جہالت کی فصیلوں میں قید غیرت مند مذہبی جنونی

جہالت کی فصیلوں میں قید یہ غیرت مند جنونی، جنوبی پنجاب سے کوہستان تک پھیلے ہوئے ہیں


نادیہ مرتضیٰ March 22, 2019
بہاول پور: گورنمنٹ کالج میں طالب علم نے انگریزی کے پروفیسر کو چھریوں کے وار کر کے قتل کردیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''تمہیں پتا ہے وہ مرگئے ہیں؟''

''اچھی بات ہے۔''

''چھریوں کے وار کرکے اتنی بے رحمی سے کیوں مارا ہے؟''

''وہ اسلام کے خلاف بہت بھونکتا تھا۔''

''قانون کے ادارے موجود ہیں۔ اطلاع کیوں نہیں دی۔''

''قانون کچھ نہیں کرتا، چھوڑ دیتا ہے۔''

یہ مختصرمکالمہ پرسوں صبح ایک جواں سال طالب علم خطیب حسین اور جائے واردات پر موجود پولیس اہلکار کے درمیان ہوا۔ خطیب حسین بہاولپور کا رہائشی ہے اور ایم اے انگلش کے پانچوِیں سیمسٹر میں ہے۔

ایک دبلے پتلے، کمزور جسم والے خطیب حسین نے جنہیں جان سے مارا ہے وہ بہاولپور کے ایس آئی کالج میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے اور ان کا شمار کالج کے بہترین، قابل اور سیںئراساتذہ میں ہوتا تھا۔ بہاولپور میرا آبائی شہر ہے۔ میں ان ٹیچر کو ذاتی طور پر اس لیے جانتی ہوں کہ میری بہن محترم خالد حمید سے انگلش لٹریچر پڑھ چکی ہیں۔

خالد حمید ایک انتہائی شریف، مذہبی، صوم و صلوٰۃ کے پابند اور انتہائی دھیمی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کے بارے میں اس لیے بھی وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ بہاوپور 237 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ کم و بیش ہر شخص دوسرے کو جانتا ہے۔ خالد حمید کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ کبھی کسی سے بلند آواز میں بات نہیں کرتے تھے۔ وہ نہایت متحمل مزاج، رحم دل اور کالج کے طلبا و طالبات میں نہایت مقبول استاد تھے۔

میں نے اسکول سے یونیورسٹی تک کی تعلیم بہاولپور سے حاصل کی ہے۔ میں آج سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس حیوانیت کا ذمہ دار کسے ٹھہرؤاں؟ بہالپور کی پٹی سے جڑی کالعدم تنظیموں کو، جیش محمد کے مدرسوں کو، تنگ نظری اور جہالت کو یا پھر سیاست کی جھولی میں گرتے ان مفاد پرست جنوبی پنجاب کے آزاد امیدوار سیاستدانوں کو جنہوں نے وقت کے ساتھ وفاداریاں تو بدلی ہیں، جنوبی پنجاب کے عوام کا معیار زندگی نہیں بدلا۔

میں سوچتی تھی کہ بہاولپور سے جڑے مسائل پر ایک ٹیلی فلم بناؤں گی۔ چند عنوان تھے میرے ذہن میں۔ روحی اور چولستان کے قرب و جوار میں پانی کی بوند بوند کو ترستی زندگی پر، یا پھر یزمان اور بہاولپور سے جڑے دیگر ملحقہ علاقوں میں ذہن کی پستی، پیروں کی حیوانیت میں ہونے والے جوان بچیوں کے علاج پر، یا بیٹے اور بیٹی میں تفریق جیسے موضوعات کیمرے کی مدد سے اجاگر کروں گی۔ یہ خیال تب بھی آیا جب چولستان کے صحرا میں تین معصوم بچیوں نے بھوک پیاس میں جان دے دی تھِی۔ ایک ٹیِلی فلم بنانے کا خیال تب آیا جب ملتان میں رہنے والی قندیل بلوچ کے بھائی نے اسکا گلہ دبا کر جان لے لی۔

مگر ان علاقوں کی تنگ گلیوں سے زیادہ، ذہن کی تنگی تو اور بھی سنگین ہے۔

خیر! ذہن کی تنگی تو اب صرف میرے شہر کا نہیں میرے ملک کا مسئلہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں ہم نے دو جنگیں بیک وقت لڑنے کا عہد کیا؛ ایک زمینی اور دوسری نظریاتی جنگ۔ آپریشن سوات، راہ حق، ضرب عضب۔ زمینی جنگ تو ہم لڑ گئے۔ نظریاتی جنگ ہم شروع ہی نہیں کر پائے۔ نظریاتی جنگ میں دشمن اگر کالعدم تنظیمیں تھیں تو سیاسی جماعتوں نے ووٹ بینک کےلیے اور اسٹیبلشمنٹ نے دفاعی ہتھیار کے طور پر انہیں گلے لگائے رکھا۔ نہ عدالتوں میں مقدمہ چلا نہ کسی کالعدم تنظیم کو حقیقی طور پر مفلوج کیا گیا۔ اگر اس جنگ کا حریف شددت پسندی تھی، تو وہ بھی وقت کے ساتھ پھلتی پھولتی رہی۔

اپریل 2017 میں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو جامعہ کے طلبا نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا تھا۔ اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد چارسدہ میں اسلامیہ پبلک کالج کے ایک طالب علم نے اپنے پرنسپل پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں قتل کردیا تھا۔

جہالت کی فصیلوں میں قید یہ غیرت مند جنونی تو جنوبی پنجاب سے کوہستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر پروا کسے ہے؟ نظریاتی جنگ سے لینا دینا ہی کیا ہے؟

وہ اور قومیں ہیں جو دہشت گرد کو ڈنکے کی چوٹ پر دہشت گرد کہتی ہیں۔ قوم کی ذہنیت کو متاثر کرنے والے تحریری مواد اور ویڈیوز کے خلاف ٹھوس اقدام کرتی ہیں، جیسا کہ حال ہی میں سانحہ نیوزی لینڈ کی ویڈیو وائرل ہونے پر امریکی ایوان کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی نے فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور مائیکروسافٹ کے سربراہان کو فوری طلب کیا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان نے بطور ریاست مذہبی بیانیہ تبدیل کرنے، فرقہ واریت اور منتشر الذہنی ختم کرنے اور ایسے عناصر کے خلاف جو اسلام کی غلط توجیہہ کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، کب سنجیدہ کوشش کی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے