بُک شیلف
اجمل سراج کے فن اور حیثیت پر تو کوئی سوال نہیں، مگر اُن کا مجموعہ اشاعت و طباعت کے معیارات پر شاید پورا نہیں اترتا۔
''الفراق'' (شعری مجموعہ)
شاعر: اجمل سراج
زیراہتمام: انجمن فروغ ادب بحرین
صفحات: 100
قیمت: 200
موجودہ دور کے غزل گو شعرا میں اجمل سراج ایک مستند اور مقبول نام ہیں۔ صحافت بھی اُن کی شناخت کا مضبوط حوالہ ہے۔ بہ طور قطعہ نگار برسوں سے خیالات کو شعری پیراہن میں پیش کر رہے ہیں۔ اُن کا پہلا مجموعہ ''اور میں سوچتا رہ گیا'' ناقدین اور قارئین سے پزیرائی حاصل کرچکا ہے۔ ''الفراق'' اُن کا دوسرا مجموعہ ہے۔
سادہ مگر پُراثر لفظیات، روانی اور موسیقیت اُن کے کلام کی پہچان ہے۔ وہ روزمرہ کے لب و لہجے کو شاعری کا جُزو بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ نظریاتی آدمی ضرور ہیں، لیکن پرچارک نہیں۔ خیال کو اِس خوبی سے بحر اور قافیے میں باندھتے ہیں کہ بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ان ہی خوبیوں کی وجہ سے، ٹھیک پہلے مجموعے کے مانند، قارئین اُن کی نئی کتاب کے بھی منتظر تھے۔
مجموعے میں اُن کی 66 غزلیں شامل ہیں۔ ڈاکٹر ضیا الحسن کا مضمون ان کے فن کی بابت کتاب میں موجود ہے۔ پہلے اور دوسرے مجموعے کے جائزے میں جہاں ایک تسلسل دکھائی دیتا ہے، وہیں گہرائی میں ارتقائی عمل کے نشانات بھی ملتے ہیں۔
اجمل سراج کے فن اور حیثیت پر تو کوئی سوال نہیں، وہ ایک سنجیدہ شاعر ہیں، مگر اُن کا یہ مجموعہ اشاعت و طباعت کے معیارات پر شاید پورا نہیں اترتا۔ سرورق میں بہتری کا واضح امکان ہے۔ پروف کی غلطیاں بھی ہیں۔ ناشر کی جانب سے ایک اچھے شاعر کے مجموعے کو مناسب ڈھب پر پیش کرنا ازحد ضروری ہے، خصوصاً مطالعے کے گھٹتے رجحان اور کتابوں سے دوری کے اس زمانے میں۔
''گویم مشکل'' (یادداشتیں)
مصنف: سلیم کاشمیری
ناشر: ویلکم بک پورٹ، کراچی
صفحات:127
قیمت:400
یادداشتوں کا مطالعہ، خصوصاً جب اُنھیں سادہ اور دل چسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہو، وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوتا ہے۔ ''گویم مشکل'' بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے کہ اِس کے مصنف کو اپنے خیالات اختصار، روانی اور فنکارانہ مہارت کے ساتھ قلم بند کرنے کا ہنر آتا ہے۔
یہ سلیم کاشمیری کی چوتھی کاوش ہے۔ اِس سے قبل اُن کی تین کتابیں ''امارات کے لیل و نہار''، ''سفر کہانی'' اور ''بے نظر بھٹو کیوں شہید ہوئیں'' شایع ہوچکی ہیں۔ سلیم کاشمیری معروف ادیب اور ڈراما نگار، حمید کاشمیری کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اُن کا شمار محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ یادداشتوں پر مشتمل اِس کتاب میں مضامین کی طوالت میں تنوع ہے۔ کچھ ٹکڑے فقط چند سطروں پر مشتمل ہیں، چند چھے سات صفحات پر پھیلے ہیں۔
یہ مضامین ایک جانب اُن کے تجربات، مشاہدات اور خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں ادبی ذائقہ بھی رکھتے ہیں۔ چوں کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی ایئرلائنز سے منسلک رہے، تو اُن دنوں کی یادیں بھی کتاب میں ملتی ہیں۔ ساتھ ہی کشمیر کہ خود کشمیری ہیں، اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا ذکر بھی آتا ہے۔ مضامین کے عنوانات بڑے ہی دل چسپ ہیں۔
کتاب گرد پوش کے ساتھ ہے۔ کاغذ معیاری ہے، البتہ قیمت کچھ زیادہ لگتی ہے۔
خزینہ قصرشادانی
(بیاد ڈاکٹرعندلیب شادانی)
مرتب: حیات نظامی
اشاعت: 2013ء
قیمت:250روپے
صفحات:132
تقسیم کار:ویلکم بک پورٹ اردو بازار، کراچی
عندلیب شادانی ان بڑے ادیبوں میں سے ایک تھے جن کا کام انھیں بہت سوں سے منفرد کرتا تھا۔
شادانی نے مختلف جہتوں پر طبع آزمائی کی ہے مگر چار اصناف خصوصاً اُن کے پیش نظر رہیں،شاعری، افسانہ، تنقید اور تحقیق۔حیات نظامی شاعروادیب ہیں اور مشرقی پاکستان کے افسانہ نگار واحدنظامی کے صاحب زادے ہیں۔ حیات نظامی نے عندلیب شادانی سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اُن کے شذرات کو یکجا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے مشفق خواجہ کے ادارے مکتبۂ اسلوب سے پروفیسر نظیرصدیقی کی کتاب ''ڈاکٹرعندلیب شادانی ایک مطالعہ'' شائع ہوچکی ہے۔
ڈاکٹرعندلیب شادانی نے اپنی شاعری کا آغاز نظم سے کیا اور ان کی پہلی نظم ''تصویربہار'' تھی جو انھوں نے دیال سنگھ کالج لاہور کی بزمِ ادب کے ایک جلسے میں پڑھی تھی۔انھوں نے اپنی غزلوں میں تازگی اور نغمگی کا احساس دلایا اور حسُن آرائی اور دلکشی پیدا کرکے انفرادی لب ولہجہ اپنایا۔ بحیثیت نقاد، محقق ونثر نگار بھی شادانی کو یہ کمال حاصل رہا کہ انھوں نے جس صنف میں اپنی صلاحیت دکھائی اُسے قابل فہم بنادیا۔ بحیثیت محقق تاریخی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کے تنقیدی مضامین پڑھ کر بھی اُن کے تحقیقی مزاج کا پتا چلتا ہے۔
شادانی تشبیہ واستعارے کے بجائے عام بول چال کی زبان سے اپنی نثر کو دلکش بنانے کا ہُنر جانتے تھے۔انھوں نے ثقیل الفاظ، متروک لفظوں سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ حیات نظامی نے اپنی اس مرتبہ کتاب میں کوشش کی ہے کہ ڈاکٹرعندلیب شادانی کو یادکیا جائے اور اُن کے کاموں پرتوجہ کی جائے تاکہ ہمارے عہد کا ایک گمشدہ باب واگزار ہوسکے۔کتاب کا سرورق انتہائی سادہ اور باذوق ہے۔ ڈاکٹرعندلیب شادانی سے محبت کرنے والوں کے لیے اس میں خاصا مواد موجود ہے۔مگراب بھی بہت گنجائش باقی ہے۔
''مہردر: بلوچستان کا عکس'' (کتابی سلسلہ)
مینیجنگ ایڈیٹر: پروین ناز
ترتیب: عابد میر۔ناشر: مہردر، کوئٹہ،
صفحات: 376،قیمت: درج نہیں ہے
''بلوچستان میں ذرایع ابلاغ کا سفر'' ایک ایسا موضوع ، جس کی بابت دیگر صوبوں میں بسنے والوں کی معلومات لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ معروضی حالات اور حقائق سے لاعلم کسی غیربلوچستانی کے لیے اِس پر قلم اٹھانا دشوار ہے۔ اِس مجلے کی پہلی، اور اہم ترین، خوبی یہی ہے کہ اِسے مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن، کوئٹہ کے زیراہتمام شایع کیا گیا ہے، جس چلانے والے افراد حقائق کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اِسے پڑھنے کے بعد پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مہردر کی ٹیم نے ''مہرنامہ'' کے زیر عنوان ایک معیاری پرچہ ''بلوچستانی ادب کا پیش کار'' کے زیرعنوان شایع کیا تھا۔
اِس مجلے کا انتساب دنیا بھر میں فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں کے نام کیا گیا ہے۔ آغاز معروف ادیب، ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ''کارل مارکس کی داستان حیات'' کے ایک ٹکڑے سے ہوتا ہے۔ پیش لفظ میں صحافتی جدوجہد میں اہل بلوچستان کی قربانیوں کا ریکارڈ مرتب کی خواہش کو، کتاب کا محرک قرار دیا گیا ہے۔
''پیش لفظ'' کے آگے ایک پورا جہاں آباد ہے۔ کتاب مختلف حصوں میں بٹی ہے۔ پہلا مضمون ''بلوچستان میں صحافت کا آغاز و ارتقا'' تصدق حسین کوثر کے قلم سے نکلا ہے۔ کچھ آگے بڑھیں، تو ارشاد مستوئی ''بلوچستان کی اہم ابتدائی صحافی شخصیات'' کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ''جدید صحافت'' کے باب میں نو مضامین ہیں۔ دیگر ابواب ''بلوچستان اور میڈیا''، ''ملکی صحافت''، ''احساس ذمے داری''، ''صحافت پابند سلاسل''، ''گواہی''، ''صحافت کا اعتماد''، ''سوشل میڈیا''، ''صحافت اور دانش''، ''حل کی جانب'' مختلف لکھاریوں کے مضامین پر مشتمل ہیں۔
''پروفائلز'' کے ٹکڑے میں بلوچستان، پاکستان اور عالمی دنیا سے بعض صحافیوں کی کہانیاں، جو انفرادیت کی حامل ہیں، شامل کی گئی ہیں۔ ''ایک ہم ہی نہیں کے'' کے زیرعنوان دیگر ممالک کے ذرایع ابلاغ کو درپیش چیلینجز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آخری صفحات میں کہانیاں ہیں، شعرا کی نظمیں ہیں۔
کتاب میں غیربلوچستانی مضمون نگاروں کے علاوہ غیرملکی لکھاریوں کی تحریریں بھی شامل ہیں، جو مہردر کی ٹیم کے نقطۂ نظر کو نئے پہلو سے پرکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ بلوچستان میں ذرایع ابلاغ کا دشوار سفر بیان کرنے کی یہ کوشش بلاشبہہ قابل تعریف ہے، جس کے لیے عابد میر اور پروین ناز مبارک باد کے مستحق ہیں۔
شاعر: اجمل سراج
زیراہتمام: انجمن فروغ ادب بحرین
صفحات: 100
قیمت: 200
موجودہ دور کے غزل گو شعرا میں اجمل سراج ایک مستند اور مقبول نام ہیں۔ صحافت بھی اُن کی شناخت کا مضبوط حوالہ ہے۔ بہ طور قطعہ نگار برسوں سے خیالات کو شعری پیراہن میں پیش کر رہے ہیں۔ اُن کا پہلا مجموعہ ''اور میں سوچتا رہ گیا'' ناقدین اور قارئین سے پزیرائی حاصل کرچکا ہے۔ ''الفراق'' اُن کا دوسرا مجموعہ ہے۔
سادہ مگر پُراثر لفظیات، روانی اور موسیقیت اُن کے کلام کی پہچان ہے۔ وہ روزمرہ کے لب و لہجے کو شاعری کا جُزو بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ نظریاتی آدمی ضرور ہیں، لیکن پرچارک نہیں۔ خیال کو اِس خوبی سے بحر اور قافیے میں باندھتے ہیں کہ بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ان ہی خوبیوں کی وجہ سے، ٹھیک پہلے مجموعے کے مانند، قارئین اُن کی نئی کتاب کے بھی منتظر تھے۔
مجموعے میں اُن کی 66 غزلیں شامل ہیں۔ ڈاکٹر ضیا الحسن کا مضمون ان کے فن کی بابت کتاب میں موجود ہے۔ پہلے اور دوسرے مجموعے کے جائزے میں جہاں ایک تسلسل دکھائی دیتا ہے، وہیں گہرائی میں ارتقائی عمل کے نشانات بھی ملتے ہیں۔
اجمل سراج کے فن اور حیثیت پر تو کوئی سوال نہیں، وہ ایک سنجیدہ شاعر ہیں، مگر اُن کا یہ مجموعہ اشاعت و طباعت کے معیارات پر شاید پورا نہیں اترتا۔ سرورق میں بہتری کا واضح امکان ہے۔ پروف کی غلطیاں بھی ہیں۔ ناشر کی جانب سے ایک اچھے شاعر کے مجموعے کو مناسب ڈھب پر پیش کرنا ازحد ضروری ہے، خصوصاً مطالعے کے گھٹتے رجحان اور کتابوں سے دوری کے اس زمانے میں۔
''گویم مشکل'' (یادداشتیں)
مصنف: سلیم کاشمیری
ناشر: ویلکم بک پورٹ، کراچی
صفحات:127
قیمت:400
یادداشتوں کا مطالعہ، خصوصاً جب اُنھیں سادہ اور دل چسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہو، وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوتا ہے۔ ''گویم مشکل'' بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے کہ اِس کے مصنف کو اپنے خیالات اختصار، روانی اور فنکارانہ مہارت کے ساتھ قلم بند کرنے کا ہنر آتا ہے۔
یہ سلیم کاشمیری کی چوتھی کاوش ہے۔ اِس سے قبل اُن کی تین کتابیں ''امارات کے لیل و نہار''، ''سفر کہانی'' اور ''بے نظر بھٹو کیوں شہید ہوئیں'' شایع ہوچکی ہیں۔ سلیم کاشمیری معروف ادیب اور ڈراما نگار، حمید کاشمیری کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اُن کا شمار محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ یادداشتوں پر مشتمل اِس کتاب میں مضامین کی طوالت میں تنوع ہے۔ کچھ ٹکڑے فقط چند سطروں پر مشتمل ہیں، چند چھے سات صفحات پر پھیلے ہیں۔
یہ مضامین ایک جانب اُن کے تجربات، مشاہدات اور خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں ادبی ذائقہ بھی رکھتے ہیں۔ چوں کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی ایئرلائنز سے منسلک رہے، تو اُن دنوں کی یادیں بھی کتاب میں ملتی ہیں۔ ساتھ ہی کشمیر کہ خود کشمیری ہیں، اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا ذکر بھی آتا ہے۔ مضامین کے عنوانات بڑے ہی دل چسپ ہیں۔
کتاب گرد پوش کے ساتھ ہے۔ کاغذ معیاری ہے، البتہ قیمت کچھ زیادہ لگتی ہے۔
خزینہ قصرشادانی
(بیاد ڈاکٹرعندلیب شادانی)
مرتب: حیات نظامی
اشاعت: 2013ء
قیمت:250روپے
صفحات:132
تقسیم کار:ویلکم بک پورٹ اردو بازار، کراچی
عندلیب شادانی ان بڑے ادیبوں میں سے ایک تھے جن کا کام انھیں بہت سوں سے منفرد کرتا تھا۔
شادانی نے مختلف جہتوں پر طبع آزمائی کی ہے مگر چار اصناف خصوصاً اُن کے پیش نظر رہیں،شاعری، افسانہ، تنقید اور تحقیق۔حیات نظامی شاعروادیب ہیں اور مشرقی پاکستان کے افسانہ نگار واحدنظامی کے صاحب زادے ہیں۔ حیات نظامی نے عندلیب شادانی سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اُن کے شذرات کو یکجا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے مشفق خواجہ کے ادارے مکتبۂ اسلوب سے پروفیسر نظیرصدیقی کی کتاب ''ڈاکٹرعندلیب شادانی ایک مطالعہ'' شائع ہوچکی ہے۔
ڈاکٹرعندلیب شادانی نے اپنی شاعری کا آغاز نظم سے کیا اور ان کی پہلی نظم ''تصویربہار'' تھی جو انھوں نے دیال سنگھ کالج لاہور کی بزمِ ادب کے ایک جلسے میں پڑھی تھی۔انھوں نے اپنی غزلوں میں تازگی اور نغمگی کا احساس دلایا اور حسُن آرائی اور دلکشی پیدا کرکے انفرادی لب ولہجہ اپنایا۔ بحیثیت نقاد، محقق ونثر نگار بھی شادانی کو یہ کمال حاصل رہا کہ انھوں نے جس صنف میں اپنی صلاحیت دکھائی اُسے قابل فہم بنادیا۔ بحیثیت محقق تاریخی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کے تنقیدی مضامین پڑھ کر بھی اُن کے تحقیقی مزاج کا پتا چلتا ہے۔
شادانی تشبیہ واستعارے کے بجائے عام بول چال کی زبان سے اپنی نثر کو دلکش بنانے کا ہُنر جانتے تھے۔انھوں نے ثقیل الفاظ، متروک لفظوں سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ حیات نظامی نے اپنی اس مرتبہ کتاب میں کوشش کی ہے کہ ڈاکٹرعندلیب شادانی کو یادکیا جائے اور اُن کے کاموں پرتوجہ کی جائے تاکہ ہمارے عہد کا ایک گمشدہ باب واگزار ہوسکے۔کتاب کا سرورق انتہائی سادہ اور باذوق ہے۔ ڈاکٹرعندلیب شادانی سے محبت کرنے والوں کے لیے اس میں خاصا مواد موجود ہے۔مگراب بھی بہت گنجائش باقی ہے۔
''مہردر: بلوچستان کا عکس'' (کتابی سلسلہ)
مینیجنگ ایڈیٹر: پروین ناز
ترتیب: عابد میر۔ناشر: مہردر، کوئٹہ،
صفحات: 376،قیمت: درج نہیں ہے
''بلوچستان میں ذرایع ابلاغ کا سفر'' ایک ایسا موضوع ، جس کی بابت دیگر صوبوں میں بسنے والوں کی معلومات لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ معروضی حالات اور حقائق سے لاعلم کسی غیربلوچستانی کے لیے اِس پر قلم اٹھانا دشوار ہے۔ اِس مجلے کی پہلی، اور اہم ترین، خوبی یہی ہے کہ اِسے مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن، کوئٹہ کے زیراہتمام شایع کیا گیا ہے، جس چلانے والے افراد حقائق کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اِسے پڑھنے کے بعد پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مہردر کی ٹیم نے ''مہرنامہ'' کے زیر عنوان ایک معیاری پرچہ ''بلوچستانی ادب کا پیش کار'' کے زیرعنوان شایع کیا تھا۔
اِس مجلے کا انتساب دنیا بھر میں فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں کے نام کیا گیا ہے۔ آغاز معروف ادیب، ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ''کارل مارکس کی داستان حیات'' کے ایک ٹکڑے سے ہوتا ہے۔ پیش لفظ میں صحافتی جدوجہد میں اہل بلوچستان کی قربانیوں کا ریکارڈ مرتب کی خواہش کو، کتاب کا محرک قرار دیا گیا ہے۔
''پیش لفظ'' کے آگے ایک پورا جہاں آباد ہے۔ کتاب مختلف حصوں میں بٹی ہے۔ پہلا مضمون ''بلوچستان میں صحافت کا آغاز و ارتقا'' تصدق حسین کوثر کے قلم سے نکلا ہے۔ کچھ آگے بڑھیں، تو ارشاد مستوئی ''بلوچستان کی اہم ابتدائی صحافی شخصیات'' کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ''جدید صحافت'' کے باب میں نو مضامین ہیں۔ دیگر ابواب ''بلوچستان اور میڈیا''، ''ملکی صحافت''، ''احساس ذمے داری''، ''صحافت پابند سلاسل''، ''گواہی''، ''صحافت کا اعتماد''، ''سوشل میڈیا''، ''صحافت اور دانش''، ''حل کی جانب'' مختلف لکھاریوں کے مضامین پر مشتمل ہیں۔
''پروفائلز'' کے ٹکڑے میں بلوچستان، پاکستان اور عالمی دنیا سے بعض صحافیوں کی کہانیاں، جو انفرادیت کی حامل ہیں، شامل کی گئی ہیں۔ ''ایک ہم ہی نہیں کے'' کے زیرعنوان دیگر ممالک کے ذرایع ابلاغ کو درپیش چیلینجز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آخری صفحات میں کہانیاں ہیں، شعرا کی نظمیں ہیں۔
کتاب میں غیربلوچستانی مضمون نگاروں کے علاوہ غیرملکی لکھاریوں کی تحریریں بھی شامل ہیں، جو مہردر کی ٹیم کے نقطۂ نظر کو نئے پہلو سے پرکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ بلوچستان میں ذرایع ابلاغ کا دشوار سفر بیان کرنے کی یہ کوشش بلاشبہہ قابل تعریف ہے، جس کے لیے عابد میر اور پروین ناز مبارک باد کے مستحق ہیں۔