پاکستان قائم نہ ہوتا تو کیا ہوتا
پون صدی بعد بھی ایک مخصوص طبقہ قوم کو اس سوال میں الجھانے کی کوشش کررہاہے کہ پاکستان کا قیام درست تھا یا غلط۔
اسے بدقسمتی کے سوا کیا کوئی دوسرا نام دیاجاسکتاہے کہ آزادی کے72سال بعد بھی پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ اس سوال پر بحث و مباحثہ جاری رکھے ہوئے ہے کہ قیام پاکستان کا فیصلہ درست تھا یا غلط؟ یاقیام پاکستان کی بنیاد دوقومی نظریہ ٹھیک تھا یا نہیں؟
ایسے سوالات اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جو قوموں کا وجود وطن کی بنیاد پر دیکھتے ہیں نہ کہ دین کی بنیاد پر۔ اگرقومیت کی بنیاد وطن کو قراردیاجائے تو کم ازکم بھارت کی تاریخ میں یہ خیال ایک حقیقت بنتا تاہم ایک طفل مکتب بھی دیکھ سکتاہے کہ بھارت میں1947ء سے پہلے بھی یہ خیال غلط ثابت ہوا اور اس کے بعد بھی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت سے ہرکوئی واقف ہے، وہ اپنی شعوری زندگی کے پہلے دور میں مسلم ہندواتحاد کے علمبردار رہے تھے۔ اس نکتہ پر وطنیت کا نظریہ رکھنے والے بھی اختلاف نہیں کرسکتے۔ سن 1924ء تک وہ بدستور نیشنلسٹ تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔تاہم پھر ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنیاد پر انھوں نے اپنے نظریات کی ازسرنو تشکیل کی۔ مثلاً ناگپور اجلاس میں ان کی توہین کی گئی، وہاں انھیںخطاب نہیں کرنے دیا گیا' بار بار بیٹھ جانے کو کہا گیا'انھوں نے''مسٹر گاندھی'' کے الفاظ بولے تو اس پر اعتراض کیا گیا۔
تحریک خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، جگہ جگہ (نعوذ باللہ) اہانت رسولﷺ کی مہم چلائی جانے لگی۔اس سے اندازہ کیجئے کہ ہندوستان میں وہ گروہ کس ذہنیت کا تھا جس کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے کی ہمیں تلقین کی جاتی تھی اور اب بھی کی جاتی ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جنھوں نے قائداعظم کے دل ودماغ کو تبدیل کردیا۔ نتیجتاًانہوں نے1926ء میں کہا کہ ''اس حقیقت سے راہِ فرار ممکن نہیں کہ فرقہ واریت اس ملک میں موجود ہے۔ محض جذبات اور امتداد زمانہ سے یہ رفع نہیں ہوسکتی''۔
پھر نہرو رپورٹ سامنے آگئی۔ اس میں مسلمانوں کا کوئی لحاظ نہ رکھاگیا۔جداگانہ طریق انتخاب ختم کرنے کی بات کی گئی، ہندوستان کے لیے وفاقی طرز حکومت کی بجائے وحدانی طرز حکومت کی سفارش کی گئی، مکمل آزادی کی بجائے نوآبادیاتی طرز آزادی کے لیے کہا گیا اور ہندی کو ہندوستان کی سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ 1916ء میں معاہدہ لکھنو میں کانگریس نے مسلم لیگ کے جن مطالبات کو منظورکیاتھا، اب ان سے انحراف کیاگیا۔ اس کے بعددسمبر 1928ء میں آل پارٹیز کانفرنس بمقام کلکتہ منعقد ہوئی، اس میںقائداعظم نے 'چودہ نکات' پیش کیے جنھیں انتہا پسند ہندوؤں نے مستردکردیا' مزید یہ کہ قائد اعظم پر طعن و تشنیع کی گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب ان کا دل ہندوؤں سے بیزار ہوگیا اور ہندوؤں نے ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ زندگی نہیں بسرکرناچاہتے۔ یہی وجہ ے کہ قائداعظم جب کلکتہ سے روانہ ہوتے ہوئے تو انھوں نے جمشید جی نوشیروان جی کا ہاتھ پکڑا اور کہا ''اب جدائی کا آغاز ہے''۔
اس کے بعد تیسری گول میز کانفرنس (منعقدہ سات نومبر تا 24 دسمبر1932ء) لندن میںہوئی، قائداعظم ان دنوں وہیں مقیم تھے لیکن وہ اس میں ایک لمحہ کے لئے بھی شریک نہیں ہوئے۔ ان کا یہ طرزعمل بھی ثابت کرتاہے کہ وہ اپنے سابقہ نظریات سے مکمل طور پر پیچھے ہٹ چکے تھے۔ انہوں نے کہا ''عین خطرے کے سامنے ہندو جذبات' ہندو ذہن اور ہندو رویے نے مجھے اتحاد سے بالکل مایوس کردیا''۔ یوں کانگریسی وزراء کے طرز عمل سے ان کی مایوسی کا آغاز 1920ء میں ہوا اور 1938ء تک اس نے ایک نئے نتیجے کی صورت اختیار کرلی۔
23 مارچ1940ء کو تاریخی شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ وہاں وہ تاریخی قرارداد پاس ہوئی جس میں مسلم لیگ نے ہندوستانی مسلمانوں کا ملک میں آئندہ سیاسی نصب العین آزاد و خودمختار ریاست کا قیام قرار دیا جس کے الفاظ یہ ہیں :''آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ جب تک دستوری منصوبے میں درج ذیل اصول شامل نہ کیے جائیں اور اس پر ملک میں عملدرآمد نہ کیا جائے' اس وقت تک وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوگا''۔کانگریس نے اس قرارداد لاہور یا قراردادپاکستان کو بھی فوراً مسترد کردیا۔
ایک بھارتی مصنف عبدالقیوم ندوی نے ایک بھارتی جریدے'دعوت' میں اپنے مضمون میں لکھا کہ ''ملک کی تقسیم میں ہندو مہاسبھائیوں کا بڑا اہم کردار ہے' جس نے قیام پاکستان کی تحریک کو فروغ دینے میں کافی حصہ لیا۔ انہوں نے ملک میں ایسے حالات پیدا کردیے کہ یا تو مسلمان ہندو بن جائیں یا پھر ملک سے نقل مکانی کریں۔ ان کی کئی تنظیمیں اس کام کے لیے لگی ہوئی تھیں۔ شدھی سنگٹھن مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنارہی تھی، متعدد مسلمانوں کو ہندو بنادیا گیا''۔
''آریہ سماج کے لوگ بھی ملک میں گھوم گھوم کر اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے تھے۔ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں میں کام شروع کیا گیا جہاں کے لوگوں کا طرز زندگی ہندوؤں سے زیادہ میل کھاتا تھا۔ جیسے مالکانہ راجپوتانہ (آگرہ)' میو (الور اور بھرت پور) شیخ (لاڑکانہ) ان لوگوں کو خوف یا لالچ دے کر ہندو بنانے کی زبردست تحریک چلائی جانے لگی۔ شدھی سنگٹھن کے بانی دیانند سرسوتی تھے۔ ہندومہاسبھا کی بنیاد1915 ء میں ڈالی گئی' ساورکر اس کے صدر منتخب ہوئے ڈاکٹر مونجے مرہنہ اور لالہ الجپت رائے لاہوری وغیرہ اس کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ہیں۔ ان لوگوں کے پیش نظر ہندوستان میں خالص ہندو حکومت قائم کرنا تھا۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم کا ذکر عوامی جلسوں اور جلوسوں میں کیا کرتے تھے ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمایئے:
وہ کہتے تھے کہ ''مسلمان اپنے مذہب' اپنی تہذیب' اپنی زبان سے عاری ہوجائیں، تب وہ ہندوستان میں رہ سکتے ہیں۔ وہ تمام مسلمان جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں جارح ہیں' اسی طرح جس طرح انگریز ہیں۔ ہر ایک ہمارا دشمن ہے۔ ان دونوں کو تباہ کرنا چاہیے''۔ (لوک مانیہ تلک 1980ء ) ایک اور کٹر مہاسبھائی کا کہنا تھا:''ہندوستان کو نظریہ اور عمل کے لحاظ سے ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے جس کی حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہو''۔ ایک اور کے مطابق: ''مسلمان اپنے آپ کو مسلمانی ہندو کہیں''۔ (ڈاکٹر رادھا ہردیال مکر جی 1905ء ) سوامی شردھانند مہاراج کی یہ تمنا تھی کہ ''میں پچھڑے ہوئے سات کروڑ بھائیوں کو واپس ویدک دھرم میں لاؤں گا''۔
ساورکر نے تو مسلم دشمنی کی انتہا کردی تھی، اس نے کہا کہ ''مسلمان ہندوستان میں ایسا ہے جیسے جرمنی میں یہودی۔ ان کے ساتھ یہودیوں جیسا ہی برتاؤ ہونا چاہیے''۔ ڈاکٹر مونجے نے کہا تھا کہ ''مسلمان یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ان کو ہندو بن کر رہنا ہوگا(ڈاکٹرمونجے) آخر میں ہم ساورکر کی بات پیش کرتے ہیں جس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے ہی ملک میں رہنا کیسا مشکل ہوگیا تھا۔ آئے رو زفسادات کے واقعات رونما ہورہے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف تحریری و تقریری' سیاسی و معاشی مہم جاری تھی۔ ساورکر نے کہا تھا:''ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔ اس میں عام قومیں شہریوں کی طرح تو رہ سکتی ہیں لیکن راج ہندوؤں کا ہی ہوگا۔ کیونکہ وہ اس ملک کے مالک ہیں''۔ ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کرنے 1920ء سے 1940ء کے درمیان ہونے والے فسادات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ''انھیںہندو مسلمان خانہ جنگی سے تعبیر کرنا چاہیے''۔
موتی لال نہرو نے محمد علی جناح سے کہا کہ مسلمان اگر مخلوط انتخاب کا طریقہ مان لیں تو مسلمانوں کے چار مطالبات مان لیے جائیں گے: (1) صوبہ سندھ کی احاطہ بمبئی سے علیحدگی۔ (2) سرحداور بلوچستان کو صوبے کے مساوی درجہ دینا۔ (3) پنجاب اور بنگال میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی دینا۔ (4) مسلمانوں کو مرکز میں ایک تہائی نشستیں حاصل ہونی چاہییں۔
اس پر قائداعظم نے ملک بھر سے تیس سرکردہ مسلمانوں کو بلایا اور اپنا14نکاتی فارمولا پیش کیا۔ مسلمانوں نے یہ14 نکات ہندوؤں کے سامنے پیش کیے۔ کل جماعتی کانفرنس منعقدہ دسمبر 1928ء میں اس کو رد کردیا گیا۔ اس پر محمد علی جناح بہت خفا ہوئے' انہوں نے کہا ''کوئی بھی ملک ہو اپنی اقلیتوں کو تحفظ کی ضمانت دیے بغیر وہ نمائندہ ادارہ قائم نہیں کرسکتا''۔قائداعظم نے اس وقت بڑی سلجھی ہوئی تقریر کی لیکن مسٹر جیکر نے ساری فضا کو اشتعال انگیزی سے بھر دیا۔ اس پر قائداعظم نے کہا:''اس سیاسی جنون کی ساری ذمہ داری صرف مسٹرگاندھی پر عائد ہوتی ہے، وہ ذہنی طور پر مسائل کو سمجھنے میں نااہل ہیں۔
قائداعظم کے چودہ نکاتی پروگرام کی تعریف بہت سے حقیقت پسند رہنماؤں نے کی اور کہا کہ اگر ان چودہ نکات کو مان لیا جاتا توملک تقسیم سے بچ سکتا تھا۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈ کرنے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''ہندؤوں نے اپنی جنونی سیاست میں اس زریں موقع کو کھودیا جو اتفاق کی نہایت مستحکم بنیاد بن سکتا تھا۔ تقسیم ہند میں نہرو رپورٹ کا بھی بڑا اہم کردارہے۔ موتی لال نہرو کو کمیٹی کا صدر بنایا گیا تھا،کانگریس نے نہرو رپورٹ کو قبول کرلیا۔ اس وقت محمد علی جناح ملک سے باہر تھے۔ اس رپورٹ پر مہاسبھائی اثرات صاف نظر آتے ہیں۔
برطانیہ نے ایک وزیر کرپس کو ہندوستان روانہ کیا کہ وہ ہندوستان کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرے۔ کرپس نے 1942ء میں اپنی رپورٹ برطانیہ کو پیش کردی۔ س رپورٹ میں مسلم لیگ کے دو مطالبات تسلیم کرلیے گئے تھے۔ علیحدگی کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا۔ کانگریس اور ہندو مہا سبھا کے لوگوں نے کرپس کی تجاویز کو رد کردیا۔ مسلم لیگ کو بھی تشفی نہیں ہوئی اس نے بھی اس کو رد کردیا۔
تقسیم ملک میں گاندھی جی' جناح مراسلت کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے' اگر یہ مراسلت کامیاب ہوجاتی تو ملک تقسیم سے بچ جاتا۔ گاندھی جی اور قائداعظم کے درمیان راجہ گوپال اچاریہ تھے۔18 اپریل 1942ء میں گوپال اچاریہ نے تقسیم ملک کا فارمولا پیش کیا' اس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ اسے ایک ہندو لیڈر نے قبول کیا۔ یہ مراسلت 17 جولائی1944ء تا 26 دسمبر1946ء کے درمیان ہوئی' مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔ آخر گاندھی جی نے کہا کہ ''کل شب کی گفتگو نے بدمزہ کردیا''۔
گاندھی جی کی شخصیت او رشاطرانہ چالوں کے متعلق قائداعظم نے لکھا:''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ (راجہ جی فارمولا) سے مسٹر گاندھی کا تعلق کس حیثیت سے سمجھا جائے کیونکہ وہ تو کانگریس کے چار آنے والے ممبر تک نہیں ہیں۔ ان کی حیثیتیں متعدد ہیں۔ ان کی ذاتی حیثیت' ان کی کانگریس کے ڈکٹیٹر کی حیثیت اور ان سب سے بلند و بالا ان کا مہاتمائی اور دیو مالائی منصب جس میں وہ اپنی اندرونی آواز پر عمل کرتے ہیں۔ پھر وہ ستیہ گرہی بھی ہیں اور اس کے معانی ومقاصد کے واحد شارح بھی ہیں۔ وہ ہندو نہیں لیکن سناتنی ہیں اور اپنے ایجاد کردہ ہندومت کے پیرو ہیں۔ یہ پتہ لگانا بہت دشوار ہے کہ مسٹر گاندھی کس خاص موقع پر کس حیثیت کو کام میں لائیں گے۔(خط جولائی 1944ء )
قائداعظم نے 14اگست1924ء کو لندن کے 'ڈیلی ہیرالڈ' سے انٹرویو میں کہا:
''نہیں!مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اسے کبھی بھی پاٹا نہیں جا سکتا۔آپ ان لوگوں کو ایک ساتھ اکٹھا کر سکتے ہیں جو ایک چھت کے نیچے کھانا کھانے کے لیے تیار نہیں؟کیا آپ کر سکتے ہیں؟یا مجھے یہ بات اس طرح کہنے دیں کہ ہندو گائے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اس کو کھانا چاہتے ہیں۔پھر مصالحت کہاں ہو سکتی ہے؟''
پھر قائداعظم نے23مارچ1940ء کو لاہور میں منعقدہ تاریخی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
''اس بات کی حوصلہ افزائی کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقی فطرت سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں۔یہ محض الفاظ کی خصوصیت کے اعتبار سے مذاہب نہیں۔بلکہ در حقیقت مختلف اور امتیازی سماجی نظم و ضبط ہیں۔اور یہ ایک خواب ہی ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک یکساں قومیت کو ترقی دے سکتے ہیں۔اور ایک ہندوستانی قوم کا غلط تصور حدود سے تجاوز کر گیا ہے اور ہماری زیادہ تر مشکلات کا سبب ہے اور یہ انڈیا کو تباہی کی طرف لے جائے گا اگر ہم اپنے نظریات پر بر وقت نظر ثانی کرنے میں ناکام رہے۔
ہندواور مسلمان دو علیحدہ مذہبی فلسفوں، معاشرتی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ نہ ہی باہم شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔اور در حقیقت یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بنیادی طور پر اساس مختلف تصورات پر ہے۔زندگی پر اور زندگی کے بارے میں ان کے پہلو مختلف ہیں۔یہ قطعی طور پر واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تا ریخ کے مختلف سر چشموں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ان کی اپنی علیحدہ رزمیہ روایات ہیں،ان کے محبوب و مقبول اور سلسلہ واقعات الگ الگ ہیں۔زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ ایک کا محبوب دوسرے کا دشمن ہے اور اس طرح ان کی فتوحات اور شکستیں متراکب ہیں۔ یقینی طورایسی دو اقوام کو ایک ریاست کے تحت ملا دینا ایک کو عددی اقلیت اور دوسری کو اکثریت کے طور پر، بڑھتے ہوئے اضطراب اور اس معاشرتی ڈھانچے کی مکمل تباہی کی طرف لے جائے گاجو ایسی ریاست کی حکومت کے لیے بنایا گیا ہو۔''
قیام پاکستان کے بعد اب تک ، بھارت میں ہرلمحہ ثابت ہوا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان قائم کرکے ایک بہترین اقدام کیاتھا ورنہ آج کلکتہ سے کراچی اور خیبر تک مسلمان ہندوؤں کے ہاتھوں بعینہ اسی طرح قتل کئے جاتے جس طرح لاکھوں کی تعدادمیں اب تک بھارت میں قتل ہوچکے ہیں، ان کے گھر جلائے گئے، انھیں جائیدادوں سے محروم کردیاگیا۔ وہ اب مجبورمحض بن کر زندگی بسر کررہے ہیں۔
بھارت کے قیام کے فوراً بعد 1948ء میں ریاست حیدرآباد میں ڈھائی لاکھ مسلمان محض اس بنیاد پر قتل کئے گئے کہ وہ مسلمان تھے اور انھیں قتل کرنے والے چاہتے تھے کہ ان کا ملک ایک ہندوسٹیٹ ہی بنے۔آنے والے برسوں میں بھی کلکتہ سے گجرات تک مسلمانوں کے قتل عام کی ایسی خونچکاں داستانیں لکھی گئیں کہ برصغیر کی تاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مقتدرطبقہ بھی ان لوگوں کو سرآنکھوں پر بٹھاتاہے جو دوقومی نظریہ پر یقین نہیں رکھتے اور قوم کو ان سوالات میں الجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ درست تھا یا غلط؟ یہ لوگ دوقومی نظریہ کا 'ابطال' کرکے قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی قیادت میں جدوجہد کرنے والوں کی ساری محنت اور قربانیوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کھلی چھٹی دینے کا دوسرا مطلب یوں ہوا کہ مقتدرطبقہ کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان قائم ہوناچاہئے تھا یا نہیں، اگرہوا تو کس بنیاد پر ہوا۔
سوال یہ ہے کہ اگرابھی تک یہی طے نہیں ہوسکا تو پھر تعمیر وطن کس بنیاد پر کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟کیا کبھی بغیر کسی نظریہ کے وطن کی تعمیر ہوسکتی ہے؟ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اور اس کی قیادت دوقومی نظریہ کو اپنے اذہان وقلوب میں راسخ کرتے ہوئے تعمیر وطن کے لئے کام کرے، یقینا ً بہت جلد ہم دنیا کی مضبوط ترین قوم بن کر ابھریں گے۔
ایسے سوالات اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جو قوموں کا وجود وطن کی بنیاد پر دیکھتے ہیں نہ کہ دین کی بنیاد پر۔ اگرقومیت کی بنیاد وطن کو قراردیاجائے تو کم ازکم بھارت کی تاریخ میں یہ خیال ایک حقیقت بنتا تاہم ایک طفل مکتب بھی دیکھ سکتاہے کہ بھارت میں1947ء سے پہلے بھی یہ خیال غلط ثابت ہوا اور اس کے بعد بھی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت سے ہرکوئی واقف ہے، وہ اپنی شعوری زندگی کے پہلے دور میں مسلم ہندواتحاد کے علمبردار رہے تھے۔ اس نکتہ پر وطنیت کا نظریہ رکھنے والے بھی اختلاف نہیں کرسکتے۔ سن 1924ء تک وہ بدستور نیشنلسٹ تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔تاہم پھر ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنیاد پر انھوں نے اپنے نظریات کی ازسرنو تشکیل کی۔ مثلاً ناگپور اجلاس میں ان کی توہین کی گئی، وہاں انھیںخطاب نہیں کرنے دیا گیا' بار بار بیٹھ جانے کو کہا گیا'انھوں نے''مسٹر گاندھی'' کے الفاظ بولے تو اس پر اعتراض کیا گیا۔
تحریک خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، جگہ جگہ (نعوذ باللہ) اہانت رسولﷺ کی مہم چلائی جانے لگی۔اس سے اندازہ کیجئے کہ ہندوستان میں وہ گروہ کس ذہنیت کا تھا جس کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے کی ہمیں تلقین کی جاتی تھی اور اب بھی کی جاتی ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جنھوں نے قائداعظم کے دل ودماغ کو تبدیل کردیا۔ نتیجتاًانہوں نے1926ء میں کہا کہ ''اس حقیقت سے راہِ فرار ممکن نہیں کہ فرقہ واریت اس ملک میں موجود ہے۔ محض جذبات اور امتداد زمانہ سے یہ رفع نہیں ہوسکتی''۔
پھر نہرو رپورٹ سامنے آگئی۔ اس میں مسلمانوں کا کوئی لحاظ نہ رکھاگیا۔جداگانہ طریق انتخاب ختم کرنے کی بات کی گئی، ہندوستان کے لیے وفاقی طرز حکومت کی بجائے وحدانی طرز حکومت کی سفارش کی گئی، مکمل آزادی کی بجائے نوآبادیاتی طرز آزادی کے لیے کہا گیا اور ہندی کو ہندوستان کی سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ 1916ء میں معاہدہ لکھنو میں کانگریس نے مسلم لیگ کے جن مطالبات کو منظورکیاتھا، اب ان سے انحراف کیاگیا۔ اس کے بعددسمبر 1928ء میں آل پارٹیز کانفرنس بمقام کلکتہ منعقد ہوئی، اس میںقائداعظم نے 'چودہ نکات' پیش کیے جنھیں انتہا پسند ہندوؤں نے مستردکردیا' مزید یہ کہ قائد اعظم پر طعن و تشنیع کی گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب ان کا دل ہندوؤں سے بیزار ہوگیا اور ہندوؤں نے ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ زندگی نہیں بسرکرناچاہتے۔ یہی وجہ ے کہ قائداعظم جب کلکتہ سے روانہ ہوتے ہوئے تو انھوں نے جمشید جی نوشیروان جی کا ہاتھ پکڑا اور کہا ''اب جدائی کا آغاز ہے''۔
اس کے بعد تیسری گول میز کانفرنس (منعقدہ سات نومبر تا 24 دسمبر1932ء) لندن میںہوئی، قائداعظم ان دنوں وہیں مقیم تھے لیکن وہ اس میں ایک لمحہ کے لئے بھی شریک نہیں ہوئے۔ ان کا یہ طرزعمل بھی ثابت کرتاہے کہ وہ اپنے سابقہ نظریات سے مکمل طور پر پیچھے ہٹ چکے تھے۔ انہوں نے کہا ''عین خطرے کے سامنے ہندو جذبات' ہندو ذہن اور ہندو رویے نے مجھے اتحاد سے بالکل مایوس کردیا''۔ یوں کانگریسی وزراء کے طرز عمل سے ان کی مایوسی کا آغاز 1920ء میں ہوا اور 1938ء تک اس نے ایک نئے نتیجے کی صورت اختیار کرلی۔
23 مارچ1940ء کو تاریخی شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ وہاں وہ تاریخی قرارداد پاس ہوئی جس میں مسلم لیگ نے ہندوستانی مسلمانوں کا ملک میں آئندہ سیاسی نصب العین آزاد و خودمختار ریاست کا قیام قرار دیا جس کے الفاظ یہ ہیں :''آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ جب تک دستوری منصوبے میں درج ذیل اصول شامل نہ کیے جائیں اور اس پر ملک میں عملدرآمد نہ کیا جائے' اس وقت تک وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوگا''۔کانگریس نے اس قرارداد لاہور یا قراردادپاکستان کو بھی فوراً مسترد کردیا۔
ایک بھارتی مصنف عبدالقیوم ندوی نے ایک بھارتی جریدے'دعوت' میں اپنے مضمون میں لکھا کہ ''ملک کی تقسیم میں ہندو مہاسبھائیوں کا بڑا اہم کردار ہے' جس نے قیام پاکستان کی تحریک کو فروغ دینے میں کافی حصہ لیا۔ انہوں نے ملک میں ایسے حالات پیدا کردیے کہ یا تو مسلمان ہندو بن جائیں یا پھر ملک سے نقل مکانی کریں۔ ان کی کئی تنظیمیں اس کام کے لیے لگی ہوئی تھیں۔ شدھی سنگٹھن مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنارہی تھی، متعدد مسلمانوں کو ہندو بنادیا گیا''۔
''آریہ سماج کے لوگ بھی ملک میں گھوم گھوم کر اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے تھے۔ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں میں کام شروع کیا گیا جہاں کے لوگوں کا طرز زندگی ہندوؤں سے زیادہ میل کھاتا تھا۔ جیسے مالکانہ راجپوتانہ (آگرہ)' میو (الور اور بھرت پور) شیخ (لاڑکانہ) ان لوگوں کو خوف یا لالچ دے کر ہندو بنانے کی زبردست تحریک چلائی جانے لگی۔ شدھی سنگٹھن کے بانی دیانند سرسوتی تھے۔ ہندومہاسبھا کی بنیاد1915 ء میں ڈالی گئی' ساورکر اس کے صدر منتخب ہوئے ڈاکٹر مونجے مرہنہ اور لالہ الجپت رائے لاہوری وغیرہ اس کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ہیں۔ ان لوگوں کے پیش نظر ہندوستان میں خالص ہندو حکومت قائم کرنا تھا۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم کا ذکر عوامی جلسوں اور جلوسوں میں کیا کرتے تھے ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمایئے:
وہ کہتے تھے کہ ''مسلمان اپنے مذہب' اپنی تہذیب' اپنی زبان سے عاری ہوجائیں، تب وہ ہندوستان میں رہ سکتے ہیں۔ وہ تمام مسلمان جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں جارح ہیں' اسی طرح جس طرح انگریز ہیں۔ ہر ایک ہمارا دشمن ہے۔ ان دونوں کو تباہ کرنا چاہیے''۔ (لوک مانیہ تلک 1980ء ) ایک اور کٹر مہاسبھائی کا کہنا تھا:''ہندوستان کو نظریہ اور عمل کے لحاظ سے ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے جس کی حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہو''۔ ایک اور کے مطابق: ''مسلمان اپنے آپ کو مسلمانی ہندو کہیں''۔ (ڈاکٹر رادھا ہردیال مکر جی 1905ء ) سوامی شردھانند مہاراج کی یہ تمنا تھی کہ ''میں پچھڑے ہوئے سات کروڑ بھائیوں کو واپس ویدک دھرم میں لاؤں گا''۔
ساورکر نے تو مسلم دشمنی کی انتہا کردی تھی، اس نے کہا کہ ''مسلمان ہندوستان میں ایسا ہے جیسے جرمنی میں یہودی۔ ان کے ساتھ یہودیوں جیسا ہی برتاؤ ہونا چاہیے''۔ ڈاکٹر مونجے نے کہا تھا کہ ''مسلمان یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ان کو ہندو بن کر رہنا ہوگا(ڈاکٹرمونجے) آخر میں ہم ساورکر کی بات پیش کرتے ہیں جس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے ہی ملک میں رہنا کیسا مشکل ہوگیا تھا۔ آئے رو زفسادات کے واقعات رونما ہورہے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف تحریری و تقریری' سیاسی و معاشی مہم جاری تھی۔ ساورکر نے کہا تھا:''ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔ اس میں عام قومیں شہریوں کی طرح تو رہ سکتی ہیں لیکن راج ہندوؤں کا ہی ہوگا۔ کیونکہ وہ اس ملک کے مالک ہیں''۔ ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کرنے 1920ء سے 1940ء کے درمیان ہونے والے فسادات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ''انھیںہندو مسلمان خانہ جنگی سے تعبیر کرنا چاہیے''۔
موتی لال نہرو نے محمد علی جناح سے کہا کہ مسلمان اگر مخلوط انتخاب کا طریقہ مان لیں تو مسلمانوں کے چار مطالبات مان لیے جائیں گے: (1) صوبہ سندھ کی احاطہ بمبئی سے علیحدگی۔ (2) سرحداور بلوچستان کو صوبے کے مساوی درجہ دینا۔ (3) پنجاب اور بنگال میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی دینا۔ (4) مسلمانوں کو مرکز میں ایک تہائی نشستیں حاصل ہونی چاہییں۔
اس پر قائداعظم نے ملک بھر سے تیس سرکردہ مسلمانوں کو بلایا اور اپنا14نکاتی فارمولا پیش کیا۔ مسلمانوں نے یہ14 نکات ہندوؤں کے سامنے پیش کیے۔ کل جماعتی کانفرنس منعقدہ دسمبر 1928ء میں اس کو رد کردیا گیا۔ اس پر محمد علی جناح بہت خفا ہوئے' انہوں نے کہا ''کوئی بھی ملک ہو اپنی اقلیتوں کو تحفظ کی ضمانت دیے بغیر وہ نمائندہ ادارہ قائم نہیں کرسکتا''۔قائداعظم نے اس وقت بڑی سلجھی ہوئی تقریر کی لیکن مسٹر جیکر نے ساری فضا کو اشتعال انگیزی سے بھر دیا۔ اس پر قائداعظم نے کہا:''اس سیاسی جنون کی ساری ذمہ داری صرف مسٹرگاندھی پر عائد ہوتی ہے، وہ ذہنی طور پر مسائل کو سمجھنے میں نااہل ہیں۔
قائداعظم کے چودہ نکاتی پروگرام کی تعریف بہت سے حقیقت پسند رہنماؤں نے کی اور کہا کہ اگر ان چودہ نکات کو مان لیا جاتا توملک تقسیم سے بچ سکتا تھا۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈ کرنے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''ہندؤوں نے اپنی جنونی سیاست میں اس زریں موقع کو کھودیا جو اتفاق کی نہایت مستحکم بنیاد بن سکتا تھا۔ تقسیم ہند میں نہرو رپورٹ کا بھی بڑا اہم کردارہے۔ موتی لال نہرو کو کمیٹی کا صدر بنایا گیا تھا،کانگریس نے نہرو رپورٹ کو قبول کرلیا۔ اس وقت محمد علی جناح ملک سے باہر تھے۔ اس رپورٹ پر مہاسبھائی اثرات صاف نظر آتے ہیں۔
برطانیہ نے ایک وزیر کرپس کو ہندوستان روانہ کیا کہ وہ ہندوستان کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرے۔ کرپس نے 1942ء میں اپنی رپورٹ برطانیہ کو پیش کردی۔ س رپورٹ میں مسلم لیگ کے دو مطالبات تسلیم کرلیے گئے تھے۔ علیحدگی کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا۔ کانگریس اور ہندو مہا سبھا کے لوگوں نے کرپس کی تجاویز کو رد کردیا۔ مسلم لیگ کو بھی تشفی نہیں ہوئی اس نے بھی اس کو رد کردیا۔
تقسیم ملک میں گاندھی جی' جناح مراسلت کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے' اگر یہ مراسلت کامیاب ہوجاتی تو ملک تقسیم سے بچ جاتا۔ گاندھی جی اور قائداعظم کے درمیان راجہ گوپال اچاریہ تھے۔18 اپریل 1942ء میں گوپال اچاریہ نے تقسیم ملک کا فارمولا پیش کیا' اس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ اسے ایک ہندو لیڈر نے قبول کیا۔ یہ مراسلت 17 جولائی1944ء تا 26 دسمبر1946ء کے درمیان ہوئی' مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔ آخر گاندھی جی نے کہا کہ ''کل شب کی گفتگو نے بدمزہ کردیا''۔
گاندھی جی کی شخصیت او رشاطرانہ چالوں کے متعلق قائداعظم نے لکھا:''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ (راجہ جی فارمولا) سے مسٹر گاندھی کا تعلق کس حیثیت سے سمجھا جائے کیونکہ وہ تو کانگریس کے چار آنے والے ممبر تک نہیں ہیں۔ ان کی حیثیتیں متعدد ہیں۔ ان کی ذاتی حیثیت' ان کی کانگریس کے ڈکٹیٹر کی حیثیت اور ان سب سے بلند و بالا ان کا مہاتمائی اور دیو مالائی منصب جس میں وہ اپنی اندرونی آواز پر عمل کرتے ہیں۔ پھر وہ ستیہ گرہی بھی ہیں اور اس کے معانی ومقاصد کے واحد شارح بھی ہیں۔ وہ ہندو نہیں لیکن سناتنی ہیں اور اپنے ایجاد کردہ ہندومت کے پیرو ہیں۔ یہ پتہ لگانا بہت دشوار ہے کہ مسٹر گاندھی کس خاص موقع پر کس حیثیت کو کام میں لائیں گے۔(خط جولائی 1944ء )
قائداعظم نے 14اگست1924ء کو لندن کے 'ڈیلی ہیرالڈ' سے انٹرویو میں کہا:
''نہیں!مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اسے کبھی بھی پاٹا نہیں جا سکتا۔آپ ان لوگوں کو ایک ساتھ اکٹھا کر سکتے ہیں جو ایک چھت کے نیچے کھانا کھانے کے لیے تیار نہیں؟کیا آپ کر سکتے ہیں؟یا مجھے یہ بات اس طرح کہنے دیں کہ ہندو گائے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اس کو کھانا چاہتے ہیں۔پھر مصالحت کہاں ہو سکتی ہے؟''
پھر قائداعظم نے23مارچ1940ء کو لاہور میں منعقدہ تاریخی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
''اس بات کی حوصلہ افزائی کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقی فطرت سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں۔یہ محض الفاظ کی خصوصیت کے اعتبار سے مذاہب نہیں۔بلکہ در حقیقت مختلف اور امتیازی سماجی نظم و ضبط ہیں۔اور یہ ایک خواب ہی ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک یکساں قومیت کو ترقی دے سکتے ہیں۔اور ایک ہندوستانی قوم کا غلط تصور حدود سے تجاوز کر گیا ہے اور ہماری زیادہ تر مشکلات کا سبب ہے اور یہ انڈیا کو تباہی کی طرف لے جائے گا اگر ہم اپنے نظریات پر بر وقت نظر ثانی کرنے میں ناکام رہے۔
ہندواور مسلمان دو علیحدہ مذہبی فلسفوں، معاشرتی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ نہ ہی باہم شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔اور در حقیقت یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بنیادی طور پر اساس مختلف تصورات پر ہے۔زندگی پر اور زندگی کے بارے میں ان کے پہلو مختلف ہیں۔یہ قطعی طور پر واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تا ریخ کے مختلف سر چشموں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ان کی اپنی علیحدہ رزمیہ روایات ہیں،ان کے محبوب و مقبول اور سلسلہ واقعات الگ الگ ہیں۔زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ ایک کا محبوب دوسرے کا دشمن ہے اور اس طرح ان کی فتوحات اور شکستیں متراکب ہیں۔ یقینی طورایسی دو اقوام کو ایک ریاست کے تحت ملا دینا ایک کو عددی اقلیت اور دوسری کو اکثریت کے طور پر، بڑھتے ہوئے اضطراب اور اس معاشرتی ڈھانچے کی مکمل تباہی کی طرف لے جائے گاجو ایسی ریاست کی حکومت کے لیے بنایا گیا ہو۔''
قیام پاکستان کے بعد اب تک ، بھارت میں ہرلمحہ ثابت ہوا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان قائم کرکے ایک بہترین اقدام کیاتھا ورنہ آج کلکتہ سے کراچی اور خیبر تک مسلمان ہندوؤں کے ہاتھوں بعینہ اسی طرح قتل کئے جاتے جس طرح لاکھوں کی تعدادمیں اب تک بھارت میں قتل ہوچکے ہیں، ان کے گھر جلائے گئے، انھیں جائیدادوں سے محروم کردیاگیا۔ وہ اب مجبورمحض بن کر زندگی بسر کررہے ہیں۔
بھارت کے قیام کے فوراً بعد 1948ء میں ریاست حیدرآباد میں ڈھائی لاکھ مسلمان محض اس بنیاد پر قتل کئے گئے کہ وہ مسلمان تھے اور انھیں قتل کرنے والے چاہتے تھے کہ ان کا ملک ایک ہندوسٹیٹ ہی بنے۔آنے والے برسوں میں بھی کلکتہ سے گجرات تک مسلمانوں کے قتل عام کی ایسی خونچکاں داستانیں لکھی گئیں کہ برصغیر کی تاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مقتدرطبقہ بھی ان لوگوں کو سرآنکھوں پر بٹھاتاہے جو دوقومی نظریہ پر یقین نہیں رکھتے اور قوم کو ان سوالات میں الجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ درست تھا یا غلط؟ یہ لوگ دوقومی نظریہ کا 'ابطال' کرکے قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی قیادت میں جدوجہد کرنے والوں کی ساری محنت اور قربانیوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کھلی چھٹی دینے کا دوسرا مطلب یوں ہوا کہ مقتدرطبقہ کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان قائم ہوناچاہئے تھا یا نہیں، اگرہوا تو کس بنیاد پر ہوا۔
سوال یہ ہے کہ اگرابھی تک یہی طے نہیں ہوسکا تو پھر تعمیر وطن کس بنیاد پر کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟کیا کبھی بغیر کسی نظریہ کے وطن کی تعمیر ہوسکتی ہے؟ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اور اس کی قیادت دوقومی نظریہ کو اپنے اذہان وقلوب میں راسخ کرتے ہوئے تعمیر وطن کے لئے کام کرے، یقینا ً بہت جلد ہم دنیا کی مضبوط ترین قوم بن کر ابھریں گے۔