ہیلو برادر
برینٹن کا دہشتگردانہ اقدام، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے مغربی دنیا کے لیے مومنٹ آف ٹروتھ بن گیا۔
اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اور بخدا نفرتیں پھیلانے والے ناکام ہوں گے!
نیوزی لینڈ کی دوسری بڑی یونیورسٹی کینٹربری کے اندر سے ایک اجنبی آواز بلند ہوئی جس نے اسٹوڈنٹ ہال کے سامنے سے گزرنے والوں کو جکڑ لیا۔ پہلے پہل سنہرے بالوں والی دو لڑکیاں رکیں اور انھوں نے حیرت سے اس کویتی طالب علم کی طرف دیکھا جو ابھی پچھلے جمعے کو مرتے مرتے بچا تھا۔
اس نے کانوں پر ہاتھ رکھے تھے اور وہ اپنے رب کو پکار رہا تھا۔ اس پکار میں کچھ ایسا اثر تھا کہ درجنوں اور پھر سیکڑوں لڑکے لڑکیاں کھنچے چلے آئے۔ وہ مراقبے کے عالم میں اس اذان کو ہی سنتے تھے جسے وہ سمجھ نہ سکتے تھے۔ انھی میں ایسے سامعین بھی تھے جو سسکیاں بھرتے ہوئے اس بلند ہوتی ہوئی لے کے ساتھ سفر میں تھے۔ کینٹربری یونیورسٹی سے بلند ہونے والی ایک کویتی طالب علم کی اس اذان کو ہزاروں طلباء نے سنا۔ یہ آواز نہ صلیبی لشکر روک سکے، نہ منگولوں کے غول جنہوں نے آدھی دنیا کو خاک اور خون میں نہلا دیا۔ نہ روسی کمیونسٹوں کا ستر سالہ جبر، اس آواز کو دبا سکا۔ یہ آواز دن کے چوبیس گھنٹے، دنیا کے ہر کونے سے اٹھتی ہے اور کسی کے روکے نہیں رکتی کہ جس کا نام پکارا جاتا ہے، بیشک وہ سب سے بڑا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو کرائسٹ چرچ میں ہونے والا واقعہ کئی اعتبار سے ان مواقعوں میں شمار ہوگا جب روزمرہ کی زندگی جیتے جیتے تاریخ ایک بڑا موڑ مڑ جاتی ہے۔ آسٹریلوی دہشتگرد برینٹن ٹیرنٹ نے 50 نمازیوں کو خون میں نہلانے سے پہلے اپنا ہوم ورک پورا کر رکھا تھا۔ اپنے نارویجن مرشد بریوک کی طرح وہ بھی یورپ میں 'مسلمانوں کی یلغار' سے خوف زدہ تھا، جو دن بدن اپنی افزائش کرتے ہوئے یورپی آبادیوں کو نگلنے جارہے تھے۔ 28 سالہ برینٹن، جس کا باپ کچھ سال پہلے کینسر کا شکار ہو کر مر چکا تھا، ایک گول مول ٹین ایجر سے کسرتی نوجوان بن چکا تھا جس کا انگ انگ فولاد میں ڈھلا ہوا تھا۔ احساس کمتری کے شکار باقی شدت پسندوں کی طرح وہ بھی اپنی زندگی کو ایک اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کر چکا تھا جو مغربی ممالک سے مسلمانوں، جنھیں وہ حقارت سے کباب کہتا تھا، کے وجود سے پاک کرنا تھا۔ 15مارچ کو اس نے 50 کباب چن چن کر مارے، لیکن وہ اپنے مقاصد کے حصول میں اتنا ہی کامیاب ہو سکا۔
برینٹن کا دہشتگردانہ اقدام، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے مغربی دنیا کے لیے مومنٹ آف ٹروتھ بن گیا، اور شاید اس دن کے اثرات دیر تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ اگلے چند روز چشم فلک نے عجیب و غریب مناظر دیکھے۔ نیوزی لینڈ کے گورے اپنے گھروں سے بلکتے ہوئے باہر نکل آئے۔ نیوزی لینڈ کی جواں سال وزیراعظم جیسینڈا آرڈن ایک ماں کی طرح سر پر دوپٹہ کیے اپنے مسلمان بچوں کے گلے لگ گئی۔ آسٹریلوی سینیٹر نے مسلمانوں کے حوالے سے نفرت کا اظہار کیا تو اس کی زندگی دوبھر ہوگئی اور اسے انڈا مارنے والا ایگ بوائے ول کنولے دنیا بھر کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کی کارروائی قرآن مجید کی تلاوت سے شروع ہوگئی۔ جہاں مسلمان ہونا، قدرے معذرت خواہانہ روایت تھی، وہاں پاکستانی نعیم راشد ایک طرح سے قومی ہیرو بن گیا ہے۔ کرائسٹ چرچ کی دونوں مسجدوں کے باہر پھولوں کی پہاڑیاں بن گئی ہیں اور برینٹن ٹیرنٹ کا کیا دھرا اس پر الٹ گیا ہے۔
مغربی دنیا (یہاں اس اصطلاح سے مراد سفید فام مغرب ہے جو، یورپ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور امریکا میں بستا ہے) اور اسلام کی باہمی آویزش کی داستان بہت پرانی ہے۔ جزیرہ عرب سے جب اسلام کا ولولہ انگیز پیغام چاردانگ عالم میں پھیلا تو ایرانی، ساسانی، زرتشتی تہذیب کی طرح بازنطینی سلطنت بھی گرہن کا شکار ہوگئی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے بیت الحکم کے قیام کے بعد اگلے چار سو سال تک اسلامی تہذیب کے سنہری دور کا دور دورہ رہا، اس دوران دنیائے طب، انجینئرنگ، کیمیا، علم الحیات، فزکس، الجبرا، ادب، تعمیر اور فلسفہ کی نئی انتہائیں دریافت ہوئیں۔ یونانی حکما کے دقیق کام کا عربی میں ترجمہ ہوا اور ایک ایسی تہذیب نے دنیا پر راج کرنا شروع کیا جو اپنی مثال آپ تھی۔ تب کا یورپ تاریکی کے گڑھوں میں گرا ہوا تھا۔
لوگ مہینوں نہاتے نہیں تھے، جادو کا چال چلن تھا۔ علم و فہم کا نام نشان تک نہ تھا۔ عیسائی فنڈامینٹل ازم کا سکہ چلتا تھا اور پادری لوگ جنت اور جہنم کے ٹکٹ بانٹتے تھے۔ منگولوں کی بغداد پر یلغار اور سقوطِ غرناطہ کے بعد اسلامی تہذیب کا ڈھلوان کا سفر شروع ہوا جو ابھی تک رکنے میں نہیں آرہا۔ اسلامی اور عیسائی تہذیبوں کی ہزار سالہ کشمکش میں سیکڑوں معرکے بپا ہوئے اور انھی کا خلاصہ برینٹن ٹیرنٹ کی بندوقوں پر موجودہ تھا۔
گزشتہ پانچ سو سال میں عیسائی تہذیب نے عروج حاصل کیا جو بتدریج سیکولر مغربی تہذیب میں ڈھل گئی۔ باقی تہذیبوں کی طرح اس تہذیب کی برتری کے صفحات بھی خون آلودہ ہیں۔ برطانوی، ولندیزی، پرتگیز اور ہسپانوی مملکتوں نے اپنی سائنسی برتری کی بنیاد پر دنیا کو زیرو زبر کر ڈالا۔ وہ ہزاروں میل دور پہنچے، نئے براعظم دریافت کیے اور وہاں موجود قدیمی باشندوں کو بارود سے پھونک ڈال۔ صرف امریکا میں ڈیڑھ سے سوا کروڑ ریڈ انڈینز کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
دس لاکھ سے زائد افریقی غلام بنالیے گئے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پچاس لاکھ سے زائد قدیمی باشندوں کو کچل دیا گیا۔ ان پانچ سو سالوں میں کھربوں ڈالر کی لوٹ کھسوٹ سے مغرب نے اپنے ممالک میں بہترین طرز زندگی کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی تہذیبی برتری کی علامت کے طور پر ادارے اور علامتیں متعارف کیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق، بولنے اور لکھنے کے حقوق اور قانون کی برتری کا معاشرہ ان کا خاصہ ٹھہرا۔ گو آج سے صرف ساٹھ برس قبل امریکا جیسے ملک میں سیاہ فام اقوام اور کتوں کے حقوق برابر تھے، مگر انھی ساٹھ سالوں کے اختتام پر امریکا کے قصر سفید پر ایک سیاہ فام صدر کا راج تھا۔
مغربی دنیا کے پاس چونکہ ہالی ووڈ بھی تھا چنانچہ انھوں نے تاریخ اپنی مرضی سے مرتب کرنی شروع کردی۔ ہالی ووڈ نے دنیا کو یہ بتایا کہ اگر آج مغربی دنیا کا راج ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ظالم ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ تہذیبی طور پر برتر ہیں۔ ان میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ وہ ظالم اور جابر نہیں۔ وہ اقتدار پر لات مار کر مستعفی ہو جاتے ہیں۔ وہ انسانیت کو سیاہ اور سفید میں تقسیم نہیں کرتے، قانون کی حکمرانی اور عورتوں کو مکمل حقوق دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ چونکہ ہالی ووڈ پچھلے ساٹھ ستر سال میں اپنے عروج کو پہنچا تو انھی عشروں میں مسلمانوں کی کہانی بری طرح پٹی ہوئی تھی۔ وہ اس کہانی کے مطابق ہذیانی، جنگلی اور بد تہذیب نظر آتے ہیں جن کا وجود عالمی امن کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
سیاسی ہڑبونگ کے ذریعے ایسے گروہ بھی پیدا کر لیے گئے جن کو سیاسی جہاد کا ٹیکہ لگا کر اپنے ممالک اور پوری دنیا میں ہراس پیدا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ سوویت یونین کو ہالی ووڈ کے ذریعے توڑنے کے بعد اسلام کو تخت مشق بنا لیا گیا اور ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا ہوا کھڑا کر دیا گیا اور صدام کے ایٹمی ہتھیاروں کی جھوٹی کہانی سنا کر 2001 سے لے کر اب تک پندرہ لاکھ مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا گیا۔ آج برینٹن ٹیرنٹ کی دہشتگردی نے مغربی تہذیب کو اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر اسے الٹی طرف گھما دیا ہے۔اب اسے ہالی ووڈ کی کہانیوں سے ماورا ہوکر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ واقعی اتنی اخلاقی برتری رکھتی ہے کہ دنیا کی قیادت کرسکے۔ یہ عالم اسلام کی بحران زدہ قیادت کے لیے بھی قم باذن اللہ ہے، اگر مردہ اپنی ٹانگوں پر اٹھ کھڑا ہوا تو کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔