محمد ایاز سومرو کی سیاسی وسماجی جدوجہد

ایازسومرو نے اپنا سیاسی کیریئر 1971 میں یونین کونسل کا ممبر بن کر کیا۔ وہ


لیاقت راجپر March 19, 2019

ایاز سومرو کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا ان کا جنم شہداد کوٹ میں 31 دسمبر 1958 میں ہوا تھا ۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائلٹ ہائی اسکول لاڑکانہ سے پاس کرنے کے بعد بی اے اور ایم اے کے امتحانات گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے پاس کیے۔ ان میں وکیل بننے کی خواہش تھی کیونکہ اس دور میں جتنے بھی لوگ سیاست میں ہوتے تھے وہ زیادہ تر وکالت کے پیشے سے منسلک ہوتے تھے ۔

انھوں نے ایل ایل بی کرنے کے لیے لا کالج لاڑکانہ میں داخلہ حاصل کیا اور وہاں سے متعلقہ امتحان پاس کرنے کے بعد لاڑکانہ کے مشہور وکیل عبدالرزاق سومرو کے جونیئر بن کر کام شروع کردیا۔ دن رات محنت اور لگن کی وجہ سے وہ جلد ہی اس قابل ہوگئے کہ اپنے طور پر الگ مقدمات لڑنے لگیں۔

انھوں نے اسٹوڈنٹس سیاست میں بھرپور حصہ لیا جہاں سے ان کی تربیت ہوئی۔ وہ بڑے اچھے مقرر تھے اور اس پر ان کی خوبصورت شخصیت ، خوش لباسی، خوش گفتاری نے وہاں پر پڑھنے والے طلبا میں اپنی جگہ بنالی۔ ان کے لہجے میں پیار، اخلاق اور اپنائیت چھلکتی تھی جس کی وجہ سے لوگ ان کے گرویدہ بن جاتے اور پھر وہ انھیں جس سمت لے جاتے وہ چل پڑتے۔ اسٹوڈنٹس کی سیاست سے ان میں ایک اعتماد اور ذہنی مضبوطی پیدا ہوگئی جسے انھوں نے سیاسی جماعت پی پی پی میں استعمال کرکے جلد ہی پارٹی میں ایک مقام بنالیا۔

ایازسومرو نے اپنا سیاسی کیریئر 1971 میں یونین کونسل کا ممبر بن کر کیا۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر پہلے اپنی یوسی کا دورہ کرتے اور صفائی کا انتظام خود دیکھتے ، ان کے اچھے اور پیار بھرے لہجے اور اپنائیت والی طبیعت کی وجہ سے صفائی والا عملہ خوشی سے کام کرتا تھا۔ جب بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی بنائی تو اس میں سیلاب کی طرح لوگ شامل ہوئے جس میں ایاز سومرو بھی تھے۔ اس سیلاب میں اپنی جگہ بنانا کافی مشکل تھا مگر انھوں نے اپنی جوشیلی تقریروں سے پارٹی میں آہستہ آہستہ جگہ بنانی شروع کی، اس میں ان کا فن خطابت بہت کام آیا جس میں وفاداری اور محنت نے سونے پر سہاگہ والا کام کیا۔ایاز کے جذبے اور محنت کو دیکھتے ہوئے انھیں 1977 میں ضلع لاڑکانہ کے سپاف کا جنرل سیکریٹری بنادیا گیا اور ایک سال کے قلیل عرصے میں وہ سپاف لاڑکانہ ضلع کے صدر بن گئے۔

وہ اپنے ورکروں سے بھائیوں کی طرح مل کرکام کرتے تھے، ان کے مسائل اور ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایاز ایک طویل عرصے تک سپاف کے صدر رہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انھیں پورے سندھ کا جنرل سیکریٹری بھی بنایا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم بھٹو بھی ان کی وفاداری اور لوگوں سے اچھا رویہ رکھنے کی وجہ سے بہت خوش تھیں۔ ایک مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو ایک تقریر کے دوران ایاز کی خدمات کی بڑی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انھیں بچپن سے جانتی ہیں اور وہ پارٹی کے ان جان نثاروں میں ہیں جن کی وفاداریاں کبھی بھی خریدی نہیں جاسکتیں۔

وہ زیڈ اے بھٹو ٹرسٹ کے سیکریٹری بھی رہے تھے جس کی چیئرمین محترمہ بیگم نصرت بھٹو تھیں۔ حالانکہ کئی ذمے داریوں کے ہوتے ہوئے انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کے کاندھوں پر زیادہ وزن ہے یا وہ تھک گئے ہیں۔ وہ مسلسل دن رات پارٹی کے لیے، گھر والوں کے لیے، دوستوں اور رشتے داروں کے لیے کام کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنے گھر والوں کو دوستوں کو اور شہرکے لوگوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا اور جوکچھ بھی کام کرتے سب کے لیے ایک ہی ترجیح ہوتی تھی۔ جب کہ کئی مرتبہ ان کے خلاف اقربا پروری کے الزامات لگے مگر انھوں نے کبھی بھی ان کا جواب نہیں دیا مگر کام کرتے رہے۔ وہ کہتے تھے تھوڑے میں سے سب کو نہیں مل سکتا لیکن پھر بھی وہ سب ہی کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

وکالت کے پیشے سے منسلک رہتے ہوئے انھوں نے اپنی ایک شناخت بنائی اور وکیلوں کی بھلائی کے کئی کام سر انجام دیے جس کی وجہ سے وہ جب سے لاڑکانہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے پہلے جنرل سیکریٹری بنے اور پھر صدر منتخب ہوئے جس پر وہ ایک لمبا عرصہ فائز رہے۔ اگر وہ الیکشن نہیں لڑتے تو ان کے حمایت یافتہ پی پی کا امیدوار جیتے تھے مگر جیسے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے بارکے انتخابات پارٹی کو جیتنا مشکل ہوگیا، وہ سندھ بار کونسل میں بطور ممبر بنے۔ ان کی باتوں اور طبیعت میں اتنا پیار اور محبت تھی کہ وکیل ان سے الگ نہیں رہتے تھے۔

جب 1983 میں ایم آر ڈی موومنٹ شروع ہوئی تو اس میں انھوں نے بھی جلسوں اور جلوسوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دھواں دھار تقریریں بھی کیں اور اپنی گرفتاری پیش کی۔ انھیں پہلے سکھر سینٹرل جیل میں رکھا گیا اور مزید سبق سکھانے کے لیے مچھ جیل بھیجا گیا۔ اس کے بعد پھرکراچی جیل میں رکھا گیا۔ جیل کی سختیاں اور اذیتیں ان کی وفاداری کو تبدیل نہیں کرسکیں۔ ایک مرتبہ جب جنرل پرویز مشرف نے چوہدری افتخار احمد کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے فارغ کیا تو پورے پاکستان میں سیاسی جماعتوں سے لے کر ہر طبقہ فکر کے افراد نے ان کی بحالی میں شرکت کی جس میں ایاز سومرو بھی شامل تھے انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے جس کی وجہ سے وہ جیل جاتے رہتے تھے۔

وہ 1994 میں PS-37 سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور پی پی نے ایازکا انتخاب اس لیے بھی کیا تھا کہ پارٹی کے اندر کئی لوگوں کی طرح وہ بھی عوام میں مقبول تھے۔ دوبارہ بھی وہ ایم پی اے کی سیٹ جیتے اور 2008 میں انھیں قانون اور پارلیمنٹری افیئرز کا صوبائی وزیر بنایا گیا۔ انھیں اضافی محکمے بھی دیے گئے جس میں جیل اور انڈسٹریز بھی تھے۔ شازیہ مری ایم این اے بننے کے بعد ایاز کوکلچر کا اضافی چارج کچھ عرصے کے لیے دیا گیا تھا۔ وزارت کے دوران انھوں نے سندھ اسمبلی سے کئی بل پاس کروائے، اسمبلی کے اندر ایک خوبصورت لائبریری بنوائی اور محکمے کے لیے ایک کمپیوٹر سیکشن قائم کیا جس میں جدید سہولیات دی گئیں۔

جب وہ 2013 میں لاڑکانہ کے ڈوکری والی سیٹ پر جنرل الیکشن میں ایم این اے منتخب ہوئے اور اسلام آباد میں قومی اسمبلی میں پارٹی کے متحرک نمایندے کے طور پر کام کیا مگر وہ سب پارٹی کے نمایندوں کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات خراب نہیں کیے جس کی وجہ سے ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ پی پی کی قیادت جس میں آصف علی زرداری اور بلاول زرداری اعتماد کرتے تھے اور وہ پارٹی کے اسپوکس مین بن کر قومی چینل پر پارٹی کا موقف پیش کرتے تھے۔

انھوں نے دن رات محنت کی، پارٹی کے لیے کام کیا اور وزارت قانون جیسی اہم ذمے داری کو خوب نبھایا اور اس کی وجہ سے انھوں نے بڑی تاخیر سے شادی کی مگر ان کوئی اولاد نہیں پیدا ہوئی جس کا انھیں کافی دکھ تھا مگر وہ اپنے بھائی اور بہنوں کو اپنی اولاد کی طرح رکھتے تھے اور انھوں نے جو بھی کچھ بنایا اس میں سب کو شریک رکھا اور ان کی کوئی املاک الگ نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ دوستوں سے بہت پیار کرتے تھے۔

دن رات محنت اور کم نیند کی وجہ سے وہ شوگر کے مریض بن گئے جس سے دل کی بیماری نے جنم لیا مگر پھر بھی وہ کام کرتے رہے۔ ایک دن ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور معلوم ہوا کہ انھیں Bone Marrow کا مسئلہ بھی ہے جس کی وجہ سے علاج کروانے کے لیے وہ امریکا چلے گئے مگر پھر بھی طبیعت نہیں سنھبلی اور وہ 20 مارچ 2018 میں امریکا کے ایک اسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی موت کا سن کر خاص طور پر سندھ میں دکھ کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی جنازہ نماز لاڑکانہ میں ادا کی گئی جس میں ملک بھر سے لوگ اور پارٹی ورکرز آئے تھے جس میں بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہوئے۔

ان کی تدفین شہداد کوٹ میں ہوئی اور باقی رسوم ان کے لاڑکانہ والی رہائش سچل کالونی میں ادا کیے گئے۔کئی مہینے ان کے بھائی محمد ریاض اور دوسرے رشتے داروں سے تعزیت کرتے رہے۔ ان کی وفات کو ایک برس ہوگیا ہے پہلی برسی لاڑکانہ سچل کالونی میں منعقد ہوگی جس میں بلاول بھٹو زرداری کی شرکت متوقع ہے۔ اس موقعے پر ایک کانفرنس بھی ہوگی جس میں ایاز سومرو کی زندگی اور ان کی جدوجہد پر لوگ مقالے پڑھیں گے۔ اس کے علاوہ ان کی تصویروں کی نمائش ہوگی جو تین دن جاری رہے گی، قرآن خوانی اور خیرات کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ ان کے بھائیوں نے ایاز کی زندگی پر ایک کتاب لانے کے لیے کئی دوستوں سے مضامین لکھنے کو کہا ہے۔ یہ کتاب برسی کے بعد شایع ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں