شاید فقیر لینے نہیں دینے آیا تھا
لالہ مجھے کچھ سمجھانا چاہتا تھا پر وہ اپنے تجربات کی عینک پہنے اپنا مدعا بیان کر رہا تھا۔
'' لالہ ! ممکن ہے یہ فقیر لینے نہیں کچھ دینے آیا ہو؟ '' میں نے اپنے دوست کو جواب دیا۔
'' یار یہ بھکاری کسی کو دے کیا سکتا ہے'' لالہ نے اپنی عادت کے مطابق سادہ سا جواب دیا۔
'' یاد رکھو ضروری نہیں کہ ہر مانگنے والا بھکاری ہوکبھی کسی فقیرکی میلی گدڑی میں لعل بھی ہوتے ہیں'' لالہ نے چونک کر میری جانب دیکھا۔'' ہاں! لالہ فرق کو سمجھنا سیکھو اور لفظوں کے ہیر پھیرکو جانوکیا پتہ یہ فقیر ہو۔''
''ارے یار بات تو ایک ہی ہے'' لالہ نے جواب دیا ۔ تمھاری بات سن کر اک شعر یاد آگیا ۔
تم مریض دانائی مصلحت کے شیدائی
راہ گمراہ کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو
ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤگے
جاوید اختر کی شاعری کے دو شعروں کو جوڑ کر میں نے لالہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔'' او یار! تم کہنا کیا چاہتے ہو'' لالہ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کچھ نہ کچھ جان چکا ہو پر وضاحت چاہتا ہو۔ ہاں لالہ بھکاری کا کام تو محض بھیک مانگنا ہے پر فقیرکے معنی کچھ اور ہیں یعنی بھکاری تو لینے آتا ہے پر فقیر تو دینے والا ہوتا ہے۔ ''او یار، ایک تو تم جیسے لوگوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی، سیدھی بات کو بھی گھما پھرا کر بولتے ہو، صاف بات کیوں نہیں ہوتی تم صحافیوں سے ۔'' لالہ نے اکتاہٹ سے کہا۔ لالہ مسئلہ ہی یہ ہے کہ آپ بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے،کیونکہ آپ کی آنکھوں پر جوعینک لگا دی گئی ہے، اسی عینک سے آپ دنیا کو دیکھنا چاہتے ہوکبھی اپنی عینک اتارکر تو دیکھو پتہ چلے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ میں نے بغیر جھنجلائے رسان سے جواب دیا۔
ہمیشہ کی طرح اب لالہ ہمہ تن گوش تھا ۔ لالہ جس دن ہم اپنی عینک اتارکر دنیا کو دیکھیں گے، اس دن ہی حقائق منکشف ہو پائیں گے وگرنہ کچھ نہ جان پائیں گے۔ میں نے یہ کہہ کر چائے کی چسکی لی اور شیشے سے باہر دیکھنے لگا۔اس وقت میں اور لالہ ایک چائے خانے کے باہرگاڑی میں بیٹھے تھے۔کراچی کی ایک اہم روایت کوئٹہ چائے ہوٹل ہیں جہاں رات کے اوقات میں میلہ لگا رہتا ہے ۔ یار لوگ چائے کی چسکیوں میں دن بھرکی تکان کے ساتھ گھمبیر مسائل کا حل بھی چسکیوں میں نکال لیتے ہیں۔
کچھ دیر پہلے جب لالہ نے مجھے کراچی پریس کلب سے پک کیا تو شاہراہ فیصل پی ایس ایل کرکٹ میچ کی وجہ سے خاصی جام تھی ۔ راستہ بھر لالہ اس صورتحال سے خاصہ پریشان رہا اور پھر میرے گھرکے قریب واقع چائے کے ہوٹل پر گاڑی کھڑی کی ہی تھی کہ ایک شخص وارد ہوا اورکھانے کا تقاضہ کیا۔ لالہ اسے ٹالنے کے موڈ میں تھا کہ میں نے اس شخص سے کہا '' بابا کیا چاہیے؟'' جس کے جواب میں اس نے پیسے نہ مانگے، بس اتنا کہا کہ کھانا کھانا چاہتا ہوں۔ اس شخص کی عمر پچاس سال سے اوپرکی ہوگی ہاتھ میں بیلچہ تھامے وہ التجائیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ہوٹل پر جائیں اور جو کھانا ہو لے لیں۔ لالہ نے دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ بابا کیا کھائیں گے؟ فقیر بابا نے بھی اطمینان سے کہا جو روٹی سبزی ہے کھا لیں گے۔ اس وقت میں نے بابا سے مخاطب ہوکرکہا بابا '' وہ کھائیے گا جو آپ کا دل چاہ رہا ہے اور جو بھی کھائیے گا اس کا بل میں ادا کروں گا۔''
بس یہیں سے لالہ اور میری بحث کا آغاز ہوا تھا اور میں لالہ کو بھکاری اور فقیرکا فرق سمجھا رہا تھا۔ فرق سمجھانے کا کہیں مقصد ایسا نہیں تھا کہ میں اس شخص کوکوئی پہنچا ہوا ، فقیر سمجھ بیٹھا تھا بلکہ میں تو عادت کے مطابق لالہ کے علم میں اضافہ کر رہا تھا ۔اچانک سے ایک بیرا نمودار ہوا اور بولا صاحب وہ بھکاری ہمارے ہوٹل پر بیٹھا ہے اور اس نے کہا ہے کہ اس کا بل آپ ادا کریں گے۔
ہاں اس نے صحیح کہا ہے چائے کے بل کے ساتھ اس کا بل بھی لے آنا، میں نے جواب دیا۔ صاحب اس نے دو کٹ چائے اور قورمے کا آرڈر دیا ہے بیرے نے کہا۔ اس کا جو بھی آرڈر ہے اس کا بل میں ہی ادا کروں گا میں نے پھر جواب دیا۔ بیرا یہ کہہ کر چلا گیا اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ لالہ نے کہا تھا کہ دیکھا ان بھکاریوں کو زیادہ سر پر نہیں چڑھاتے جس کے جواب میں ،میں نے کہا کہ لالہ ممکن ہے یہ فقیرکچھ لینے نہیں کچھ دینے آیا ہو۔
یہ نکتہ آغاز تھا ہماری بحث کا جو اب تک جاری تھی۔ لالہ مجھے کچھ سمجھانا چاہتا تھا پر وہ اپنے تجربات کی عینک پہنے اپنا مدعا بیان کر رہا تھا اور میں نظر کی عینک سجائے مسکرا رہا تھا ۔ لالہ ، جاوید اختر کے شعرکو سمجھ نہ پایا تھا اسی لیے میں نے مولا علی کے قول کا مفہوم اس کے سامنے رکھ دیا ، اگرکوئی سوالی تمھارے در پر آیا ہے تو یاد رکھنا اللہ نے تمھیں اس قابل سمجھا ہے، ہماری قوم دنیا کی واحد قوم ہے جو اگرکسی طرح نہ سمجھ پائے تو مذہبی انداز میں سمجھانے پر سمجھ ہی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مذہب کے نام پر ہمیشہ ہی بلیک میل ہوتی آئی ہے۔
خیر لالہ تو ضد پر اٹکا ہوا تھا تلملا کر بولا'' یارا پتہ نہیں تمہیں عقل کب آئے گی، ابھی یہ کھا پی کر ڈکار مار کر نکل جائے گا اور پلٹ کر تمھیں پوچھے گا بھی نہیں۔'' لالہ ہمیں اس غریب سے کچھ چاہیے بھی نہیں میں نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ہی تھا کہ لالہ کی جانب والی کھڑکی سے وہی شخص نمودار ہوا اور بولا بہت شکریہ آج پیٹ بھرکے کھانا کھایا ہے۔ اپنے ہاتھ میں بیلچہ تھامے وہ شخص مجھ سمیت لالہ کو بھی دعائیں دے رہا تھا اور لالہ کچھ شرمسار سا سیل فون کے ذریعے گانے لگانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
'' یار یہ بھکاری کسی کو دے کیا سکتا ہے'' لالہ نے اپنی عادت کے مطابق سادہ سا جواب دیا۔
'' یاد رکھو ضروری نہیں کہ ہر مانگنے والا بھکاری ہوکبھی کسی فقیرکی میلی گدڑی میں لعل بھی ہوتے ہیں'' لالہ نے چونک کر میری جانب دیکھا۔'' ہاں! لالہ فرق کو سمجھنا سیکھو اور لفظوں کے ہیر پھیرکو جانوکیا پتہ یہ فقیر ہو۔''
''ارے یار بات تو ایک ہی ہے'' لالہ نے جواب دیا ۔ تمھاری بات سن کر اک شعر یاد آگیا ۔
تم مریض دانائی مصلحت کے شیدائی
راہ گمراہ کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو
ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤگے
جاوید اختر کی شاعری کے دو شعروں کو جوڑ کر میں نے لالہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔'' او یار! تم کہنا کیا چاہتے ہو'' لالہ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کچھ نہ کچھ جان چکا ہو پر وضاحت چاہتا ہو۔ ہاں لالہ بھکاری کا کام تو محض بھیک مانگنا ہے پر فقیرکے معنی کچھ اور ہیں یعنی بھکاری تو لینے آتا ہے پر فقیر تو دینے والا ہوتا ہے۔ ''او یار، ایک تو تم جیسے لوگوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی، سیدھی بات کو بھی گھما پھرا کر بولتے ہو، صاف بات کیوں نہیں ہوتی تم صحافیوں سے ۔'' لالہ نے اکتاہٹ سے کہا۔ لالہ مسئلہ ہی یہ ہے کہ آپ بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے،کیونکہ آپ کی آنکھوں پر جوعینک لگا دی گئی ہے، اسی عینک سے آپ دنیا کو دیکھنا چاہتے ہوکبھی اپنی عینک اتارکر تو دیکھو پتہ چلے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ میں نے بغیر جھنجلائے رسان سے جواب دیا۔
ہمیشہ کی طرح اب لالہ ہمہ تن گوش تھا ۔ لالہ جس دن ہم اپنی عینک اتارکر دنیا کو دیکھیں گے، اس دن ہی حقائق منکشف ہو پائیں گے وگرنہ کچھ نہ جان پائیں گے۔ میں نے یہ کہہ کر چائے کی چسکی لی اور شیشے سے باہر دیکھنے لگا۔اس وقت میں اور لالہ ایک چائے خانے کے باہرگاڑی میں بیٹھے تھے۔کراچی کی ایک اہم روایت کوئٹہ چائے ہوٹل ہیں جہاں رات کے اوقات میں میلہ لگا رہتا ہے ۔ یار لوگ چائے کی چسکیوں میں دن بھرکی تکان کے ساتھ گھمبیر مسائل کا حل بھی چسکیوں میں نکال لیتے ہیں۔
کچھ دیر پہلے جب لالہ نے مجھے کراچی پریس کلب سے پک کیا تو شاہراہ فیصل پی ایس ایل کرکٹ میچ کی وجہ سے خاصی جام تھی ۔ راستہ بھر لالہ اس صورتحال سے خاصہ پریشان رہا اور پھر میرے گھرکے قریب واقع چائے کے ہوٹل پر گاڑی کھڑی کی ہی تھی کہ ایک شخص وارد ہوا اورکھانے کا تقاضہ کیا۔ لالہ اسے ٹالنے کے موڈ میں تھا کہ میں نے اس شخص سے کہا '' بابا کیا چاہیے؟'' جس کے جواب میں اس نے پیسے نہ مانگے، بس اتنا کہا کہ کھانا کھانا چاہتا ہوں۔ اس شخص کی عمر پچاس سال سے اوپرکی ہوگی ہاتھ میں بیلچہ تھامے وہ التجائیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ہوٹل پر جائیں اور جو کھانا ہو لے لیں۔ لالہ نے دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ بابا کیا کھائیں گے؟ فقیر بابا نے بھی اطمینان سے کہا جو روٹی سبزی ہے کھا لیں گے۔ اس وقت میں نے بابا سے مخاطب ہوکرکہا بابا '' وہ کھائیے گا جو آپ کا دل چاہ رہا ہے اور جو بھی کھائیے گا اس کا بل میں ادا کروں گا۔''
بس یہیں سے لالہ اور میری بحث کا آغاز ہوا تھا اور میں لالہ کو بھکاری اور فقیرکا فرق سمجھا رہا تھا۔ فرق سمجھانے کا کہیں مقصد ایسا نہیں تھا کہ میں اس شخص کوکوئی پہنچا ہوا ، فقیر سمجھ بیٹھا تھا بلکہ میں تو عادت کے مطابق لالہ کے علم میں اضافہ کر رہا تھا ۔اچانک سے ایک بیرا نمودار ہوا اور بولا صاحب وہ بھکاری ہمارے ہوٹل پر بیٹھا ہے اور اس نے کہا ہے کہ اس کا بل آپ ادا کریں گے۔
ہاں اس نے صحیح کہا ہے چائے کے بل کے ساتھ اس کا بل بھی لے آنا، میں نے جواب دیا۔ صاحب اس نے دو کٹ چائے اور قورمے کا آرڈر دیا ہے بیرے نے کہا۔ اس کا جو بھی آرڈر ہے اس کا بل میں ہی ادا کروں گا میں نے پھر جواب دیا۔ بیرا یہ کہہ کر چلا گیا اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ لالہ نے کہا تھا کہ دیکھا ان بھکاریوں کو زیادہ سر پر نہیں چڑھاتے جس کے جواب میں ،میں نے کہا کہ لالہ ممکن ہے یہ فقیرکچھ لینے نہیں کچھ دینے آیا ہو۔
یہ نکتہ آغاز تھا ہماری بحث کا جو اب تک جاری تھی۔ لالہ مجھے کچھ سمجھانا چاہتا تھا پر وہ اپنے تجربات کی عینک پہنے اپنا مدعا بیان کر رہا تھا اور میں نظر کی عینک سجائے مسکرا رہا تھا ۔ لالہ ، جاوید اختر کے شعرکو سمجھ نہ پایا تھا اسی لیے میں نے مولا علی کے قول کا مفہوم اس کے سامنے رکھ دیا ، اگرکوئی سوالی تمھارے در پر آیا ہے تو یاد رکھنا اللہ نے تمھیں اس قابل سمجھا ہے، ہماری قوم دنیا کی واحد قوم ہے جو اگرکسی طرح نہ سمجھ پائے تو مذہبی انداز میں سمجھانے پر سمجھ ہی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مذہب کے نام پر ہمیشہ ہی بلیک میل ہوتی آئی ہے۔
خیر لالہ تو ضد پر اٹکا ہوا تھا تلملا کر بولا'' یارا پتہ نہیں تمہیں عقل کب آئے گی، ابھی یہ کھا پی کر ڈکار مار کر نکل جائے گا اور پلٹ کر تمھیں پوچھے گا بھی نہیں۔'' لالہ ہمیں اس غریب سے کچھ چاہیے بھی نہیں میں نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ہی تھا کہ لالہ کی جانب والی کھڑکی سے وہی شخص نمودار ہوا اور بولا بہت شکریہ آج پیٹ بھرکے کھانا کھایا ہے۔ اپنے ہاتھ میں بیلچہ تھامے وہ شخص مجھ سمیت لالہ کو بھی دعائیں دے رہا تھا اور لالہ کچھ شرمسار سا سیل فون کے ذریعے گانے لگانے کی کوشش کر رہا تھا ۔