نظریے کے بغیر ادب کوئی معنی نہیں رکھتا نور البشر نوید
کالم اور ڈرامہ ذریعہ معاش ہیں لیکن کسی کی خواہش کے مطابق نہیں لکھ سکتا۔
ان کے اندر اب بھی وہی انقلابی چھپا ہوا ہے جو لڑکپن میں ان کے اندر پیدا ہوا تھا، سوویت یونین کے انہدام کے بعد بہت سے انقلابیوں نے اپنا راستہ کیا بلکہ اپنا رنگ، لباس اورلب ولہجہ بھی بدل ڈالا مگرہمارے ممدوح آج بھی اسی راہ اور نظریے کے پرچارک ہیں۔
صوبائی، ملکی اور عالمی سطح پرجتنی بھی سیاسی اورنظریاتی آندھیاں چلیں، جتنے بھی تندو تیز طوفان آئے، انہوں نے ہرحال میں اپنے اصولوں اورنظریے کا دیا جلائے رکھا۔ ان کی ایک خوبی جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں یہ ہے کہ ان کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں۔
وہ ایک تربیت یافتہ نظریاتی پختون ہیں، ان کی تحریریں اور کالمز پاکستان کے علاوہ افغانستان اور دیگر ممالک میں مقیم ہزاروں لاکھوں پختون بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ وہ ایک فطری شاعر ہیں، موقع محل کی مناسبت سے ان کے حافظے میں اشعارکا بیش بہا خزینہ موجود ہوتا ہے، محفل جمانے اور توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
بحث مباحثے میں جذبات اور جلدبازی سے کام نہیں لیتے بلکہ غور سے سنتے اور تول کر بولتے ہیں۔ انہیں اپنا نصب العین اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور اس کے لیے کسی سنگ گراں سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہوں نے شعور کی آنکھ کھولتے ہوئے جب اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو انہیں معاشرتی فریم میں اپنی تصویر کچھ عجیب سی لگی کیوں کہ ان کا مزاج مختلف تھا، اپنی شخصیت کی تعمیر اور تشکیل کے لیے اپنے'' معاشرتی ادراک'' سے کام لینے لگے تاکہ وہ دیگر لوگوں سے منفرد نظر آئیں۔
پشتو زبان کے اس معروف ترقی پسند اور قوم پرست شاعر، ڈرامہ نگار، افسانہ نگاراور کالم نگار نورالبشر نوید کا لڑکپن سہولتوں اور آسائشوں سے محرومی میں گزرا۔ کھیل کود کے دن محنت مزدوری میں گزارے لیکن مشکلات کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔ اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت سے پشتو کے ترقی پسند ادب اور صحافت میں اپنا منفرد نام اور مقام پیدا کرنے والے نور البشر نوید کو انقلابی اور طبقاتی موضوعات پر لکھنے کی پاداش میں کئی بار موت کی دھمکیاں بھی دی گئیں، ان کی رہائش گاہ پر فائرنگ کی گئی مگر وہ ہمیشہ ''ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے'' کے نظریے پر ثابت قدم رہے۔
نور البشر نوید 12فروری 1957ء کو مردان کے قریب تاریخی گاؤں موضع طورو میںخدائی خدمتگار ریدی گل بابا کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے سرکاری سکول سے حاصل کی۔ میٹر ک کے بعد محنت مزدوری پر لگ گئے، صبح سے شام تک اینٹ اور پتھر اُٹھاتے رہے۔ دن رات محنت و مشقت کرکے زندگی کی دوڑ میں آگے چل کر ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا لیکن بی اے میں انگریزی کے پرچے میں ناکامی کے بعد مزید تعلیم کا ارادہ ترک کردیا اور ایک سرکاری ادارے میں ملازمت اختیار کر لی۔
سرکاری ملازمت میں گھٹن اور قید کا احساس ہونے لگا تو جلد ہی خود کو اس قید سے آزاد کرا لیا۔ 1978ء میں معروف لکھاری اور ان ہی کے گاوں سے تعلق رکھنے والے محب اللہ شوق انہیں ریڈیو پاکستان پشاور لے آئے اور سکرپٹ لکھوانا شروع کیا، یہیں سے ان کی زندگی نے نئی کروٹ لی اور وہ اس دن سے باقاعدہ قلم کے مزدور بن گئے، وہ آج بھی اپنے آپ کو بڑے فخر کے ساتھ قلم مزدور کہتے ہیں۔
نور البشر نوید بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ تاہم انہیں قدرت نے کالم، افسانے اور ڈرامے لکھنے کی بے پناہ صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے اور آج انہیں ٹیلی ویژن، ریڈیو اور سٹیج ڈرامہ کے''استاد'' کا درجہ حاصل ہے۔ ساتھ پشتو کے معروف ترقی پسند جریدے ماہنامہ ''لیکوال''(لکھاری) کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ بہترین ڈراموں، کالموں اور نظموں پر متعدد اعزازات اور ایوارڈز بھی حاصل کیے، 2010ء میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے مسلسل تین بار بیسٹ ڈرامہ رائٹر ایوارڈ کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے، ریڈیو پاکستان پشاور سے ایکسیلینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر کے لیے انہوں نے بے شمار ڈرامے اور درجنوں پشتو سیریلز لکھے ہیں، پشتو کے علاوہ اردو میں بھی کئی سیریل لکھے۔
پی ٹی وی کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے پشتو کے مختلف نجی چینلز اور بی بی سی کے لیے بھی لکھتے رہتے ہیں۔ وہ پشتو کے معروف روزنامہ ''وحدت'' سے بطور کالم نگار گزشتہ 22 سالوں سے منسلک ہیں اور ''ماتہ غوگ شہ'' کے عنوان سے مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ وائس آف امریکا کے پشتو ڈیوہ ریڈیو کے لیے بھی بے شمار ڈرامے لکھے ہیں۔ US.AID پراجیکٹ کیلئے بھی ڈرامے لکھے اور تھیٹر کیلئے ''خوشحال خان خٹک'' پر بھی کامیاب ڈرامہ تحریر کیا۔ وہ 42سالوں سے ریڈیو، ٹیلی ویژن، مختلف نجی چینلز اور پراجیکٹس کیلئے لکھ رہے ہیں۔
کل وقتی ادیب، ڈرامہ نویس اور کالم نگار ہیں، ان کی شاعری کے دو مجموعے ''مشالونہ'' اور ''ذول اومشالونہ'' کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ ان کے کالموں پر مشتمل کتاب ''ماتہ غوگ شہ'' دو جلدوں میں شائع ہوئی، اس کے علاوہ ''وطن یا کفن'' کے نام سے بھی ایک کتاب چھپ چکی ہے۔ ان کے زیرادارت ماہنامہ ''لیکوال'' گزشتہ 25 سال سے مسلسل جاری ہے۔ انہوں نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈراموں اور کالموں میں اپنے سماج اور اردگرد ماحول کی عکاسی اور ترجمانی شامل ہوتی ہے۔ بطور افسانہ نگار بھی ان کا کام قابل قدر ہے۔ ان کی ہر تحریر اور تخلیق ''دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں، جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہاہوں میں'' کی تصویر ہوتی ہے۔
اپنے سفر زیست کے بارے میں نورالبشر نوید بتاتے ہیں، ''زندگی بہت تلخ ہے مگر انسان اس تلخ لمحات سے بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔ زندہ لوگ زندگی کے میدان جنگ میں گرتے بھی ہیں اور پھر اُٹھتے بھی ہیں، یہی ناہموار زندگی انسان میں جہد مسلسل کا جذبہ پیدا کرتی ہے، سو میں بھی زندگی کے اس سفر میں بچپن سے ہی غربت اور مالی مشکلات کا شکار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ میں ناہموار زندگی کے سفر نے تیز دوڑنے اور چلنے کی صلاحیت پیدا کی ہے، میں اس سفر میں بہت تیز چلتا رہا، دوڑ تا رہا، چھابڑی کی مزدوری سے لے کر قلم کی مزدوری تک میں نے وہ سب کچھ کیا جو زندگی کی بنیادی ضروریات تھیں۔مگر ایک چیز مجھ سے اس دوڑ میں رہ گئی کہ میں تعلیم مکمل نہ کر سکا۔
میں ابھی میڑک کا طالبعلم تھا کہ میں نے مزدوری شروع کی، اینٹیں اور پتھر اٹھائے، میڑک کے بعد ایک سر کاری ادارہ میں نوکری مل گئی اور غربت سے کچھ افاقہ ہوا۔ نوکری کے دوران میں نے ایف اے کیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی، اس کامیابی نے مجھ میں ہمت پیدا کی لیکن بی اے کے امتحان میں انگریزی کا امتحان پاس نہ کر سکا تو اس ناکامی پر تعلیمی سلسلہ چھوڑ دیا، پھر حالات نے ساتھ نہ دیا۔ ملازمت چھوڑنے سے معاشی حالات پھر سے ناسازگار ہو گئے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اس مشکل حالات سے لڑتا رہا۔ 1978ء میں محب اللہ شوق کی وساطت سے ریڈیو پاکستان پشاور کیلئے لکھنا شروع کیا۔ شعر و شاعری کے ساتھ فیچر نگاری بھی کی، بچوں کے پروگرامز کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈرامے لکھے،اسی طرح ''دخو یندو پروگرام'' لکھنے کے ساتھ ایک اور پروگرام ''سند ریزی قیصئی'' بھی لکھتا رہا۔1979ء میں ریڈیو پاکستان پشاور کیلئے ''تتہ رنڑا'' ڈرامہ لکھا جسے ایس ایم اسحاق نے پیش کیا، اسی ڈرامے سے ریڈیو پر ڈرامے کا سفر شروع ہوا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کا سفر ایک مشاعرے سے شروع ہوا، یہ وہ زمانہ تھا کہ افغانستان میں ''ثور انقلاب'' بپھرا ہوا تھا۔ اس وقت ایڈورڈز کالج پشاور میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا، ایک ریٹائرڈ فوجی بریگیڈیئر نے افغان انقلاب کے خلاف کچھ کہا، غنی خان مشاعرے کی صدرات کر رہے تھے، میں نے اس صاحب کو مخاطب کرکے اپنی نظم افغان انقلاب کے حق میں پڑھی اور یہیں سے مجھ میں مزاحمتی ادب نے جنم لیا۔ اس کے بعد محب اللہ شوق نے مجھے پشاور ٹیلی ویژن سنٹر بلایا۔ اس وقت پی ٹی وی پشاور فورٹ روڈ پر تھا جہاں اب پبلک سروس کمیشن کا دفتر ہے۔ جب میں وہاں گیا تو اس وقت سینئر پروڈیوسرز فرمان اللہ جان اور صلاح الدین ایک ہی آفس میں بیٹھے ہوئے تھے، ان سے ملا قات ہوئی، یاد رہے کہ یہ دونوں پروڈیوسر ایڈورڈ کالج کے مشاعرے میں شریک رہے تھے جو میری نظم سُن کر بہت خوش ہوئے تھے۔اُس وقت فرمان اللہ جان نے مجھ سے ایک غزل لی۔
یو محلت دے یوکوسہ دہ چی اشنا کلی تہ راشے
بیا خولگ راخکارہ کیگہ چی زما کلی تہ راشے
یہ غزل لوگوں میں بہت مقبول ہوئی، تو ریڈیو پاکستان پشاور نے بھی یہی غزل نشر کی اسی طرح بطور شاعر میں نے ٹیلی ویژن سے ابتدا کی۔ اس کے بعد مسعود احمد شاہ نے میرا پہلا ڈرامہ (25منٹ کا) ''نیمگڑی خوبونہ''پیش کیا جس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور میرا قلم میرے معاش کا ذریعہ بنتا رہا۔''
نور البشر نوید کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، ان کے بقول: ''شاعری، ڈرامہ نگاری یا کالم نگاری ایک ہنر ہے، یہ موروثی چیزیں نہیں ہیںکہ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو منتقل ہوسکیں۔ یہ ایک قدرتی صلاحیت ہے، بہت کم لوگوںکا ذریعہ معاش قلم ہے، لیکن اس ناہموار زندگی میں میرے قلم نے میرا ساتھ دیا اور اب بھی ساتھ دے رہا ہے، میں اور قلم لازم و ملزوم ہیں۔ میری زندگی اسی سے عبارت ہے۔بالکل اس شعر کے مصداق۔
مجھ کو سولی پہ چڑھانے کی ضرورت کیا ہے
میرے ہا تھوں سے قلم چھین لو مر جاؤں گا''
انہوں نے بتایا، ''شاعری کے مقابلے میں نثر لکھنے کے لیے مجھے بہت سے مواقع ملے، ڈرامہ اور کالم تو مجھ میں رچ بس چکے ہیں، شاعری سے زیادہ وقت میں نے ڈرامہ اور کالم کو دیاہے، شاعری میرے لیے جذبات اور احساسات کا نام جبکہ کالم اور ڈرامہ میرے معاش کا ذریعہ ہے، پھر بھی میں نے ہمیشہ کالم اور ڈرامہ میں بھی اپنے دل کی بات کی ہے، اپنے سیاسی اور نظریاتی پہلو کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ مجھ سے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں کچھ لکھوں اور اس میں میرے سیاسی اور نظریاتی پہلو کا اظہار نہ ہو۔
ایک دفعہ میں ٹیلی ویژن کا ایک سیریل کررہا تھا تو ایک صاحب نے مجھے کہا کہ سیاست اور ممنوعہ باتوں سے ہٹ کر لکھو، تم ڈائیلاگ میں بھی کچھ نہ کچھ کر جاتے ہو۔ میں نے اس وقت بات ٹال دی لیکن جب لکھنے بیٹھا تو وہی کردار لکھے جو پالیسی کے حوالے سے ممنوع تھے لیکن میں نے ان کرداروں کو علامت کا رنگ دیا، میں نے کبھی بھی اپنی سوچ چھپانے کی کوشش نہیں کی، ہمیشہ اپنے نظریے کے مطابق لکھا۔ میں اپنے حرفوں کا امین ہوں خدا نہ کرے کہ کبھی میں اس میں خیانت کروں۔ میں ادب برائے ادب کا قائل نہیں، ادب برائے زندگی پر یقین رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں ادب برائے ادب کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ ادب کو بھلا ادب کی کیا ضرورت ہے جبکہ ادب کو زندگی اور زندگی کو ادب کی ضرورت ہے، ادب کو زندگی کے آئینہ میں دیکھنا ہوگا۔ میں ہمیشہ زمینی حقائق اور اردگرد کے حقیقی کرداروں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی سکرپٹ لکھتا ہوں۔''
نور البشر نوید نے بتایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو سنجیدہ ڈرامہ لکھتے ہیں وہ مزاح نہیں لکھ سکتے جبکہ طنزو مزاح کے لکھاری سنجیدہ کردار نہیں لکھ سکتے۔ حالانکہ اس طرح کی کوئی بات نہیں، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم، ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما اور سعد اللہ جان برق جیسے سنجیدہ لکھاریوں نے طنز و مزاح پر مبنی سیریلز بھی لکھے ہیں۔ ''جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے زیادہ تر سنجیدہ ڈرامے لکھے مگر ایک دفعہ پروڈیوسر مسعود احمد شاہ نے کہا کہ آؤ مزاح کی طرف بھی چلتے ہیں۔
سو میں نے مزاحیہ ڈارمہ لکھنا شروع کیا اور لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اس حوالے سے ایک اور واقعہ بیان کر دوں کہ ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں خواتین کی تعلیم پر ایک سٹریٹ تھیٹر کر رہا تھا، ایک شخص آیا اس کے ساتھ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں بھی تھیں، انہوں نے مجھے کہا کہ تم لوگ بغیر رونے دھونے کے ڈرامے نہیں لکھ سکتے؟ میں نے کہا کہ اس کٹھن اور تکلیف دہ زندگی میں رونے والے لوگوں کو ہنسانا بہت مشکل کام ہے جیسا کہ پشتو کی ایک ضرب المثل ہے: ''چی یو د لوگے مری او بل ئے سر تہ پراٹے گوری'' (ایک بھوک سے مر رہا ہے اور دوسرا اس کے سرہانے پراٹھے تلاش کرتا ہے۔)''
نور البشر نوید کے ڈرامے پشتون کلچر اور کرداروں کے گرد گھومتے ہیں، اس لیے کبھی بھی گلیمر ڈرامے نہیں لکھے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اردو بولنے میں انہیں دشواری محسوس ہوتی ہے لیکن لکھنے میں ایسی کوئی بات نہیں۔ اس ضمن میں باچا خان کا ایک واقعہ یوں سنایا، ''ایک دفعہ باچا خان بابا لاہور میں چٹان کے چیف ایڈیٹر اورمشہور صحافی شورش کاشمیری کے گھر میں صحافیوں سے باتیں کررہے تھے۔ باچاخان بار بار کہہ رہے تھے کہ میرا قوم تگڑا اور بہادر ہے، بار بار میرا قوم، میراقوم کہتے رہے۔ ایک صحافی اُٹھ کر بولا خان بابا قوم مونث ہے، مذکر نہیں، باچاخان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بیٹا، میرا قوم مذکر ہے۔''
نور البشرنوید کے مطابق جب انہوں نے روزنامہ وحدت میں کالم لکھنا شروع کیا، اس وقت افغان مسئلہ بہت زور و شور سے چل رہا تھا، کچھ قارئین فون پر گالیاں اور کچھ ڈھیر ساری دُعائیں دیتے۔ بتاتے ہیں، ''ہر روز مجھے ایک فون نمبر سے گالیاں، دھمکیاں اور ایسی ایسی باتیں سننی پڑتیں جن کی وجہ سے دیر تک ذہنی طور پر پریشان رہتا، تاہم گالیاں دینا اس بندے کا فرض اور سننا میری عادت بن گئی تھی۔ ایک روز یونیورسٹی کا ایک جوان ایک پروفیسر دوست کی وساطت سے آیا۔ ڈرامے میں کام کرناچاہتا تھا۔ اس نے گھر کا فون نمبر دیا، اس وقت موبائل نہیں تھا، میں نے ایک دن اس نمبر پر یہ بتانے کے لیے کال کی کہ وہ لڑکا پی ٹی وی کے ایک ڈرامے میں کاسٹ ہو گیا ہے، جب میں نے کال کی تو دوسری طرف سے وہی آواز آئی جس سے ہر روز گالیاں اور دھمکیاں سنتا تھا۔
میں نے اپنا تعارف کرایا اور پیغام پہنچایا، وہ بھی سمجھ گیا اور میں بھی جان گیا۔ دراصل وہ شخص انفارمیشن آفیسر تھا۔ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا، ایک دن اخبار کے دفتر میں بیٹھا کالم کیلئے کوئی موضوع سوچ رہا تھا کہ اس دوران چیف ایڈیٹر پیر سفید شاہ ہمدرد صاحب آگئے، انہوں نے مخصوص نرم لہجے میں کہا بیٹا کالم میں ذرا اسلامی رنگ بھی شامل کیا کرو، یہ سن کر میں نے اسی وقت ''اسلامی رنگ'' کے عنوان سے کالم لکھا، مگرایسا کہ افغان جہاد کے حامیوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ جیسے ہی کالم شائع ہوا، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، جہادیوں نے شور مچایا۔ پیر صاحب نے کہا بیٹے آئندہ میں کوئی موضوع نہیں دوں گا تم خود جو لکھوتمہا ری مرضی۔ بہرحال میں نے اخبار کی پالیسی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا رنگ جماکے رکھا۔ ماہنامہ ''لیکوال'' تو سب کے سامنے ہے، کسی کیلئے تریاق تو کسی کیلئے زہر ہلاہل۔''
ان کے بقول ریاست اور عوام کے حالات اور ضروریات بدلتی رہتی ہیں، انسانی ضروریات اور گلوبل ویلج کے تقاضوں کے مطابق ہمیں سوچنا ہوگا۔ مذہب اور ریاست کو الگ الگ رکھنا چاہیئے، دیکھا جائے تو ہمارے ہاں زیادہ تر اختلافات مسلکی ہیں۔ ادب اور سیاست کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ادب کل ہے اور سیاست جزو ۔دونوں کا چولی دامن کاساتھ ہے، جس طرح زمین اور پودا۔ ہم جب ادب برائے زندگی کی بات کرتے ہیں، اس میں ادب برائے سیاست بھی شامل ہے۔ کیونکہ جس ادب میں نظریہ اور جس سیاست میں ادب نہ ہو وہ انسانی معاشرے کی بُنت میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ان کے مطابق افغان حکومت نے انہیں گزشتہ سال افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال کے ہاتھوں سرکاری میڈل دیا۔ یہ اس طرح کا اعزاز ہے جس طرح پاکستان کا پرائیڈ آف پرِفارمنس ہوتا ہے، جس پر وہ افغان حکومت کے شکرگزار ہیں۔ کہتے ہیں، ''میں نے افغانستان کے مسئلہ پر بہت کچھ لکھا اور بعض حلقوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔''
صوبائی، ملکی اور عالمی سطح پرجتنی بھی سیاسی اورنظریاتی آندھیاں چلیں، جتنے بھی تندو تیز طوفان آئے، انہوں نے ہرحال میں اپنے اصولوں اورنظریے کا دیا جلائے رکھا۔ ان کی ایک خوبی جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں یہ ہے کہ ان کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں۔
وہ ایک تربیت یافتہ نظریاتی پختون ہیں، ان کی تحریریں اور کالمز پاکستان کے علاوہ افغانستان اور دیگر ممالک میں مقیم ہزاروں لاکھوں پختون بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ وہ ایک فطری شاعر ہیں، موقع محل کی مناسبت سے ان کے حافظے میں اشعارکا بیش بہا خزینہ موجود ہوتا ہے، محفل جمانے اور توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
بحث مباحثے میں جذبات اور جلدبازی سے کام نہیں لیتے بلکہ غور سے سنتے اور تول کر بولتے ہیں۔ انہیں اپنا نصب العین اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور اس کے لیے کسی سنگ گراں سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہوں نے شعور کی آنکھ کھولتے ہوئے جب اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو انہیں معاشرتی فریم میں اپنی تصویر کچھ عجیب سی لگی کیوں کہ ان کا مزاج مختلف تھا، اپنی شخصیت کی تعمیر اور تشکیل کے لیے اپنے'' معاشرتی ادراک'' سے کام لینے لگے تاکہ وہ دیگر لوگوں سے منفرد نظر آئیں۔
پشتو زبان کے اس معروف ترقی پسند اور قوم پرست شاعر، ڈرامہ نگار، افسانہ نگاراور کالم نگار نورالبشر نوید کا لڑکپن سہولتوں اور آسائشوں سے محرومی میں گزرا۔ کھیل کود کے دن محنت مزدوری میں گزارے لیکن مشکلات کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔ اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت سے پشتو کے ترقی پسند ادب اور صحافت میں اپنا منفرد نام اور مقام پیدا کرنے والے نور البشر نوید کو انقلابی اور طبقاتی موضوعات پر لکھنے کی پاداش میں کئی بار موت کی دھمکیاں بھی دی گئیں، ان کی رہائش گاہ پر فائرنگ کی گئی مگر وہ ہمیشہ ''ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے'' کے نظریے پر ثابت قدم رہے۔
نور البشر نوید 12فروری 1957ء کو مردان کے قریب تاریخی گاؤں موضع طورو میںخدائی خدمتگار ریدی گل بابا کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے سرکاری سکول سے حاصل کی۔ میٹر ک کے بعد محنت مزدوری پر لگ گئے، صبح سے شام تک اینٹ اور پتھر اُٹھاتے رہے۔ دن رات محنت و مشقت کرکے زندگی کی دوڑ میں آگے چل کر ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا لیکن بی اے میں انگریزی کے پرچے میں ناکامی کے بعد مزید تعلیم کا ارادہ ترک کردیا اور ایک سرکاری ادارے میں ملازمت اختیار کر لی۔
سرکاری ملازمت میں گھٹن اور قید کا احساس ہونے لگا تو جلد ہی خود کو اس قید سے آزاد کرا لیا۔ 1978ء میں معروف لکھاری اور ان ہی کے گاوں سے تعلق رکھنے والے محب اللہ شوق انہیں ریڈیو پاکستان پشاور لے آئے اور سکرپٹ لکھوانا شروع کیا، یہیں سے ان کی زندگی نے نئی کروٹ لی اور وہ اس دن سے باقاعدہ قلم کے مزدور بن گئے، وہ آج بھی اپنے آپ کو بڑے فخر کے ساتھ قلم مزدور کہتے ہیں۔
نور البشر نوید بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ تاہم انہیں قدرت نے کالم، افسانے اور ڈرامے لکھنے کی بے پناہ صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے اور آج انہیں ٹیلی ویژن، ریڈیو اور سٹیج ڈرامہ کے''استاد'' کا درجہ حاصل ہے۔ ساتھ پشتو کے معروف ترقی پسند جریدے ماہنامہ ''لیکوال''(لکھاری) کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ بہترین ڈراموں، کالموں اور نظموں پر متعدد اعزازات اور ایوارڈز بھی حاصل کیے، 2010ء میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے مسلسل تین بار بیسٹ ڈرامہ رائٹر ایوارڈ کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے، ریڈیو پاکستان پشاور سے ایکسیلینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر کے لیے انہوں نے بے شمار ڈرامے اور درجنوں پشتو سیریلز لکھے ہیں، پشتو کے علاوہ اردو میں بھی کئی سیریل لکھے۔
پی ٹی وی کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے پشتو کے مختلف نجی چینلز اور بی بی سی کے لیے بھی لکھتے رہتے ہیں۔ وہ پشتو کے معروف روزنامہ ''وحدت'' سے بطور کالم نگار گزشتہ 22 سالوں سے منسلک ہیں اور ''ماتہ غوگ شہ'' کے عنوان سے مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ وائس آف امریکا کے پشتو ڈیوہ ریڈیو کے لیے بھی بے شمار ڈرامے لکھے ہیں۔ US.AID پراجیکٹ کیلئے بھی ڈرامے لکھے اور تھیٹر کیلئے ''خوشحال خان خٹک'' پر بھی کامیاب ڈرامہ تحریر کیا۔ وہ 42سالوں سے ریڈیو، ٹیلی ویژن، مختلف نجی چینلز اور پراجیکٹس کیلئے لکھ رہے ہیں۔
کل وقتی ادیب، ڈرامہ نویس اور کالم نگار ہیں، ان کی شاعری کے دو مجموعے ''مشالونہ'' اور ''ذول اومشالونہ'' کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ ان کے کالموں پر مشتمل کتاب ''ماتہ غوگ شہ'' دو جلدوں میں شائع ہوئی، اس کے علاوہ ''وطن یا کفن'' کے نام سے بھی ایک کتاب چھپ چکی ہے۔ ان کے زیرادارت ماہنامہ ''لیکوال'' گزشتہ 25 سال سے مسلسل جاری ہے۔ انہوں نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈراموں اور کالموں میں اپنے سماج اور اردگرد ماحول کی عکاسی اور ترجمانی شامل ہوتی ہے۔ بطور افسانہ نگار بھی ان کا کام قابل قدر ہے۔ ان کی ہر تحریر اور تخلیق ''دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں، جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہاہوں میں'' کی تصویر ہوتی ہے۔
اپنے سفر زیست کے بارے میں نورالبشر نوید بتاتے ہیں، ''زندگی بہت تلخ ہے مگر انسان اس تلخ لمحات سے بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔ زندہ لوگ زندگی کے میدان جنگ میں گرتے بھی ہیں اور پھر اُٹھتے بھی ہیں، یہی ناہموار زندگی انسان میں جہد مسلسل کا جذبہ پیدا کرتی ہے، سو میں بھی زندگی کے اس سفر میں بچپن سے ہی غربت اور مالی مشکلات کا شکار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ میں ناہموار زندگی کے سفر نے تیز دوڑنے اور چلنے کی صلاحیت پیدا کی ہے، میں اس سفر میں بہت تیز چلتا رہا، دوڑ تا رہا، چھابڑی کی مزدوری سے لے کر قلم کی مزدوری تک میں نے وہ سب کچھ کیا جو زندگی کی بنیادی ضروریات تھیں۔مگر ایک چیز مجھ سے اس دوڑ میں رہ گئی کہ میں تعلیم مکمل نہ کر سکا۔
میں ابھی میڑک کا طالبعلم تھا کہ میں نے مزدوری شروع کی، اینٹیں اور پتھر اٹھائے، میڑک کے بعد ایک سر کاری ادارہ میں نوکری مل گئی اور غربت سے کچھ افاقہ ہوا۔ نوکری کے دوران میں نے ایف اے کیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی، اس کامیابی نے مجھ میں ہمت پیدا کی لیکن بی اے کے امتحان میں انگریزی کا امتحان پاس نہ کر سکا تو اس ناکامی پر تعلیمی سلسلہ چھوڑ دیا، پھر حالات نے ساتھ نہ دیا۔ ملازمت چھوڑنے سے معاشی حالات پھر سے ناسازگار ہو گئے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اس مشکل حالات سے لڑتا رہا۔ 1978ء میں محب اللہ شوق کی وساطت سے ریڈیو پاکستان پشاور کیلئے لکھنا شروع کیا۔ شعر و شاعری کے ساتھ فیچر نگاری بھی کی، بچوں کے پروگرامز کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈرامے لکھے،اسی طرح ''دخو یندو پروگرام'' لکھنے کے ساتھ ایک اور پروگرام ''سند ریزی قیصئی'' بھی لکھتا رہا۔1979ء میں ریڈیو پاکستان پشاور کیلئے ''تتہ رنڑا'' ڈرامہ لکھا جسے ایس ایم اسحاق نے پیش کیا، اسی ڈرامے سے ریڈیو پر ڈرامے کا سفر شروع ہوا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کا سفر ایک مشاعرے سے شروع ہوا، یہ وہ زمانہ تھا کہ افغانستان میں ''ثور انقلاب'' بپھرا ہوا تھا۔ اس وقت ایڈورڈز کالج پشاور میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا، ایک ریٹائرڈ فوجی بریگیڈیئر نے افغان انقلاب کے خلاف کچھ کہا، غنی خان مشاعرے کی صدرات کر رہے تھے، میں نے اس صاحب کو مخاطب کرکے اپنی نظم افغان انقلاب کے حق میں پڑھی اور یہیں سے مجھ میں مزاحمتی ادب نے جنم لیا۔ اس کے بعد محب اللہ شوق نے مجھے پشاور ٹیلی ویژن سنٹر بلایا۔ اس وقت پی ٹی وی پشاور فورٹ روڈ پر تھا جہاں اب پبلک سروس کمیشن کا دفتر ہے۔ جب میں وہاں گیا تو اس وقت سینئر پروڈیوسرز فرمان اللہ جان اور صلاح الدین ایک ہی آفس میں بیٹھے ہوئے تھے، ان سے ملا قات ہوئی، یاد رہے کہ یہ دونوں پروڈیوسر ایڈورڈ کالج کے مشاعرے میں شریک رہے تھے جو میری نظم سُن کر بہت خوش ہوئے تھے۔اُس وقت فرمان اللہ جان نے مجھ سے ایک غزل لی۔
یو محلت دے یوکوسہ دہ چی اشنا کلی تہ راشے
بیا خولگ راخکارہ کیگہ چی زما کلی تہ راشے
یہ غزل لوگوں میں بہت مقبول ہوئی، تو ریڈیو پاکستان پشاور نے بھی یہی غزل نشر کی اسی طرح بطور شاعر میں نے ٹیلی ویژن سے ابتدا کی۔ اس کے بعد مسعود احمد شاہ نے میرا پہلا ڈرامہ (25منٹ کا) ''نیمگڑی خوبونہ''پیش کیا جس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور میرا قلم میرے معاش کا ذریعہ بنتا رہا۔''
نور البشر نوید کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، ان کے بقول: ''شاعری، ڈرامہ نگاری یا کالم نگاری ایک ہنر ہے، یہ موروثی چیزیں نہیں ہیںکہ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو منتقل ہوسکیں۔ یہ ایک قدرتی صلاحیت ہے، بہت کم لوگوںکا ذریعہ معاش قلم ہے، لیکن اس ناہموار زندگی میں میرے قلم نے میرا ساتھ دیا اور اب بھی ساتھ دے رہا ہے، میں اور قلم لازم و ملزوم ہیں۔ میری زندگی اسی سے عبارت ہے۔بالکل اس شعر کے مصداق۔
مجھ کو سولی پہ چڑھانے کی ضرورت کیا ہے
میرے ہا تھوں سے قلم چھین لو مر جاؤں گا''
انہوں نے بتایا، ''شاعری کے مقابلے میں نثر لکھنے کے لیے مجھے بہت سے مواقع ملے، ڈرامہ اور کالم تو مجھ میں رچ بس چکے ہیں، شاعری سے زیادہ وقت میں نے ڈرامہ اور کالم کو دیاہے، شاعری میرے لیے جذبات اور احساسات کا نام جبکہ کالم اور ڈرامہ میرے معاش کا ذریعہ ہے، پھر بھی میں نے ہمیشہ کالم اور ڈرامہ میں بھی اپنے دل کی بات کی ہے، اپنے سیاسی اور نظریاتی پہلو کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ مجھ سے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں کچھ لکھوں اور اس میں میرے سیاسی اور نظریاتی پہلو کا اظہار نہ ہو۔
ایک دفعہ میں ٹیلی ویژن کا ایک سیریل کررہا تھا تو ایک صاحب نے مجھے کہا کہ سیاست اور ممنوعہ باتوں سے ہٹ کر لکھو، تم ڈائیلاگ میں بھی کچھ نہ کچھ کر جاتے ہو۔ میں نے اس وقت بات ٹال دی لیکن جب لکھنے بیٹھا تو وہی کردار لکھے جو پالیسی کے حوالے سے ممنوع تھے لیکن میں نے ان کرداروں کو علامت کا رنگ دیا، میں نے کبھی بھی اپنی سوچ چھپانے کی کوشش نہیں کی، ہمیشہ اپنے نظریے کے مطابق لکھا۔ میں اپنے حرفوں کا امین ہوں خدا نہ کرے کہ کبھی میں اس میں خیانت کروں۔ میں ادب برائے ادب کا قائل نہیں، ادب برائے زندگی پر یقین رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں ادب برائے ادب کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ ادب کو بھلا ادب کی کیا ضرورت ہے جبکہ ادب کو زندگی اور زندگی کو ادب کی ضرورت ہے، ادب کو زندگی کے آئینہ میں دیکھنا ہوگا۔ میں ہمیشہ زمینی حقائق اور اردگرد کے حقیقی کرداروں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی سکرپٹ لکھتا ہوں۔''
نور البشر نوید نے بتایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو سنجیدہ ڈرامہ لکھتے ہیں وہ مزاح نہیں لکھ سکتے جبکہ طنزو مزاح کے لکھاری سنجیدہ کردار نہیں لکھ سکتے۔ حالانکہ اس طرح کی کوئی بات نہیں، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم، ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما اور سعد اللہ جان برق جیسے سنجیدہ لکھاریوں نے طنز و مزاح پر مبنی سیریلز بھی لکھے ہیں۔ ''جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے زیادہ تر سنجیدہ ڈرامے لکھے مگر ایک دفعہ پروڈیوسر مسعود احمد شاہ نے کہا کہ آؤ مزاح کی طرف بھی چلتے ہیں۔
سو میں نے مزاحیہ ڈارمہ لکھنا شروع کیا اور لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اس حوالے سے ایک اور واقعہ بیان کر دوں کہ ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں خواتین کی تعلیم پر ایک سٹریٹ تھیٹر کر رہا تھا، ایک شخص آیا اس کے ساتھ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں بھی تھیں، انہوں نے مجھے کہا کہ تم لوگ بغیر رونے دھونے کے ڈرامے نہیں لکھ سکتے؟ میں نے کہا کہ اس کٹھن اور تکلیف دہ زندگی میں رونے والے لوگوں کو ہنسانا بہت مشکل کام ہے جیسا کہ پشتو کی ایک ضرب المثل ہے: ''چی یو د لوگے مری او بل ئے سر تہ پراٹے گوری'' (ایک بھوک سے مر رہا ہے اور دوسرا اس کے سرہانے پراٹھے تلاش کرتا ہے۔)''
نور البشر نوید کے ڈرامے پشتون کلچر اور کرداروں کے گرد گھومتے ہیں، اس لیے کبھی بھی گلیمر ڈرامے نہیں لکھے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اردو بولنے میں انہیں دشواری محسوس ہوتی ہے لیکن لکھنے میں ایسی کوئی بات نہیں۔ اس ضمن میں باچا خان کا ایک واقعہ یوں سنایا، ''ایک دفعہ باچا خان بابا لاہور میں چٹان کے چیف ایڈیٹر اورمشہور صحافی شورش کاشمیری کے گھر میں صحافیوں سے باتیں کررہے تھے۔ باچاخان بار بار کہہ رہے تھے کہ میرا قوم تگڑا اور بہادر ہے، بار بار میرا قوم، میراقوم کہتے رہے۔ ایک صحافی اُٹھ کر بولا خان بابا قوم مونث ہے، مذکر نہیں، باچاخان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بیٹا، میرا قوم مذکر ہے۔''
نور البشرنوید کے مطابق جب انہوں نے روزنامہ وحدت میں کالم لکھنا شروع کیا، اس وقت افغان مسئلہ بہت زور و شور سے چل رہا تھا، کچھ قارئین فون پر گالیاں اور کچھ ڈھیر ساری دُعائیں دیتے۔ بتاتے ہیں، ''ہر روز مجھے ایک فون نمبر سے گالیاں، دھمکیاں اور ایسی ایسی باتیں سننی پڑتیں جن کی وجہ سے دیر تک ذہنی طور پر پریشان رہتا، تاہم گالیاں دینا اس بندے کا فرض اور سننا میری عادت بن گئی تھی۔ ایک روز یونیورسٹی کا ایک جوان ایک پروفیسر دوست کی وساطت سے آیا۔ ڈرامے میں کام کرناچاہتا تھا۔ اس نے گھر کا فون نمبر دیا، اس وقت موبائل نہیں تھا، میں نے ایک دن اس نمبر پر یہ بتانے کے لیے کال کی کہ وہ لڑکا پی ٹی وی کے ایک ڈرامے میں کاسٹ ہو گیا ہے، جب میں نے کال کی تو دوسری طرف سے وہی آواز آئی جس سے ہر روز گالیاں اور دھمکیاں سنتا تھا۔
میں نے اپنا تعارف کرایا اور پیغام پہنچایا، وہ بھی سمجھ گیا اور میں بھی جان گیا۔ دراصل وہ شخص انفارمیشن آفیسر تھا۔ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا، ایک دن اخبار کے دفتر میں بیٹھا کالم کیلئے کوئی موضوع سوچ رہا تھا کہ اس دوران چیف ایڈیٹر پیر سفید شاہ ہمدرد صاحب آگئے، انہوں نے مخصوص نرم لہجے میں کہا بیٹا کالم میں ذرا اسلامی رنگ بھی شامل کیا کرو، یہ سن کر میں نے اسی وقت ''اسلامی رنگ'' کے عنوان سے کالم لکھا، مگرایسا کہ افغان جہاد کے حامیوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ جیسے ہی کالم شائع ہوا، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، جہادیوں نے شور مچایا۔ پیر صاحب نے کہا بیٹے آئندہ میں کوئی موضوع نہیں دوں گا تم خود جو لکھوتمہا ری مرضی۔ بہرحال میں نے اخبار کی پالیسی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا رنگ جماکے رکھا۔ ماہنامہ ''لیکوال'' تو سب کے سامنے ہے، کسی کیلئے تریاق تو کسی کیلئے زہر ہلاہل۔''
ان کے بقول ریاست اور عوام کے حالات اور ضروریات بدلتی رہتی ہیں، انسانی ضروریات اور گلوبل ویلج کے تقاضوں کے مطابق ہمیں سوچنا ہوگا۔ مذہب اور ریاست کو الگ الگ رکھنا چاہیئے، دیکھا جائے تو ہمارے ہاں زیادہ تر اختلافات مسلکی ہیں۔ ادب اور سیاست کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ادب کل ہے اور سیاست جزو ۔دونوں کا چولی دامن کاساتھ ہے، جس طرح زمین اور پودا۔ ہم جب ادب برائے زندگی کی بات کرتے ہیں، اس میں ادب برائے سیاست بھی شامل ہے۔ کیونکہ جس ادب میں نظریہ اور جس سیاست میں ادب نہ ہو وہ انسانی معاشرے کی بُنت میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ان کے مطابق افغان حکومت نے انہیں گزشتہ سال افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال کے ہاتھوں سرکاری میڈل دیا۔ یہ اس طرح کا اعزاز ہے جس طرح پاکستان کا پرائیڈ آف پرِفارمنس ہوتا ہے، جس پر وہ افغان حکومت کے شکرگزار ہیں۔ کہتے ہیں، ''میں نے افغانستان کے مسئلہ پر بہت کچھ لکھا اور بعض حلقوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔''