نذیر عباسی عوام میں زندہ ہے
جسے انگریزی میں Morning Shows The Day کہتے ہیں۔
KOCHI:
9 اگست 1980ء وہ دن تھا جس روز سندھ ہائی کورٹ کی دوسری منزل پر کامریڈ بیرسٹر سید عبدالودود نے راقم الحروف کو انگریزی اخبار ''اسٹار'' پیش کرتے ہوئے کہا کہ ''لو سالوں نے نذیر کو مار دیا'' شہید نذیر عباسی ٹنڈوالہ یار کے ایک غریب کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کی اتنی بساط نہیں تھی کہ وہ ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کر پائیں۔ مگر کامریڈ نذیر عباسی کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس لیے انھوں نے ایک چھولے (چنے) کی دکان کسی طرح سے لگا لی۔ اس کے منافعے سے جو پیسے ملتے تھے اس کے ذریعے نہ صرف تعلیم کو جاری رکھا بلکہ کچھ پیسے بچا کر گھر والوں کو بھی دیا کرتے تھے۔ ایک اسکول کے طالب علم کا اتنا بااصول اور باشعور ہونا بڑی فخر کی بات ہے۔
جسے انگریزی میں Morning Shows The Day کہتے ہیں۔ کالج میں داخلے کے بعد وہ ایک طلبہ تنظیم ''ماروڑہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن'' کے رکن بن گئے۔ یہ ایک سندھی قوم پرست طلبہ تنظیم تھی۔ بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی کے نمایندوں سے جب ان کی ملاقات اور بحث و مباحثہ ہوا تو آخر کار وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ طلبا اور محنت کشوں کے مسائل یکساں ہوتے ہیں خواہ وہ سندھی ہوں یا پنجابی ہندو ہوں یا مسلمان۔ پھر وہ کمیونسٹ پارٹی کے طلبا محاذ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (SNSF) میں شامل ہو گئے۔ اپنی تیز تر سرگرمیوں اور شعوری بالیدگی کے باعث وہ SNSF کے صدر اور بعد میں پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس کے نائب صدر منتخب ہوئے اسی دوران وہ کمیونسٹ پارٹی سندھ کے سیکریٹری بھی منتخب ہوئے۔ اس وقت وہ جام شورو یونیورسٹی میں ایم اے سیاسیات کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ وہ بہترین مقرر اور ترجمہ نگار بھی تھے۔
ہر چند کہ وہ مجھ سے دس سال چھوٹے تھے لیکن کام اور شعور کے اعتبار سے دس سال بڑے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جب کمیونسٹ پارٹی سندھ کے سیکریٹری تھے اس وقت میں (راقم) کراچی سٹی کا سیکریٹری تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے درندہ صفت مارشل لا کے دور میں نذیر عباسی کو جب گرفتار کر کے (شہادت سے قبل) کوئٹہ کے ایک عقوبت خانے میں اذیتیں دی جا رہی تھیں اس وقت ملک بھر کے طلبہ، مزدور اور کسان ان کی رہائی کے لیے سراپا احتجاج تھے اور چاکیواڑہ، لیاری، کراچی میں بھی ایک احتجاجی جلسہ ہو رہا تھا۔ اس جلسے سے خطاب میں شہید نذیر عباسی کی بیوی حمیدہ گھانگھرو نے کہا تھا کہ ''نذیر عباسی پر ہونے والے تشدد کی ہم مذمت کرتے ہیں اور ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں لیکن ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ میرا شوہر کسی چوری چکاری میں نہیں پکڑا گیا وہ کمیونسٹ انقلاب کے لیے طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے اور استحصال کے خلاف محکوم عوام کی حالت زار کو بدلنے کے لیے اذیتیں برداشت کر رہا ہے''۔
جب نذیر عباسی کو کوئٹہ کی اذیت گاہ سے رہا کیا جا رہا تھا تو اس وقت انھیں فوجی افسران نے خبردار کیا تھا کہ ''اگر تم نے پھر کوئی تحریک چلائی تو خیر نہیں ہوگی'' مگر نذیر عباسی ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہ ہوئے اور انھوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ واضح رہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں، میں (راقم) بھی 6 بار گرفتار ہوا اور مختلف قید خانوں اور فوجی اذیت گاہوں میں مہینوں گزارے۔ نذیر عباسی نے چونکہ جلد شادی کر لی تھی اس لیے وہ جب بھی مجھ سے ملتے کاندھے پر تھپکی مارتے ہوئے ایک ہی مذاق کرتے تھے کہ ''کامریڈ شادی کب کر رہے ہو؟'' نذیر عباسی کا کہنا تھا کہ ''بورژوا ڈیموکریسی مسئلے کا کوئی حل نہیں، مسائل کا مکمل حل ہے ایک امداد باہمی کے معاشرے میں جو کہ نسل انسانی پر مشتمل ہو گا اور عالمی انقلاب پر منتج ہو گا''۔
نذیر عباسی کے وکیل کامریڈ بیرسٹر سید عبدالودود تھے جو کہ کمیونسٹ پارٹی کراچی سٹی کمیٹی کے رکن بھی تھے نے اس وقت عدالت میں بڑی جرأت مندی سے یہ الفاظ ادا کیے، جب عدالت نے نذیر عباسی کی موت کی وجہ حرکت قلب بند ہونا بتائی جب کہ نذیر عباسی کو غسل جنازہ کے وقت ان کے جسم میں مختلف جگہوں پر زخموں، چوٹوں اور شیشے کی کھرونچوں کے گہرے زخم عیاں تھے۔ یہ بات عبدالستار ایدھی نے بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وقت آنے پر میں کھل کر عوام کے سامنے سچائی آشکار کروں گا۔ کامریڈ ودود نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ اس ملک اور نظام میں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ ا س سے قبل 1960ء میں ایک اور فوجی آمر جنرل ایوب خان کے دور میں بھی لاہور شاہی قلعہ میں حسن ناصر کو شہید کر کے کہا گیا تھا کہ ''انھوں نے شلوار کی ازار بند کھونٹی پر باندھ کر خودکشی کر لی'' جب کہ وہ چھ فٹ کے تھے اور کھونٹی 5 فٹ کی تھی۔ کامریڈ میجر اسحاق مرحوم نے ان کے مقدمے کی پیروی کی تھی۔ یہ کہہ کر غصے میں ودود صاحب عدالت سے نکل گئے۔ پھر عدالت میں موجود نذیر عباسی کے مداحوں نے یہ نعرے لگائے کہ ''زندہ ہے ' زندہ ہے نذیر عباسی زندہ ہے''۔
جس پر بعد میں جج نے بیرسٹر عبدالودود کو اپنے چیمبر میں بلا کر پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے تھے۔ تو وکیل صاحب نے انھیں بتایا کہ یہ کہہ رہے تھے کہ ''نذیر عباسی زندہ ہے، وہ نہیں مرا، یعنی اس کا نظریہ ''کمیونزم'' پیش قدمی کر رہا ہے، اس لیے وہ زندہ ہے''۔ جس روز نذیر عباسی کی شہادت کی خبر ''اسٹار'' اخبار میں چھپی اسی روز ریگل چوک صدر کراچی میں مزدور، طلبہ اور دانشوروں نے ایک مظاہرہ کیا۔ اس پاداش میں کئی مزدور اور دانشور گرفتار ہوئے اور اسی روز ڈاؤ میڈیکل کالج (جو اب یونیورسٹی ہے) میں این ایس ایف کی جانب سے ایک بھرپور اور زبردست احتجاجی جلسہ منعقد ہوا۔ اس کے چند روز بعد عیدالفطر کی نماز کے اختتام پر وسط شہر کراچی ہی ایک جلوس برآمد ہوا۔ نذیر عباسی جیسے انقلابی کی شہادت تاریخ میں کوئی پہلی بار نہیں ہوئی۔ معلوم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ لاکھوں کمیونسٹوں، انقلابیوں اور سوشلسٹوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا تاکہ سماج کو تبدیل کیا جا سکے۔
روم کے اسپارکٹس، جرمنی کے ریمز، چیکوسلواکیہ کے جیولس فیوچک، چلی کے ڈاکٹر آئیزے، پاؤلونرودا، لاطینی امریکا کے چی گویرا، جرمنی کی روزا لگزمبرگ، پاکستان کے بھگت سنگھ، حسن ناصر، ہندوستان اور چین اور انڈونیشیا کے لاکھوں کامریڈوں، روس کے ٹراٹسکی، اور روس کے ہی ہزاروں انارکسٹوں نے سماج کی تبدیلی کے لیے عظیم قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں۔ روس میں 1917ء کے کامیاب انقلاب کے بعد دنیا کے 113 ملکوں میں جن میں ایران، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، ہندوستان، چین، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیائی ملکوں اور مشرق بعید کے ملکوں نے نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کی، یہ الگ بات ہے کہ ریاستی جبر کی وجہ سے پھر وہ ایک بار نئے نوآبادیاتی نظام میں جکڑے گئے۔ ان عظیم پیش قدمیوں اور قربانیوں کی بدولت صدیوں اور دہائیوں سے مسلح جدوجہد کے نتیجے میں ہندوچین، جنوبی افریقہ، موزنبیق اور امریکا کو آزادی ملی۔ بعد میں سامراجی حیثیت اختیار کرنے کے بعد وہی امریکا اور اس کی CIA کی مدد سے انڈونیشی فوج اور رجعتی مذہبی جماعتوں سے مل کر 15 لاکھ کمیونسٹوں اور انقلابیوں کو قتل کیا۔
ویتنام میں 23 سالہ بمباری، نیپام بموں اور ہائیڈروجن بموں سے 23 لاکھ سے زائد شہریوں اور کارکنوں کا قتل کیا۔ امریکی سامراج مشرق وسطیٰ میں اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے ایران کے عظیم کمیونسٹ رہنما داؤد سمیت درجنوں فلسطینیوں کے قتل کے انعام کے طور پر جنرل ضیاء الحق کو آنر آف جورڈن کا تمغہ ملا۔ سامراجی قوتوں نے عراق، بحرین، یمن، تیونس، مصر اور سعودی عریبیہ میں لاکھوں کارکنوں اور شہریوں کا قتل عام کیا۔ اب مشرق وسطیٰ کا شاندار انقلاب ترکی سے شروع ہو چکا ہے اور اس کی لہر دنیا بھر میں جا پہنچی ہے۔ اس وقت برازیل، انڈونیشیا، مصر، چلی، پرتگال، اسپین، جنوبی افریقہ، بلغاریہ، برطانیہ اور امریکا میں شاندار عوامی احتجاج جاری ہیں۔
دنیا کے شہری ملکوں اور قوموں کی سرحدوں کو توڑ تے جا رہے ہیں۔ اسپارٹیکا سے غلامی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک نے آج دنیا سے غلامی ختم کر دی۔ 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں نے پھانسی پر لٹک کر اور گولیاں کھا کر عظیم قربانیاں دے کر دنیا سے 16 گھنٹے کے بجائے 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کروائی۔ انقلاب روس کے بعد 113 ملکوں سے نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ کروایا۔ چین میں لانگ مارچ کر کے ایشیا کو آزادی کی راہ دکھائی۔ چی گویرا اور ڈاکٹر فیڈل کاسترو کی رہنمائی میں کیوبا میں انقلاب برپا کر کے لاطینی امریکا کو آزادی کی جانب گامزن کر دیا۔ اب دنیا عالمی انقلاب کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔ ''وال اسٹریٹ قبضہ تحریک'' نے دنیا کے 88 ملکوں کے 900 شہروں میں ''ہم 99 فیصد ہیں'' کے نعرے کے ساتھ عالمی فکری یکجہتی کا مظاہرہ کر کے عالمی انقلاب کی راہ دکھائی۔