگیڈیئر اسی طرح ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ورکشاپ بھی جنرل کو لگا دیا گیا۔ جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملازمین کی برطرفی کا صدارتی آرڈیننس 2000ء میں رفیق تارڑ کے دستخط سے جاری کر دیا اور ریلوے سے ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف اور ریٹائر کر دیا گیا۔ ریلوے کے قیمتی اثاثوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا گیا۔ ٹریڈ یونین پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود ریلوے کے ملازمین نے مرزا ابراہیم کے بتائے ہوئے راستے پر جدوجہد جاری رکھی۔
مرزا ابراہیم 1905ء میں جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ اسی گاؤں میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اندر کمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اروڑا بھی پیدا ہوئے تھے۔ مرزا ابراہیم کے والد مرزا عبداللہ بیگ ایک بے زمین کسان تھے۔ ان کے بڑے بھائی مرزا اللہ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار روشنی کے نام سے نکالتے تھے۔
مرزا ابراہیم نے ابتدائی تعلیم مدرسے سے حاصل کی۔ 1920-21 میں خلافت موومنٹ تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا جو مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی قیادت میں پور ے ہندوستان میں چل رہی تھی۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا پھر بھٹہ مزدور پھر برج ورکشاپ جہلم میں 1926ء میں بطور معاون بھرتی ہو گئے۔ وہیں سے انھوں نے ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ 1911-1910ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے میں مزدوروں نے ہڑتال اور مظاہرے کیے اور 1920ء میں ریلوے میں یونین بن گئی۔ 1926ء میں پہلا یونین ایکٹ بنا۔ مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے ان کا تبادلہ کیرج شاپ مغلپورہ لاہور میں کر دیا گیا اور وہ 1930ء میں لاہور آ گئے جہاں وہ 70 برس تک رہے اس وقت ریلوے میں دو یونینز کام کر رہی تھیں جس میں NWR یونین بھی تھی جس میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کر دیا اور اس یونین میں ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے۔ بعد میں ان کا رابطہ کمیونسٹ پارٹی سے ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے ہو گیا۔
مرزا ابراہیم نے بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی والوں نے خوب پڑھایا۔ سرمایہ، محنت، مذہب کے علاوہ سرپلس ویلیو اور مزدور طبقہ کے استحصال کے بارے میں بتایا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے بعد میں پارٹی نے کانگریس کے ساتھ مل کر ریلوے میں فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی جس کے بانیوں میں وہ شامل رہے اور اس کے سینئر نائب صدر بنے جب کہ صدر وی وی گری بنے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے۔ اس زمانے میں انگریز سامراج کے خلاف نفرت اور بغاوت زوروں پر تھی۔ روس میں 1917ء میں انقلاب آ چکا تھا۔ جس کی لپیٹ میں ایشیائی ممالک اور پورے ہندوستان کے لوگ شامل تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ان کو فارغ کر دیا جائے جس کے خلاف ریلوے مینز فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔ 1946ء میں ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا۔ اس دوران دہلی میں پولیس ملازمین نے ہڑتال کر دی جب کہ نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کر دی۔ ریلوے مین فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی۔ یکم مئی 1946ء کو یوم مئی کے موقع پر زبردست جلسے کے بعد صبح 7 بجے تا 11 بجے تک ریل کا پہیہ جام کر دیا گیا اور پھر 27 جون 1946ء کو رات بارہ بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس دے دیا گیا اسی طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فیڈریشن سے ملحقہ بعض یونینز نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا پھر اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین سے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سربراہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔ 96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فیصلہ دیا اور اسٹرائیک فنڈ بھی دیا۔
مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں اور کام بھی کیا جن سے ملاقاتیں رہیں ان میں گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، خان لیاقت علی خان، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، محمد علی جوہر اور شوکت علی سمیت کئی رہنما شامل ہیں۔ جب کہ جن کے ساتھ کام کیا جن کے ساتھ جیل کاٹی ان میں سجاد ظہیر، حسن ناصر، محمود الحق عثمانی، کیفی اعظمی، دادا امیر حیدر، دادا فیروزالدین منصور، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، علی سردار جعفری، سوبھو گیان چندانی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، عبدالصمد اچکزئی، مسعود کھدر پوش، حمید اختر، کیفی اعظمی، حسن حمیدی، زین الدین خان مرزا محمد کاظم لودھی، خورشید احمد، یوسف بلوچ سمیت کئی رہنما شامل ہیں۔
تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات ہوئی انھوں نے پیشکش کی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں انھیں وزارت محنت کا قلمدان دیا جائے گا۔ انھوں نے انکار کر دیا اور یوں ان کا پاکستانی حکمرانوں سے ٹکراؤ ہو گیا اور انھیں دسمبر 1947ء میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔
انھیں شاہی قلعہ میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد پھر سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ انھیں 1949ء میں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ پھر 1951ء میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے ان کا مقابلہ مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی سے تھا۔ اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے۔ مرزا ابراہیم کے حامیوں اور محنت کشوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے اور ان کی کامیابی کا اعلان کیا گیا مگر بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے احمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دے دیا۔
مرزا ابراہیم کے ڈھائی ہزار ووٹوں کو رد کر دیا گیا اور یوں ملک میں پہلی مرتبہ جھرلو الیکشن یا انتخابی دھاندلی کی بنیاد رکھی گئی۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر مرزا ابراہیم گرفتار کر لیے گئے۔ مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم نے 17 مرتبہ جیل کاٹی اور 6 مرتبہ قلعہ میں نظر بند رہے۔ انھوں نے 20 برس سے زائد جیل کاٹی اور ہمیشہ (C) کلاس کے قیدی رہے۔ برف پر لٹایا گیا۔ الیکٹرک شاک دیے گئے۔ اس دوران ان کی ملاقات حسن ناصر سے بھی رہی جن کو بعد میں ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا۔ ایوب خان کے دور حکومت میں 1967ء میں ریلوے کی ملک گیر ہڑتال بھی ان کا کارنامہ تھا جو 13 روز تک جاری رہی اور ملک بھر میں کوئی ٹرین نہ چل سکی۔
1970ء میں پیپلز پارٹی نے الیکشن لڑا، مرزا ابراہیم کو بھٹو نے پیشکش کی کہ وہ پارٹی میں شامل ہو جائیں تو انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1975ء میں ریلوے ورکشاپوں میں پہلی مرتبہ ریفرنڈم ہوا جہاں ان کی ریلوے ورکرز یونین بھاری اکثریت سے جیت گئی اور سودے کار ایجنٹ مقرر ہوئی۔ انھوں نے ریلوے ملازمین کے لیے بہتر شرائط کے لیے ایک اچھا چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروایا۔ انھوں نے ریلوے سمیت ملک بھر کے محنت کشوں کے لیے بڑی طویل لمبی اور کٹھن جدوجہد کی اور ان کو کئی ایک حقوق دلوائے جن میں پینشن کا حق، گریجویٹی، میڈیکل اور تعلیمی سہولتوں کے علاوہ حق ہڑتال، چھٹیوں میں اضافہ اور دیگر کئی مطالبات شامل ہیں۔ وہ ملکی سیاست کی نہج سے بھی پریشان تھے۔ وہ بھوک، غربت، جہالت، بیماری اور بیروزگاری کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ آخری دو سالوں میں انھوں نے کراچی کے متعدد دورے کیے اور کئی سیاسی کمیونسٹ رہنماؤں اور گروپس سے مل کر انھیں اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی بیوی اور بچوں کے لیے ملک بھر میں کوئی پلاٹ اور مکان حاصل نہیں کیا۔ کوئی سودے بازی نہ کی اور جدوجہد کرتے رہے وہ جس طرح خالی ہاتھ آئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ چلے گئے۔
مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999ء کروڑوں محنت کشوں کو سوگوار کر گیا۔۔۔۔ ان کی کٹھن اور مشکل زندگی کو سلام۔۔۔۔!
برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی مرزا محمد ابراہیم کو پاکستان کے محنت کشوں سے بچھڑے ہوئے 14 برس ہو گئے ہیں ان چودہ برسوں میں حکومتی اداروں سمیت حکمرانوں اور ریلوے انتظامیہ نے پاکستان ریلوے کا بیڑا غرق کردیا۔ مرزا ابراہیم کے11 اگست 1999ء میں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اکتوبر میں ایک مرتبہ پھر ملک پر فوجی حکمرانوں نے قبضہ کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے ساتھ ریلوے میں بھی کئی حاضر اور ریٹائرڈ جنرلوں کو ساتھ لے آئے۔ ریلوے کا وزیر ریٹائرڈ جنرل، چیئرمین ایک جنرل، جنرل منیجر ایک جنرل۔ چیف پرنسپل آفیسر حاضر سروس بریگیڈیئر اسی طرح ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ورکشاپ بھی جنرل کو لگا دیا گیا۔ جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملازمین کی برطرفی کا صدارتی آرڈیننس 2000ء میں رفیق تارڑ کے دستخط سے جاری کر دیا اور ریلوے سے ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف اور ریٹائر کر دیا گیا۔ ریلوے کے قیمتی اثاثوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا گیا۔ ٹریڈ یونین پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود ریلوے کے ملازمین نے مرزا ابراہیم کے بتائے ہوئے راستے پر جدوجہد جاری رکھی۔
مرزا ابراہیم 1905ء میں جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ اسی گاؤں میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اندر کمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اروڑا بھی پیدا ہوئے تھے۔ مرزا ابراہیم کے والد مرزا عبداللہ بیگ ایک بے زمین کسان تھے۔ ان کے بڑے بھائی مرزا اللہ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار روشنی کے نام سے نکالتے تھے۔
مرزا ابراہیم نے ابتدائی تعلیم مدرسے سے حاصل کی۔ 1920-21 میں خلافت موومنٹ تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا جو مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی قیادت میں پور ے ہندوستان میں چل رہی تھی۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا پھر بھٹہ مزدور پھر برج ورکشاپ جہلم میں 1926ء میں بطور معاون بھرتی ہو گئے۔ وہیں سے انھوں نے ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ 1911-1910ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے میں مزدوروں نے ہڑتال اور مظاہرے کیے اور 1920ء میں ریلوے میں یونین بن گئی۔ 1926ء میں پہلا یونین ایکٹ بنا۔ مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے ان کا تبادلہ کیرج شاپ مغلپورہ لاہور میں کر دیا گیا اور وہ 1930ء میں لاہور آ گئے جہاں وہ 70 برس تک رہے اس وقت ریلوے میں دو یونینز کام کر رہی تھیں جس میں NWR یونین بھی تھی جس میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کر دیا اور اس یونین میں ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے۔ بعد میں ان کا رابطہ کمیونسٹ پارٹی سے ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے ہو گیا۔
مرزا ابراہیم نے بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی والوں نے خوب پڑھایا۔ سرمایہ، محنت، مذہب کے علاوہ سرپلس ویلیو اور مزدور طبقہ کے استحصال کے بارے میں بتایا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے بعد میں پارٹی نے کانگریس کے ساتھ مل کر ریلوے میں فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی جس کے بانیوں میں وہ شامل رہے اور اس کے سینئر نائب صدر بنے جب کہ صدر وی وی گری بنے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے۔ اس زمانے میں انگریز سامراج کے خلاف نفرت اور بغاوت زوروں پر تھی۔ روس میں 1917ء میں انقلاب آ چکا تھا۔ جس کی لپیٹ میں ایشیائی ممالک اور پورے ہندوستان کے لوگ شامل تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ان کو فارغ کر دیا جائے جس کے خلاف ریلوے مینز فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔ 1946ء میں ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا۔ اس دوران دہلی میں پولیس ملازمین نے ہڑتال کر دی جب کہ نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کر دی۔ ریلوے مین فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی۔ یکم مئی 1946ء کو یوم مئی کے موقع پر زبردست جلسے کے بعد صبح 7 بجے تا 11 بجے تک ریل کا پہیہ جام کر دیا گیا اور پھر 27 جون 1946ء کو رات بارہ بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس دے دیا گیا اسی طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فیڈریشن سے ملحقہ بعض یونینز نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا پھر اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین سے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سربراہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔ 96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فیصلہ دیا اور اسٹرائیک فنڈ بھی دیا۔
مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں اور کام بھی کیا جن سے ملاقاتیں رہیں ان میں گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، خان لیاقت علی خان، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، محمد علی جوہر اور شوکت علی سمیت کئی رہنما شامل ہیں۔ جب کہ جن کے ساتھ کام کیا جن کے ساتھ جیل کاٹی ان میں سجاد ظہیر، حسن ناصر، محمود الحق عثمانی، کیفی اعظمی، دادا امیر حیدر، دادا فیروزالدین منصور، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، علی سردار جعفری، سوبھو گیان چندانی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، عبدالصمد اچکزئی، مسعود کھدر پوش، حمید اختر، کیفی اعظمی، حسن حمیدی، زین الدین خان مرزا محمد کاظم لودھی، خورشید احمد، یوسف بلوچ سمیت کئی رہنما شامل ہیں۔
تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات ہوئی انھوں نے پیشکش کی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں انھیں وزارت محنت کا قلمدان دیا جائے گا۔ انھوں نے انکار کر دیا اور یوں ان کا پاکستانی حکمرانوں سے ٹکراؤ ہو گیا اور انھیں دسمبر 1947ء میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔
انھیں شاہی قلعہ میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد پھر سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ انھیں 1949ء میں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ پھر 1951ء میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے ان کا مقابلہ مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی سے تھا۔ اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے۔ مرزا ابراہیم کے حامیوں اور محنت کشوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے اور ان کی کامیابی کا اعلان کیا گیا مگر بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے احمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دے دیا۔
مرزا ابراہیم کے ڈھائی ہزار ووٹوں کو رد کر دیا گیا اور یوں ملک میں پہلی مرتبہ جھرلو الیکشن یا انتخابی دھاندلی کی بنیاد رکھی گئی۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر مرزا ابراہیم گرفتار کر لیے گئے۔ مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم نے 17 مرتبہ جیل کاٹی اور 6 مرتبہ قلعہ میں نظر بند رہے۔ انھوں نے 20 برس سے زائد جیل کاٹی اور ہمیشہ (C) کلاس کے قیدی رہے۔ برف پر لٹایا گیا۔ الیکٹرک شاک دیے گئے۔ اس دوران ان کی ملاقات حسن ناصر سے بھی رہی جن کو بعد میں ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا۔ ایوب خان کے دور حکومت میں 1967ء میں ریلوے کی ملک گیر ہڑتال بھی ان کا کارنامہ تھا جو 13 روز تک جاری رہی اور ملک بھر میں کوئی ٹرین نہ چل سکی۔
1970ء میں پیپلز پارٹی نے الیکشن لڑا، مرزا ابراہیم کو بھٹو نے پیشکش کی کہ وہ پارٹی میں شامل ہو جائیں تو انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1975ء میں ریلوے ورکشاپوں میں پہلی مرتبہ ریفرنڈم ہوا جہاں ان کی ریلوے ورکرز یونین بھاری اکثریت سے جیت گئی اور سودے کار ایجنٹ مقرر ہوئی۔ انھوں نے ریلوے ملازمین کے لیے بہتر شرائط کے لیے ایک اچھا چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروایا۔ انھوں نے ریلوے سمیت ملک بھر کے محنت کشوں کے لیے بڑی طویل لمبی اور کٹھن جدوجہد کی اور ان کو کئی ایک حقوق دلوائے جن میں پینشن کا حق، گریجویٹی، میڈیکل اور تعلیمی سہولتوں کے علاوہ حق ہڑتال، چھٹیوں میں اضافہ اور دیگر کئی مطالبات شامل ہیں۔ وہ ملکی سیاست کی نہج سے بھی پریشان تھے۔ وہ بھوک، غربت، جہالت، بیماری اور بیروزگاری کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ آخری دو سالوں میں انھوں نے کراچی کے متعدد دورے کیے اور کئی سیاسی کمیونسٹ رہنماؤں اور گروپس سے مل کر انھیں اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی بیوی اور بچوں کے لیے ملک بھر میں کوئی پلاٹ اور مکان حاصل نہیں کیا۔ کوئی سودے بازی نہ کی اور جدوجہد کرتے رہے وہ جس طرح خالی ہاتھ آئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ چلے گئے۔
مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999ء کروڑوں محنت کشوں کو سوگوار کر گیا۔۔۔۔ ان کی کٹھن اور مشکل زندگی کو سلام۔۔۔۔!