ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے چند ملاقاتیں…

ایسی تقریبات میں بہت جانا ہوا لیکن ان کے علاوہ کبھی کسی کی تقریر پسند نہیں آئی۔



ڈاکٹر فرمان فتحپوری سے پہلی ملاقات ان کے گھر واقع ملیر ہالٹ پر ہوئی اور ایک بزرگ ٹیچر عبدالرزاق عابدی صاحب نے کروائی، یہ 1968ء کا واقعہ ہے۔ فرمان صاحب کی شہرت بحیثیت استاد ہم تک پہنچی ہوئی تھی جب وہ خود انٹر کے طالب علم اور کورنگی میں میں پڑھاتے تھے۔ رزاق عابدی نے بتایا کہ وہ فرمان صاحب کے استاد ہیں۔ ہمیں یقین نہ آیا اس لیے میں اور کمال، عابدی صاحب کو لے کر فرمان صاحب ملنے گئے۔ ان سے شعر سننے کی فرمائش کی تو بہت مایوسی ہوئی، فرمایا ''شعر کہنا یا سنانا چھوڑ دیا ہے اب صرف سنا کرتا ہوں''۔ الغرض ان کی مہمان نوازی کی خوشگوار یادیں لیے ان کے گھر سے واپس آئے، یہ ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔

اس وقت شاید وہ ایم اے اردو، بی ایڈ اور پی ایچ ڈی کر چکے تھے، ڈی لیٹ اس کے بعد کیا۔ کچھ عرصے بعد وہ 13-D کے گلشن والے بنگلے میں منتقل ہو گئے۔ اس دوران وہ کراچی یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے کے بعد اردو ڈکشنری بورڈ کے چیف ایڈیٹر اور ڈائریکٹر ہو گئے تھے۔ میں ایم اے اردو اور ایم اے اسلامیات اور ایل ایل بی کے بعد اردو میں ایم فل کرنا چاہتا تھا۔ برادرم شکیل صدیقی نے بتایا ان کی والدہ فتح پور سہوہ کی تھیں اس لیے فرمان صاحب سے رشتے داری ہے، میں شکیل صاحب کو ساتھ لے کر ڈکشنری بورڈ گیا خطرہ تھا کہ ایک طویل عرصہ پچھلی ملاقات کو گزر گیا اس لیے وہ بھول گئے ہوں گے لیکن انھوں نے پہچان لیا۔اس دوران ادبی تقریبات میں جانا ہوتا تو فرمان صاحب کی صدارتی تقریر جو تقریب کے ادبی موضوع پر ہوتی تھی سن کر علمیت سے بھرپور معلومات روانی اور لیکچر کے انداز سے ہمیشہ متاثر ہوا۔

ایسی تقریبات میں بہت جانا ہوا لیکن ان کے علاوہ کبھی کسی کی تقریر پسند نہیں آئی۔ ایک بار ملے تو پوچھا ''کراچی ہی میں ہو؟'' میں نے کہا ''ہاں!'' شکوہ کے انداز میں کہا کہ کبھی ملنے نہیں آتے! پھر بولے اب یہ نہ کہنا کہ فلاں فلاں ادبی تقریب میں ملاقات ہوئی۔ یعنی وہ چاہتے تھے کہ اس طرح چل چلاؤ کی ملاقات اور سرسری سی باتوں کے بجائے کوئی باقاعدہ ملاقات اور سنجیدہ علمی و ادبی و تدریسی گفتگو کی جائے۔وقت گزرتا گیا اور پی ایچ ڈی کے بعد مقالہ میں نے کراچی یونیورسٹی کو شایع کرنے کے لیے دیا تو شعبہ تصنیف و تالیف نے ڈاکٹر ظفر سعید سیفی کو بھجوایا، انھوں نے کہا کہ شایع کرنے سے قبل اس پر کسی سینئر پی ایچ ڈی استاد کی رائے درکار ہے، میں نے فوراً فرمان صاحب کا نام لے لیا۔ یونیورسٹی سے مقالہ انھیں بھیجا گیا تو جواب ملا کہ آنکھوں کا آپریشن ہوا ہے اس لیے پڑھنے سے معذور ہیں۔ اس طرح یہ حسرت رہ گئی کہ وہ میرا تحقیقی مقالہ ملاحظہ کرتے۔

اس سلسلے میں ایک اور بزرگ اور مشفق ادیب وزیر پانی پتی نے بھی سفارش کی مگر فرمان صاحب آنکھوں سے معذور ہو گئے تھے۔ آخری عمر میں وہ بڑی مشکل سے انجمن ترقی اردو کی تقریبات میں کبھی کبھی آ جاتے تھے۔ دو سال بیشتر ایک کتاب کی رونمائی میں آئے تو صدر انجمن ترقی اردو آفتاب احمد خان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں اس طرح کر رہے تھے کہ سامنے بیٹھے ہم جیسے سامعین بھی سنیں اور لطف اندوز ہوں۔ کہنے لگے ''پچھلے سال ہندوستان میں ڈاکٹر گیان چند سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ فرمان میں تم سے ایک سال بڑا ہوں۔ وہ پچھلے سال 85 کے ہو گئے تھے۔ میں اسی سال کا ہو گیا ہوں''۔ ڈاکٹر فرمان نے اپنے آپ کو کتابوں پر بھی کبھی پروفیسر نہ لکھوایا (شاید انکساری کی وجہ سے) صرف ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھواتے۔ ان کا ادبی، تنقیدی اور تحقیقی کام اتنا ہے کہ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے کے مصداق آج کے محقق کے لیے اچھا خاصا کام ہے۔ کوئی دوست یہ جائزہ لے سکتا ہے۔

اس حوالے سے وہ پاکستان کیا ملک سے باہر بھارت اور دوسرے ممالک میں بھی بہت مصروف تھے لیکن ان کا پہلا حوالہ تدریس تھا۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ان کی زیادہ تر تصانیف اسی حوالے سے ہیں جو ایم اے اردو یا اس سے اوپر تحقیقی سطح پر کام کرنیوالے کے لیے زیادہ کارآمد ہیں۔ جب جامعہ ملیہ ملیر بنا تو بی ایڈ کی کلاس لینے فرمان صاحب بڑی باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔ تدریسی ضرورتوں کے پیش نظر انھوں نے اپنی کتاب ''تدریس اردو'' تصنیف کی جو اب تک اس موضوع پر ایک کارآمد تصنیف اور حوالے کی کتاب ہے۔ راقم نے ایم اے کے پنجاب کے سلیبس کے لیے اختیاری مضمون تدریس اردو اور تعینات تدریس اردو لکھتے وقت اس کتاب سے خاصا استفادہ کیا۔ استاد کی حیثیت سے فرمان صاحب کے شاگرد آج بھی ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر فرمان کا ایک حوالہ نگار ادبی رسالہ بھی رہا۔ نیاز فتح پوری ان سے بہت بہت شفقت کرتے۔ نیاز صاحب کے انتقال کے بعد نگار اور فرمان ایک جان دو قالب ہو گئے تھے۔ حلقہ نیاز و نگار کا سالانہ فنکشن جو دسمبر میں نیپا آڈیٹوریم میں ہوتا تھا کراچی شہر کی ایک اہم تقریب شمار ہوتی تھی۔

چند سال قبل میر انیس کی صد سالہ تقریب فرمان صاحب نے نیپا آڈیٹوریم سے بڑے اہتمام سے منعقد کی ادبی شعبے کے متعلقہ بے شمار افراد اس یادگار تقریب میں مدعو تھے۔ لیکن فرمان صاحب نے لندن سے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کو بھی بلایا جو لندن میں اردو کے پروفیسر ہونے پر فخر کرتے ہیں، انھوں نے میر انیس کے ایک مرثیے کو انگریزی میں ترجمہ کیا جسے پڑھنے کے لیے فرمان صاحب نے لاہور سے ضیاء محی الدین جیسے صداکار کو بلایا تو انھوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنی صداکاری سے سماں باندھ دیا۔ یہ 2003ء کا واقعہ ہے۔ڈاکٹر فرمان کے ایک شاگرد امراؤ طارق نے جو انجمن ترقی اردو میں نائب معتمد بھی رہے ایک کتاب دو جلدوں میں مرتب کی تھی جس میں پاکستان اور باہر کے ممالک کے مشاہیر کی تحریریں شایع کی تھیں۔ ڈاکٹر فرمان پر ایسا ہی بھرپور کام ہونا چاہیے، ورنہ یہ تحریر تو اپنی چند یادوں اور ملاقاتوں کے حوالے سے ایک سرسری سی تمہید کی حیثیت رکھتی ہے کہ انھیں انتقال پر تعزیت و تحسین کے ساتھ رخصت کرتے وقت بتا دیا جائے کہ:

جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں