پی ایس ایل فور

عین لیگ کے ہنگام میں پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ جنگ کا خطرہ سروں پر منڈلانے لگا۔


Amjad Islam Amjad March 21, 2019
[email protected]

پی ایس ایل 4 کی صورت میں جو بخار پچھلے دنوں ملک کے طول و عرض میں پھیلا رہا اس کی کہانی بہت دلچسپ بھی ہے ۔

اور خیال افروز بھی۔ کھیل اور بالخصوص ٹیم کی شکل میں کھیلے جانے والے کھیلوں کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں کہ یہ وقتی طور پر ہی سہی پوری زندگی کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ہمارے یہاں آیا تو برٹش راج کے طفیل کہ گورے سپاہی اور انتظامیہ کے لوگ اس کی وساطت سے اپنی تہذیبی روایت سے رشتہ جوڑ لیتے تھے ، سو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں یونین جیک لہرایا وہاں کرکٹ بھی پہنچ گئی اور لطف کی بات یہ ہے کہ اپنی چھاؤنیوں اور اسکولوں اور تھانے کچہری کی طرح اس کی گراؤنڈز اور پویلینز میں بھی ایک خاص طرح کی مشابہت پائی جاتی ہے۔

انگلینڈ، آسٹریلیا، ساؤتھ افریقہ ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے بعد آزادی سے قبل ہی انڈیا کی مشترکہ ٹیم کو ٹیسٹ اسٹیٹس مل چکا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کی اس کھیل سے دلچسپی پرانی بھی ہے اور گہری بھی۔ ستر کی دہائی تک اس کے سارے قوانین اور عمومی انتظام انگریز ہی کے ہاتھ میں تھا اور وہ اپنی مخصوص اجارہ دارانہ فطرت کے تحت اسے ''شریفوں کے کھیل '' کا نام دیتے اور اس شرافت کا معیار وہ خود تھے۔

برصغیر کے پاکستانی حصے کا کمال یہ ہے کہ اس کی کرکٹ ٹیم نے 1952 میں ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے کے بعد آٹھ سال کے اندر اندر اپنے مقابلے میں آنے والی ہر ٹیم کو کم از کم ایک بار شکست ضرور دی، ان میں سب سے بڑا کارنامہ 1954 میں سابقہ حکمرانوں کو اوول کے میدان میں شکست دینا تھا جس نے ساری دنیا کو انگشت بدنداں کر دیا اس میچ کے ہیرو فضل محمود تھے اور مجید امجد مرحوم کی شاندار نظم ''آٹوگراف'' اسی واقعے کے پس منظر میں لکھی گئی ہے جس کی کچھ لائنیں کچھ اس طرح سے ہیں کہ

کھلاڑیوں کے خودنوشت دستخط کے واسطے

کتابچے لیے ہوئے

کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں

ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر حسین لڑکیاں

کسی عظیم شخصیت کی تمکنت

حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی

تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض رک گئی

وہ باولراک مہ وشوں کے جھمگٹے میں ِگھر گیا

تو صفحہ بیاض پر

بصد غرور کلکِ گوہریں پھری

حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری

یہ سلسلہ شاید یوں ہی چلتا رہتا ہے مگر 70 کی دہائی میں ایک آسٹریلوی میڈیا ٹائیکون نے اپنے بورڈ سے نشریاتی حقوق کے تنازعے میں ناراض ہو کر کرکٹ کی ایک نئی شکل کو متعارف کروایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج کل جو ہر طرف لیگز کا شوروغوغا ہے اس کے ڈانڈے بھی اسی واقعے سے جا ملتے ہیں۔

انگلینڈ کی کاؤنٹی چیمپئن شپ اور آسٹریلیا کی شیفیلڈ شیلڈ سمیت ہر کرکٹ کھیلنے والے ملک میں ڈومیسٹک مقابلوں کا کوئی نہ کوئی سلسلہ جاری تھا مگر اس میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت بہت محدود تھی اور کھلاڑیوں کے معاوضے بھی بس گذارے لائق ہی تھے مگر ان نئی لیگز کی وجہ سے اب کرکٹ کے کھلاڑیوں کو فٹ بال ، ٹینس ، باسکٹ بال اور باکسنگ وغیرہ کی طرح خطیر معاوضے ملنے شروع ہوگئے ہیں جس کی ایک زندہ مثال پی ایس یل یعنی پاکستان سپر لیگ ہے جس کی انعامی رقم اور کھلاڑیوں کے معاوضے لاکھوں اور کروڑوں میں ہیں۔

اس بار اس لیگ کا چوتھا سال تھا، 2009ء میں سری لنکن مہمان ٹیم پر دہشت گردانہ حملے کے بعد سے غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا لیکن اس لیگ کی معرفت یہ برف بھی اب تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئی ہے اور اس بار نہ صرف اس کے آخری آٹھ میچ معہ فائنل پاکستان میں ہوئے ہیں بلکہ کھلاڑی، معاون عملہ اور میڈیا کے افراد ملا کر تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب غیر ملکی نمایندے بھی یہاں آئے اور رہے، جن میں سر ویوین رچرڈز اور ڈین جونز جیسے منیجر اور کوچز بھی شامل ہیں۔

اس بخار کے پھیلاؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عین لیگ کے ہنگام میں پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ جنگ کا خطرہ سروں پر منڈلانے لگا مگر جس جرات ، بہادری ، تنظیم اور سلیقے سے متعلقہ شعبوں نے اپنا اپنا کام کیا اور کرکٹ کے دیوانوں نے اپنی محبت کا جو بے مثال ثبوت پیش کیا وہ صرف کرکٹ کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اندرونی قوت، استقلال اور مستقبل کے لیے بھی ایک بہت نیک فال ہے۔

نامور اور سینئر غیر ملکی کھلاڑیوں کے دوش بدوش کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں اور بالخصوص نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح سے یہ سارا معاملہ بحسن و خوبی مکمل ہوا ہے اس سے بلاشبہ دنیا کو پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں بہت اچھا پیغام گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ زندگی کے دیگر اور تعمیری شعبوں میں بھی اس طرح کے بخار کو راہ دی جائے تاکہ نہ صرف عالمی سطح پر ہمارا امیج بہتر ہو بلکہ ہم اس اسپورٹس مین اسپرٹ کو بھی اپنا وظیفہ حیات بنا سکیں جو ہمیں آدمی سے انسان بناتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔