ہٹلر باہر نہیں میرے اندر ہے
گزشتہ تین دہائیوں میں ٹرمپ کے منہ سے جھڑنے والے ایسے بیش بہا اقوال زریں اس قدر ہیں کہ شائد ِخود انھیں بھی یاد نہ ہوں۔
اسٹیریو ٹائپنگ کے ویسے تو ڈکشنری میں کئی مطالب ہیں مگر انسانی تعلقات کے پس منظر میں اس کا مطلب ہے کسی بھی رنگ ، نسل، مذہب، قوم، طبقے اور علاقے کو من حیث المجموعی بلا تحقیق منفی انداز میں دیکھنا اور دکھانا اور پھر ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لینا اور اسے حق الیقین جان کے آگے بڑھانا۔
کرائسٹ چرچ کے دہشت گردانہ قتلِ عام کا حوالہ دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ یہ سانحہ اسٹیریو ٹائپنگ کا نتیجہ ہے۔ اس کے سبب اسلامک فوبیا پھیل رہا ہے۔مجموعی کردار کشی اور پروپیگنڈے کے منفی اور پرتشدد نتائج نکل رہے ہیں۔
کوئی کتنی بھی صفائی پیش کرے۔اس دنیا کے سفید نام نسل پرستوں کی نئی نسل ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا جدید نظریاتی امام تصور کرتی ہے۔کئی انتہا پسند ہندو ان کی مورتی کی پوجا کرتے ہیں۔کرائسٹ چرچ کے قاتل برینٹن ٹارانٹ نے سوشل میڈیا پر واردات سے قبل جو منشور شایع کیا اس میں کئی جید سفید فام نسل پرستوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام شناخت کے مشترکہ مقصد کا استعارہ ( سمبل ) ہیں۔
خود ٹرمپ نے بھی اس تاثر کو رد کرنے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔انھوں نے کرائسٹ چرچ سانحے کو دہشت گردی قرار دینے کے بجائے '' نفرت کا وحشیانہ مظاہرہ'' اور '' ہولناک قتلِ عام '' ضرور قرار دیا مگر جب پوچھا گیا کہ کیا سفید قوم پرستی ایک بڑھتا ہوا عالمی خطرہ ہے تو ٹرمپ نے کہا '' یہ کہنا درست نہ ہوگا۔یہ ایک بہت چھوٹے سے گروہ کی کارستانی ہے''۔
جب تنقید ہوئی کہ ٹرمپ نے کرائسٹ چرچ دہشت گردی کی مذمت میں بخل سے کام لیا تو وائٹ ہاؤس کے ترجمان مک ملوانی نے ان کے دفاع میں کہا کہ '' یہ کتنی بار کہنا پڑے گا کہ جناب صدر سفید نسل پرست نہیں ہیں''۔
میں مک ملوانی صاحب کی وضاحت پر ایمان لانے کو تیار ہوں مگر کیا کروں ٹرمپ کے نسلی اقوالِ زریں نگاہوں کے سامنے بیانیہ سمندر پر لاشے کی طرح تیر رہے ہیں۔اب سے تیس پینتیس برس پہلے جب ٹرمپ محض ایک کاروباری تھے اور متعدد املاک کے ساتھ ساتھ اٹلانٹا کے تاج محل کیسینو کے بھی مالک تھے تو انھوں نے کیسینو کے ایک سیاہ فام اکاؤنٹنٹ کے بارے میں فرمایا '' مجھے پسند نہیں کہ یہ میری آمدنی کا حساب کتاب رکھے ۔یہ انتہائی کاہل شخص ہے۔مگر اس کا بھی قصور نہیں۔کالے تو ہوتے ہی کاہل ہیں''۔
جب ٹرمپ صدارتی امیدوار بن گئے تو انھوں نے دسمبر دو ہزار پندرہ میں اعلان کیا کہ منتخب ہونے کے بعد وہ امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا دیں گے اور جو امریکی مسلمان ملک سے باہر ہوگا اسے بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔جب تک ہم اس نتیجے پر نہ پہنچ جائیں کہ یہ لوگ جہاد پر کیوں اندھا دھند یقین رکھتے ہیں اور دلیل سے کیوں عاری ہیں اور ان کے نزدیک انسانی جان کی قدر و قیمت کیوں نہیں۔
جب انھیں اگست دو ہزار سولہ میں باقاعدہ ریپبلیکن صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا تو اپنے خطاب میں آپ نے وعدہ کیا کہ صدر بنتے ہی میکسیکو سے ملنے والی سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے۔کیونکہ میکسیکو سے شریف لوگ کم اور ریپسٹ ، قاتل ، چور ، اچکے زیادہ آ رہے ہیں۔ایک اور موقعے پر فرمایا ''ہمیں ہیٹی یا افریقہ کے بیت الخلا سے نہیں ناروے جیسے ممالک سے ہجرت کرنے والوں کی ضرورت ہے''۔
گزشتہ تین دہائیوں میں ٹرمپ کے منہ سے جھڑنے والے ایسے بیش بہا اقوال زریں اس قدر ہیں کہ شائد ِخود انھیں بھی یاد نہ ہوں مگر دور کسی کونے کھدرے میں بیٹھا کوئی نسل پرست جب دنیا کے سب سے طاقتور آدمی کو اپنے نظریے کے پیچھے کھڑا دیکھتا ہے تو اس کے لیے ٹرمپ کے اقوال مقدس بن جاتے ہیں اور انھیں عملی جامہ پہنانا بلند کرداری کی علامت بن جاتا ہوگا۔تازہ ثبوت کرائسٹ چرچ کے قاتل کی جانب سے ٹرمپ کو مرشد کا درجہ دینا ہے۔
اسٹیریو ٹائپنگ یا ہر طبقے، رنگ ، نسل، نظریے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے برتری کا چشمہ لگا کے دنیا کو کیسے جہنم کتنی آسانی سے دھکیلا جا سکتا ہے۔اس کا سب سے جانا پہچانا مظہر ہٹلر ہے۔مگر ہٹلر ایک دن میں نہیں بنتا۔اگر ہم ہر وقت اپنے اور اپنے بچوں کی تربیت نہ کریں تو برتری کا خناس پولیو وائرس کی طرح حملہ آور ہو کر ہمارے ذہن کو معذور بنا سکتا ہے۔اور جب اس قماش کے لاکھوں ذہنی معذور یکجا ہو جاتے ہیں تو پھر وہ آس پاس کو بھی بھسم کر سکتے ہیں اور خود بھی ہو سکتے ہیں۔
ہٹلر سازی کا عمل گھر سے شروع ہوتا ہے، جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہماری ذات ، برادری ، ہمارا مذہب ، ہماری نسل ، ہمارا علاقہ ، ہمارا ملک سب سے برتر ہے اور ہمیں ایک خاص مشن پورا کرنا ہے اور باقیوں کو اپنے جیسا بنانا ہے، جو مزاحمت کرے اس پر غلبہ پانا ہے، شکست مان لے تو غلام بنا لینا ہے، نہ مانے تو نیست و نابود کر دینا ہے۔
مسلمان وحشی ہوتے ہیں، ہندو پلیت ہوتے ہیں، یہودی مسلمان دشمن،گھٹیا، سازشی، سود خور، حضرت عیسی کے صلیب کش ہیں، ملحد اخلاقی دیوالیہ اور بے راہرو ہوتے ہیں، سیاہ فام جرائم پیشہ ہوتے ہیں، چپٹی ناک والی قومیں سفاک ہوتی ہیں ، بھوری آنکھوں والے بے وفا ہوتے ہیں، گوریاں آسانی سے دام میں آ جاتی ہیں ، شودر کم ذات ہیں اور کمذات سے وفاداری عبث ہے، خواجہ سرا گناہ آلود زندگی گذارتے ہیں، ہم جنس پرستوں کو قتل کر دینا چاہیے، فلسطینی نام کی کوئی قوم روئے زمین پر نہیں بستی یہ محض افسانہ ہے، بنگالی غدار ہوتے تھے، قادیانی غدار ہوتے ہیں، چینی دھوکے باز کاروباری ہیں، عراقی یزیدی کافر ہیں اور انھیں غلام بنانا جائز ہے، سفید فام اقوام ہر شعبے میں اس لیے آگے ہیں کیونکہ وہ ذہنی اعتبار سے تمام نسلوں سے برتر ہیں، نہیں نہیں آریائی سب سے برتر نسل ہے۔
اتنی مثالیں ہیں کہ کتاب بن سکتی ہے۔پھر یہی وائرس ہماری درسی کتابوں میں گھس جاتا ہے اور ان درسی کتابوں سے ہمارے بچوں کے لاشعور کا حصہ بنایا جاتا ہے اور پھر ان کچے ذہنوں کو ایسے مرشد مل جاتے ہیں جو زہر کے اس پیالے کو ایک عقلی جواز کا خوان پوش اڑھا دیتے ہیں۔پھر ہر مذہب و تہذیب و نسل و علاقے کے یہی بچے یہ مشروب ِ آزار اپنی رگوں میں اتارتے اتارتے بیورو کریٹ ، جرنیل، سیاستداں ، علما بنتے ہیں اور اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
یوں القاعدہ ، داعش ، راشٹریہ سیوک سنگھ ، نیو نازی ، بدھسٹ برمی انتہا پسند ، ردوان کرادزچ ، ریاض بسرا ، ٹرمپ ، مودی ، نتین یاہو وجود میں آتے ہیں اور ان سب میں سے کسی ایک سے متاثر ہو کر اپنے تئیں کرہ ارض کو گھٹیا لوگوں سے پاک کرنے کا مشن لے کر اٹھنے والا کوئی تنِ تنہا فرد کرائسٹ چرچ کی مساجد میں لاشیں بچھانے والا نام نہاد سفید کرسچن یا الخلیل کی مسجدِ ابراہیم میں نمازیوں کو بھوننے والا نام نہاد یہودی یا پشاور کے چرچ میں پھٹنے والا نام نہاد مسلمان خود کش بمبار یا سمجھوتہ ایکسپریس کو نذرِ آتش کرنے والا ہندو نسل پرست یا روہنگیوں کی نسل کشی پر فخر کرنے والا نام نہاد بودھ راہب وجود میں آتا ہے۔
اور ہم جیسے لوگ وائرس کی ویکسین استعمال کرنے اور اپنی اور اپنے بچوں کی ذہنی پہرے داری و مسلسل تربیت کے بجائے قاتلوں اور آگ لگانے والوں کو کوستے ہوئے صفائیاں پیش کرتے رہ جاتے ہیں۔ نہیں نہیں یہ ہم میں سے نہیں۔۔۔۔
ہاں یہ تم میں سے ہی ہیں، مجھ میں سے ہی ہیں۔ ایک انگلی اس قاتل کی طرف اٹھاؤ گے تو اپنی ہی تین انگلیاں تمہاری طرف ہی مڑیں گی۔یقین نہ آئے تو ابھی اپنے ہاتھ کی انگلی میری جانب اٹھا کے دیکھ لو۔
ان تمام لوگوں اور ان کے زہریلے دماغوں کی بیخ کنی ممکن ہے۔مگر ابتدا اپنے دماغی ایکسرے کو پڑھنے سے کی جائے تو بہت بہتر، موثر اور دیرپا رہے گا۔اگر آپ صرف میری سننے اور اس پر بلا تحقیق آنکھ بند کر کے آمنا و صدقنا کہنے کے بجائے خود کچھ پڑھنے اور پرکھنے کا کشٹ اٹھا لیں اور کسی کے بارے میں اچھی بری رائے میرے کہنے کے بجائے خود ملنے کے بعد ہی قائم کریں تو اندر پلنے والے ہٹلر کا بندوبست ہو سکتا ہے۔اس سے زیادہ آسان نسخہ کوئی اور ہو تو بتائیے گا ضرور۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)