سادہ خلیہ انسان کیونکر بن جاتا ہے
حیاتیاتی نشوونما پر تحقیق کا ہر دوسرے عمل سائنسی مہم کی طرح جاری ہے۔
مالیکیولی حیاتیات نے بیسویں صدی کے دوران علمی رفعتوں کو چھو لیا۔ سائنس دان اس کی مدد سے ناصرف زندگی کی اساس '' ڈی این اے '' تک جا پہنچے بلکہ اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی وہ اس کے خفیہ پیام حیات کو بھی پڑھنے میں کامیاب ہوگئے ، تاہم اب وہ مکمل طور پر اسے فاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ڈی این اے میں محفوظ ہوتا ہے۔
کامیابیاں اور ناکامیاں جڑواں بہنیں ہیں۔ ان دونوں کو الگ الگ شناخت کرنا بھی انتہائی مشکل ہے نہیں معلوم کہ کب کامیابی ناکامی میں بدل جائے اورکب ناکامی کا روپ کامیابی کی ردا اوڑھ لے۔ اس لیے کہ بعض اوقات ہم جسے اپنی ناکامی سمجھ رہے ہوتے ہیں ، درحقیقت وہ ہماری کامیابی ہوتی ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظرگو سائنسدان بار بارکوشش کے باوجود ڈی این اے کا ''خفیہ پیام حیات'' مکمل طور پر معلوم کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مایوس نہیں ہیں کیونکہ انھیں کئی ایک کامیابیاں بھی ملی ہیں۔
''جدید مالیکیولی حیاتیات، ایک پہلو پیغامات پڑھ لینے کا خاطر خواہ ملکہ رکھتی ہے، ڈی این اے کا خفیہ پیام حیات بھی یک پہلوی ہوتا ہے۔ ہم جان گئے ہیں کہ جین کی ایک یک پہلوی ترتیب بلاواسطہ طریق پر امائنو ایسڈ پیدا کرتی ہے۔ یہ امائنو ایسڈ، پروٹین سے مشابہت رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہی سب کچھ تین پہلوی روپ اختیار کرتا ہے تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہو رہا ہے یا کیا ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ترین علم حیاتیات کا مقصد اعلیٰ اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یک پہلوی ترتیب جین سے ایک تین پہلوی وجود کیونکر تشکیل پاتا ہے۔
مذکورہ بالا الفاظ اس علم کے ایک بڑے ماہر ایرون مسکونا کے ہیں۔ ایرون مسکونا شکاگو یونیورسٹی سے متعلق ہیں۔حیاتیات کی علمی کامیابیاں یہ پہلے ہی واضح کرچکی ہیں کہ ہم جوکچھ ہیں اس کی بنیادی اساس ایمبریو مہیا کرتا ہے باردار بیضہ چند دنوں کے اندر اندر 32 خلیات میں بٹ جاتا ہے۔ ان خلیات کی ایک بالائی ترتیب ٹروفو بلاسٹ Trophoblast اور ایک اندرونی حصہ کمیت کے مختلف حصوں کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔
نشوونما کا عمل تین عملیات کے تعامل پر مبنی ہوتا ہے۔ تقسیم بروزیتmorph og enesis بڑھوتری۔
نشوونما کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے مسکونا کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کا معمہ ہے کہ کیونکر مختلف حصے اپنے لیے موزوں حصوں کو تلاش کرتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ مل کر عضلات اور اعضا کی تشکیل کرنے لگتے ہیں۔ تقسیم کا عمل ایمبریو کے اندر موجود خلیات کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ وہ 200 کے قریب خلیاتی اقسام اختیارکرلیں اور پھر ان مختلف اقسام سے عضلات، کارٹی لیج اعصابی نظام اور دوسرے اعضائے انسان بن جاتے ہیں، بروزیت کا عمل اس بات کا تعین کرتا ہے کہ عضلات کا کون سا حصہ ہاتھ بنے گا یا پاؤں۔ اس کے بعد بڑھوتری کا عمل ہوتا ہے جس میں کوئی بھی ساخت خلیاتی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ موزوں جسامت حاصل کرلیتی ہے۔ تقسیم کے عمل کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جینی قوانین کے تحت واقع ہوتا ہے، جینی قوانین سے مراد مقررہ ضابطوں کے تحت جین کا بننا بگڑنا ہے۔ یہ بننا بگڑنا کس طرح واقع ہوتا ہے۔ اس کے متعلق انسانی معلومات بے حد محدود ہیں۔
بروزیت morphog enesis کا عمل ''بناوٹ کا عمل'' بھی کہلا سکتا ہے اور نشوونما کرنے والے عملیات میں سب سے کم واضح عمل ہے۔ اس عمل کی پیچیدگی، پراسراریت، اہمیت اور گہرائی اس قدر زیادہ ہے کہ 1900 کی ابتدا سے اب تک اسے سمجھنے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ اس کے باوجود ایک مبہم سا خاکہ ہی سامنے آسکا ہے۔ ان تجربات میں کچھ میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ سمندری اسفنج کے الگ الگ خلیات کو سمندری پانی میں رکھا جائے تو وہ آپس میں تعاملات کرکے ازسرنو اسفنج پیدا کردیتے ہیں۔ انگریز حیاتیات دان لیوس وولپرٹ کی تحقیق بتاتی ہے کہ اگر ایک بارکسی بھی خلیے کو اپنی مقامیت کا علم ہو جائے تو وہ یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے کیا بننا ہے؟ وولپرٹ پیشے کے اعتبار سے حیاتیات کے پروفیسر ہیں اور مڈل سیکس ہاسپٹل میڈیکل اسکول لندن میں پڑھاتے ہیں۔ آپ کا مزید خیال یہ ہے کہ:
'' ایک لمحے کو تصور کیجیے کہ خلیات ایک محدودی انداز coordinate apttem میں کسی جگہ موجود ہیں۔ بالکل یوں سمجھ لیجیے جیسے وہ کسی تھیٹر ہال میں ہیں ہرکسی کا اپنا قطار نمبر اور سیٹ نمبر ہے۔ اسی طرح ہر ایک کے پاس اپنا اپنا پروگرام ہے۔ اس بات کے پختہ شواہد ہیں کہ ان خلیات کا اپنا اپنا الگ پتا بھی موجود ہوتا ہے جو ان کو بتاتا ہے کہ کہاں جانا ہے۔ اسی وجہ سے شہادت کی انگلی ہاتھ میں ایک خاص جگہ پر ہی تشکیل پاتی ہے اور انگوٹھا اپنی مقامیت قائم رکھتا ہے۔ یہی باقی اعضا اور حصوں کا حال ہے۔ لیوس کے خیالات سے متفق حیاتیات دان ان میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی عضلہ (ٹشو) نئی جگہ کرتا ہے تو وہ اپنے اصل پروگرام ہی پر عمل کرتا ہے لیکن اس کا پتا بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مرغی کے چوزے میں ایسے عضلے کو لگایا جائے جو ''پروں'' کی تشکیل کرتا ہے اور بجائے پروں کے اسے پاؤں کی جگہ جوڑا جائے تو وہ جگہ اس تبدیلی سے پاؤں کی تشکیل نہیں کرے گا بلکہ پاؤں کے قریب ''پر'' بنا ڈالے گا۔
اس ضمن میں ایک نہایت دلچسپ معمہ یہ بھی ہے۔
خلیات کو اپنی منزل کا علم کس طرح ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ کیسے جان لیتے ہیں کہ ان کو کہاں جاکر ''فٹ'' ہونا ہے؟
اس سلسلے میں کیڑے مکوڑوں پر تجربات ہوئے ہیں جن کے مطابق ایمبریو کے ایک سرے پر مخصوص کیمیائی اجزا کی موجودگی سے خلیات کی مقامیت کا تعین ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے متعلق کرنے والوں کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک پیچیدہ ہے۔ اسی تفصیل کے لیے لیوس وولپرٹ ''پیچیدہ'' کی بجائے ''بور'' کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ لوک رقص جیسا معاملہ لگتا ہے لوک رقص کرنے والا کرکے بتا دیتا ہے یوں ہوتا ہے لیکن کیسے ہوتا ہے یہ بتانا اس کے لیے درد سر بن جاتا ہے۔ اسی طرح ایمبریو میں موجود خلیات بہت پیچیدہ کام کرتے ہیں لیکن دیہاتی رقاص کی طرح احمق بھی ہوتے ہیں۔ بس آپ ان کا کام دیکھ لیجیے یہ نہ پوچھیے کہ کیسے ہوتا ہے؟
بڑھوتری پر قابو پانا ایک اور پیچیدہ مسئلہ ہے مثال کے طور پر دایاں اور بایاں بازو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بنتے ہیں۔ اس کے باوجود ایک سے ہوتے ہیں۔ آخر خلیات یہ کیونکر جان لیتے ہیں کہ ان کی تعداد کافی ہوگئی ہے اور اب مزید اضافہ روک دینا چاہیے۔
حیاتیات میں نشوونما پر جو تحقیق ہو رہی ہے اس مقصد کے لیے عام طور پر سادہ حیاتیاتی نظام مثلاً مکھیاں اور سمندری جانور استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ تحقیق انسان پر بھی لاگو ہوتی ہے،کیونکہ اصل موضوع وہ سادہ حیاتیاتی اصول ہیں جو تمام حیاتیاتی نظاموں میں یکساں ہوں۔
حیاتیاتی نشوونما پر تحقیق کا ہر دوسرے عمل سائنسی مہم کی طرح جاری ہے۔ انسان اپنی اور دوسرے جانداروں کی حیاتیاتی افزائش کے متعلق نہایت سنجیدگی سے مشاہدات، تجربات اور غور و فکر میں مصروف ہے۔ اسے امید ہے کہ اس مہم کو مکمل طور پر سر کرلینے کے بعد وہ بہت سے حیاتیاتی ''دکھوں'' کا خاتمہ کرسکے جیسے اعضائے جسمانی کا ناموزوں یا بدصورت ہونا اور جسمانی محرومیاں وغیرہ۔ بیسویں صدی کے ہر برس اس نے کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور معلوم کی ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک اس بچے کی طرح حیران کھڑا ہے جو کسی بہتے چشمے کے کنارے کھڑا سوچ رہا ہوکہ پانی کہاں سے آرہا ہے؟
کامیابیاں اور ناکامیاں جڑواں بہنیں ہیں۔ ان دونوں کو الگ الگ شناخت کرنا بھی انتہائی مشکل ہے نہیں معلوم کہ کب کامیابی ناکامی میں بدل جائے اورکب ناکامی کا روپ کامیابی کی ردا اوڑھ لے۔ اس لیے کہ بعض اوقات ہم جسے اپنی ناکامی سمجھ رہے ہوتے ہیں ، درحقیقت وہ ہماری کامیابی ہوتی ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظرگو سائنسدان بار بارکوشش کے باوجود ڈی این اے کا ''خفیہ پیام حیات'' مکمل طور پر معلوم کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مایوس نہیں ہیں کیونکہ انھیں کئی ایک کامیابیاں بھی ملی ہیں۔
''جدید مالیکیولی حیاتیات، ایک پہلو پیغامات پڑھ لینے کا خاطر خواہ ملکہ رکھتی ہے، ڈی این اے کا خفیہ پیام حیات بھی یک پہلوی ہوتا ہے۔ ہم جان گئے ہیں کہ جین کی ایک یک پہلوی ترتیب بلاواسطہ طریق پر امائنو ایسڈ پیدا کرتی ہے۔ یہ امائنو ایسڈ، پروٹین سے مشابہت رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہی سب کچھ تین پہلوی روپ اختیار کرتا ہے تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہو رہا ہے یا کیا ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ترین علم حیاتیات کا مقصد اعلیٰ اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یک پہلوی ترتیب جین سے ایک تین پہلوی وجود کیونکر تشکیل پاتا ہے۔
مذکورہ بالا الفاظ اس علم کے ایک بڑے ماہر ایرون مسکونا کے ہیں۔ ایرون مسکونا شکاگو یونیورسٹی سے متعلق ہیں۔حیاتیات کی علمی کامیابیاں یہ پہلے ہی واضح کرچکی ہیں کہ ہم جوکچھ ہیں اس کی بنیادی اساس ایمبریو مہیا کرتا ہے باردار بیضہ چند دنوں کے اندر اندر 32 خلیات میں بٹ جاتا ہے۔ ان خلیات کی ایک بالائی ترتیب ٹروفو بلاسٹ Trophoblast اور ایک اندرونی حصہ کمیت کے مختلف حصوں کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔
نشوونما کا عمل تین عملیات کے تعامل پر مبنی ہوتا ہے۔ تقسیم بروزیتmorph og enesis بڑھوتری۔
نشوونما کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے مسکونا کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کا معمہ ہے کہ کیونکر مختلف حصے اپنے لیے موزوں حصوں کو تلاش کرتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ مل کر عضلات اور اعضا کی تشکیل کرنے لگتے ہیں۔ تقسیم کا عمل ایمبریو کے اندر موجود خلیات کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ وہ 200 کے قریب خلیاتی اقسام اختیارکرلیں اور پھر ان مختلف اقسام سے عضلات، کارٹی لیج اعصابی نظام اور دوسرے اعضائے انسان بن جاتے ہیں، بروزیت کا عمل اس بات کا تعین کرتا ہے کہ عضلات کا کون سا حصہ ہاتھ بنے گا یا پاؤں۔ اس کے بعد بڑھوتری کا عمل ہوتا ہے جس میں کوئی بھی ساخت خلیاتی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ موزوں جسامت حاصل کرلیتی ہے۔ تقسیم کے عمل کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جینی قوانین کے تحت واقع ہوتا ہے، جینی قوانین سے مراد مقررہ ضابطوں کے تحت جین کا بننا بگڑنا ہے۔ یہ بننا بگڑنا کس طرح واقع ہوتا ہے۔ اس کے متعلق انسانی معلومات بے حد محدود ہیں۔
بروزیت morphog enesis کا عمل ''بناوٹ کا عمل'' بھی کہلا سکتا ہے اور نشوونما کرنے والے عملیات میں سب سے کم واضح عمل ہے۔ اس عمل کی پیچیدگی، پراسراریت، اہمیت اور گہرائی اس قدر زیادہ ہے کہ 1900 کی ابتدا سے اب تک اسے سمجھنے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ اس کے باوجود ایک مبہم سا خاکہ ہی سامنے آسکا ہے۔ ان تجربات میں کچھ میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ سمندری اسفنج کے الگ الگ خلیات کو سمندری پانی میں رکھا جائے تو وہ آپس میں تعاملات کرکے ازسرنو اسفنج پیدا کردیتے ہیں۔ انگریز حیاتیات دان لیوس وولپرٹ کی تحقیق بتاتی ہے کہ اگر ایک بارکسی بھی خلیے کو اپنی مقامیت کا علم ہو جائے تو وہ یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے کیا بننا ہے؟ وولپرٹ پیشے کے اعتبار سے حیاتیات کے پروفیسر ہیں اور مڈل سیکس ہاسپٹل میڈیکل اسکول لندن میں پڑھاتے ہیں۔ آپ کا مزید خیال یہ ہے کہ:
'' ایک لمحے کو تصور کیجیے کہ خلیات ایک محدودی انداز coordinate apttem میں کسی جگہ موجود ہیں۔ بالکل یوں سمجھ لیجیے جیسے وہ کسی تھیٹر ہال میں ہیں ہرکسی کا اپنا قطار نمبر اور سیٹ نمبر ہے۔ اسی طرح ہر ایک کے پاس اپنا اپنا پروگرام ہے۔ اس بات کے پختہ شواہد ہیں کہ ان خلیات کا اپنا اپنا الگ پتا بھی موجود ہوتا ہے جو ان کو بتاتا ہے کہ کہاں جانا ہے۔ اسی وجہ سے شہادت کی انگلی ہاتھ میں ایک خاص جگہ پر ہی تشکیل پاتی ہے اور انگوٹھا اپنی مقامیت قائم رکھتا ہے۔ یہی باقی اعضا اور حصوں کا حال ہے۔ لیوس کے خیالات سے متفق حیاتیات دان ان میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی عضلہ (ٹشو) نئی جگہ کرتا ہے تو وہ اپنے اصل پروگرام ہی پر عمل کرتا ہے لیکن اس کا پتا بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مرغی کے چوزے میں ایسے عضلے کو لگایا جائے جو ''پروں'' کی تشکیل کرتا ہے اور بجائے پروں کے اسے پاؤں کی جگہ جوڑا جائے تو وہ جگہ اس تبدیلی سے پاؤں کی تشکیل نہیں کرے گا بلکہ پاؤں کے قریب ''پر'' بنا ڈالے گا۔
اس ضمن میں ایک نہایت دلچسپ معمہ یہ بھی ہے۔
خلیات کو اپنی منزل کا علم کس طرح ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ کیسے جان لیتے ہیں کہ ان کو کہاں جاکر ''فٹ'' ہونا ہے؟
اس سلسلے میں کیڑے مکوڑوں پر تجربات ہوئے ہیں جن کے مطابق ایمبریو کے ایک سرے پر مخصوص کیمیائی اجزا کی موجودگی سے خلیات کی مقامیت کا تعین ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے متعلق کرنے والوں کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک پیچیدہ ہے۔ اسی تفصیل کے لیے لیوس وولپرٹ ''پیچیدہ'' کی بجائے ''بور'' کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ لوک رقص جیسا معاملہ لگتا ہے لوک رقص کرنے والا کرکے بتا دیتا ہے یوں ہوتا ہے لیکن کیسے ہوتا ہے یہ بتانا اس کے لیے درد سر بن جاتا ہے۔ اسی طرح ایمبریو میں موجود خلیات بہت پیچیدہ کام کرتے ہیں لیکن دیہاتی رقاص کی طرح احمق بھی ہوتے ہیں۔ بس آپ ان کا کام دیکھ لیجیے یہ نہ پوچھیے کہ کیسے ہوتا ہے؟
بڑھوتری پر قابو پانا ایک اور پیچیدہ مسئلہ ہے مثال کے طور پر دایاں اور بایاں بازو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بنتے ہیں۔ اس کے باوجود ایک سے ہوتے ہیں۔ آخر خلیات یہ کیونکر جان لیتے ہیں کہ ان کی تعداد کافی ہوگئی ہے اور اب مزید اضافہ روک دینا چاہیے۔
حیاتیات میں نشوونما پر جو تحقیق ہو رہی ہے اس مقصد کے لیے عام طور پر سادہ حیاتیاتی نظام مثلاً مکھیاں اور سمندری جانور استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ تحقیق انسان پر بھی لاگو ہوتی ہے،کیونکہ اصل موضوع وہ سادہ حیاتیاتی اصول ہیں جو تمام حیاتیاتی نظاموں میں یکساں ہوں۔
حیاتیاتی نشوونما پر تحقیق کا ہر دوسرے عمل سائنسی مہم کی طرح جاری ہے۔ انسان اپنی اور دوسرے جانداروں کی حیاتیاتی افزائش کے متعلق نہایت سنجیدگی سے مشاہدات، تجربات اور غور و فکر میں مصروف ہے۔ اسے امید ہے کہ اس مہم کو مکمل طور پر سر کرلینے کے بعد وہ بہت سے حیاتیاتی ''دکھوں'' کا خاتمہ کرسکے جیسے اعضائے جسمانی کا ناموزوں یا بدصورت ہونا اور جسمانی محرومیاں وغیرہ۔ بیسویں صدی کے ہر برس اس نے کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور معلوم کی ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک اس بچے کی طرح حیران کھڑا ہے جو کسی بہتے چشمے کے کنارے کھڑا سوچ رہا ہوکہ پانی کہاں سے آرہا ہے؟