سڑک بھی مدرسہ ہے
سڑکوں پر مسافر یا انھیں کنٹرول کرنے والے ٹریفک پولیس کے ملازم ہوتے ہیں۔
SINGAPORE:
جن لوگوں نے میرا گزشتہ اتوار والا کالم ''اچھا اسپورٹس مین اچھا انسان'' پڑھا ہے، ان میں سے کچھ احباب نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اگرچہ اس کالم میں کسی شخصیت کا ذکر نہیں تھا لیکن کیا آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں کرکٹر عمران خان تو موجود نہیں تھا۔ وہ چونکہ غیرسیاسی کالم تھا اس لیے میں نے کسی بھی سیاست دان کا نام نہیں دیا تھا لیکن بلاشبہ میرے ذہن میں اکلوتا ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خاں کا حوالہ موجود تھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1992ء میں نہ صرف آسٹریلیا میں ورلڈ کپ جیتا بلکہ اس کے دو سال کے اندر اسکواش، ہاکی اور اسنوکر میں بھی ورلڈ نمبر ون تھا۔
میرے رابطے میں اب تک جتنے بھی اچھے اور جینوئن اسپورٹس مین آئے ہیں وہ جیت ہار سے آگے نکل کر سچے کھرے بااصول کلین، بااعتماد اور دھن کے پکے انسان تھے کیونکہ محض کھلاڑی تو ماہر نہ ہوتے ہوئے بھی Cheating کرکے جیت جاتے اور داد وصول کر لیتے ہیں۔ اسی پیمانے پر میری نظر میں عمران خان چاہے بھٹو جیسا جینئس انسان نہ بھی ہو ایک جینوئن کھلاڑی ہے۔
ایک صاحب نے میری توجہ ملک کی سڑکوں اور ان پر رات دن چلتی ٹریفک کی طرف مبذول کرائی ہے اور اپنے غیرملکی دوروں کے دوران پاکستان کی ٹریفک کا یورپ' امریکا' کوریا' ترکی' ملائشیا وغیرہ سے موازنہ کرکے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جتنی کسی ملک کے شہروں کی ٹریفک بے ہنگم ہو گی اسی قدر وہاں کے عوام میں لاقانونیت اور حکمرانوں میں نااہلی ہو گی اور جتنے کسی شہر یا ملک کے حکمران ڈسپلن کے پابند' اصولوں پر کاربند اور کرپشن سے پاک ہوں گے وہاں کی ٹریفک اتنی ہی Smooth اور ضابطوں کے مطابق چلتی نظر آئے گی۔
اچھے اسپورٹس مینوں کو اچھا شہری، اچھا انسان قرار دیا تو مجھے ہر روز کروڑوں کی تعداد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ان شہریوں اور حکمرانوں کی آمدورفت پر غور کرنے کا موقع ملا۔ اسپورٹس مینوں کی تعداد تو محدود ہے، سڑکوں پر روزانہ کئی کئی گھنٹے سفر کرنے والے تو اس اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے لہٰذا اچھے شہریوں یا انسانوں کی تلاش تو انھی میں سے ہو گی۔ ابھی چند روز قبل ایک مہنگی کار چلاتے ہوئے بارہ تیرہ سال کے بچے کو دیکھا کہ وہ دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے کبھی تیز موڑ کاٹتے ہوئے سڑک کی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف پہنچ جاتا، اسے کار چلاتے دیکھ کر میں نے اس کی، خود اپنی اور دو تین اور چار پہیوں پر چلنے والی دیگر سواریوں اور سواروں کی جان کی سلامتی کی دعا مانگی۔
سڑکوں پر مسافر یا انھیں کنٹرول کرنے والے ٹریفک پولیس کے ملازم ہوتے ہیں۔ مجھے اپنے اسکول کے دن یاد آئے جب بائیسکل پر ڈبل سواری کو چیک کرنے کے علاوہ ڈیوٹی کانسٹیبل سزا کے طور پر سائیکل کے پہیے کی ہوا نکال دیا کرتا تھا' بغیر بتی تانگے کو روک کر اس کا چالان کر دیتے تھے۔ اور یہاں تو اب ٹریفک وارڈن آپس میں گپ بازی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اب سڑکوں پر اور خاص طور پر بڑے شہروں کی ٹریفک مادر پدر آزاد ہو رہی ہے۔ کوئی منزل نہ بھی ہو تو سڑک پر آنے جانے والوں کو دوسروں پر سبقت لے جانے کا جنون طاری ہوتا ہے۔ اکثر سڑکوں پر بیک وقت پیدل، سائیکل، رکشہ، ویگن، ریڑہ، بس، ٹرک، ٹرالی، موٹر سائیکل، موٹر کار وغیرہ بے ہنگم دوڑ میں شامل ایک دوسرے کو مات دیتے دکھائی پڑتے ہیں۔
بڑے شہروں کی سڑکوں پر دو تین یا چار Lanes بنائی جاتی ہیں۔ بائیسکل اور موٹر سائیکل کے لیے بائیں طرف پھر سیدھا جانے کے لیے، اوورٹیکنگ کے لیے اور پھر دائیں طرف مڑنے والی لین لیکن جب قانون کی حکمرانی میں بہت اوپر دراڑ پڑ جائے اور ہر خاص و عام کو بڑی واضح ہو کر دکھائی بھی دیتی ہو تو نچلی سطح تک پہنچ کر ہر کسی کو قانون اور ضابطوں کی خلاف ورزی کی ترغیب ملتی ہے اور لاقانونیت کے مظاہرے سڑکوں پر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔ جب جزا و سزا پر لوگوں کا اعتماد اور ایمان متزلزل ہو جائے تو سڑکوں پر قانون شکنی معمول اور عادت بن کر عام ہو جاتی ہے، پھر کم عمر بچے بغیر کسی خوف اور جھجک کے کاریں دوڑاتے ہیں، بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے والوں کو لائسنس فیس کی بچت ہوتی ہے۔ شور کرنے والا سائیلنسر ذریعہ تفریح بن جاتا ہے۔ ٹریفک سگنل کی پروا نہ کرنا، ون وے کی خلاف ورزی کرنا، لین سسٹم کو روند ڈالنا، بلاوجہ ہارن بجانا اور پھر اوورٹیکنگ کرنا باعث لذت بن جاتا ہے۔
جہاں تک جینوئن اسپورٹس مین کا اچھا انسان اور اچھا شہری ہونے کا تعلق ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن جو شخص سڑک پر لاقانونیت کو ذریعہ تفاخر، لذت اور عادت بنا لے اس کے برا شہری ہونے میں بھی شک کی گنجائش نہیں رہتی اور یہ تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے لیکن ان چھوٹی چھوٹی لاقانونیتوں ہی سے بڑے جرائم جنم لیتے ہیں۔ اگر ہر ضلعی انتظامیہ سڑک پر لاقانونیت ختم کرنے کا ارادہ کر لے اور ٹریفک کنٹرول نظام پر موثر عمل درآمد ہو جائے تو قانون شکنی کا تدارک کرنے میں کامیابی کا پہلا پتھر رکھا جاتا ہر راہ گیر کو نظر آئے گا۔ چلیں یہیں سے ابتدا ہو جائے۔ سڑک بھی تو ایک مدرسہ ہے۔
جن لوگوں نے میرا گزشتہ اتوار والا کالم ''اچھا اسپورٹس مین اچھا انسان'' پڑھا ہے، ان میں سے کچھ احباب نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اگرچہ اس کالم میں کسی شخصیت کا ذکر نہیں تھا لیکن کیا آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں کرکٹر عمران خان تو موجود نہیں تھا۔ وہ چونکہ غیرسیاسی کالم تھا اس لیے میں نے کسی بھی سیاست دان کا نام نہیں دیا تھا لیکن بلاشبہ میرے ذہن میں اکلوتا ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خاں کا حوالہ موجود تھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1992ء میں نہ صرف آسٹریلیا میں ورلڈ کپ جیتا بلکہ اس کے دو سال کے اندر اسکواش، ہاکی اور اسنوکر میں بھی ورلڈ نمبر ون تھا۔
میرے رابطے میں اب تک جتنے بھی اچھے اور جینوئن اسپورٹس مین آئے ہیں وہ جیت ہار سے آگے نکل کر سچے کھرے بااصول کلین، بااعتماد اور دھن کے پکے انسان تھے کیونکہ محض کھلاڑی تو ماہر نہ ہوتے ہوئے بھی Cheating کرکے جیت جاتے اور داد وصول کر لیتے ہیں۔ اسی پیمانے پر میری نظر میں عمران خان چاہے بھٹو جیسا جینئس انسان نہ بھی ہو ایک جینوئن کھلاڑی ہے۔
ایک صاحب نے میری توجہ ملک کی سڑکوں اور ان پر رات دن چلتی ٹریفک کی طرف مبذول کرائی ہے اور اپنے غیرملکی دوروں کے دوران پاکستان کی ٹریفک کا یورپ' امریکا' کوریا' ترکی' ملائشیا وغیرہ سے موازنہ کرکے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جتنی کسی ملک کے شہروں کی ٹریفک بے ہنگم ہو گی اسی قدر وہاں کے عوام میں لاقانونیت اور حکمرانوں میں نااہلی ہو گی اور جتنے کسی شہر یا ملک کے حکمران ڈسپلن کے پابند' اصولوں پر کاربند اور کرپشن سے پاک ہوں گے وہاں کی ٹریفک اتنی ہی Smooth اور ضابطوں کے مطابق چلتی نظر آئے گی۔
اچھے اسپورٹس مینوں کو اچھا شہری، اچھا انسان قرار دیا تو مجھے ہر روز کروڑوں کی تعداد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ان شہریوں اور حکمرانوں کی آمدورفت پر غور کرنے کا موقع ملا۔ اسپورٹس مینوں کی تعداد تو محدود ہے، سڑکوں پر روزانہ کئی کئی گھنٹے سفر کرنے والے تو اس اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے لہٰذا اچھے شہریوں یا انسانوں کی تلاش تو انھی میں سے ہو گی۔ ابھی چند روز قبل ایک مہنگی کار چلاتے ہوئے بارہ تیرہ سال کے بچے کو دیکھا کہ وہ دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے کبھی تیز موڑ کاٹتے ہوئے سڑک کی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف پہنچ جاتا، اسے کار چلاتے دیکھ کر میں نے اس کی، خود اپنی اور دو تین اور چار پہیوں پر چلنے والی دیگر سواریوں اور سواروں کی جان کی سلامتی کی دعا مانگی۔
سڑکوں پر مسافر یا انھیں کنٹرول کرنے والے ٹریفک پولیس کے ملازم ہوتے ہیں۔ مجھے اپنے اسکول کے دن یاد آئے جب بائیسکل پر ڈبل سواری کو چیک کرنے کے علاوہ ڈیوٹی کانسٹیبل سزا کے طور پر سائیکل کے پہیے کی ہوا نکال دیا کرتا تھا' بغیر بتی تانگے کو روک کر اس کا چالان کر دیتے تھے۔ اور یہاں تو اب ٹریفک وارڈن آپس میں گپ بازی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اب سڑکوں پر اور خاص طور پر بڑے شہروں کی ٹریفک مادر پدر آزاد ہو رہی ہے۔ کوئی منزل نہ بھی ہو تو سڑک پر آنے جانے والوں کو دوسروں پر سبقت لے جانے کا جنون طاری ہوتا ہے۔ اکثر سڑکوں پر بیک وقت پیدل، سائیکل، رکشہ، ویگن، ریڑہ، بس، ٹرک، ٹرالی، موٹر سائیکل، موٹر کار وغیرہ بے ہنگم دوڑ میں شامل ایک دوسرے کو مات دیتے دکھائی پڑتے ہیں۔
بڑے شہروں کی سڑکوں پر دو تین یا چار Lanes بنائی جاتی ہیں۔ بائیسکل اور موٹر سائیکل کے لیے بائیں طرف پھر سیدھا جانے کے لیے، اوورٹیکنگ کے لیے اور پھر دائیں طرف مڑنے والی لین لیکن جب قانون کی حکمرانی میں بہت اوپر دراڑ پڑ جائے اور ہر خاص و عام کو بڑی واضح ہو کر دکھائی بھی دیتی ہو تو نچلی سطح تک پہنچ کر ہر کسی کو قانون اور ضابطوں کی خلاف ورزی کی ترغیب ملتی ہے اور لاقانونیت کے مظاہرے سڑکوں پر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔ جب جزا و سزا پر لوگوں کا اعتماد اور ایمان متزلزل ہو جائے تو سڑکوں پر قانون شکنی معمول اور عادت بن کر عام ہو جاتی ہے، پھر کم عمر بچے بغیر کسی خوف اور جھجک کے کاریں دوڑاتے ہیں، بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے والوں کو لائسنس فیس کی بچت ہوتی ہے۔ شور کرنے والا سائیلنسر ذریعہ تفریح بن جاتا ہے۔ ٹریفک سگنل کی پروا نہ کرنا، ون وے کی خلاف ورزی کرنا، لین سسٹم کو روند ڈالنا، بلاوجہ ہارن بجانا اور پھر اوورٹیکنگ کرنا باعث لذت بن جاتا ہے۔
جہاں تک جینوئن اسپورٹس مین کا اچھا انسان اور اچھا شہری ہونے کا تعلق ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن جو شخص سڑک پر لاقانونیت کو ذریعہ تفاخر، لذت اور عادت بنا لے اس کے برا شہری ہونے میں بھی شک کی گنجائش نہیں رہتی اور یہ تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے لیکن ان چھوٹی چھوٹی لاقانونیتوں ہی سے بڑے جرائم جنم لیتے ہیں۔ اگر ہر ضلعی انتظامیہ سڑک پر لاقانونیت ختم کرنے کا ارادہ کر لے اور ٹریفک کنٹرول نظام پر موثر عمل درآمد ہو جائے تو قانون شکنی کا تدارک کرنے میں کامیابی کا پہلا پتھر رکھا جاتا ہر راہ گیر کو نظر آئے گا۔ چلیں یہیں سے ابتدا ہو جائے۔ سڑک بھی تو ایک مدرسہ ہے۔