جرائم پیشہ افرادکے لیے ڈی پی اوخوف کی علامت بن گئے
مجرموں اور اُن کے سرپرستوں کی نیندیں اڑگئیں
کچھ عرصہ قبل تک رحیم یارخان اغوا برائے تاوان' ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کے حوالے سے پہچانا جانا تھا، ان جرائم سے نا صرف رحیم یارخان بل کہ ملحقہ ضلع ،راجن پور اور سندھ کا ضلع گھوٹکی بھی ان سنگین جرائم کی لپیٹ میں آ گئے تھے، جس پر حکومت پنجاب نے ضلع رحیم یارخان میں سہیل حبیب تاجک ' ضلع راجن پور میں، سہیل ظفر چٹھہ اور ضلع گھوٹکی میں حکومت سندھ نے سید پیر محمد شاہ کو بطور ڈی پی او تعینات کیا ۔ جنہوں نے قلیل نفری ، وسائل کی کمی کے باوجود پاکستان کا طویل ترین پولیس آپریشن مکمل کیا اور ان اضلاع کی عوام کو اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث گروہوں سے نجات دلائی۔
آپریشن کی تکمیل کے بعد ضروری تھا کہ اس آپریشن کو تا دیر کامیاب رکھا جائے، تاکہ جرائم پیشہ گروہ دوبارہ منظم ہو کر عوام کو پھرسے یرغمال نہ بنا لیں، عوام پھر دکھی کر دینے والی زندگی میں مبتلا نہ ہو جائیں، اس موقع پر حکومت پنجاب نے سابق ڈی پی او، راجن پور، موجودہ ڈی پی او، ضلع رحیم یارخان، سہیل ظفر چٹھہ پر ایک بھاری ذمہ داری عاید کرتے ہوئے انہیں ڈی پی اورحیم یارخان تعینات کردیا۔ جب انہوں نے ضلع رحیم یارخان کا چارج سنبھالا تو آپریشن کی تکمیل کے بعد اغوا کاروں اور ڈاکوئوں نے ایک نئے انداز میں عوام اور بینکوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا،جس میں ضلع رحیم یارخان کے طول و عرض میں متعددبنک ڈکیتیاںاور کئی جرائم پیشہ گروہ ٹولیوں کی شکل میں ضلع کے مختلف علاقوں میں سنگین وارداتیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔
اس موقع پر ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ضلع کے اندر موجود جرائم پیشہ گروہوں اور ان کے سر گرم اراکین کی تلاش شروع کر دی'وہ اکثر اوقات، 24میں بہت کم نیند کرتے اور 20سے 22گھنٹے پولیس کو چوکس رکھنے اور جرائم پیشہ گروہوں کی تلاش میں مصروف رہتے۔انہوں نے نہ صرف کچہ کے علاقہ میں جرائم پیشہ افراد کی کڑی نگرانی کا سلسلہ شروع کیا، بل کہ ضلع رحیم یارخان کے طول و عرض میں پولیس کو جرائم پیشہ افراد کی تلاش میں متحرک کیا ،ضلع رحیم یار خان میں جرائم پیشہ افراد کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ نے پولیس فورس میں نئی روح پھونک دی اور پولیس کو جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ہر صورت وارداتیں روکنے کا حکم دیا۔
جس میں رحیم یار خان پولیس نے 8 ستمبر 2011 سے لے کر 31 جولائی 2012 تک جرائم پیشہ افراد کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کے لیے متعدد بار سماج دشمن عناصر کی گولیوں کا سامنا کیا جس میں 2 اہل کار شہید اور 3 زخمی ہوئے، جب کہ اس دوران اغوا برائے تاوان' قتل' ڈکیتی' راہزنی' اقدام قتل اور دیگر سنگین جرائم کے سینکڑوں مقدمات میں مطلوب بدنام زمانہ مجرمان ،عبدالحق' فراران' مشرف حسین عرف مشری' راج ولی خان' اختیار علی خانزادہ' غلام شبیر' ملک وحید' طارق' عنصر' اسماعیل عمرانی' علی رضا عرف اُسامہ' بخت علی' غلام رسول' شکیل عرف شکیلا آرائیں' عبدالمجید عرف مجیدا' ارشاد' اعظم' اختر' عاشق حسین' خوشی محمد' حافظ طارق عرف طارقی' بچل شاہ' عدنان مقبول اور دیگر، پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے خاک چاٹنے پر مجبور ہوئے اور اپنے انجام کوپہنچے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضلع رحیم یار خان میں سنگین وارداتیں طوفان کی شکل اختیار کرنے کی بجائے دم توڑ گئیں اور آئی جی پنجاب پولیس، حبیب الرحمن نے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کی کارکردگی پر بیسٹ ڈی پی او آف پنجاب کے ایوارڈ سے انہیں نوازا اور پنجاب کے 37 اضلاع میں سے ضلع رحیم یار خان کو امن و امان اور کرائم کنٹرول کے حوالے سے پہلا نمبر دیا۔
جرائم پیشہ افراد کی ہلاکت پر ضلع رحیم یار خان کے عوام نے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کی ستایش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے جلوس اور ریلیاں نکالیں، سینکڑوں کی تعداد میں عوام نے ڈی پی او آفس پہنچ کر ڈی پی اوسہیل ظفر چٹھہ کو کندھوں پر اٹھایا اور انہیں پھولوں سے لاد دیا، ان پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی گئیں اور جرائم پیشہ افراد کو انجام تک پہنچانے پر ضلع بھر میں جشن منایا گیا۔
مارے جانے والے مجرمان ،اغوا برائے تاوان ، ڈکیتی ، راہزنی ، قتل اور دیگر سنگین جرائم کی درجنوں وارداتوں میں مطلوب و مفرور تھے، ان میں سے بعض بین الاضلاعی و بین الصوبائی گروہوں کے اہم اراکین رہے ،پولیس نے آپریشن کے آغاز میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اپنے جسموں پر گولیاں کھائیں اور ان قربانیوں کے بعد انہوں نے یہ سبق حاصل کیا کہ مجرموں سے ان کی زبان میں بات کی جائے تو انہیں سمجھ آتی ہے، اس کے بعد عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سہیل ظفر چٹھہ اور ان کی ٹیم میں شامل افسران نے قابلِ فخر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جسے ہر سطح پر سراہاگیا۔ قبل ازیں ضلع رحیم یارخان میں پولیس مقابلوں کے دوران دو درجن سے زیادہ پولیس افسروں اور اہل کاروں نے عوام کی جان و مال کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ جرم اور ظلم کے خلاف لڑنے والوں کی داستان جب تک دنیا قائم ہے، جاری رہے گی اور آنے والے وقتوں میں عوام کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے جان دینے اور جان لینے والوں کو تاریخ شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔
آپریشن کی تکمیل کے بعد ضروری تھا کہ اس آپریشن کو تا دیر کامیاب رکھا جائے، تاکہ جرائم پیشہ گروہ دوبارہ منظم ہو کر عوام کو پھرسے یرغمال نہ بنا لیں، عوام پھر دکھی کر دینے والی زندگی میں مبتلا نہ ہو جائیں، اس موقع پر حکومت پنجاب نے سابق ڈی پی او، راجن پور، موجودہ ڈی پی او، ضلع رحیم یارخان، سہیل ظفر چٹھہ پر ایک بھاری ذمہ داری عاید کرتے ہوئے انہیں ڈی پی اورحیم یارخان تعینات کردیا۔ جب انہوں نے ضلع رحیم یارخان کا چارج سنبھالا تو آپریشن کی تکمیل کے بعد اغوا کاروں اور ڈاکوئوں نے ایک نئے انداز میں عوام اور بینکوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا،جس میں ضلع رحیم یارخان کے طول و عرض میں متعددبنک ڈکیتیاںاور کئی جرائم پیشہ گروہ ٹولیوں کی شکل میں ضلع کے مختلف علاقوں میں سنگین وارداتیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔
اس موقع پر ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ضلع کے اندر موجود جرائم پیشہ گروہوں اور ان کے سر گرم اراکین کی تلاش شروع کر دی'وہ اکثر اوقات، 24میں بہت کم نیند کرتے اور 20سے 22گھنٹے پولیس کو چوکس رکھنے اور جرائم پیشہ گروہوں کی تلاش میں مصروف رہتے۔انہوں نے نہ صرف کچہ کے علاقہ میں جرائم پیشہ افراد کی کڑی نگرانی کا سلسلہ شروع کیا، بل کہ ضلع رحیم یارخان کے طول و عرض میں پولیس کو جرائم پیشہ افراد کی تلاش میں متحرک کیا ،ضلع رحیم یار خان میں جرائم پیشہ افراد کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ نے پولیس فورس میں نئی روح پھونک دی اور پولیس کو جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ہر صورت وارداتیں روکنے کا حکم دیا۔
جس میں رحیم یار خان پولیس نے 8 ستمبر 2011 سے لے کر 31 جولائی 2012 تک جرائم پیشہ افراد کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کے لیے متعدد بار سماج دشمن عناصر کی گولیوں کا سامنا کیا جس میں 2 اہل کار شہید اور 3 زخمی ہوئے، جب کہ اس دوران اغوا برائے تاوان' قتل' ڈکیتی' راہزنی' اقدام قتل اور دیگر سنگین جرائم کے سینکڑوں مقدمات میں مطلوب بدنام زمانہ مجرمان ،عبدالحق' فراران' مشرف حسین عرف مشری' راج ولی خان' اختیار علی خانزادہ' غلام شبیر' ملک وحید' طارق' عنصر' اسماعیل عمرانی' علی رضا عرف اُسامہ' بخت علی' غلام رسول' شکیل عرف شکیلا آرائیں' عبدالمجید عرف مجیدا' ارشاد' اعظم' اختر' عاشق حسین' خوشی محمد' حافظ طارق عرف طارقی' بچل شاہ' عدنان مقبول اور دیگر، پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے خاک چاٹنے پر مجبور ہوئے اور اپنے انجام کوپہنچے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضلع رحیم یار خان میں سنگین وارداتیں طوفان کی شکل اختیار کرنے کی بجائے دم توڑ گئیں اور آئی جی پنجاب پولیس، حبیب الرحمن نے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کی کارکردگی پر بیسٹ ڈی پی او آف پنجاب کے ایوارڈ سے انہیں نوازا اور پنجاب کے 37 اضلاع میں سے ضلع رحیم یار خان کو امن و امان اور کرائم کنٹرول کے حوالے سے پہلا نمبر دیا۔
جرائم پیشہ افراد کی ہلاکت پر ضلع رحیم یار خان کے عوام نے ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ کی ستایش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے جلوس اور ریلیاں نکالیں، سینکڑوں کی تعداد میں عوام نے ڈی پی او آفس پہنچ کر ڈی پی اوسہیل ظفر چٹھہ کو کندھوں پر اٹھایا اور انہیں پھولوں سے لاد دیا، ان پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی گئیں اور جرائم پیشہ افراد کو انجام تک پہنچانے پر ضلع بھر میں جشن منایا گیا۔
مارے جانے والے مجرمان ،اغوا برائے تاوان ، ڈکیتی ، راہزنی ، قتل اور دیگر سنگین جرائم کی درجنوں وارداتوں میں مطلوب و مفرور تھے، ان میں سے بعض بین الاضلاعی و بین الصوبائی گروہوں کے اہم اراکین رہے ،پولیس نے آپریشن کے آغاز میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اپنے جسموں پر گولیاں کھائیں اور ان قربانیوں کے بعد انہوں نے یہ سبق حاصل کیا کہ مجرموں سے ان کی زبان میں بات کی جائے تو انہیں سمجھ آتی ہے، اس کے بعد عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سہیل ظفر چٹھہ اور ان کی ٹیم میں شامل افسران نے قابلِ فخر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جسے ہر سطح پر سراہاگیا۔ قبل ازیں ضلع رحیم یارخان میں پولیس مقابلوں کے دوران دو درجن سے زیادہ پولیس افسروں اور اہل کاروں نے عوام کی جان و مال کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ جرم اور ظلم کے خلاف لڑنے والوں کی داستان جب تک دنیا قائم ہے، جاری رہے گی اور آنے والے وقتوں میں عوام کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے جان دینے اور جان لینے والوں کو تاریخ شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔