ماہ رمضان اور دہشت گردی کے المناک سانحات
رمضان میں معصوم اور بے گناہ بچوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے اپنی بے حسی اور بے رحمی کا ثبوت پیش کیا۔
امسال ماہ مضان المبارک کے آخری ایام اہل وطن کے لیے دکھوں اور المیوں سے لبریز رہے۔ دہشت گردوں نے اس ماہ مقدس میں بھی اپنی بے رحمانہ کارروائیاں جاری رکھیں اور بے گناہوں کا خون بہاتے رہے جب کہ حکومت نے بھی اپنی روایت پر عمل کیا اور کسی بھی دہشت گردی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بدھ کو کراچی کے علاقے لیاری میں فٹبال میچ کے اختتام پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں 7 بچوں سمیت 11 افراد شہید ہوئے' ایسی سفاکی دنیا کے کم ہی ممالک میں ہوئی ہو گی۔ معصوم بچے فٹبال کھیلنے کے بعد خوش تھے کہ دھماکا ہو گیا۔
معصوم اور بے گناہ بچوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے اپنی بے حسی اور بے رحمی کا ایک اور ثبوت پیش کیا۔ ابھی قوم اس سانحے کے غم میں مبتلا تھی کہ جمعرات کو کوئٹہ پولیس لائن میں دہشت گردی میں شہید ہونے والے ایک ایس ایچ او کی نماز جنازہ میں خود کش حملہ ہوا جس میں ڈی آئی جی آپریشنز فیاض سنبل' ایس پی ہیڈ کوارٹرز انور اور ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر سمیت بیسیوں افراد شہید ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق یہاں چار سو کے قریب افراد جمع تھے' آئی جی بلوچستان اور دیگر اعلیٰ پولیس افسر بھی موجود تھے جو معجزانہ طور پر محفوظ رہے' اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کا ٹارگٹ آئی جی بلوچستان بھی تھے۔ ان دونوں سانحوں سے پہلے بلوچستان میں پنجاب آنے والی بس سے مسافروں کو اتار کر قتل کیا گیا تھا' یہ لوگ مزدور تھے۔ان بے گناہوں کو مارنے والوں نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔ اسی ماہ مبارک میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر طالبان کا حملہ ہوا اور وہ اپنے ساتھیوں کو چھڑوا کر فرار ہو گئے اور کئی افراد کو قتل کرگئے۔ انتظامیہ حسب روایت کچھ نہ کر سکی۔ غرض دہشت گردوں نے ماہ رمضان کے احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سے دہشت گردوں کی اسلام سے محبت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
ماہ صیام کے بعد عیدالفطر کا دن آتا ہے جس میں مسلمان خوشی مناتے ہیں لیکن اس بار عیدالفطر غم اور خوف کے سائے میں منائی جائے گی۔ حکمرانوں کی نا اہلی' مصلحت کوشی اور عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں دہشت گرد' علیحدگی پسند اور تخریب کار بلا خوف و خطر کارروائیاں کرتے رہے۔ حکمران روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں' ہر سانحے کے بعد مذمتی بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں اور پھر خاموشی ہو جاتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے ٹوٹنے پر' پھر سانحہ مچھ پر' سانحہ لیاری پر اور اب سانحہ پولیس لائن کوئٹہ پر ایسے ہی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ کچھ روز گزریں گے پھر سب کچھ روٹین ہو جائے گا۔ بعض سیاستدان' مذہبی جماعتوں کے رہنما' علمائے کرام اور اہل علم یہ کہہ کر معاشرے میں کنفیوژن پھیلا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکا' اسرائیل اور بھارت کرا رہا ہے۔ اس کنفیوژن نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دوست اور دشمن کی تمیز کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
اعلیٰ سطح پر بھی یہی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ ادارہ جاتی کمزوریوں نے بھی صورت حال کو بگاڑا ہے۔ اطلاعات کا نظام خاصا پیچیدہ ہے۔ کسی دہشت گردی کی اطلاع پر کس محکمے نے کارروائی کرنی ہے اس کے بارے میں بھی خاصی قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ سیکیورٹی ادارے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس ابہام یا خلا کا فائدہ دہشت گرد اٹھاتے ہیں۔ مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار ہونے والے دہشت گرد رہا ہو جاتے ہیں۔ ادھر جن لوگوں کے ذمے قانون سازی کا فریضہ ہے' وہ اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہے۔ یہاں پارلیمنٹ 18ویں ترمیم تو منظور کر لیتی ہے لیکن دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ضروری قانونی ترامیمات کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ آئین اور قانون میں موجود خامیوں اور رکاوٹوں کے باعث دہشت گردوں کے خلاف کارروائی مشکل ہو رہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جب کہ بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر ایک گروہ قتل عام میں مصروف ہے' کراچی میں لسانیت کا زہر موجود ہے۔ مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں سے سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا رمضان کا تقدس ان پر فرض نہیں ہے؟
کیا انھیں گناہ گار اور بے گناہ کے درمیان تمیز نہیں ہے' کیا انھیں یہ نہیں معلوم کہ ایک بے گناہ کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ اگر وہ تمام تر فہم اور شعور کے باوجود قتل و غارت کررہے ہیں تو پھر اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں' مذہب محض ایک لبادہ ہے یا منزل تک پہنچنے کا ایک ذریعہ۔ اسی طرح رنگ' نسل' قوم اور زبان کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا انھیں دوسروں کے قتل کی اجازت ہے؟حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بے گناہوں کو قتل کر رہے ہیں اور انھوں نے بھی قوم پرستی یا لسانیت کے پردے میں چھپا رکھا ہے' اس سے اگلا سوال حکمرانوں سے ہے۔ کیا انھیں حقائق کا علم نہیں ہے؟ ملک میں قتل و غارت اور لوٹ مار جاری ہے' بے گناہ مزدوروں اور ہنر مندوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا جا رہا ہے۔
جیلیں ٹوٹ رہی ہیں' مساجد' امام بار گاہوں اور درگاہوں پر حملے ہو رہے ہیں' بازاروں میں دہشت گردی ہو رہی ہے جن میں بے گناہ بچے اور خواتین مارے جا رہے ہیں' حساس تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں' فوجی افسروں اور پولیس افسروں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں قتل کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی ذمے داریاں کیا ہیں' اس کا علم یقینی طور پر انھیں ہو گا۔ عوام کے منتخب نمایندے قومی خزانے سے بھاری مراعات اور تنخواہیں لے رہے ہیں' کوئی سرکاری اہلکار ان کی بات نہ مانے تو ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور دیگر سیاستدان گرمی کے شدید موسم میں پینٹ کوٹ پہن کر ٹی وی انٹرویو دیتے ہیں' اسمبلی کے اجلاس بھی ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں ہوتے ہیں' کیا ایک بدحال اور دہشت گرد ی کا شکار اس ملک کے منتخب نمایندوں کو قومی خزانے سے ایسی بھاری مراعات حاصل کرنے کا کوئی دینی یا اخلاقی جواز موجود ہے؟
مذہبی جماعتوں کے لیڈران' علماء کرام اور مشائخ عظام سے بھی یہی سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ان پر دین نے یہ ذمے داری نہیں ڈالی کہ وہ قاتل کا ہاتھ روک نہیں سکتے تو کم از کم اسے قاتل تو کہہ سکتے ہیں۔ ماہ رمضان کا درس صبر کرنا ہے۔ دنیا کے لالچ کو دل سے نکالنا ہے۔ پاکستان کے حکمران' اشراف اور دین کے علمبردار اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور غور و فکر کریں کہ کہیں وہ غلطی تو نہیں کر رہے۔ پاکستان آج جس خلفشار کا شکار ہے وہ عوام کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ اسے پیدا کرنے والے بالادست طبقے ہیں' اگر انھوں نے اپنے اپنے تعصبات پر قابو نہ پایا اور اپنے گروہی مفادات سے چمٹے رہے تو وطن عزیز کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس عیدالفطر پر اگر حکمران طبقات اپنی ناکامیوں کا ادراک کر لیں تو یہی عید کا تحفہ ہو گا۔
معصوم اور بے گناہ بچوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے اپنی بے حسی اور بے رحمی کا ایک اور ثبوت پیش کیا۔ ابھی قوم اس سانحے کے غم میں مبتلا تھی کہ جمعرات کو کوئٹہ پولیس لائن میں دہشت گردی میں شہید ہونے والے ایک ایس ایچ او کی نماز جنازہ میں خود کش حملہ ہوا جس میں ڈی آئی جی آپریشنز فیاض سنبل' ایس پی ہیڈ کوارٹرز انور اور ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر سمیت بیسیوں افراد شہید ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق یہاں چار سو کے قریب افراد جمع تھے' آئی جی بلوچستان اور دیگر اعلیٰ پولیس افسر بھی موجود تھے جو معجزانہ طور پر محفوظ رہے' اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کا ٹارگٹ آئی جی بلوچستان بھی تھے۔ ان دونوں سانحوں سے پہلے بلوچستان میں پنجاب آنے والی بس سے مسافروں کو اتار کر قتل کیا گیا تھا' یہ لوگ مزدور تھے۔ان بے گناہوں کو مارنے والوں نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔ اسی ماہ مبارک میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر طالبان کا حملہ ہوا اور وہ اپنے ساتھیوں کو چھڑوا کر فرار ہو گئے اور کئی افراد کو قتل کرگئے۔ انتظامیہ حسب روایت کچھ نہ کر سکی۔ غرض دہشت گردوں نے ماہ رمضان کے احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سے دہشت گردوں کی اسلام سے محبت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
ماہ صیام کے بعد عیدالفطر کا دن آتا ہے جس میں مسلمان خوشی مناتے ہیں لیکن اس بار عیدالفطر غم اور خوف کے سائے میں منائی جائے گی۔ حکمرانوں کی نا اہلی' مصلحت کوشی اور عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں دہشت گرد' علیحدگی پسند اور تخریب کار بلا خوف و خطر کارروائیاں کرتے رہے۔ حکمران روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں' ہر سانحے کے بعد مذمتی بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں اور پھر خاموشی ہو جاتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے ٹوٹنے پر' پھر سانحہ مچھ پر' سانحہ لیاری پر اور اب سانحہ پولیس لائن کوئٹہ پر ایسے ہی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ کچھ روز گزریں گے پھر سب کچھ روٹین ہو جائے گا۔ بعض سیاستدان' مذہبی جماعتوں کے رہنما' علمائے کرام اور اہل علم یہ کہہ کر معاشرے میں کنفیوژن پھیلا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکا' اسرائیل اور بھارت کرا رہا ہے۔ اس کنفیوژن نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دوست اور دشمن کی تمیز کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
اعلیٰ سطح پر بھی یہی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ ادارہ جاتی کمزوریوں نے بھی صورت حال کو بگاڑا ہے۔ اطلاعات کا نظام خاصا پیچیدہ ہے۔ کسی دہشت گردی کی اطلاع پر کس محکمے نے کارروائی کرنی ہے اس کے بارے میں بھی خاصی قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ سیکیورٹی ادارے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس ابہام یا خلا کا فائدہ دہشت گرد اٹھاتے ہیں۔ مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار ہونے والے دہشت گرد رہا ہو جاتے ہیں۔ ادھر جن لوگوں کے ذمے قانون سازی کا فریضہ ہے' وہ اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہے۔ یہاں پارلیمنٹ 18ویں ترمیم تو منظور کر لیتی ہے لیکن دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ضروری قانونی ترامیمات کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ آئین اور قانون میں موجود خامیوں اور رکاوٹوں کے باعث دہشت گردوں کے خلاف کارروائی مشکل ہو رہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جب کہ بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر ایک گروہ قتل عام میں مصروف ہے' کراچی میں لسانیت کا زہر موجود ہے۔ مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں سے سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا رمضان کا تقدس ان پر فرض نہیں ہے؟
کیا انھیں گناہ گار اور بے گناہ کے درمیان تمیز نہیں ہے' کیا انھیں یہ نہیں معلوم کہ ایک بے گناہ کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ اگر وہ تمام تر فہم اور شعور کے باوجود قتل و غارت کررہے ہیں تو پھر اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں' مذہب محض ایک لبادہ ہے یا منزل تک پہنچنے کا ایک ذریعہ۔ اسی طرح رنگ' نسل' قوم اور زبان کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا انھیں دوسروں کے قتل کی اجازت ہے؟حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بے گناہوں کو قتل کر رہے ہیں اور انھوں نے بھی قوم پرستی یا لسانیت کے پردے میں چھپا رکھا ہے' اس سے اگلا سوال حکمرانوں سے ہے۔ کیا انھیں حقائق کا علم نہیں ہے؟ ملک میں قتل و غارت اور لوٹ مار جاری ہے' بے گناہ مزدوروں اور ہنر مندوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا جا رہا ہے۔
جیلیں ٹوٹ رہی ہیں' مساجد' امام بار گاہوں اور درگاہوں پر حملے ہو رہے ہیں' بازاروں میں دہشت گردی ہو رہی ہے جن میں بے گناہ بچے اور خواتین مارے جا رہے ہیں' حساس تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں' فوجی افسروں اور پولیس افسروں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں قتل کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی ذمے داریاں کیا ہیں' اس کا علم یقینی طور پر انھیں ہو گا۔ عوام کے منتخب نمایندے قومی خزانے سے بھاری مراعات اور تنخواہیں لے رہے ہیں' کوئی سرکاری اہلکار ان کی بات نہ مانے تو ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور دیگر سیاستدان گرمی کے شدید موسم میں پینٹ کوٹ پہن کر ٹی وی انٹرویو دیتے ہیں' اسمبلی کے اجلاس بھی ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں ہوتے ہیں' کیا ایک بدحال اور دہشت گرد ی کا شکار اس ملک کے منتخب نمایندوں کو قومی خزانے سے ایسی بھاری مراعات حاصل کرنے کا کوئی دینی یا اخلاقی جواز موجود ہے؟
مذہبی جماعتوں کے لیڈران' علماء کرام اور مشائخ عظام سے بھی یہی سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ان پر دین نے یہ ذمے داری نہیں ڈالی کہ وہ قاتل کا ہاتھ روک نہیں سکتے تو کم از کم اسے قاتل تو کہہ سکتے ہیں۔ ماہ رمضان کا درس صبر کرنا ہے۔ دنیا کے لالچ کو دل سے نکالنا ہے۔ پاکستان کے حکمران' اشراف اور دین کے علمبردار اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور غور و فکر کریں کہ کہیں وہ غلطی تو نہیں کر رہے۔ پاکستان آج جس خلفشار کا شکار ہے وہ عوام کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ اسے پیدا کرنے والے بالادست طبقے ہیں' اگر انھوں نے اپنے اپنے تعصبات پر قابو نہ پایا اور اپنے گروہی مفادات سے چمٹے رہے تو وطن عزیز کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس عیدالفطر پر اگر حکمران طبقات اپنی ناکامیوں کا ادراک کر لیں تو یہی عید کا تحفہ ہو گا۔