کیا عید ایسی ہوتی ہے
صنعتی نظام کی تیز رفتار ترقی کے ثمرات بٹورنے کے لیے جو نیا نظام تشکیل دیا گیا
ماہ صیام کے بعد عید کا دن ایک انعام کے طور پر مسلمانوں کو ملتا ہے۔ روزہ اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ معاشرے کے اہل ثروت اور دولت مند طبقات کو یہ احساس دلایا جائے کہ بھوک کیسی ہوتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ انسانی معاشرے ہزاروں سال سے محتاج وغنی میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کے معاشروں میں لے دے کر تجارت ہی ایک ایسا ذریعہ تھی جو معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرتی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ ایک طرف انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو دوسری طرف قوموں کی آمدنی کے ذرایع بھی بدلتے گئے۔ سولہویں صدی میں بھاپ کی دریافت سے دنیا میں صنعتی کلچرکا آغاز ہوا پیداواری رشتوں میں اس تبدیلی کے ساتھ سماجی سیاسی اور اقتصادی نظام میں بھی تبدیلی آئی۔ جاگیردارانہ نظام ہاری کسان اور جاگیردار وڈیرے پر مشتمل تھا ہاری کسان محنت کرتا تھا اور جاگیردار وڈیرے ہاریوں اور کسانوں کی محنت پر عیش وعشرت کی زندگی گزارتے تھے۔
صنعتی نظام کی تیز رفتار ترقی کے ثمرات بٹورنے کے لیے جو نیا نظام تشکیل دیا گیا اس کا نام سرمایہ دارانہ نظام رکھا گیا۔اس نظام کے دو فریق محنت اور سرمایہ بنے محنت کے سارے ثمرات سرمایہ دار سمیٹنے لگا اور محنت کرنے والے اپنی بنیادی ضرورتوں روٹی،کپڑا، مکان، تعلیم، علاج سے محروم ہوگئے یوں ہزاروں سال پرانا محتاج و غنی کا نظام ایک نئی شکل میں ہمارے سامنے آیا انسانی معاشرے طبقات میں بٹ گئے اور وہ طبقات جنھیں لوٹ مار اور ناجائزکمائی کے مواقعے حاصل تھے وہ دولت مند بنتے گئے اور انسانوں کی بھاری اکثریت غربت و افلاس کا شکار رہی اور معاشرہ 2/98 میں بٹ گیا۔ اگر عید پر نظر ڈالیں تو 98 فیصد کی عید پھیکی ہے بے مزہ ہے اور 2 فیصد کی عید رنگینیوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔
پاکستان کا شمار پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں آزادی کے بعد 65 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ہمارا معاشرہ نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام ہی میں جکڑا ہوا ہے ۔ ترقی کے سارے ثمرات ایلیٹ کلاس کا مقدر بن گئے ہیں اور بھوک بیماری جہالت تعلیم اور علاج سے محرومی غریب کا مقدر بن گئے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے دنیا بھر کے غریب طبقات میں یہ شعور پیدا ہورہا ہے کہ غربت تقدیر کا کھیل نہیں بلکہ اس استحصالی نظام کا کھیل ہے جسے ہم جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں اسی نظام نے 98 فیصد کی عید کو پھیکی بنادیا ہے اور مٹھی بھر لٹیری کلاس کی عید کو کہکشاں کی طرح رنگین بنادیا ہے۔
دنیا کے ملکوں حتیٰ کہ پسماندہ ملکوں میں بھی غربت تو ہے لیکن وہاں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ آسمان کو چھوتی مہنگائی کرپشن منافع خوری کا وہ عالم نہیں جو پاکستان میں موجود ہے۔ اس پر ستم یہ کہ مذہبی انتہاپسندوں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے انسانی زندگی کو گھروں کے اندر اور گھروں کے باہر اس طرح غیر محفوظ کردیا ہے کہ عوام غربت اور بدحالی کو بھول کر جانوں کی سلامتی کی دعائیں کر رہے ہیں پاکستان میں حکمران طبقات ان سنگین مسائل کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل کے ذمے دار یہ سب ہیں کیونکہ انھوں نے گیس بجلی کے مسئلے کو نظرانداز کرکے اپنی ساری توجہ قومی دولت کی بے تحاشا لوٹ مار میں لگادی۔ دہشت گردوں کو اپنے سیاسی مفادات کے تحت پھلنے پھولنے کی چھوٹ دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر میں غریب طبقات دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں، امرائے شہر اپنی اونچی حویلیوں مسلح گارڈز کے پہروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں محفوظ ہیں۔
دہشت گرد دعویٰ تو یہ کررہے ہیں کہ وہ ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں شرعی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کیسا شرعی نظام ہے جس میں مسجدوں، امام بارگاہوں، نمازیوں کو شہید کیا جارہا ہے، بچوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑایا جارہا ہے، صوفیا کے مزاروں کو بارود سے اڑایا جارہا ہے، افطاری کا سامان خریدنے والے روزہ داروں کا خودکش حملوں کے ذریعے خون بہایا جارہا ہے۔ جیلیں توڑ کر قاتلوں کو آزاد کرایا جارہا ہے اور آزادی کا جشن منایا جارہا ہے، آج ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہورہے ہیں مشرق وسطیٰ میں جو آگ بھڑک رہی ہے اگرچہ کہ اس کے عنوان الگ الگ ہیں لیکن اس کی وجہ ایک ہے اور وہ ہے معاشی ناانصافی۔ کیا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست عوام کی توجہ اس ظالمانہ نظام کی طرف سے ہٹانے کے لیے دہشت گردی سمیت وہ مسائل پیدا نہیں کر رہے ہیں جو عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئے ہیں، کیا دہشت گرد سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کے آلہ کار نہیں بن رہے ہیں؟
مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں، مسلم ملکوں میں نظام حکمرانی اور معاشی ناانصافی کے خلاف ہیجان برپا ہے، اگر دنیا کی آبادی کا یہ ایک تہائی حصہ معاشی ناانصافیوں کے خلاف میدان میں آتا ہے تو دنیا بھر کے مشتعل عوام اس کا حصہ نہیں بن جائیں گے؟ غالباً اسی خوف کی وجہ سے سامراجی ملکوں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے کا خون بہاکر انھیں کمزور کرنے کے لیے فقہہ کا مسئلہ کھڑا کرادیا ہے، آج عراق سے لے کر افغانستان مشرق وسطیٰ پاکستان اور شام میںفقہہ کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ کیا یہ سامراجی سازش نہیں؟
آج عید ہے پاکستان کے غریب عوام ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس بھی عید کی خوشیوں سے محروم ہے مارکیٹوں پلازوں میں عید کی ضرورتوں کی تمام اشیا کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن غریب کی جیب خالی اور اس کی عید سوگ بنی ہوئی ہے، ان محرومیوں کے علاوہ ایک خوف بھی اس کے ذہن پر سوار ہے کہ جس مسجد میں وہ نماز عید ادا کر رہا ہے، کہیں اسے بارود سے نہ اڑادیا جائے، کہیں دہشت گرد نمازیوں میں شامل ہوکر خود کو خودکش حملے سے نہ اڑادیں۔ وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ اس اسلام کے قلعے میں اسلام اور مسلمان کس قدر غیر محفوظ ہیں، ہندو کے معاشی استحصال کے خوف سے انھوں نے جو پاکستان بنایا اس میں ان کی عید اس قدر پھیکی اور بدمزہ کیوں ہے ان کے بچوں کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ان کی خواتین کے ہاتھ چوڑیوں سے ان کے بدن نئے کپڑوں سے کیوں محروم ہیں۔
سیاستدان ان کے ایجنٹ اربوں روپے کی کرپشن کس ڈھٹائی سے کر رہے ہیں کیا ان کی عید کی خوشیاں ان کھربوں روپوں کی کرپشن تو نہیں کھاگئی؟ کیا انھیں یوں ہی صبروشکر پر گزارہ کرنا چاہیے یا ظالموں لٹیروں اور ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے؟ یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کہ ایک چھوٹا سا طبقہ عید کی شاپنگ کے لیے 50 لاکھ کی گاڑی میں جیب میں 50 لاکھ روپے رکھ کر نکلتا ہے 25-20 لاکھ کے نئے نوٹ عیدی کے لیے لیتا ہے عید پر اپنے بچوں کو قیمتی کاریں تحفے میں دیتا ہے عید پر اپنے جان و مال کا صدقہ زکوٰۃ اور فطرہ دیتا ہے اور 18 کروڑ غریب عوام زکوٰۃ اور فطرہ لینے کے لیے اتنا ہجوم کرتے ہیں کہ اس ہجوم کے پیروں میں آکر مرنے والوں کی آنکھوں میں عید کی خوشیاں تیرتی رہ جاتی ہیں۔ ان کے بچے سڑکوں اور ایدھی ہوموں میں رلتے رہ جاتے ہیں۔ کیا ہم اسے عید کہہ سکتے ہیں؟
صنعتی نظام کی تیز رفتار ترقی کے ثمرات بٹورنے کے لیے جو نیا نظام تشکیل دیا گیا اس کا نام سرمایہ دارانہ نظام رکھا گیا۔اس نظام کے دو فریق محنت اور سرمایہ بنے محنت کے سارے ثمرات سرمایہ دار سمیٹنے لگا اور محنت کرنے والے اپنی بنیادی ضرورتوں روٹی،کپڑا، مکان، تعلیم، علاج سے محروم ہوگئے یوں ہزاروں سال پرانا محتاج و غنی کا نظام ایک نئی شکل میں ہمارے سامنے آیا انسانی معاشرے طبقات میں بٹ گئے اور وہ طبقات جنھیں لوٹ مار اور ناجائزکمائی کے مواقعے حاصل تھے وہ دولت مند بنتے گئے اور انسانوں کی بھاری اکثریت غربت و افلاس کا شکار رہی اور معاشرہ 2/98 میں بٹ گیا۔ اگر عید پر نظر ڈالیں تو 98 فیصد کی عید پھیکی ہے بے مزہ ہے اور 2 فیصد کی عید رنگینیوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔
پاکستان کا شمار پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں آزادی کے بعد 65 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ہمارا معاشرہ نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام ہی میں جکڑا ہوا ہے ۔ ترقی کے سارے ثمرات ایلیٹ کلاس کا مقدر بن گئے ہیں اور بھوک بیماری جہالت تعلیم اور علاج سے محرومی غریب کا مقدر بن گئے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے دنیا بھر کے غریب طبقات میں یہ شعور پیدا ہورہا ہے کہ غربت تقدیر کا کھیل نہیں بلکہ اس استحصالی نظام کا کھیل ہے جسے ہم جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں اسی نظام نے 98 فیصد کی عید کو پھیکی بنادیا ہے اور مٹھی بھر لٹیری کلاس کی عید کو کہکشاں کی طرح رنگین بنادیا ہے۔
دنیا کے ملکوں حتیٰ کہ پسماندہ ملکوں میں بھی غربت تو ہے لیکن وہاں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ آسمان کو چھوتی مہنگائی کرپشن منافع خوری کا وہ عالم نہیں جو پاکستان میں موجود ہے۔ اس پر ستم یہ کہ مذہبی انتہاپسندوں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے انسانی زندگی کو گھروں کے اندر اور گھروں کے باہر اس طرح غیر محفوظ کردیا ہے کہ عوام غربت اور بدحالی کو بھول کر جانوں کی سلامتی کی دعائیں کر رہے ہیں پاکستان میں حکمران طبقات ان سنگین مسائل کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل کے ذمے دار یہ سب ہیں کیونکہ انھوں نے گیس بجلی کے مسئلے کو نظرانداز کرکے اپنی ساری توجہ قومی دولت کی بے تحاشا لوٹ مار میں لگادی۔ دہشت گردوں کو اپنے سیاسی مفادات کے تحت پھلنے پھولنے کی چھوٹ دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر میں غریب طبقات دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں، امرائے شہر اپنی اونچی حویلیوں مسلح گارڈز کے پہروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں محفوظ ہیں۔
دہشت گرد دعویٰ تو یہ کررہے ہیں کہ وہ ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں شرعی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کیسا شرعی نظام ہے جس میں مسجدوں، امام بارگاہوں، نمازیوں کو شہید کیا جارہا ہے، بچوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑایا جارہا ہے، صوفیا کے مزاروں کو بارود سے اڑایا جارہا ہے، افطاری کا سامان خریدنے والے روزہ داروں کا خودکش حملوں کے ذریعے خون بہایا جارہا ہے۔ جیلیں توڑ کر قاتلوں کو آزاد کرایا جارہا ہے اور آزادی کا جشن منایا جارہا ہے، آج ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہورہے ہیں مشرق وسطیٰ میں جو آگ بھڑک رہی ہے اگرچہ کہ اس کے عنوان الگ الگ ہیں لیکن اس کی وجہ ایک ہے اور وہ ہے معاشی ناانصافی۔ کیا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست عوام کی توجہ اس ظالمانہ نظام کی طرف سے ہٹانے کے لیے دہشت گردی سمیت وہ مسائل پیدا نہیں کر رہے ہیں جو عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئے ہیں، کیا دہشت گرد سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کے آلہ کار نہیں بن رہے ہیں؟
مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں، مسلم ملکوں میں نظام حکمرانی اور معاشی ناانصافی کے خلاف ہیجان برپا ہے، اگر دنیا کی آبادی کا یہ ایک تہائی حصہ معاشی ناانصافیوں کے خلاف میدان میں آتا ہے تو دنیا بھر کے مشتعل عوام اس کا حصہ نہیں بن جائیں گے؟ غالباً اسی خوف کی وجہ سے سامراجی ملکوں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے کا خون بہاکر انھیں کمزور کرنے کے لیے فقہہ کا مسئلہ کھڑا کرادیا ہے، آج عراق سے لے کر افغانستان مشرق وسطیٰ پاکستان اور شام میںفقہہ کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ کیا یہ سامراجی سازش نہیں؟
آج عید ہے پاکستان کے غریب عوام ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس بھی عید کی خوشیوں سے محروم ہے مارکیٹوں پلازوں میں عید کی ضرورتوں کی تمام اشیا کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن غریب کی جیب خالی اور اس کی عید سوگ بنی ہوئی ہے، ان محرومیوں کے علاوہ ایک خوف بھی اس کے ذہن پر سوار ہے کہ جس مسجد میں وہ نماز عید ادا کر رہا ہے، کہیں اسے بارود سے نہ اڑادیا جائے، کہیں دہشت گرد نمازیوں میں شامل ہوکر خود کو خودکش حملے سے نہ اڑادیں۔ وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ اس اسلام کے قلعے میں اسلام اور مسلمان کس قدر غیر محفوظ ہیں، ہندو کے معاشی استحصال کے خوف سے انھوں نے جو پاکستان بنایا اس میں ان کی عید اس قدر پھیکی اور بدمزہ کیوں ہے ان کے بچوں کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ان کی خواتین کے ہاتھ چوڑیوں سے ان کے بدن نئے کپڑوں سے کیوں محروم ہیں۔
سیاستدان ان کے ایجنٹ اربوں روپے کی کرپشن کس ڈھٹائی سے کر رہے ہیں کیا ان کی عید کی خوشیاں ان کھربوں روپوں کی کرپشن تو نہیں کھاگئی؟ کیا انھیں یوں ہی صبروشکر پر گزارہ کرنا چاہیے یا ظالموں لٹیروں اور ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے؟ یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کہ ایک چھوٹا سا طبقہ عید کی شاپنگ کے لیے 50 لاکھ کی گاڑی میں جیب میں 50 لاکھ روپے رکھ کر نکلتا ہے 25-20 لاکھ کے نئے نوٹ عیدی کے لیے لیتا ہے عید پر اپنے بچوں کو قیمتی کاریں تحفے میں دیتا ہے عید پر اپنے جان و مال کا صدقہ زکوٰۃ اور فطرہ دیتا ہے اور 18 کروڑ غریب عوام زکوٰۃ اور فطرہ لینے کے لیے اتنا ہجوم کرتے ہیں کہ اس ہجوم کے پیروں میں آکر مرنے والوں کی آنکھوں میں عید کی خوشیاں تیرتی رہ جاتی ہیں۔ ان کے بچے سڑکوں اور ایدھی ہوموں میں رلتے رہ جاتے ہیں۔ کیا ہم اسے عید کہہ سکتے ہیں؟