یہیں پہ روزِ حساب ہو گا
1957ء تک صورتِ حال مختلف تھی۔ برصغیر کی سیاست میں تہذیب و شائستگی اوّلین حیثیت رکھتی تھی۔
شرفا اور اہلِ دل افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جنگل کا قانون رائج ہے! لیکن... جنگل میں تو صرف طاقت کا قانون ہوتا ہے، ہر زور آور اپنے سے کمزور کو چیر پھاڑ کر کھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی قانون رائج ہے۔ عرفِ عام میں آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ''جس کی لاٹھی اسی کی بھینس'' یا پھر یہ کہیے کہ ''زبردست مارے، اور رونے نہ دے۔'' ہر طرف یہی ہو رہا ہے کہ بقول شاعر:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ''تماش بینی'' کے لیے جیب کا بھاری ہونا بہت ضروری ہے، جو تماش بین جتنی بھاری تھیلی قدموں میں پھینکے گا اور جتنے سونے اور چاندی کے سکّوں سے لے کر ڈالر تک نچھاور کرے گا، گیت بھی اسی کی مرضی کا گایا جائے گا۔ لیکن یہ دور عجب دور ہے، جب ہمارے نام نہاد سیاست دانوں اور جنرلوں کی گودوں میں پلے بڑھے خود ساختہ لیڈروں کو کچھ عرصے سے ''عوام کی خدمت'' کا ہیضہ ہوگیا ہے۔ دراصل انھوں نے عوامی خدمت کی روٹیاں، شیرمال، تافتان، قورمے، بریانی، کھیر، چرغے، بروسٹ اور پلائو، زردے اتنی زیادہ مقدار میں کھالیے ہیں کہ انھیں ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
اسی لیے جلسے جلوسوں میں اپنی اوقات سے زیادہ کھانے کی بدہضمی کے جلوے ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔ یہ بدہضمی زیادہ تر مخالفین کو گالیاں دے کر نکل رہی ہے۔ خود کو مقبول اور عوامی لیڈر ظاہر کرنے کے لیے دوسروں کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اب یہی ہمارا کلچر ہے۔
1957ء تک صورتِ حال مختلف تھی۔ برصغیر کی سیاست میں تہذیب و شائستگی اوّلین حیثیت رکھتی تھی، خواہ قائداعظم ہوں یا خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، بہادر یار جنگ ہوں یا مولانا ظفر علی خاں، لیاقت علی خاں ہوں یا بیگم شائستہ اکرام اﷲ، بیگم اختر سلیمان ہوں یا مولانا حسرت موہانی... یہ سب خاندانی اور مہذب تھے جو سیاست کو بھی ایک عبادت سمجھتے تھے اور قومی خدمت کو ایک انسانی فریضہ۔ ان میں سے کسی نے کبھی اپنی شناخت اپنے صوبے یا زبان سے نہیں کرائی، کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو ایک قوم پہ یقین رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ ایک قوم کے لیے اپنی شناخت صرف اور صرف پاکستانی کی حیثیت سے کروانی ہے۔ اسی لیے قائداعظم نے کبھی خود کو خوجہ یا اسماعیلی کی حیثیت سے متعارف نہیں کروایا۔
حد تو یہ کہ اسکندر مرزا جن کا شجرۂ نسب میر جعفر سے ملتا ہے، انھوں نے بھی خود کو ''بنگالی'' کی حیثیت سے نہیں شناخت کروایا کہ اِتنا تو ظرف اس شخص میں بھی تھا جس کی بیگم کو ایک اسمگلر نے قیمتی ہار پہنایا تھا۔ لیکن ان میں سے کبھی کسی نے مخالفین کو اس طرح گالیاں نہیں بکیں جس طرح آج ببانگ دہل جلسوں اور ٹی وی چینلز پر بکی جا رہی ہیں، کیونکہ یہ لوگ شرافت کے پروردہ تھے اور گالی دینا معیوب سمجھتے تھے۔ پاکستانی سیاست میں گالیوں کا داخلہ ایک عوامی لیڈر کی بدولت ہوا تھا۔ بعد میں اس گالی کو ریکارڈ سے حذف کردیا گیا۔
پھر تو، ہر ایک کو اجازت مل گئی کہ مائیک پر آ کر جو چاہے کہے، نہ کوئی ضابطۂ اخلاق ہے نہ کوئی سنسر شپ۔ خاص طور سے پچھلے دنوں ''سدا سہاگن'' شیخ رشید نے اپنے جلسے جلوسوں، میٹنگوں اور پریس کانفرنس میں جو زبان استعمال کی کیا وہ ایک نجیب الطرفین کی زبان ہو سکتی ہے؟ مہذب آدمی الفاظ منہ سے نکالنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے، خاص کر کوئی پبلک فگر... ۔ شائستہ لیڈران جب عوام سے خطاب کرتے ہیں تو دو دھاری تلوار پر چل رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہر فرقے، ہر زبان اور ہر مسلک کے لوگ ان کی تقریر سن رہے ہوتے ہیں اور اچھا لیڈر کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کرتا، کیونکہ وہ لوگوں سے مخلص ہوتا ہے اور ہمہ وقت عوام کی عدالت میں جواب دہی کے لیے تیار رہتا ہے اور ایسے ہی لیڈر تاریخ رقم کرتے ہیں۔ لیکن آج پاکستانی سیاست کا منظرنامہ بالکل الگ ہے، بقول داغ دہلوی:
زباں بگڑی، سو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا
اب زبان اور دہن دونوں کو بگاڑے بغیر سیاست کرنا ممکن نہیں کہ زمانہ ان ہی چیزوں کا ہے۔ اہلِ نظر رخصت ہوئے تو شیوۂ اہلِ نظر کی آبرو بھی خاک میں مل گئی۔ تماش بینوں کا معاشرہ ہے جو ریٹنگ کے جنون میں مبتلا اپنا اپنا اسٹیج سجائے بیٹھے ہیں اور اپنا اپنا مال بیچ رہے ہیں۔ اکھاڑوں میں اترنے والے اور مخالفین کے دانت کھٹے کرنے والے پہلوان اپنی اپنی پارٹیوں اور ایجنسیوں کی ٹوپیاں اور پگڑیاں سروں پر لگا کر ان کا ہر ممکن دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ چلیے بعض کھلاڑی تو سرخ، نیلی پیلی ٹوپیاں لگا کر برملا اپنی چاہت کا اظہار کرتے ہیں لیکن بعض وہ بھی ہیں جن کے سر پر نہ لال ٹوپی ہے نہ سبز یا کالی پگڑی ہے پھر بھی پہچانے جاتے ہیں۔
بھلا کیسے؟ وہ اس طرح کہ کسی ٹی وی چینل پر کوئی صورت اس وقت تک نظر نہیں آ سکتی جب تک ان کے پیچھے کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت نہ ہو یا کسی خفیہ ایجنسی کا سر پر ہاتھ نہ ہو۔ ریٹنگ کے دیوانوں کے ہاتھ اس طرح الٰہ دین کا چراغ لگ گیا ہے کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔ چنانچہ پروگرام پروڈیوسر اور اینکر پرسن کو صرف ٹیلی فون کالز ریسیو کرنی پڑتی ہیں کہ کس پروگرام میں کون کون ہو گا۔ بس انھیں کبھی کسی بزنس ٹائیکون سے طے شدہ انٹرویو کرنا پڑتا ہے۔ کبھی بیرونِ ملک رکھے بینک اکائونٹ کو جائز قرار دِلوانے کے لیے تن من کی بازی لگانی پڑتی ہے۔
ہو سکتا ہے آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں، لیکن ایسا کرنے سے پہلے ذرا یہ دیکھ لیجیے کہ جو بازار سجا ہے اس میں اپنی اپنی پارٹی کے پے رول پر فائز جو گل و بلبل کی داستانیں بکھیرتے ہیں، اپنی پارٹی کو قوم کا نجات دہندہ بتاتے ہیں، اپنے لیڈر کو فرشتوں سے برتر ثابت کرنے کے لیے نسیم حجازی کی نقل میں ایک نئی طلسم ہوش ربا اور داستانِ امیر حمزہ سناتے ہیں، وہی اخبارات میں بھی بلند مقامات پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ باقی رہ گئے وہ جینوئن لکھاری اور تجزیہ نگار جو صرف اپنے قلم سے مخلص ہیں اور جنھوں نے کسی پارٹی کی ٹوپی یا دوپٹہ سر پر نہیں سجایا وہ ٹیلی ویژن اسکرین سے تو مکمل غائب رہتے ہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ اچھا ہی ہوا جو فیضؔ یہ سب دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے اور اپنے دل میں ایک امید لے کر چلے گئے۔ ایک ایسی امید اور خواہش جس میں وہ ایک نئی صبح دیکھتے ہیں۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پہ لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ تمنّا ایک امن پسند اور انسان دوست شاعر کی تو ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کے سیاسی وڈیروں اور جاگیرداروں کی نہیں۔ آج عمران خان ہوں یا نواز شریف، آصف زرداری ہوں یا گیلانی یا کوئی اور۔ سب ہی قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن صرف اقتدار میں رہ کر۔ تختِ شاہی سے دور رہ کر کوئی بھی انسانی خدمت کا بیڑہ اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، کیونکہ وزیراعظم یا صدر بننا خزانے کی وہ کنجی ہے، جس کے ہاتھ لگتے ہی قارون کا خزانہ آنکھوں کو چندھیا دیتا ہے اور پھر کچھ اور نظر نہیں آتا۔
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا