اسپتال کے عملے کیلیے سرجیکل وارڈ میں لائبریری بنوائی پروفیسر ڈاکٹر مقصود احمد صدیقی

ہمارے ملک میں تشخیصی نظام بہت کم زور ہے، سول اسپتال (سکھر)کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مقصود احمد صدیقی  کی کتھا

ہمارے ملک میں تشخیصی نظام بہت کم زور ہے، سول اسپتال (سکھر) کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مقصود احمد صدیقی کی کتھا۔ فوٹو: فائل

ڈاکٹر مقصود احمد صدیقی کا شمار سکھر کے اُن ماہرین طب میں ہوتا ہے، جنہوں نے بہت مختصر وقت میں اپنے شعبے میں مہارت حاصل کی۔

30 دسمبر 1970 کو نواب شاہ کے نواحی علاقے میں آنکھ کھولنے والے ڈاکٹر مقصود احمد صدیقی ایک بہن اور پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ابتدائی تعلیم گھر کے نزدیک ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی، پھر گورنمنٹ ڈی سی ہائی اسکول سے 1986ء میں میٹرک اور گورنمنٹ ڈگری کالج نواب شاہ سے 1988ء میں پری میڈیکل میں انٹر کیا۔

اپنے والد منظور احمد صدیقی کی خواہش پر میڈیکل ٹیسٹ میں شرکت کی اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جام شورو میں داخلے کے لیے جاری ہونے والی فہرست میں دوسرے نمبر پر جگہ بنائی۔

ڈاکٹر مقصود نے بتایا کہ دادا کے جلد انتقال کے بعد والد نے کافی جدوجہد کی، پھر وہ سیشن کورٹ نواب شاہ میں ملازم رہے۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم کی طرف بطور خاص توجہ رکھی، جس کی وجہ سے تمام بہن، بھائی آج اچھے مقام پر ہیں، دوسرا نمبر عمران صدیقی کا ہے جو 'سب انجینئر' ہیں، تیسرے بھائی عدنان صدیقی نواب شاہ اور حیدرآباد میں وکالت سے وابستہ ہیں، چوتھے بھائی ذیشان احمد درس و تدریس اور پانچویں بھائی نعمان صدیقی والد کی طرح عدالتی نظام میں فرائض انجام دے رہے ہیں، جب کہ اکلوتی بہن شعبہ تعلیم سے جڑی ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر مقصود 2002ء میں ازدواجی بندھن میں بندھے، دو بیٹوں علی سلمان اور احمد صفیان کے والد ہیں۔ کہتے ہیں کہ بچپن میں انتہائی محدود وسائل کے باوجود تعلیم پر توجہ دی گئی۔ نواب شاہ سول اسپتال میں 'آئی سی یو، پین مینجمنٹ کلینک اور اینیستھیسیا (Anesthesia) میں جدت لانے والے ڈاکٹر مقصود صدیقی نے 1996ء میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی سے 'ایم بی بی ایس' کی ڈگری حاصل کر کے اسپتال میں ہاؤس جاب کی، ایک سال کے بعد نواب شاہ میں والد کی ہدایت پر ایک معروف نجی اسپتال میں میڈیکل آفیسر کے فرائض انجام دینا شروع کیے، وہ کہتے ہیں کہ پھر اپنے کلینک میں مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا، شعبہ طب میں میری سب سے زیادہ راہ نمائی میرے دوست عبدالغنی بروہی نے کی اور انہوں نے مجھے میرے شعبے کی تخصیصی کام کے لیے قائل کیا۔

جس کے بعد ابتدا میں سول اسپتال نواب شاہ میں آپریشن تھیٹر کے لیے اعزازی طور پر ابتدائی خدمات انجام دینا شروع کیں، پھر سول اسپتال کراچی میں پروفیسر سید ٹیپو سلطان کی شاگردی میں اس شعبے میں عبور حاصل کرنے کے لیے کام شروع کیا، دو سال تک کراچی میں ماہر اساتذہ اور معالجین کی زیر نگرانی کام جاری رکھا۔ کورس مکمل کرنے کے بعد 2001ء میں دوبارہ نواب شاہ کا رخ کیا، کہتے ہیں کہ جب 1998ء میں کمیشن کا امتحان پاس کر کے سول اسپتال نواب شاہ میں میڈیکل آفیسر تعینات ہوا، اس وقت پہلی تنخواہ 45 سو روپے تھی، جسے وصول کرنے کے بعد خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، اس موقع پر میں سب سے پہلے والدین کی خدمت میں پہنچا۔ پھر اپنے دوستوں اور اہل خانہ کی دعوت کی، کہتے ہیں کہ ایک جانب میڈیکل آفیسر کے فرائض انجام دے رہا تھا تو دوسری جانب مجھ سے سینئر ڈاکٹر مجھے 'ایف سی پی ایس' کے لیے قائل کر رہے تھے، دوستوں کے مشورے پر میں نے کالج آف فزیکل اینڈ سرجیکل میں داخلہ لیا اور 2015ء میں ڈگری حاصل کی۔


ڈاکٹر مقصود احمد صدیقی کہتے ہیں کہ 2001ء تا 2016ء اپنے آبائی علاقے کے سرکاری و نجی اسپتالوں میں فرائض انجام دینے کے بعد 2016ء کے آخر میں 'بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی' لاڑکانہ نے مہر میڈیکل کالج سول اسپتال میں پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسرز اور دیگر اسامیوں کے لیے اشتہار دیا، اس دوران اپنی اہلیہ، (گائنا کالاجسٹ) اور میں نے درخواست بھیجی اور یوں امتحان دینے کے بعد ہم دونوں غلام محمد مہر میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تعینات کر دیے گئے۔ آج میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سرجیکل آئی سی یو، پین مینجمنٹ اور اینیستھیسیا ہوں، جب کہ میری اہلیہ مہر میڈیکل کالج کے شعبہ گائنا کالاجسٹ کی انچارج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے سکھر سول اسپتال میں قدم رکھتے ہی مختلف شعبہ جات کا تفصیلی جائزہ لیا اور اسے بہتر بنانے کی ٹھان لی، ابتدا میں کئی مشکلات آئیں، تاہم میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سینئرز نے بھرپور تعاون کیا۔ میں نے دوران تعلیم اپنے کام پر بھی عبور حاصل کیا، 2009ء سے 2011ء تک رفع انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ماسٹر پین مینجمنٹ کورس کیا۔ سول اسپتال کی حالت زار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع سب سے بڑا ٹیچنگ اسپتال ہے اور یہاں ہزاروں مریض آتے ہیں۔

ڈاکٹر مقصود کہتے ہیں کہ میرا مشن ہے کہ سول اسپتال میں 'آئی سی یو' کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، تاکہ آنے والے مریض کو فوری طبی سہولیات مہیا ہو سکیں، میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سرجیکل وارڈ میں ایک ہزار کتب لے کر ایک لائبریری بنائی، جہاں پر میرے دوست اور جونیئر وقت ملنے پر مطالعہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ پرانے درد کے خاتمے کے لیے پین مینجمنٹ کلینک سے بھی مریضوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر مقصود احمد صدیقی کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں تشخصی نظام خاصاً کم زور ہے اور معالجین مریض کے ساتھ آنے والے افراد کی جانب سے بتائی جانے والی نشانیوں پر کام کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ چند ٹیسٹ کرا کے علاج شروع کر دیتے ہیں، دنیا بھر میں سب سے پہلے مرض کی اصل وجہ پر توجہ دی جاتی ہے، ہمارے یہاں اچھے ڈاکٹر یہ کام کر رہے ہیں۔ مریض اگر درست معلومات دے، تو بیماریوں کو ختم کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بعض اوقات آپریشن تھیٹر میں موجود مریض ہماری توقعات سے خاصی دیر میں بے ہوش ہوتا ہے یا آپریشن کے بعد ہوش میںآتا ہے، جس کی وجہ سے ہمیں پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر مقصود کہتے ہیں کہ میری اہلیہ صفیہ بھی ایک ڈاکٹر ہیں، اس لیے اکثر طبی امور پر تبادلہ خیال رہتا ہے۔ وہ جس شعبے سے وابستہ ہیں اس کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں، اس کے باوجود ہم اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور مجھ سے زیادہ اہلیہ اسکول کے فوری بعد بچوں سے تمام معلومات حاصل کرتی ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شخصیت سے متاثر ڈاکٹر مقصود احمد کا کہنا ہے کہ بچپن میں گلی، محلوں میں گُلی ڈنڈا، پتنگ اڑانا اور کرکٹ کھیلنا میرا محبوب مشغلہ تھا، تاہم اب مصروفیات کے باعث اس کا وقت نہیں ملتا، تاہم چھٹیوں کے دوران اہل خانہ کے ساتھ شمالی علاقہ جات میں وقت گزارتے ہیں، جب کہ فارغ اوقات میں کلاسیکل اور معلومات سے بھرپور انگلش فلمیں دیکھتا ہوں ۔

ڈاکٹر مقصود دکھی انسانیت کی مدد کے جذبے کو والدین کی تربیت کا ثمر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ شخص کبھی ناکام نہیں ہو سکتا، جو دوسروں کے لیے بہتر سوچتا ہے، انسان کو ہر وقت دوسرے کی بھلائی کا سوچنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جیب میں پیسے ہوں تو مدد کی جائے، بہتر راہ نمائی، بھی ایک بڑی نیکی ہے۔
Load Next Story