ملتان صادق آباد مچھ میں قتل کیے جانیوالے سپرد خاک آبائی علاقوں میں کہرام

حکومت نے کوئی مدد نہیں کی پرائیویٹ ایمبولینس کے ذریعے پیاروں کی لاشیںلائے ہیں، لواحقین

ملتان میں ارشد کے ورثاکا احتجاج، آدھے دہشتگرد ایف سی کی وردی میں تھے ، بچ جانیوالے اکرم کا بیان،واقعے کا نوٹس لیا جائے،مکینوں کا مطالبہ فوٹو : ایکسپریس

سانحہ مچھ میں قتل کیے گئے صادق آباد کے 3 ،ملتان اور علی پور کے 2 رہائشیوںکی میتیں انکے گھروں میں پہنچ گئیں۔

جنھیں سپردخاک کردیا گیا عید پر انکے گھروں میں کہرام مچ گیا۔ صادق آباد کے نواحی علاقے پنڈت ڈری میں ایک ہی گھر کے 2 مکین سالا بہنوئی محمد احمد اور محمد شکیل کی لاشیں بذریعہ ایمبولنیس انکے گھر پہنچائی گئیں جبکہ احمد پور لمہ کے رہائشی محمد نعیم کی میت ان کے آبائی گھر منتقل کی گئی۔ مقتول احمد کے والد محمد بوٹا نے بتایا کہ احمد ہمارے گھر کا واحد کفیل تھا واقعے کی اطلاع رات تین بجے ملی جس کے بعد ہم نے موبائل نمبرز پر رابطہ کیا تو بلوچی میں فون اٹھانے والوں نے کہاکہ آپ کے بچے مرگئے ہیں آکر لاشیں لے جائیں انھوں نے کہاکہ حکومت نے ہماری کوئی مدد نہیں کی ہم 50ہزار روپے دیکر پرائیویٹ ایمبولینس کے ذریعے اپنے پیاروں کی لاشیں لے کرگھر آئے ہیں ہمارا گھر ہی اجڑ گیا ہے' مقتول کے بھائی نے کہا کہ ہمارا بھائی شکیل شادی شدہ تھا اوراسکی ایک آٹھ ماہ کی بچی ہے ۔ نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی سیاسی سماجی مذہبی کاروباری افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔




عد ازاں پنڈت دڑی میں مقتولین محمد احمد اور شکیل احمد جو کہ آپس میں سالا اور بہنوئی ہیں اور ایک ہی گھر سے تعلق رکھتے تھے کی لاشیں جب پنڈت دڑی پہنچی تو گھر میں کہرام مچ گیا اور ہر آنکھ اشکبار تھی ان کی نماز جنازہ پنڈت دڑی میں ادا کی گئی جس میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی تینوں مقتولین کوان کے آبائی قبرستانوں میں آہوں اور سسکیوں کیساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس موقع پرعلاقہ عوام نے دہشتگردی کی واردات کی مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف 'وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ 13 مقتولین کے ورثا کی مالی امداد کی جائے۔ ملتان اور علی پور سے نمائند گان ایکسپریس کے مطابق بولان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ملتان کے محمد ارشد اور علی پور کے محمد اسلم کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ ملتان میں چونگی نمبر 8 پر محمد ارشد کے ورثا نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ محمد ارشد کی لاش گزشتہ دنوں ملتان لائی گئی توگھر میں کہرام مچ گیا۔

محمد ارشد کے رشتہ دار نے بتایا کہ ارشد کے پاس کوئٹہ میں فوجی جوانوں کے جوتے تیارکرنے کا ٹھیکہ تھا۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے۔ علی پور کے علاقے بہار شاہ میں جب 20 سالہ محمد اسلم کی لاش لائی گئی تو ہرآنکھ اشکبار تھی۔ والدہ اور والد پرغشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ محمد اسلم کی عید کے بعد شادی تھی اور وہ 2 سال بعد ایران سے علی پورآ رہا تھا۔سندھی بولنے کی وجہ سے بچ جانے والے مقتول کے کزن محمد اکرم نے بتایا کہ آدھے سے زیادہ دہشت گرد ایف سی کی وردی میں ملبوس تھے جبکہ باقی بلوچی لباس میں تھے۔ دہشت گردوں نے صبح 10 بجے گاڑیاں روکنا شروع کیں۔ شام 5 بجے تک وہ پنجابی بولنے والوں کواتارکرمارتے رہے۔ میں سندھی بولنے کی وجہ سے بچ گیا۔ دریں اثنا محمد اسلم کی میت صبح 6 بجے آبائی گاؤں بہارشاہ پہنچی۔ نمازجنازہ میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی ۔ محمد اسلم کے ورثا نے احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ کسی حکومتی ادارے یا این جی او نے کوئی مدد نہیں کی۔ لوگوں سے رقم مانگ کرمیت لائے ہیں۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی پنجاب، ن لیگ ن ،جماعت اہلسنت کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں کام کرنے والوں دیگر صوبوں کے باشندوںکو تحفظ مہیا کیا جائے ۔مچھ واقعہ قابل مذمت ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری واقعے کا نوٹس لیں۔
Load Next Story