اب کیپٹن پلانیٹ نہیں آئے گا

ہمارے پینے کے پانی کے ذخائر میں 70 سے 80 فیصد سیوریج کا پانی شامل ہوچکا ہے۔


مونا خان March 21, 2019

ہمارے دورکے بچوں کی اہم تفریح کارٹون دیکھنا ہوا کرتی تھی اور ہم سب کی پسندیدہ سیریزکیپٹن پلانیٹ (Captain Planet) ہوا کرتی تھی، جو ہم انتہائی دل جمعی سے دیکھا کرتے تھے ۔ اس میں پانچ کردار ہوتے ہیں جنھیں planeteers کہا جاتا ہے ، یہ انتہائی حساس طبیعت کے مالک ہیں، جو دنیا کی بدلتی حالت کو دیکھ کر پریشان ہیں اور اپنے تئیں روز بروز بڑھتی آلودگیوں کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اس دنیا میں رہنے والے انسانوں کو آلودگی کی گندگی اور تعفن سے برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔

انھی میں ایک کردار Gaia ہے، جو اپنی کوششوں سے پانچ مختلف طاقتوں کی جادوئی انگوٹھیاں بناتی ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے ان planeteers کو دیتی ہے۔ جب دنیا ماحولیاتی آلودگی سے دوچار ہونے لگتی ہے تو وہ سب ان طاقتوں کا استعمال کرکے کیپٹن پلانیٹ کو زمین پر بلاتے ہیں۔

کیپٹن پلانیٹ بہت سی طاقتوں کا حامل ہے، وہ ان لوگوں کا مقابلہ کرتا ہے جو دنیا کو ذاتی کاروبار بڑھانے اور دولت کمانے کے لیے ماحولیاتی اور فضائی آلودگی سے گندہ کرتے ہیں۔ ہم اس وقت کے سادہ مزاج بچے تھے، جنھوں نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ حقیقت میں یہ سب ہونے جارہا ہے اور مستقبل قریب میں یہ پوری دنیا کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا اور اس آفت سے کوئی فرد محفوظ نہ رہ سکے گا، خواہ طاقتور ہو یا کمزور۔

دنیا کے تمام ممالک اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ امریکا کی اسٹیٹ کیلیفورنیا میں بھڑک جانے والی آگ میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور 50 ہزار کے لگ بھگ لوگ بے گھر و بے اماں ہوگئے۔ جاپان میں سیلاب سے 220 ہلاکتیں ہوئیں۔ انڈونیشیا میں زلزلے اور سونامی سے 2783 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

یو ایس نیوز کی رپورٹ (Top 10 of the deadliest natural disasters in 2018) کے مطابق پاکستان ہیٹ ویو سے ہلاک ہونے والوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 30 لاکھ سے زائد افراد فضائی آلودگی سے ہلاک ہوتے ہیں، جس کی بڑی وجہ گلوبل وارمنگ ہے، اسی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بتدریج بڑھتا جارہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق آیندہ پچاس سال میں دنیا شدید ترین حرارت کا شکار ہوجائے گی۔ ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے ممالک سے گیسوں کے مسلسل اخراج سے گرمی بڑھ جائے گی، زمین توڑ پھوڑ کا شکار ہوگی اور خود انسان ہلاکتوں سے دوچار ہوجائے گا۔ ایران، عراق، دبئی، ابوظہبی اور سعودیہ عرب کے ساتھ ساتھ ہمسایہ دیگر ممالک میں اس قدر گرمی بڑھ جائے گی کہ چھ گھنٹے کا درجہ حرارت 74 سے 78 سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا اور یہ موسمی تبدیلی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

جب میں پرائمری لیول میں تھی، سائنس کی ٹیچر اکثر اوزون لیئر کا ذکر کرتی تھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کے گرد ایک حفاظتی خول بنایا ہے جسے اوزون لیئر کہتے ہیں، یہ ہماری زمین کو سورج کی تیز جھلسا دینے والی تپش سے بچاتی ہے لیکن انسانوں نے اپنے مفادات کی دھن میں زہریلی گیسز پیدا کی ہیں (ان گیسز میں قابل ذکر کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین گیس اور کلورو فلورو کاربن شامل ہیں) اور خود کو ہی مشکل میں ڈال بیٹھے، کیونکہ ان گیسز سے اوزون لیئر کو خاصا نقصان ہوا اور دنیا غیر محفوظ ہورہی ہے۔ ہمارے مفاد پرست لوگوں کی کرنی ساری دنیا کے لوگ جانداروں، نباتات اور مویشیوں کی ہلاکتوں سے بھگت رہے ہیں اور طاقتور کہلوانے والے ممالک بھی اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے پریشان ہیں۔ کئی منصوبے بنائے جارہے ہیں۔

2012ء میں گلوبل وارمنگ اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر کیوٹو معاہدے میں ترمیم کرکے ایک نیا معاہدہ طے پایا، 2015ء میں مزید یہ طے پایا کہ گرین ہاؤس سے ان ذیلی گیسز کو اتنا محدود کیا جائے کہ دنیا بھر کا ٹمپریچر 2 ڈگری (Celsius) تک رہے اور آیندہ وقتوں میں اسے مزید کم کیا جائے۔ فرنچ منسٹر برائے ماحولیات نکولس ہولو(Nicolas Hulot) نے 2040ء تک ڈیزل اور پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کو ختم کرنے اور 2022ء تک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے خاتمے کا عہد کیا ہے۔ اسی طرح نیدرلینڈ، ناروے نے بھی ساتھ دینے کا یقین دلایا، لیکن بڑی عالمی طاقت امریکا پیرس معاہدے سے دستبردار ہو گیا، جب کہ تابکاری آلائشوں اور فضائی آلودگی پھیلانے میں امریکا سرفہرست ہے۔

گزشتہ سال جب پولینڈ میں کلائمیٹ چینج کے متعلق UNFCCC کی میٹنگ ہوئی، اس وقت ایک حیرت انگیز بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی سولہ سالہ گریٹا تھنبرگ Greta Thunberg نے دنیا کو مزید نقصان پہنچانے کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیا اور حکام سے استدعا کی کہ گلوبل وارمنگ کے خطرے سے ہمیں بچائیں، کیونکہ اس سے آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ اس بچی نے یہ کہہ کر اسکول جانے سے انکار کردیا کہ اگر حکام اس مسئلے کو عالمی فورم پر نہیں اٹھائیں گے تو ہم دنیا بھر کے بچے اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

میں حیران ہوں کہ دنیا کو اپنے اشاروں پہ زیر و زبر کرنے والی یہ طاقتیں اب بچوں سے تحریک لیں گی۔ اور ہوا بھی یہیGreta Thunberg وہ آواز بنی جس نے اقوام عالم کو گلوبل وارمنگ کے متعلق سوچنے پر مجبور کردیا۔ لیکن صد افسوس کہ دنیا کو اس تباہی سے دوچار کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ انھی ترقی یافتہ ممالک کا ہے جو اپنے ممالک میں کچرا پھینکنے پر تو جرمانہ عائد کرتے ہیں لیکن وہی کچرا غریب ممالک میں بھیج دیتے ہیں، جن میں یو ایس اے، یوکے، ساؤتھ کوریا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا شامل ہیں۔ یہ عالمی طاقتیں ''بغل میں چھری، منہ پہ رام رام'' کی مانند غریب ممالک کا ہر طرح سے جینا دوبھر کررہی ہیں اور زندہ رہنے کی مشکلات میں اضافہ کررہی ہیں۔ ان حالات میں ہمیں اپنی آیندہ نسلوں کا مستقبل خود محفوظ بنانا ہے۔

کچھ عرصہ قبل واٹر کمیشن کی رپورٹ دیکھی تو دہل کے رہ گئی، جس میں صاف صاف لکھا تھا کہ ہمارے پینے کے پانی کے ذخائر میں 70 سے 80 فیصد سیوریج کا پانی شامل ہوچکا ہے۔ خود سوچیے! کیا اس کے بعد بھی کچھ باقی رہ جاتا ہے؟ اس دنیا میں اس کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں اور کس طرح اس گلوبل ولیج کی حفاظت کرسکتے ہیں؟ کیونکہ آج دنیا کو بچانے کوئی کیپٹن پلانیٹ نہیں آئے گا، بلکہ ہم سب کو اپنے تئیں کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو صاف ستھری صحت مند فضا مہیا کرسکیں اور دنیا کو خود دنیا والوں سے بچاسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں