تھر کے کوئلے سے بجلی بشیر انصاری مسکرا رہے ہوں گے
بشیر احمد انصاری نے تھر کے کوئلے سے بجلی بننے کا جو خواب دیکھا تھا، آج پورا پاکستان اس سے مستفید ہورہا ہے
19 مارچ 2019 کو پاکستان کی تاریخ کا اہم دن قرار دیا جارہا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان میں ترقی کاایک نیا باب رقم ہورہا ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی ہے اور ابتدائی طور پر 330 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوچکی ہے۔
ترجمان سندھ اینگرو کول مائنز کمپنی کے مطابق تھر کے 21 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں سے 9300 مربع کلومیٹر اراضی میں کوئلہ موجود ہے۔ یہاں پائے جانے والے 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر، دنیا میں کوئلے کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہیں۔ صرف بلاک 2 میں کوئلے کی مقدار 2 ارب ٹن ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ کوئلے سے بجلی بنانے کا ہدف 3 ماہ قبل ہی حاصل کرلیا گیا ہے اورابتدائی طور پر 330 میگا واٹ بجلی بنا کر نیشنل گرڈ میں شامل کردی گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار کو مرحلہ وار بڑھایا جائے گا۔ کوئلے سے 200 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ کی شرح سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
بہت بڑی اور یقیناً خوشی کی خبر ہے کہ ہمارا پیارا ملک پاکستان توانائی میں خود کفیل ہورہا ہے۔ اس موقع پر حکومت سندھ اور سندھ اینگرو کول مائنز کمپنی مبارک باد کی مستحق ہیں، لیکن کیا ہم میں سے کسی کو بشیر احمد انصاری یاد ہیں؟
بشیر احمد انصاری سندھ کول اتھارٹی کے سربراہ تھے۔ وہ اسی زمین کے بیٹے تھے، سو انہوں نے یہاں کی مٹی سونگھ کر اندازہ کرلیا تھا کہ یہاں کوئلے کا بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے تھر میں زیر زمین موجود کوئلے سے بجلی بنانے کی بات کی تھی۔
اس وقت شاید کسی کو ان کی بات کا اعتبار نہ ہوا، اس لیے انہوں نے اپنے خرچ پر تھرپارکر کی زمین میں کھدائی شروع کردی۔ جوں جوں کھدائی ہوتی رہی، گہرائی سے نکلتی مٹی گواہی دیتی رہی کہ یہاں کوئلہ موجود ہے۔ اور پھر وہ اپریل 2002 تھا جب انہوں نے 8 فٹ قطر کے کنوئیں کی کھدائی شروع کردی۔ کنواں کھدتا رہا اور مٹی نکلتی رہی، مٹی کی رنگت بتارہی تھی کہ اب منزل قریب ہے۔ لیکن جب مزدور 121 میٹر کی گہرائی تک پہنچے تھے کہ زیر زمین موجود پانی کا ذخیرہ پھٹ پڑا اور سب کچھ تباہ ہوگیا۔ مٹی کا تودہ گرنے سے مزدور جاں بحق ہوگئے۔ شاید ان کی پشت پر ادارے کی سپورٹ موجود نہ تھی اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادے کےلیے ان کے پاس وسائل نہ تھے۔ وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور خالق حقیقی سے جاملے۔
وہ 2002 تھا اور یہ 2019 ہے کہ جب انصاری صاحب کا خواب سچ ہوگیا اور تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے۔
چند ہفتے قبل میں نے تھرپارکر کا سفر کیا تھا اور میری منزل اسلام کوٹ تھیٍ، جہاں کوئلے کی کھدائی کا کام جاری تھا۔ بجلی کی پیداوار کےلیے پلانٹ تیار تھا لیکن مجھے پلانٹ کو دیکھنے میں زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو تھر کے پسماندہ اور غریب لوگوں کی بہتری کےلیے کیے جانے والے اقدامات دیکھنے تھے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اعلیٰ پائے کا صحافی ثابت کرنے کےلیے قلم کو تلوار بنالیا جائے؟ جہاں تعریف بنتی ہے وہاں بھی تنقید کے نشتر چلائے جائیں؟ ہر جگہ ''خیر'' میں ''شر'' تلاش کیا جائے؟ نہیں صاحب! میں خود کو اتنی ''اعلیٰ پائے'' کی صحافی نہیں سمجھتی، اس لیے کسی بھی مثبت بات کی دل کھول کر تعریف کرتی ہوں۔ کیا سچ اس لیے نہ کہا جائے کہ اس سے کسی کی تعریف کا پہلو نکلے گا۔ سچ تو سچ ہے، دمکتے سورج کی طرح اپنا آپ آشکار ہوجائے گا۔
تھر کی جانب ہماری گاڑی رواں دواں تھی۔ کالے سونے سے مالامال، ماروی کی دھرتی میرے سامنے پھیلی ہوئی تھی۔ چاروں طرف تیز چلچلاتی دھوپ میں ریت کے بگولوں کا رقص جاری تھا۔ ہوا کی انگلیاں ٹیلوں پر نقش و نگار ابھار رہی تھیں۔ دور دور تک ہو کا عالم تھا، تین سال سے بارشوں سے محروم تھر کی زمین بنجر اور اجاڑ نظر آرہی تھی۔ چلچلاتی دھوپ میں ہانپتے ہوئے جانور سائے کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے، مگر خشک سالی نے درختوں سے ان کا سایہ بھی چھین لیا تھا۔ میلوں پھیلے صحرا میں زندگی دکھوں کا دوسرا نام تھی۔ لیکن صحرا میں جیسے ریت کے ٹیلے ہوا کے باعث جگہ بدلتے ہیں، اسی طرح اب تھر میں بھی بہت کچھ بدل رہا ہے۔
ماروی کی اس دھرتی میں صرف کوئلہ ہی نہیں، کیسے کیسے گوہر نایاب پوشیدہ ہیں، یہ وہاں جا کر معلوم ہوتا ہے۔ کیسا دل لبھانے والا منظر ہوتا ہے جب وہاں کی پسماندہ اور غربت سے بدحال خواتین کو آپ بھاری بھرکم ٹرک اور ڈمپر چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ خواتین کا ایک بیج ڈرائیونگ سیکھ کر نوکری کررہا ہے، جبکہ کئی اور گروپ زیر تربیت ہیں۔ صبح آٹھ بجے ان کو ٹریننگ کےلیے تروتازہ موجود دیکھ کر پوچھا ''آپ تو یہاں ہیں تو گھر کے کام کون کرے گا؟ کیا آپ کے گھر کے مرد معترض نہ ہوں گے؟'' ان سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم گھر کا سارا کام کرکے آتے ہیں۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے!
تھر میں بدحالی اور غربت کے ہاتھوں موت کا رقص بھی جاری رہتا ہے۔ اسپتال اور ادویہ کی شدید قلت ہے لیکن جب بلاک 2 میں انڈس اسپتال کی زیر تکمیل عمارت اور انڈس اسپتال ہی کے تعاون سے خواتین کےلیے ماروی کلینک کو کام کرتے دیکھتے ہیں تو اطمینان بھری سانس لیتے ہیں۔ 24 اسکولوں میں کھچاکھچ بھرے ہوئے بچوں کو انگریزی بولتے اور ریاضی کے سوال حل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آنے والے دنوں میں تھر کے نقشے میں بہت سے رنگ بھرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے افراد تصدیق کرتے ہیں کہ عنقریب یہاں یونیورسٹی بھی کھل جائے گی۔
یہ پورے تھر کا نہیں، صرف بلاک ٹو کا نقشہ ہے جہاں سے کوئلہ نکالا جارہا ہے۔ کوئلہ نکالنے والی کمپنی اپنی سماجی خدمات کے شعبے کے تحت یہ سارے کام کررہی ہے۔ کوئلے کے حوالے سے ملک بھر میں گرماگرم بحث جاری ہے کہ یہ عمل بہتر ہے یا نہیں؟ کوئلہ نکالنا چاہیے یا نہیں؟ پوری دنیا اپنے کوئلے کے وسائل سے استفادہ کرچکی ہے لیکن ہم زیر تنقید ہں۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟ اس بحث سے قطع نظر ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کوئلے کے بدلے تھر کے غریب عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار مل جائے تو کیا برا ہے؟ زمین میں مدفون کوئلے سے انہیں کیا فائدہ پہنچ رہا تھا۔ آئین پاکستان کے تحت انہیں بھی حق حاصل ہے کہ وہ ان بنیادی سہولیات سے استفادہ کریں۔
قریب ہی آپ کو ایک خوبصورت اور ہرا بھرا انصاری پارک بھی نظر آئے گا، جہاں بچے جھولا جھول رہے ہوں گے اور پارک میں بشیر احمد انصاری کی ایک تصویر بھی آویزاں ہے۔ شاید آج اس تصویر کے لبوں پر مسکراہٹ ہوگی۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا، آج پورا پاکستان اس سے مستفید ہورہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ترجمان سندھ اینگرو کول مائنز کمپنی کے مطابق تھر کے 21 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں سے 9300 مربع کلومیٹر اراضی میں کوئلہ موجود ہے۔ یہاں پائے جانے والے 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر، دنیا میں کوئلے کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہیں۔ صرف بلاک 2 میں کوئلے کی مقدار 2 ارب ٹن ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ کوئلے سے بجلی بنانے کا ہدف 3 ماہ قبل ہی حاصل کرلیا گیا ہے اورابتدائی طور پر 330 میگا واٹ بجلی بنا کر نیشنل گرڈ میں شامل کردی گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار کو مرحلہ وار بڑھایا جائے گا۔ کوئلے سے 200 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ کی شرح سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
بہت بڑی اور یقیناً خوشی کی خبر ہے کہ ہمارا پیارا ملک پاکستان توانائی میں خود کفیل ہورہا ہے۔ اس موقع پر حکومت سندھ اور سندھ اینگرو کول مائنز کمپنی مبارک باد کی مستحق ہیں، لیکن کیا ہم میں سے کسی کو بشیر احمد انصاری یاد ہیں؟
بشیر احمد انصاری سندھ کول اتھارٹی کے سربراہ تھے۔ وہ اسی زمین کے بیٹے تھے، سو انہوں نے یہاں کی مٹی سونگھ کر اندازہ کرلیا تھا کہ یہاں کوئلے کا بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے تھر میں زیر زمین موجود کوئلے سے بجلی بنانے کی بات کی تھی۔
اس وقت شاید کسی کو ان کی بات کا اعتبار نہ ہوا، اس لیے انہوں نے اپنے خرچ پر تھرپارکر کی زمین میں کھدائی شروع کردی۔ جوں جوں کھدائی ہوتی رہی، گہرائی سے نکلتی مٹی گواہی دیتی رہی کہ یہاں کوئلہ موجود ہے۔ اور پھر وہ اپریل 2002 تھا جب انہوں نے 8 فٹ قطر کے کنوئیں کی کھدائی شروع کردی۔ کنواں کھدتا رہا اور مٹی نکلتی رہی، مٹی کی رنگت بتارہی تھی کہ اب منزل قریب ہے۔ لیکن جب مزدور 121 میٹر کی گہرائی تک پہنچے تھے کہ زیر زمین موجود پانی کا ذخیرہ پھٹ پڑا اور سب کچھ تباہ ہوگیا۔ مٹی کا تودہ گرنے سے مزدور جاں بحق ہوگئے۔ شاید ان کی پشت پر ادارے کی سپورٹ موجود نہ تھی اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادے کےلیے ان کے پاس وسائل نہ تھے۔ وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور خالق حقیقی سے جاملے۔
وہ 2002 تھا اور یہ 2019 ہے کہ جب انصاری صاحب کا خواب سچ ہوگیا اور تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے۔
چند ہفتے قبل میں نے تھرپارکر کا سفر کیا تھا اور میری منزل اسلام کوٹ تھیٍ، جہاں کوئلے کی کھدائی کا کام جاری تھا۔ بجلی کی پیداوار کےلیے پلانٹ تیار تھا لیکن مجھے پلانٹ کو دیکھنے میں زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو تھر کے پسماندہ اور غریب لوگوں کی بہتری کےلیے کیے جانے والے اقدامات دیکھنے تھے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اعلیٰ پائے کا صحافی ثابت کرنے کےلیے قلم کو تلوار بنالیا جائے؟ جہاں تعریف بنتی ہے وہاں بھی تنقید کے نشتر چلائے جائیں؟ ہر جگہ ''خیر'' میں ''شر'' تلاش کیا جائے؟ نہیں صاحب! میں خود کو اتنی ''اعلیٰ پائے'' کی صحافی نہیں سمجھتی، اس لیے کسی بھی مثبت بات کی دل کھول کر تعریف کرتی ہوں۔ کیا سچ اس لیے نہ کہا جائے کہ اس سے کسی کی تعریف کا پہلو نکلے گا۔ سچ تو سچ ہے، دمکتے سورج کی طرح اپنا آپ آشکار ہوجائے گا۔
تھر کی جانب ہماری گاڑی رواں دواں تھی۔ کالے سونے سے مالامال، ماروی کی دھرتی میرے سامنے پھیلی ہوئی تھی۔ چاروں طرف تیز چلچلاتی دھوپ میں ریت کے بگولوں کا رقص جاری تھا۔ ہوا کی انگلیاں ٹیلوں پر نقش و نگار ابھار رہی تھیں۔ دور دور تک ہو کا عالم تھا، تین سال سے بارشوں سے محروم تھر کی زمین بنجر اور اجاڑ نظر آرہی تھی۔ چلچلاتی دھوپ میں ہانپتے ہوئے جانور سائے کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے، مگر خشک سالی نے درختوں سے ان کا سایہ بھی چھین لیا تھا۔ میلوں پھیلے صحرا میں زندگی دکھوں کا دوسرا نام تھی۔ لیکن صحرا میں جیسے ریت کے ٹیلے ہوا کے باعث جگہ بدلتے ہیں، اسی طرح اب تھر میں بھی بہت کچھ بدل رہا ہے۔
ماروی کی اس دھرتی میں صرف کوئلہ ہی نہیں، کیسے کیسے گوہر نایاب پوشیدہ ہیں، یہ وہاں جا کر معلوم ہوتا ہے۔ کیسا دل لبھانے والا منظر ہوتا ہے جب وہاں کی پسماندہ اور غربت سے بدحال خواتین کو آپ بھاری بھرکم ٹرک اور ڈمپر چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ خواتین کا ایک بیج ڈرائیونگ سیکھ کر نوکری کررہا ہے، جبکہ کئی اور گروپ زیر تربیت ہیں۔ صبح آٹھ بجے ان کو ٹریننگ کےلیے تروتازہ موجود دیکھ کر پوچھا ''آپ تو یہاں ہیں تو گھر کے کام کون کرے گا؟ کیا آپ کے گھر کے مرد معترض نہ ہوں گے؟'' ان سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم گھر کا سارا کام کرکے آتے ہیں۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے!
تھر میں بدحالی اور غربت کے ہاتھوں موت کا رقص بھی جاری رہتا ہے۔ اسپتال اور ادویہ کی شدید قلت ہے لیکن جب بلاک 2 میں انڈس اسپتال کی زیر تکمیل عمارت اور انڈس اسپتال ہی کے تعاون سے خواتین کےلیے ماروی کلینک کو کام کرتے دیکھتے ہیں تو اطمینان بھری سانس لیتے ہیں۔ 24 اسکولوں میں کھچاکھچ بھرے ہوئے بچوں کو انگریزی بولتے اور ریاضی کے سوال حل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آنے والے دنوں میں تھر کے نقشے میں بہت سے رنگ بھرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے افراد تصدیق کرتے ہیں کہ عنقریب یہاں یونیورسٹی بھی کھل جائے گی۔
یہ پورے تھر کا نہیں، صرف بلاک ٹو کا نقشہ ہے جہاں سے کوئلہ نکالا جارہا ہے۔ کوئلہ نکالنے والی کمپنی اپنی سماجی خدمات کے شعبے کے تحت یہ سارے کام کررہی ہے۔ کوئلے کے حوالے سے ملک بھر میں گرماگرم بحث جاری ہے کہ یہ عمل بہتر ہے یا نہیں؟ کوئلہ نکالنا چاہیے یا نہیں؟ پوری دنیا اپنے کوئلے کے وسائل سے استفادہ کرچکی ہے لیکن ہم زیر تنقید ہں۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟ اس بحث سے قطع نظر ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کوئلے کے بدلے تھر کے غریب عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار مل جائے تو کیا برا ہے؟ زمین میں مدفون کوئلے سے انہیں کیا فائدہ پہنچ رہا تھا۔ آئین پاکستان کے تحت انہیں بھی حق حاصل ہے کہ وہ ان بنیادی سہولیات سے استفادہ کریں۔
قریب ہی آپ کو ایک خوبصورت اور ہرا بھرا انصاری پارک بھی نظر آئے گا، جہاں بچے جھولا جھول رہے ہوں گے اور پارک میں بشیر احمد انصاری کی ایک تصویر بھی آویزاں ہے۔ شاید آج اس تصویر کے لبوں پر مسکراہٹ ہوگی۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا، آج پورا پاکستان اس سے مستفید ہورہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔