پی ایس ایل فور اور پاکستان جیت گیا

پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن نے سری لنکن ٹیم کے حملے کے بعد لگنے والے داغ کو دھو ڈالا


پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن نے سری لنکن ٹیم کے حملے کے بعد لگنے والے داغ کو دھو ڈالا

پاکستان سپر لیگ کے آٹھ میچز کا دبئی سے پاکستان منتقل ہونا اور تمام غیر ملکی کھلاڑیوں کا کراچی میں میچز کھیلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان واقعی ایک پر امن ملک ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے سفر کا آغاز 2016 میں دبئی کے کرکٹ گراؤنڈ سے ہوا جہاں پہلا میچ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان کھیلا گیا۔ یہ اس سفر کا آغاز تھا جس میں پاکستان کے لیے بے شمار کامیابیاں چھپی تھیں، اس سفر کو شروع کرنے میں سابق چیئرمین بورڈ نجم سیٹھی کا اگر نام نہ لیا جائے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔



دبئی میں پی ایس ایل کے میچز کرانے سے لے کر پاکستان لانے تک سابق چیئرمین کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پہلے سیزن کے تمام میچز بشمول فائنل بھی صرف دبئی اور شارجہ تک محدود رہے اور فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دے کر پہلا ٹائٹل اپنے نام کیا۔



2017 میں پاکستان سپر لیگ کا دوسرا سیزن کھیلا گیا۔ اس بار لیگ میچز تو صرف دبئی اور شارجہ میں کھیلے گئے تاہم ایونٹ کو پاکستان منتقل کرنے کی بنیاد فائنل میچ سے ڈالی گئی۔ 2017 کا فائنل لاہور میں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان کھیلا گیا جس میں ٹرافی کا تاج ڈیرن سمی کی قیادت میں پشاور زلمی کے سر سجا۔ لاہور میں کھیلے گئے فائنل میں بہت سے غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے معذرت کرلی اور اس کی بڑی وجہ صرف کھلاڑیوں کے ذہن میں پاکستان کا وہ تاثر تھا جو سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد ابھرا تھا۔



2018 میں پاکستان سپر لیگ کا تیسرا ایڈیشن کھیلا گیا۔ اس بار بھی لیگ میچز کےلیے دبئی اور شارجہ کو ترجیح دی گئی لیکن بورڈ کی کاوشوں سے ایلیمینیٹر راؤنڈ لاہور میں اور فائنل کراچی میں کھیلا گیا جس میں ایک بار اسلام آباد یونائیٹڈ نے فتح کو گلے لگایا۔ کرکٹ کو ترسے ہوئے عوام نے نہ صرف غیرملکی کھلاڑیوں کا زبردست استقبال کیا بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کے پاکستان میں واپس آنے کے فیصلے کو بھی سراہا۔ اس بار بھی کیون پیٹرسن اور شین واٹسن جیسے بڑے ناموں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا، لیکن ان تمام کھلاڑیوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اگلی بار وہ پاکستان ضرور آئیں گے۔

''امید پر دنیا قائم ہے'' کے مصداق، بالآخر 2019 میں پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن نے سری لنکن ٹیم کے حملے کے بعد لگنے والے داغ کو دھو ڈالا۔ اس بار کسی غیر ملکی کھلاڑی نے سیکیورٹی خدشات کو جواز بناکر پاکستان آنے سے انکار نہیں کیا۔ اس سیزن میں پاکستان سپر لیگ کے 8 میچز کراچی میں کھیلے گئے جن میں شائقین کا جوش و خروش دیکھنے کا قابل تھا۔



اتوار کو پی ایس ایل فائنل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پشاور زلمی کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ کراچی میں کھیلے گئے میچ میں تماشائیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے تمام کھلاڑیوں کا شاندار استقبال کیا جب کہ اختتامی تقریب میں فنکاروں کی پرفارمنس نے شائقین کے دل بھی جیت لیے۔





شین واٹسن، ڈیرن سیمی، کرس جورڈن، الیکس ہیلز، ڈی جے براوو، کیرن پولارڈ اور کولن انگرام سمیت بہت سے غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آکر دنیا کو بتادیا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں۔



غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آکر سیکیورٹی اقدامات پر جس اعتماد کا اظہار کیا وہ 3 سال کی جدوجہد اور پاکستانی شائقین کی جانب سے ملنے والی محبت کا نتیجہ ہے۔



کراچی میں ہونے والے میچز میں ہمیں جس قدر شائقین کا جوش اور پذیرائی دیکھنے کو ملی وہ یقیناً ستائش کے قابل ہے۔ شہر قائد میں ہونے والے تمام میچز میں گراؤنڈ شائقین سے بھرے ہوئے ملے تاہم یہ جوش اور جذبہ دبئی اور شارجہ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آیا۔



وزیراعظم عمران خان نے عوام کے اسی جذبے کو محسوس کرتے ہوئے آئندہ پاکستان سپر لیگ کے تمام میچز پاکستان میں کرانے کا اعلان کیا ہے، وزیراعظم کا یہ اعلان انتہائی خوش آئند ہے اور ملک میں مکمل کرکٹ کی بحالی کےلیے بہت ضروری بھی ہے۔



پاکستان سپر لیگ اب ایک برانڈ بند چکی ہے لہذا اب اس کا مکمل طور پر ملک میں آنا بہت ضروری ہے۔ امید کرتے ہیں کہ پی ایس ایل کے بعد ملک میں انٹرنیشنل ٹیمیں ایک بار پھر میچز کھیلنے آئیں گی اور آئندہ سال پی ایس ایل میں تمام غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آئیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں