امریکی انخلااورپاکستان کے لیے مسائل
پتہ نہیں ہمارے وہ دانشور کہاں چھپ چھپا گئے جو صدر اوبامہ کو خوش آمدید کہنے میں پیش پیش تھے۔
HUNZA:
پہلے تو یہ واضح کر دوں کہ میں افغانستان سے امریکی انخلا کے خلاف نہیں ہوں لیکن مجھے یہ تشویش لاحق ہے کہ امریکا اس انخلا سے پہلے پاکستان کے لیے ان گنت مسائل پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بعض طبقے تو یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انخلا کے اعلانات محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں جب کہ امریکا افغانستان کے بعد پاکستان کے اندر مداخلت کی کوشش کرے گا۔ ایران بھی اس کا ٹارگٹ ہو سکتا تھا لیکن ایرانی قوم نے اتحاد کا ثبوت دیا ہے اور امریکا ادھر سے محتاط ہو گیا ہے، زیادہ سے زیادہ اسرائیل کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا سکتا ہے۔
امریکا کی پوری کوشش ہے کہ وہ عالم اسلام میں تفرقہ پیدا کر دے، اور عربی و عجمی کی پرانی دشمنی کو زندہ کر دے۔ حالیہ اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں اس کی ایک جھلک سامنے آ گئی ہے جس میں ایران نے شام کے مسئلے پر الگ موقف کا اظہار کیا ہے۔ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کر کے ہی امریکا کی دال آسانی سے گل سکتی ہے۔ ویسے صلیبی جنگوں کا زمانہ لد گیا جب مسلم دنیا جسد واحد کی طرح صلاح الدین ایوبی کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی۔ امریکا نے بہرحال کروسیڈ کا اعلان کرنے میں کسی تامل کا اظہار نہیں کیا۔
نائن الیون کے وقوعے سے اگلے ہی روز سینیئر صدر بش کی زبان سے نئی کروسیڈ کے الفاظ ادا ہو گئے تھے۔ عالم اسلام نے اس پر احتجاج بھی کیا مگر امریکا اپنے راستے سے نہیں ہٹا، اس نے افغانستان کو تورا بورا بنایا، پھر عراق پر چڑھائی کر دی۔ کوئی عراقی شخص نائن الیون میں ملوث نہیں تھا مگر امریکا نے الزام تراشا کہ صدام کے پاس ایٹمی اسلحہ ہے جس کی مدد سے وہ دنیا میں بڑی تباہی پھیلا سکتا ہے، ایسا ہی الزام اسامہ بن لادن کے بارے میں ایک انٹرویو کے ذریعے پاکستانی اور عالمی میڈیا میں پھیلایا گیا تھا، عراق کو کچل دیا گیا، صدام کو پھانسی دے دی گئی، اسامہ کو ایبٹ آباد آپریشن میں ختم کر دیا گیا، دونوں سے ایٹمی تو کجا، کوئی دقیانوسی ہتھیار بھی بر آمد نہ کیا جا سکا۔ اب امریکا کسی اور اسلامی ملک کے در پے ہو گا، کم از کم خدشات تو یہی ہیں اور شواہد بھی یہی کہتے ہیں۔
ایران کے خلاف پراپیگنڈہ عروج پر ہے اور پاکستان کے خلاف بھی الزامات کی بارش ہو رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان جہادیوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے، کسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے، کامرہ پر حالیہ حملے میں یہ سودا بیچنے کی بڑی کوشش کی گئی اور ہم خود اس میں پیش پیش تھے۔ پاکستان کی آئی ایس آئی پر تو الزامات کبھی رکے نہیں۔ شمالی وزیرستان میں موجود غیر ملکی عناصر کی سرپرستی کا الزام بھی آئی ایس آئی پر لگتا ہے اور افغانستان میں بعض حملوں کی ذمے داری بھی پاکستان پر عائد کی گئی ہے، کوئٹہ شوریٰ کا چرچا بھی بہت ہے اور ملا عمر کی کوئٹہ میں موجودگی کا بھی الزام سننے میں آتا ہے۔ اس ساری دشنام طرازی کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا اور نقصان بھی اٹھایا۔
مگر افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کا نقصان بھی اب زیادہ ہونے لگا ہے، اس کی بڑی وجہ امریکی جنگی حکمت عملی ہے جس کے خلاف کابل اور اسلام آباد میں متعین سفیروں نے اپنے عہدے چھوڑ دیے ہیں۔ امریکی عوام کا بڑا حصہ بھی اس جنگ کے خلاف ہے، ایک حالیہ سروے کے مطابق 66 فی صد امریکی اس جنگ کے خلاف ہیں۔ پہلے سات برسوں میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد صرف 500 تھی۔ جس شرح سے تابوت امریکا میں جاتے ہیں، اسی شرح سے امریکی عوام اس جنگ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک بے مقصد جنگ کے لیے وہ کیوں اپنے بچوں کی قربانی دیں۔
نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر نو امریکی فوجی ہلاک ہو گئے اور انھیں مارنے والے افغان فوجی تھے۔ اس برس نیٹو کے چالیس فوجی، افغان فوجیوں یا ان کی وردی میں ملبوس افراد کے ہاتھوں مارے گئے۔ پچھلے ستائیس ماہ کے دوران کل 2000 امریکیوں کی لاشیں واپس گھروں کو بھیجی گئیں۔ ان نقصانات کے پیش نظر وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ایک بریفنگ میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ایک تو صدر اوبامہ نے سینیئر فوجی افسروں کو تحقیقات کے لیے کابل بھیجا ہے جو صدر کرزئی سے بھی مشورہ کر رہے ہیں، دوسرے امریکی اور نیٹو فوج کا بتدریج انخلا عمل میں لایا جائے گا اور 2014ء تک افغانستان کے تحفظ کی ذمے داری افغان سیکیورٹی فورس کے حوالے کر دی جائے گی، امریکا نے اعلانات تو پہلے بھی بہت کیے تھے، صدر اوبامہ کی پالیسی تو یہ تھی کہ وہ افغانستان میں موجود فوج میں کمی کریں گے لیکن انھوں نے تیس ہزار مزید فوج بھیج دی۔
پتہ نہیں ہمارے وہ دانشور کہاں چھپ چھپا گئے جو صدر اوبامہ کو خوش آمدید کہنے میں پیش پیش تھے۔ کوئی نہیں جانتا کہ امریکا کے اصل ارادے کیا ہیں لیکن آثار یہ ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے مصائب کھڑے کرے گا۔ اس کا آغاز ایبٹ آباد آپریشن سے ہوا اور انتہا سلالہ چیک پوسٹ کے خلاف جارحیت تھی۔ امریکا جو پراکسی جنگ کر رہا ہے، اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ یہ محض اندازے ہوں گے یا الزام تراشی، مگر امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو اعتماد میں نہیںلیا۔
اندیشہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ وہی کچھ ہونے جا رہا ہے جو جہاد افغانستان کے بعد ہوا، یہ خطہ خون میں نہاتا رہا اور امریکا یہاں سے لا تعلق ہو کر دور جا بیٹھا۔ امریکا نے ایسے حربے اختیار کیے ہیں کہ اس کے مخالفین پاکستان کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں اور اگر امریکا یہاں سے چلا جاتا ہے تو یہ عناصر پاکستان سے بدلے لیں گے۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ خود امریکا پاکستان کے در پے ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اس کے پاس ایک سو ایک بہانے ہیں۔ بھیڑیا ہی میمنے کی حرکت پر اعتراض کر سکتا ہے، میمنے کی کون سنتا ہے۔ مگر پاکستانی قوم ہوش کے ناخن لے اور تفرقے کا شکار ہونے سے بچے تو شاید امریکا کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کا حوصلہ نہیں ہو سکے گا، ہمیں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے سے گریز کرنا ہوگا، اس سے ہم اپنے دشمن کو ہی فائدہ پہنچا رہے ہیں، اپنی کوئی خدمت نہیں بجا لا رہے۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی پر ہمیں قومی سوچ اپنانا ہو گی۔ افوج پاکستان پر وہی اعتماد کرنا ہوگا جو ہم نے 65ء کی جنگ میں کیا۔ جو عناصر افوج پاکستان پر اعتراضات کر رہے ہیں، وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، میں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کا ٹھیکیدار نہیں بننا چاہتا لیکن قومی بقا اور ملکی سلامتی پر میں کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا اور جو طاقت ہماری سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے، اس کو کمزور کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جمہوریت پر اپنا ایمان مستحکم کرناچاہیے اور عدم استحکام کی ہر کوشش کے سامنے دیوار بن جانا چاہیے۔
حکومت کی تبدیلی صرف اور صرف الیکشن کے ذریعے ہونی چاہیے، اداروں کو ٹکرائو کی پالیسی ختم کر دینی چاہیے، آپس کی دھینگا مشتی سے ادارے برباد ہو جائیں گے اور امریکا تو خیر سے امریکا ہے، واحد سپر پاور ہے، سر پھٹول جاری رہی تو جبوتی اور فجی جیسے نکتے اور شوشے کے برابر ملک بھی ہمارے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔