قراردادِ پاکستان زندہ تاریخ کا ایک باب

ستر بہتر سال کا وقت واقعی بڑا عرصہ معلوم ہوتا ہے۔

ستر بہتر سال کا وقت واقعی بڑا عرصہ معلوم ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

دونوں ہی باتیں درست معلوم ہوتی ہیں۔

یہ کہ اجتماعی زندگی میں ستّر بہتّر سال کا عرصہ خاصا طویل ہوتا ہے۔ بہت کچھ اوجھل کردیتا ہے آنکھوں سے اور کتنی ہی چیزوں سے توجہ ہٹا دیتا ہے۔ یہ بات اس لیے درست ہے کہ اگر بیس سال بعد بھی ایک نئی نسل زندگی کے میدان میں اپنے سے پہلے موجود لوگوں کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے لگتی ہے تو لگ بھگ پون صدی کے اس عرصے میں کم سے کم تین نسلیں اجتماعی منظرنامے کا حصہ ضرور بن جائیں گی۔

اب اگر ایسا ہے تو پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہر نسل کے لوگوں کی زندگی کے اپنے حقائق و حالات ہوتے ہیں اور اپنے تجربات۔ ان کے ذریعے ہی اُن کے ذہنی رویے اور ترجیحات طے ہوتی ہیں۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ایک دور کے لوگ دیکھتے، سوچتے اور کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ ان کے بعد کے لوگ اور پھر اُن سے اگلے دور کے لوگ بھی وہی کچھ سوچیں اور کریں۔ اس لیے جو خواب اور خواہشیں ایک نسل کے لیے جینے مرنے کا جواز ہوسکتی ہیں، بہت مشکل ہے کہ وہ دوسری، تیسری اور چوتھی نسل تک اس قدر اہم اور قابلِ توجہ رہ پائیں۔ اہم تو کیا، وہ ان کے لیے کوئی معنی بھی رکھتی ہوں، یہ تک ضروری نہیں۔ یہ انسانی زندگی کی ایسی سچائی ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یوں ستر بہتر سال کا وقت واقعی بڑا عرصہ معلوم ہوتا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو پون صدی اتنا بڑا عرصہ نہیں ہے کہ جو اجتماعی حافظے پر اثرانداز ہو۔ اتنے سے دورانیے کی باتیں تو ایک زندہ اور مستحکم معاشرے میں موجود تین نسلوں کو اس طرح یاد ہوتی ہیں جیسے ابھی آنکھوں کے سامنے کے کوئی واقعات ہی تو ہیں۔ صرف خوش گوار اور کامیابی کی باتیں نہیں، بلکہ ناگوار اور ناکامی کے واقعات بھی اجتماعی حافظے میں ؤ طرح محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ زندہ قومیں اپنی ناکامی کو آنے والی نسلوں سے چھپاتی نہیں، بلکہ ان کا سامنا کرتی اور ان سے سبق حاصل کرتی ہیں اور اپنے اچھے برے سب تجربات کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کا سامان کرتی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ترقی، استحکام اور بقا کے راستے پر سفر کرنے والی تہذیبوں اور قوموں کا حافظہ عام طور سے ڈیڑھ دو صدی کے سفر کو تو مسلسل اور پوری طرح تازہ رکھتا ہے۔ اس سفر کے نشانات اور حاصلات نسل در نسل اس طرح منتقل ہوتے ہیں کہ وہ پرانے زمانوں اور گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات نہیں رہتے، بلکہ ہر نئی نسل کے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ ایسا صرف زندہ قوموں میں ہوتا ہے۔ ان میں ہر نسل اپنے بعد آنے والے لوگوں کو اپنے تجربات میں شریک کرنے اور ان کو اپنے ساتھ اجتماعی حافظے کا حصہ بنانے کا کام پوری ذمے داری سے کرتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اجتماعی حافظے کے بارے میں پون صدی کے عرصے کے حوالے سے یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست معلوم ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کے لیے الگ الگ جواز موجود ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں کیا ہورہا ہے، یعنی کیا ہمارا قومی حافظہ درست طور پر کام کررہا ہے؟ سوال تو بہت سادہ سا ہے، لیکن اس کا جواب ہمیں دو جمع دو مساوی ہے چار کی سادگی سے براہِ راست نہیں مل سکتا، اس میں اگر، مگر، چوںکہ اور چناںچہ جیسے کئی ایک الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس لیے کہ ہمارا سماجی مزاج عجب رنگوں میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ ایک طرف ہمارے یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنی تہذیب، اس کی اقدار اور نظریاتی بنیادوں سے ؤ طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں جیسے ہماری شاعری یا لوک داستانوں کا کوئی روایتی عاشق اپنے محبوب سے۔

یہ لوگ اگرچہ اب کچھ بہت بڑی تعداد میں ہمارے یہاں نہیں رہے ہیں، لیکن جتنے بھی ہیں، اُن میں سے ہر ایک دس کے برابر ثابت ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کی آنکھیں نئی دنیا کی چکاچوند سے خیرہ ہیں، اور اس حد تک کہ وہ اپنی روایت و تہذیب کے روشن نشانات کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سماجی شعور کا اینٹینا اپنے اجتماعی رویوں کی اسکرین پر کبھی ایک طرف کی نشریات دکھانے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف کی۔ کم سے کم پچھلے چالیس برس سے تو ہمارے یہاں سماجی صورتِ حال کا نقشہ یہی کچھ دکھا رہا ہے۔

اب خود سوچیے کہ ان حالات میں قومی حافظہ بھلا کیسے وہ کام کرسکتا ہے جو کرنے کی ذمے داری اس پر ڈالی جاتی ہے، اور کس طرح ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ نئی نسل تک ہمارا اجتماعی شعور پوری طرح منتقل ہورہا ہوگا اور اْس کی یادداشت میں ہمارے قومی تشخص اور تہذیبی تگ و دو کے سفر کے سارے سنگ ہائے میل روشن نشانات کی صورت میں محفوظ ہورہے ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ ان حالات میں ایسا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور ہے۔ اب اگر ایسا ہی ہے اور واقعی ہماری نئی نسلوں تک وہ چیزیں منتقل نہیں ہورہیں جو کہ ایک زندہ قوم کے نوجوانوں تک پہنچنی چاہییں تو کیا پھر ہمیں اپنی آئندہ نسلوں سے صبر کرلینا چاہیے کہ وہ ہمارے قومی و تہذیبی ورثے کی امین نہیں ہوں گی؟

حقائق کا پوری غیرجانب داری اور واقعیت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات نہایت ذمے داری سے کہی جاسکتی کہ حالات تشویش کی حد تک تو خیر ضرور آگئے ہیں، لیکن ابھی مکمل طور پر مایوس کن ہرگز نہیں ہیں۔ اس وقت بھی ان میں درستی اور بہتری کا امکان بہرحال موجود ہے۔ یہ امکان بار بار اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور اس کا تازہ ترین مظاہرہ حالیہ دنوں میں اس وقت ہوا جب ہندوستان کی مودی سرکار نے مئی میں ہونے والے انتخابات میں عوامی جذبات کو استعمال کرنے کے لیے بہت مذموم حرکت کی۔ سرحدوں پر اشتعال کا ماحول بنایا۔ انتہاپسندی اور جارحیت کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اور ہم پر جنگ مسلط کرنے کی اپنے طور پر پوری کوشش کی۔

اس موقعے پر پاکستان کی صرف سیؤ اور عسکری قیادت ہی نہیں، بلکہ عوامی سطح پر بھی جس طرح اجتماعی شعور اور قومی طرزِاحساس کا اظہار ہوا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے اندر ملّی جذبہ اور تہذیبی تشخص کا احساس نہ صرف موجود ہے، بلکہ ہمیں اب بھی حد درجہ عزیز ہے- چناںچہ یہ بات پوری وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ تہذیبی اقدار، قومی شعور اور اجتماعی شناخت کی یہ دولت و وراثت اگلی نسلوں تک نہ صرف اب تک منتقل ہوتی آئی ہے، بلکہ آئندہ بھی اطمینان سے کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کے بارے میں خوف یا بدگمانی کا شکار ہونے کے بجائے، اس پر اعتماد کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اس تک اپنی تاریخ کے واقعات، تہذیبی تجربات اور قومی احساسات کو کس طرح زندہ صورت میں پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں اس بات کا یقین بھی رکھنا چاہیے کہ نئے لوگ اپنے اس ورثے کے بہترین امین اور وارث بھی ثابت ہوں گے۔


یہ ذرا واقعی کچھ تھوڑا سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس پر بار بار بات کرنے اور اسے پوری طرح اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصے سے ہمارے یہاں یہ تأثر تواتر اور شد و مد سے پھیلایا گیا ہے کہ نئے لوگ اپنی تہذیبی وراثت سے بالکل بیگانے ہیں۔ انھیں اپنی اقدار اور روایات کا کوئی شعور نہیں ہے۔ وہ ان سے مطلق دل چسپی نہیں رکھتے۔ اس لیے ان سے کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ پہلی بات تو وہی، جس کا اظہار اس گفتگو کے آغاز میں کیا گیا، یعنی بعد میں آنے والی ہر نسل اپنے پرکھوں کی ہر چیز کو سر آنکھوں پر نہیں رکھتی، اہمیت نہیں دیتی، اور یہ کوئی غیر فطری بات بھی نہیں ہے۔ دوسری بات، یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے، کم و بیش ہر معاشرے اور تہذیب میں ہمیشہ سے ایسا ہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ تیسری بات، ہم ہر وقت نئے لوگوں کو برا بھلا کہہ کر انھیں اپنی روایت کا پاس دار نہیں بناسکتے۔ اس کے برعکس ان کے اندر ردِعمل اور بیگانگی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ہاں، اگر ہم مثبت رویہ اختیار کریں تو نتائج ضرور بہتر ہوں گے۔

آج اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوان ذہنوں کو اپنی نظریاتی بنیادوں، قومی تشخص اور تاریخی سفر کے بارے میں لگن اور ذمے داری سے اس طرح آگاہ کریں کہ اُن کے اندر اپنے بزرگوں کے اس ورثے کو قبول کرتے ہوئے خوشی اور فخر کا احساس پیدا ہو۔ انھیں نہ صرف اس کی اہمیت کا اندازہ ہو، بلکہ ان کے اندر اس کی نگہبانی کی خواہش بھی بیدار ہو۔ انھیں بتایا جانا چاہیے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں صرف ایک سیؤ تشکیل کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک واضح نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والی ایک باوقار مملکت ہے۔ برِصغیر میں جس سیؤ تحریک کے نتیجے میں ایک آزاد ریاست پاکستان کے نام سے وجود میں آئی وہ فرنگیوں کے تسلط میں رہنے والی ہندوستان کی محض ایک اقلیت کی سیؤ اور گروہی کامیابی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک آئیڈیالوجی، ایک ضابطۂ حیات کی فتح تھی۔

اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم دراصل مسلمانوں کی طرف سے پیش کیے گئے دو قومی نظریے کی حقیقت کا اعتراف ہے اور یہی نظریہ مسلمانانِ ہند کی اس آزاد ریاست کے قیام کا وہ جواز ہے جسے ساری کوششوں اور سازشوں کے باوجود نہیں جھٹلایا جاسکا۔ اس لیے دنیا کے ان سب ممالک میں جنھوں نے کسی استعمار سے آزادی حاصل کی ہے، پاکستان ایک منفرد حیثیت کا حامل ملک ہے کہ وہ ایک ضابطہ? حیات کے شعور اور ایک نظریاتی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ چناںچہ وہ جو کہا گیا کہ پاکستان کی بنیاد تو ؤ روز رکھی گئی تھی جس روز ہندوستان میں پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا، تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور وزن رکھتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح ایک بڑی عظیم الشان عمارت کی تعمیر کا آغاز ؤ وقت ہوجاتا ہے جب اس کی بنیاد کا پہلا پتھر رکھا جاتا ہے، تو بالکل ؤ طرح پہلے شخص کے مسلمان ہونے پر ہندوستان میں پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔

قیامِ پاکستان کی سیؤ جدوجہد پر نگاہ ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں 1930ء میں علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں جو تاریخی خطبہ دیا تھا، اس میں انھوں نے واضح طور ہندوستان کی تقسیم اور مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کا مطالبہ جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کیا تھا۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے جنوبی ایشیا میں تاجر بن کر آنے والے انگریزوں نے مغلیہ سلطنت کو رفتہ رفتہ کم زور کرتے ہوئے بالآخر 1857ء میں جب اس کا خاتمہ کیا اور تاجر کی بجائے ہندوستان کے تاج دار بن بیٹھے تو اس دور میں یہ صرف مسلمان آبادی تھی جو نئے حکمرانوں کے زیرِ اثر پورے ہندوستان میں ظلم و جور اور جبر و استحصال کے ہول ناک تجربے سے گزری۔

تہذیب و اقدار کا تو سوال کیا، اس وقت مسلمانوں کو تو وجودی بقا کے لیے جس ابتلا اور آزمائش سے گزرنا پڑا، اس کو آج بھی بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس عرصے میں ہزار مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود مسلمانوں کا مذہبی شعور اور تہذیبی احساس ماند نہیں پڑا تھا، بلکہ وقت کی سان نے اس کو رگڑ ڈالنے کی کوشش میں اس کی چمک اور بڑھا دی تھی۔ علامہ اقبال کا خطبہ? الٰہ آباد اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ محکومی اور مجبوری کے لگ بھگ ترؤ برس بعد ایک قوم پورے سیؤ شعور کے ساتھ ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

علامہ اقبال کے اس خطبے کے بعد رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلمان عوام میں یہ شعور پھیلتا چلا گیا کہ برِصغیر میں ان کی آئندہ نسلوں کے لیے بقا، استحکام اور ترقی کا واحد راستہ یہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنے لیے ایک آزاد اور خودمختار ریاست حاصل کریں۔ عوام میں اس شعور کو اجاگر کرنے اور ہندوستان کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑانے میں اْس عہد کے مسلمان سیؤ قائدین کے علاوہ چودھری رحمت علی اور ان کے ساتھ چند پرجوش و پرعزم جواں سال لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے یہ کام مجلسِ کبیر پاکستان بناکر سیؤ، صحافتی اور سماجی سطح پر کیا۔ مجلسِ کبیر پاکستان فروری 1937ء میں لاہور کی بادشاہی مسجد میں قائم ہوئی۔ اس کے بنیادی اراکین میں مرزا عبداللہ انور بیگ (وکیل)، خورشید عالم (جہاں گرد)، صاحب زادہ عبدالحکیم (وکیل) اور سرور ہاشمی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

مسلمانوں کی آزاد ریاست کا نام بھی چودھری رحمت علی ہی نے تجویز کیا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کے نئے آزاد وطن کا نام پاکستان جن علاقوں سے لیا ان میں شامل تھے پنجاب (پ)، سرحدِ افغانی (الف)، کشمیر (ک)، سندھ (س)، بلوچستان (تان)۔ چودھری رحمت علی نے تاریخ کے حوالے سے ثابت کیا کہ ان علاقوں میں مسلمان بارہ سو سال سے آباد تھے۔ اس طرح یہ صرف ایک نام نہیں تھا، بلکہ جنوبی ایشیا کی جغرافیائی تقسیم کے لیے پورا ایک فارمولا بھی تھا۔ جواں سال لوگوں کی تنظیم مجلسِ کبیر پاکستان نے جس شبانہ روز محنت اور لگن سے قیامِ پاکستان کی ضرورت و اہمیت کو عوام میں اجاگر کیا، اس نے مسلمانانِ ہند کے دلوں میں جذبۂ آزادی کی لو کو تیز تر کردیا۔ گاؤں دیہات کی مختصر آبادی سے لے کر شہر کے بھرے پھرے علاقوں تک آزاد وطن کی آواز ایک قوت کے ساتھ گونج گئی۔ یہ آواز درحقیقت بیداری کی ایک لہر تھی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے خون کو گرما دیا تھا۔

ظاہر ہے، یہ صورتِ حال خطے کی اکثریتی آبادی، یعنی ہندوؤں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ تو یہاں سے فرنگی حکم راں کے رخصت ہوجانے کے بعد اپنی عددی برتری کی وجہ سے پورے ہندوستان پر حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے۔ نہ صرف خواب دیکھ رہے تھے، بلکہ انگریزوں کو ہر ممکن یہ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ ان کے بعد ہندوستان پر اقتدار کا حق صرف انھی کو حاصل ہے، اور یہ کہ اس خطے میں صرف وہی ہیں جو کسی تنگ نظری اور تعصب کے بغیر جنوبی ایشیا کی ساری اقلیتوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔

ایک طرف ان کی یہ ساری کوششیں تھیں اور دوسری طرف مجلسِ کبیر پاکستان کے سچے جذبے سے بھرے ہوئے نوجوان تھے جنھوں نے خطے کی مسلمان آبادی میں سیؤ شعور اور آزادی کا جذبہ بیدار کرکے ہندوؤں کی سیؤ قیادت کے اس خواب کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس کے ردِعمل میں سیؤ، صحافتی اور سماجی سطح پر ہندوؤں نے اپنے طور پر بڑی بھرپور مہم چلائی۔ سیؤ جلسوں ہی میں نہیں، سماجی مجلسوں میں بھی علامہ اقبال اور چودھری رحمت علی کے تقسیمِ ہند کے خیال کو ہر ممکن طریقے سے رد کیا گیا۔

اخبارات اور رسائل میں اس کے خلاف اداریے اور مضامین لکھے گئے اور اس تقسیم کو ناقابلِ عمل، وطن سے غداری اور ہندوستان کی متحدہ قومیت سے دشمنی قرار دیا گیا۔ مجلسِ کبیر پاکستان کے جواں سال کارکنوں نے ان سب حربوں کا منہ توڑ جواب دیا اور بھرپور دلائل کے ساتھ اپنے مؤقف کو درست ثابت کیا۔ ان لوگوں کے دلائل اتنے مضبوط اور طرزِاستدلال اس قدر مؤثر تھی کہ محکوم قوم کے لوگ ہی نہیں، بلکہ حکمران انگریزوں کو بھی ان کا اعتراف کرنا پڑا اور ان پر توجہ دینا ضروری محسوس ہوا۔

(جاری ہے)
Load Next Story