کہ خوشی سے مر نہ جاتے
وعدے کرنا، خوشخبریاں سنانا اور سناتے چلے جانا ہمارے اہلِ سیاست کا لاجواب ہنر ہے، اکثریت اسی کی کھاتی ہے
KARACHI:
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ہمارے مرزا صاحب، چچا غالب، اردو شاعری کی مثلث کے تین بڑے ستونوں میں سے ایک، ایسے ایسےلاجواب اشعار کہہ گئے جو آج بھی اتنے ہی موزوں محسوس ہوتے ہیں کہ ان کا حوالہ برمحل اور بروقت محسوس ہوتا ہے۔ اب مذکورہ شعر کی ہی مثال لے لیجئے۔ وعدے کرنا، خوشخبریاں سنانا اور سناتے چلے جانا ہمارے اہلِ سیاست کا وہ لاجواب ہنر و کمال ہے کہ ان میں سے اکثریت، معدودے چند نیک روحوں کو چھوڑ کر، اسی کی کھاتی رہی، کھا رہی ہے، اور کھاتی ہی رہے گی۔ کیونکہ جب تک بیوقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکے نہیں مرسکتے۔ یہ میں نہیں کہتا، کتابوں میں لکھا ہے یارو۔
تو اب عہدِ موجود کے رہبران کی تقاریر پر نظر ڈالیں، کسی کا نام نہیں لیتا، نہ لینا چاہیے کہ سب تقریباً ایک ہی طرح کی باتیں کرتے، خوشخبریاں سناتے اور وعدے کیا کرتے ہیں۔ اس لئے ذرا احتیاط کرتے ہوئے بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارے چھوٹے بڑے، صف اول کے، صف دوم کے مرد و زن، لیڈران اور رہبران و قائدین اتنی خوشخبریاں پہلے سنا چکے اور اتنی آج رج کے سنا رہے ہیں کہ وہ صاحبانِ اختیار و اقتدار اگر صاحب اعتبار ہوتے اور ہمارے سیدھے سادھے بھولے بھالے عوام کو ان پر اعتبار ہوتا تو بقول غالب خوشی سے شادئ مرگ ہوجاتا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
''اب ملک کی حالت برداشت نہیں ہورہی ہے، مجھے حرکت میں آنا ہی ہوگا''۔ یہ فرمایا ملک کے ایک جدی پشتی خاندانی سیاسی راج کمار نے جن کے دس سالہ سیاسی کیریئر میں صرف اپنی والدہ محترمہ اور اپنے عظیم المرتبت نانا سے تعلق کے حوالے کے علاوہ کوئی عوامی خدمت کا کریڈٹ نہیں۔ جن کے والد کی معاشی حکمت عملیوں کا ڈنکا چاروں طرف بج رہا ہے اور وطن عزیز انہیں 'بھگت' رہا ہے اور جنہوں نے بڑی محنت اور دن رات کی محنت سے واقعی یہ قول سچ کر دکھایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ بس یہ بتانا بھول گئے کہ یہ انتقام عوام سے لیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اور بھی کئی راجکمار اور شہزادے پائپ لائن میں بھی ہیں۔ کچھ بیرون ملک سے امپورٹ کئے جانے کے انتظار میں وہیں وقت گزار رہے ہیں اور ان کے بڑوں یعنی راجوں مہاراجوں کا تو صاحب پوچھئے ہی مت کہ پر جلتے ہیں زیادہ بات کرتے ہوئے۔
خیر اب کوئی اگر ان عوامی لیڈر ہونے کے دعوے داروں سے پوچھے کہ جناب مہنگائی کیسی جارہی ہے؟ ٹماٹر کب سستے ہوں گے؟ بجلی کے فی یونٹ ریٹس میں خاموشی سے کتنا اضافہ ہوگیا ہے؟ جناب! یہ تو بتائیں کہ آج کتنے بچے بھوک سے مر گئے؟ کتنے بڑوں نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی؟ تو پھر ان کی نازک مزاج جبینِ ناز پر شکن آجاتی ہے۔ بڑا ناگوار گزرتا ہے۔ کیونکہ یہ تو اپنے تقریر نویسوں اور پروفیشنل منیجرز کے تیار کردہ اسکرپٹ کے مطابق ہی بات کرتے ہیں۔ باقی باتوں کے لئے اگر یہ بغلیں جھانکنا نہ شروع کردیں تو پھر بیچارے کیا کریں؟
اسی طرح اور بھی اس قبیلہ سیاسیہ و اشرافیہ کے جنہیں ایک کالم نگار نہ جانے کیوں بدمعاشیہ کہتے ہیں، ایسے ایسے شہسوارِان سیاست ہیں کہ اگر ان کی بونگیاں، وعدے، دعوے اور مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے عوام الناس سے ہمدردی اور محبت کے بارے میں ان کی جانب وقتاً فوقتاً آمدہ بیانات لکھوں اور پھر اس کے عملی اطلاق سے ان ہمدردان کی ہوائی باتوں کا موازنہ کروں تو بس 'ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم' اور 'بولتی بند' والی کیفیت طاری ہوجائے گی۔
اصل میں ہمارے عوام بھی اب ان باتوں کے جیسے عادی ہوچکے ہیں اور بے حسی کی چادر اوڑھے اپنی اپنی زندگی گزارنے میں مگن ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ہونا تو کچھ ہے نہیں۔ یہ رفتار بے ڈھنگی بس یونہی رہے گی۔ تو بجائے اعتبار کرکے مرجانے کے، عوامی اکثریت نے آنکھیں چرا کر فرار کی راہ اپنا لی ہے۔ اب ذرا ان قائدین و رہبران کے بغل بچوں اور ہمنواؤں کا حال بھی دیکھ لیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے بڑی محنت کرکے ہمارے پیارے اراکین اسمبلی کو ملنے والی مراعات، رعایتوں، تنخواہوں اور ان پر ہونے والے اخراجات اور انہیں ملنے والے ترقیاتی فنڈز، جو نہ جانے کہاں چلے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں پر ہونے والے اخراجات وغیرہ، ایم این اے ہاسٹل اور نہ جانے کیا کیا الا بلا وغیرہ، کا باقاعدہ سے بہترین حساب کتاب لگایا اور اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ ہمیں پارلیمنٹ کا ایک رکن پانچ سال کے لئے اوسطاً چالیس کروڑ کا پڑتا ہے۔ اب قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں ان سب کے اراکین کو چالیس کروڑ سے ضرب دے کر ذرا اپنے قومی ہمدردوں کا گرینڈ ٹوٹل نکالیے اور اس کے بالمقابل ان پانچ سال میں قانون سازی اور ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ان کا کیا گیا کام بھی دیکھئے، تو بقول اختر شیرانی مرحوم سر دھننے اور آہیں بھرنے اور اپنی قسمت پر ناز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کیوں ہیں؟ یہ کب تک یونہی سینے پر مونگ دلتے رہیں گے؟ یہ کہاں سے مسلط ہوجاتے ہیں؟ پھر 'سو پیاز اور سو جوتے' اور 'میاں کی جوتی، میاں کا سر' والا سلوک کرکے بھی عوام کے رہبر، لیڈر اور قائد ہی کہلاتے رہتے ہیں۔ جھوٹ، تعصب، جہالت اور ہر شعبے میں بگاڑ پیدا کئے رکھنا ان کے خاص ہتھیار اور کمالات ہیں۔ ان کے سارے فلسفے، ساری خوشنما باتوں کے پیچھے صرف اور صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ قومی بھلائی اور عوامی مفاد کی لچھے دار تقریریں کرنا اور آنسو بہانا ان کے کچھ مزید اوزار ہیں جن سے یہ اپنے اور اپنی آل اولاد کےلئے قومی خزانے کے مال و زر کے پہاڑ کو تراشتے رہتے اور ٹکڑے نکالتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اپنی جنتیں بیرون ممالک میں اثاثہ جات کی شکل میں بنالی ہیں، جس کے کئی نمونے آپ آج کل بھی دیکھ رہے ہیں کہ عدالتیں بلا بلا کر تھک گئی ہیں مگر یہ ہمدردان قوم آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بیمار ہیں ناں بے چارے!
تو پھر بھیا حل کیا ہے؟ دو ہی حل ہیں۔ ایک یہ کہ بھائی خاموشی سے اپنی اپنی نبیڑتے رہو اور جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔ دوسری ہمت، جدوجہد اور قربانی کی راہ ہے، جس کے لئے میری ناقص رائے میں ابھی شاید قوم تیار نہیں ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ میں خود بھی تو تیار نہیں ہوں ناں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ہمارے مرزا صاحب، چچا غالب، اردو شاعری کی مثلث کے تین بڑے ستونوں میں سے ایک، ایسے ایسےلاجواب اشعار کہہ گئے جو آج بھی اتنے ہی موزوں محسوس ہوتے ہیں کہ ان کا حوالہ برمحل اور بروقت محسوس ہوتا ہے۔ اب مذکورہ شعر کی ہی مثال لے لیجئے۔ وعدے کرنا، خوشخبریاں سنانا اور سناتے چلے جانا ہمارے اہلِ سیاست کا وہ لاجواب ہنر و کمال ہے کہ ان میں سے اکثریت، معدودے چند نیک روحوں کو چھوڑ کر، اسی کی کھاتی رہی، کھا رہی ہے، اور کھاتی ہی رہے گی۔ کیونکہ جب تک بیوقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکے نہیں مرسکتے۔ یہ میں نہیں کہتا، کتابوں میں لکھا ہے یارو۔
تو اب عہدِ موجود کے رہبران کی تقاریر پر نظر ڈالیں، کسی کا نام نہیں لیتا، نہ لینا چاہیے کہ سب تقریباً ایک ہی طرح کی باتیں کرتے، خوشخبریاں سناتے اور وعدے کیا کرتے ہیں۔ اس لئے ذرا احتیاط کرتے ہوئے بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارے چھوٹے بڑے، صف اول کے، صف دوم کے مرد و زن، لیڈران اور رہبران و قائدین اتنی خوشخبریاں پہلے سنا چکے اور اتنی آج رج کے سنا رہے ہیں کہ وہ صاحبانِ اختیار و اقتدار اگر صاحب اعتبار ہوتے اور ہمارے سیدھے سادھے بھولے بھالے عوام کو ان پر اعتبار ہوتا تو بقول غالب خوشی سے شادئ مرگ ہوجاتا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
''اب ملک کی حالت برداشت نہیں ہورہی ہے، مجھے حرکت میں آنا ہی ہوگا''۔ یہ فرمایا ملک کے ایک جدی پشتی خاندانی سیاسی راج کمار نے جن کے دس سالہ سیاسی کیریئر میں صرف اپنی والدہ محترمہ اور اپنے عظیم المرتبت نانا سے تعلق کے حوالے کے علاوہ کوئی عوامی خدمت کا کریڈٹ نہیں۔ جن کے والد کی معاشی حکمت عملیوں کا ڈنکا چاروں طرف بج رہا ہے اور وطن عزیز انہیں 'بھگت' رہا ہے اور جنہوں نے بڑی محنت اور دن رات کی محنت سے واقعی یہ قول سچ کر دکھایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ بس یہ بتانا بھول گئے کہ یہ انتقام عوام سے لیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اور بھی کئی راجکمار اور شہزادے پائپ لائن میں بھی ہیں۔ کچھ بیرون ملک سے امپورٹ کئے جانے کے انتظار میں وہیں وقت گزار رہے ہیں اور ان کے بڑوں یعنی راجوں مہاراجوں کا تو صاحب پوچھئے ہی مت کہ پر جلتے ہیں زیادہ بات کرتے ہوئے۔
خیر اب کوئی اگر ان عوامی لیڈر ہونے کے دعوے داروں سے پوچھے کہ جناب مہنگائی کیسی جارہی ہے؟ ٹماٹر کب سستے ہوں گے؟ بجلی کے فی یونٹ ریٹس میں خاموشی سے کتنا اضافہ ہوگیا ہے؟ جناب! یہ تو بتائیں کہ آج کتنے بچے بھوک سے مر گئے؟ کتنے بڑوں نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی؟ تو پھر ان کی نازک مزاج جبینِ ناز پر شکن آجاتی ہے۔ بڑا ناگوار گزرتا ہے۔ کیونکہ یہ تو اپنے تقریر نویسوں اور پروفیشنل منیجرز کے تیار کردہ اسکرپٹ کے مطابق ہی بات کرتے ہیں۔ باقی باتوں کے لئے اگر یہ بغلیں جھانکنا نہ شروع کردیں تو پھر بیچارے کیا کریں؟
اسی طرح اور بھی اس قبیلہ سیاسیہ و اشرافیہ کے جنہیں ایک کالم نگار نہ جانے کیوں بدمعاشیہ کہتے ہیں، ایسے ایسے شہسوارِان سیاست ہیں کہ اگر ان کی بونگیاں، وعدے، دعوے اور مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے عوام الناس سے ہمدردی اور محبت کے بارے میں ان کی جانب وقتاً فوقتاً آمدہ بیانات لکھوں اور پھر اس کے عملی اطلاق سے ان ہمدردان کی ہوائی باتوں کا موازنہ کروں تو بس 'ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم' اور 'بولتی بند' والی کیفیت طاری ہوجائے گی۔
اصل میں ہمارے عوام بھی اب ان باتوں کے جیسے عادی ہوچکے ہیں اور بے حسی کی چادر اوڑھے اپنی اپنی زندگی گزارنے میں مگن ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ہونا تو کچھ ہے نہیں۔ یہ رفتار بے ڈھنگی بس یونہی رہے گی۔ تو بجائے اعتبار کرکے مرجانے کے، عوامی اکثریت نے آنکھیں چرا کر فرار کی راہ اپنا لی ہے۔ اب ذرا ان قائدین و رہبران کے بغل بچوں اور ہمنواؤں کا حال بھی دیکھ لیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے بڑی محنت کرکے ہمارے پیارے اراکین اسمبلی کو ملنے والی مراعات، رعایتوں، تنخواہوں اور ان پر ہونے والے اخراجات اور انہیں ملنے والے ترقیاتی فنڈز، جو نہ جانے کہاں چلے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں پر ہونے والے اخراجات وغیرہ، ایم این اے ہاسٹل اور نہ جانے کیا کیا الا بلا وغیرہ، کا باقاعدہ سے بہترین حساب کتاب لگایا اور اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ ہمیں پارلیمنٹ کا ایک رکن پانچ سال کے لئے اوسطاً چالیس کروڑ کا پڑتا ہے۔ اب قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں ان سب کے اراکین کو چالیس کروڑ سے ضرب دے کر ذرا اپنے قومی ہمدردوں کا گرینڈ ٹوٹل نکالیے اور اس کے بالمقابل ان پانچ سال میں قانون سازی اور ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ان کا کیا گیا کام بھی دیکھئے، تو بقول اختر شیرانی مرحوم سر دھننے اور آہیں بھرنے اور اپنی قسمت پر ناز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کیوں ہیں؟ یہ کب تک یونہی سینے پر مونگ دلتے رہیں گے؟ یہ کہاں سے مسلط ہوجاتے ہیں؟ پھر 'سو پیاز اور سو جوتے' اور 'میاں کی جوتی، میاں کا سر' والا سلوک کرکے بھی عوام کے رہبر، لیڈر اور قائد ہی کہلاتے رہتے ہیں۔ جھوٹ، تعصب، جہالت اور ہر شعبے میں بگاڑ پیدا کئے رکھنا ان کے خاص ہتھیار اور کمالات ہیں۔ ان کے سارے فلسفے، ساری خوشنما باتوں کے پیچھے صرف اور صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ قومی بھلائی اور عوامی مفاد کی لچھے دار تقریریں کرنا اور آنسو بہانا ان کے کچھ مزید اوزار ہیں جن سے یہ اپنے اور اپنی آل اولاد کےلئے قومی خزانے کے مال و زر کے پہاڑ کو تراشتے رہتے اور ٹکڑے نکالتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اپنی جنتیں بیرون ممالک میں اثاثہ جات کی شکل میں بنالی ہیں، جس کے کئی نمونے آپ آج کل بھی دیکھ رہے ہیں کہ عدالتیں بلا بلا کر تھک گئی ہیں مگر یہ ہمدردان قوم آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بیمار ہیں ناں بے چارے!
تو پھر بھیا حل کیا ہے؟ دو ہی حل ہیں۔ ایک یہ کہ بھائی خاموشی سے اپنی اپنی نبیڑتے رہو اور جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔ دوسری ہمت، جدوجہد اور قربانی کی راہ ہے، جس کے لئے میری ناقص رائے میں ابھی شاید قوم تیار نہیں ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ میں خود بھی تو تیار نہیں ہوں ناں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔