اجازت مل سکے گی کیا
بھارت اور دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جو بازار گرم ہے اُس سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔
''حارث خلیق کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا سیکریٹری جنرل مقررکر دیا گیا ہے۔'' بظاہر یہ ایک سطرکی خبر ہے ، مگر اس کے پیچھے ایک شخص کی زندگی، بچپن ، خاندان، سیاست ، صحافت ، ادب ،انگریزی ، اردو اور پنجابی کی شاعری کے ساتھ وہ نظریہ بھی دکھائی دے رہا ہے جو مقامی اور بین الاقوامی سطح پرانسانی حقوق کی پامالی کی بھرپور مخالفت کرتا ہے۔
یوں توسرکاری سطح پر ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی وزارت بھی کام کر رہی ہے جس کی سربراہ محترمہ شیریں مزاری ہیںاور اس کے علاوہ بھی درجنوں ایسے غیرسرکاری ادارے موجود ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں لیکن اس شعبے میں''انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان'' کے نام سے کام کرنے والا ادارہ دوسرے تمام اداروں سے بہت مختلف ہے جس کی وجہ سے شاید اپنے قیام کے روز اول سے ہی یہ مخالفین کی تنقید کا نشا نے پر بھی رہا ۔ بہت ساری سرکردہ سماجی شخصیات کی سربراہی کے بعد اب اس ادارے کی سر براہی حارث خلیق کے حصے میں آئی ہے جسے انتہائی مناسب فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد لگ بھگ تیس برس قبل معروف قانون دان اور انسانی حقوق کے لیے آخری دم تک سر گرم عمل رہنے والی خاتون عاصمہ جہانگیر نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر رکھی تھی جس میں معروف سیاستدان اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس تنظیم میں ملک کی اہم قانونی،سیاسی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ایسے افراد بھی شامل ہوتے چلے گئے ، جن کی دانش مندانہ سوچ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا رہا۔ اس ادارے کو ماضی میں بہت سارے انتھک کارکنان اور ممبران کے ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن، جسٹس دراب پٹیل، آئی اے رحمن، ڈاکٹر مہدی حسن ،حسین نقی، زہرہ یوسف، شکیل پٹھان، افراسیاب خٹک، پروفیسرڈاکٹر بدر سومرو ، اسد اقبال بٹ سمیت بہت سارے ایسے افراد کی رہنمائی بھی حاصل رہی جو ذاتی نمود و نمائش کے بجائے خواتین، اقلیتوں، مزدوروں، کسانوں اور سماج کے کچلے ہوئے طبقات کی بہتری کے لیے کوشاں تھے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا جائے توحالات اُس دور سے انتہائی مختلف دکھائی دیتے جس میں ''انسانی حقوق کمیشن'' کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ اُس دور میں وڈیروں کی ہاریوںپر ظلم وستم کی داستانیں،کاروکاری جیسی فرسودہ رسومات اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک جیسے واقعات اس لیے بھی آسانی سے رپورٹ نہیں ہوتے تھے کہ نہ تو الیکٹرونک میڈیا اتنا فعال تھا اور نہ ہی پرنٹ میڈیا کی پہنچ اتنے دور دراز علاقوں تک ممکن تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی کوئی بھی خلاف ورزی ہو اگر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا اُسے سامنے لانے کی''استطاعت'' نہ بھی رکھتا ہو توتب بھی سوشل میڈیا کے ذریعے وہ اس سے کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ عوام تک پہنچ جاتی ہے ۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رپورٹ ہونا اور ان کے خلاف آواز اٹھانا اب بھی دو الگ مرحلے ہیں جنھیں سر کرنے کے لیے ''انسانی حقوق کمیشن'' کی ٹیم مسلسل کوشاں رہتی ہے ۔
حارث خلیق کی شخصیت نہ صرف گوناں گوںخوبیوں کا مرقع ہے بلکہ ماضی میں وہ ایک سے زیادہ ملکی اور بین الاقوامی سماجی اداروں میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے جو ہردکھا چکے ہیں اور اب بھی ان سے ایسی ہی کار کردگی کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ '' اب حالات بہت خراب ہیں ' ملک بہت نازک صورت حال سے گزر رہا ہے ۔' جیسے جملے تو ہم بچپن سے سنتے چلے آ رہے، مگر بدلتے ہوئے بین الاقوامی تناظر اور خطے میں انتہائی سرعت کے ساتھ آنے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں نے ان جملوں کوایسی خطرناک گونج میں تبدیل کردیا ہے جو ماضی کی دھیمی سرگوشیوں کے مقابلے میں کان بند کرنے کے بعد بھی صاف سنائی د ے رہی ہے ۔ دہشتگردی جسے دنیا بھر میں صرف چند ممالک اور اقوام کا ہی مسئلہ سمجھا جاتا تھا، اب دنیا بھرکے لیے ایک مسئلہ بن کر ابھری ہے جس کی تازہ مثال نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ہونے والا انسانی ہلاکتوں کا وہ خوف ناک واقعہ ہے جومستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیارکرسکتا ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ بھارت جیسے کثیر اللسانی وکثیر المذہبی ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی بھی نہ صرف اس خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کومزید تقویت فراہم کر رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ساؤتھ ایشیاء کے چھوٹے ممالک کی مذہبی اقلیتیںبھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ کشمیریوں پر خود ان کی دھرتی میں ہونے والے مظالم دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں اور جنھیں نظر آرہے ہیں وہ مصلحت کا شکار ہیں مگر پچھلے دنوں سیکیولر بھارت کے انتہائی اہم شہر لکھنو کے فٹ پاتھ پر خشک میوے کا کاروبار کرنے والے کشمیری تاجروں کو جس طرح دہشتگرد کہہ کر بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اُس نے پوری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبورکردیا کہ اب کشمیر کا مسئلہ تشدد سے نکل کر قتل عام تک جا پہنچا ہے ۔
بھارت اور دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جو بازار گرم ہے اُس سے نظریں چرانا ممکن نہیں ، لیکن ہم یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ ہمارے ملک میںسب کچھ ٹھیک ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے انتہائی اہم عہدے پر فائز ہونے کے بعد جب ہم حارث خلیق کی شخصیت کی طرف دیکھتے ہیں تو ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا انھیں آزادی سے کام کرنے کی اجازت مل سکے گی ؟ تو دمشق سے تعلق رکھنے والے عربی کے ترقی پسند شاعر نزار توفیق کابانی کی طویل نظم'' اجازت مل سکے گی کیا؟'' کا ایک ٹکڑا یاد آ تا ہے جس کا حارث خلیق نے ہی ترجمہ کیا تھا۔
جہاں سب سوچنے اور لکھنے والوں کا مقدر
ارض مقتل ہے
جہاں لب قید ہیں
اور جبہ و خرقہ نے تازہ لفظ پر پہرے بٹھائے ہیں
جہاں کچھ پوچھ لینا لائق تعزیر ٹھہرا ہے
وہاں مجھ کو اجازت مل سکے گی کیا
اجازت مل سکے گی اپنے بچوں کو
میں پالوں جس طرح سے پالنا چاہوں
بتا پاؤں کہ مذہب فرد اور اُس کے خدا کے
باہمی رشتے کوکہتے ہیں
کوئی بھی تیسرا
عالم ، مبلغ درمیاں آ ہی نہیں سکتا
جب بہت سارے قوانین کے ہوتے ہوئے ذاتی اور انسانی مسائل پر نہ تو کھل کر بات کرنے کی آزادی ہو اور نہ ہی جمہوریت کے نام پرکیے جانے والے فیصلوں میں کہیں جمہوریت کا پرتو نظر آتا ہو تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرنے والے اداروں اور کارکنان کی مشکلات کا اندازہ لگانا بھی عام آدمی کے لیے انتہائی مشکل ہے، مگر حارث خلیق کے لیے انسانی حقوق کے ایک معتبر ادارے کی سرپرستی اس لیے کوئی مشکل کام نہیںہو گا کہ انھوں نے اپنے خیالات کے اظہار اور پس ماندہ طبقات کی وکالت کرتے ہوئے نہ تو کبھی کوئی خوف محسوس کیا اور نہ ہی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر اپنے نظریات سے بے وفائی کی راہ اپنائی۔ ہمارے خیال میں وہ نئی ذمے داری سنبھالنے کے بعد چپ چاپ اپنے کام میں مگن ہو جائیں گے اور ان کی زبان پر''اجازت مل سکے گی کیا ؟'' جیسے الفاظ شاید مشکل سے ہی آئیں گے ۔
یوں توسرکاری سطح پر ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی وزارت بھی کام کر رہی ہے جس کی سربراہ محترمہ شیریں مزاری ہیںاور اس کے علاوہ بھی درجنوں ایسے غیرسرکاری ادارے موجود ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں لیکن اس شعبے میں''انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان'' کے نام سے کام کرنے والا ادارہ دوسرے تمام اداروں سے بہت مختلف ہے جس کی وجہ سے شاید اپنے قیام کے روز اول سے ہی یہ مخالفین کی تنقید کا نشا نے پر بھی رہا ۔ بہت ساری سرکردہ سماجی شخصیات کی سربراہی کے بعد اب اس ادارے کی سر براہی حارث خلیق کے حصے میں آئی ہے جسے انتہائی مناسب فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد لگ بھگ تیس برس قبل معروف قانون دان اور انسانی حقوق کے لیے آخری دم تک سر گرم عمل رہنے والی خاتون عاصمہ جہانگیر نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر رکھی تھی جس میں معروف سیاستدان اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس تنظیم میں ملک کی اہم قانونی،سیاسی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ایسے افراد بھی شامل ہوتے چلے گئے ، جن کی دانش مندانہ سوچ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا رہا۔ اس ادارے کو ماضی میں بہت سارے انتھک کارکنان اور ممبران کے ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن، جسٹس دراب پٹیل، آئی اے رحمن، ڈاکٹر مہدی حسن ،حسین نقی، زہرہ یوسف، شکیل پٹھان، افراسیاب خٹک، پروفیسرڈاکٹر بدر سومرو ، اسد اقبال بٹ سمیت بہت سارے ایسے افراد کی رہنمائی بھی حاصل رہی جو ذاتی نمود و نمائش کے بجائے خواتین، اقلیتوں، مزدوروں، کسانوں اور سماج کے کچلے ہوئے طبقات کی بہتری کے لیے کوشاں تھے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا جائے توحالات اُس دور سے انتہائی مختلف دکھائی دیتے جس میں ''انسانی حقوق کمیشن'' کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ اُس دور میں وڈیروں کی ہاریوںپر ظلم وستم کی داستانیں،کاروکاری جیسی فرسودہ رسومات اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک جیسے واقعات اس لیے بھی آسانی سے رپورٹ نہیں ہوتے تھے کہ نہ تو الیکٹرونک میڈیا اتنا فعال تھا اور نہ ہی پرنٹ میڈیا کی پہنچ اتنے دور دراز علاقوں تک ممکن تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی کوئی بھی خلاف ورزی ہو اگر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا اُسے سامنے لانے کی''استطاعت'' نہ بھی رکھتا ہو توتب بھی سوشل میڈیا کے ذریعے وہ اس سے کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ عوام تک پہنچ جاتی ہے ۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رپورٹ ہونا اور ان کے خلاف آواز اٹھانا اب بھی دو الگ مرحلے ہیں جنھیں سر کرنے کے لیے ''انسانی حقوق کمیشن'' کی ٹیم مسلسل کوشاں رہتی ہے ۔
حارث خلیق کی شخصیت نہ صرف گوناں گوںخوبیوں کا مرقع ہے بلکہ ماضی میں وہ ایک سے زیادہ ملکی اور بین الاقوامی سماجی اداروں میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے جو ہردکھا چکے ہیں اور اب بھی ان سے ایسی ہی کار کردگی کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ '' اب حالات بہت خراب ہیں ' ملک بہت نازک صورت حال سے گزر رہا ہے ۔' جیسے جملے تو ہم بچپن سے سنتے چلے آ رہے، مگر بدلتے ہوئے بین الاقوامی تناظر اور خطے میں انتہائی سرعت کے ساتھ آنے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں نے ان جملوں کوایسی خطرناک گونج میں تبدیل کردیا ہے جو ماضی کی دھیمی سرگوشیوں کے مقابلے میں کان بند کرنے کے بعد بھی صاف سنائی د ے رہی ہے ۔ دہشتگردی جسے دنیا بھر میں صرف چند ممالک اور اقوام کا ہی مسئلہ سمجھا جاتا تھا، اب دنیا بھرکے لیے ایک مسئلہ بن کر ابھری ہے جس کی تازہ مثال نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ہونے والا انسانی ہلاکتوں کا وہ خوف ناک واقعہ ہے جومستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیارکرسکتا ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ بھارت جیسے کثیر اللسانی وکثیر المذہبی ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی بھی نہ صرف اس خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کومزید تقویت فراہم کر رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ساؤتھ ایشیاء کے چھوٹے ممالک کی مذہبی اقلیتیںبھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ کشمیریوں پر خود ان کی دھرتی میں ہونے والے مظالم دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں اور جنھیں نظر آرہے ہیں وہ مصلحت کا شکار ہیں مگر پچھلے دنوں سیکیولر بھارت کے انتہائی اہم شہر لکھنو کے فٹ پاتھ پر خشک میوے کا کاروبار کرنے والے کشمیری تاجروں کو جس طرح دہشتگرد کہہ کر بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اُس نے پوری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبورکردیا کہ اب کشمیر کا مسئلہ تشدد سے نکل کر قتل عام تک جا پہنچا ہے ۔
بھارت اور دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جو بازار گرم ہے اُس سے نظریں چرانا ممکن نہیں ، لیکن ہم یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ ہمارے ملک میںسب کچھ ٹھیک ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے انتہائی اہم عہدے پر فائز ہونے کے بعد جب ہم حارث خلیق کی شخصیت کی طرف دیکھتے ہیں تو ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا انھیں آزادی سے کام کرنے کی اجازت مل سکے گی ؟ تو دمشق سے تعلق رکھنے والے عربی کے ترقی پسند شاعر نزار توفیق کابانی کی طویل نظم'' اجازت مل سکے گی کیا؟'' کا ایک ٹکڑا یاد آ تا ہے جس کا حارث خلیق نے ہی ترجمہ کیا تھا۔
جہاں سب سوچنے اور لکھنے والوں کا مقدر
ارض مقتل ہے
جہاں لب قید ہیں
اور جبہ و خرقہ نے تازہ لفظ پر پہرے بٹھائے ہیں
جہاں کچھ پوچھ لینا لائق تعزیر ٹھہرا ہے
وہاں مجھ کو اجازت مل سکے گی کیا
اجازت مل سکے گی اپنے بچوں کو
میں پالوں جس طرح سے پالنا چاہوں
بتا پاؤں کہ مذہب فرد اور اُس کے خدا کے
باہمی رشتے کوکہتے ہیں
کوئی بھی تیسرا
عالم ، مبلغ درمیاں آ ہی نہیں سکتا
جب بہت سارے قوانین کے ہوتے ہوئے ذاتی اور انسانی مسائل پر نہ تو کھل کر بات کرنے کی آزادی ہو اور نہ ہی جمہوریت کے نام پرکیے جانے والے فیصلوں میں کہیں جمہوریت کا پرتو نظر آتا ہو تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرنے والے اداروں اور کارکنان کی مشکلات کا اندازہ لگانا بھی عام آدمی کے لیے انتہائی مشکل ہے، مگر حارث خلیق کے لیے انسانی حقوق کے ایک معتبر ادارے کی سرپرستی اس لیے کوئی مشکل کام نہیںہو گا کہ انھوں نے اپنے خیالات کے اظہار اور پس ماندہ طبقات کی وکالت کرتے ہوئے نہ تو کبھی کوئی خوف محسوس کیا اور نہ ہی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر اپنے نظریات سے بے وفائی کی راہ اپنائی۔ ہمارے خیال میں وہ نئی ذمے داری سنبھالنے کے بعد چپ چاپ اپنے کام میں مگن ہو جائیں گے اور ان کی زبان پر''اجازت مل سکے گی کیا ؟'' جیسے الفاظ شاید مشکل سے ہی آئیں گے ۔