محکمہ تعلیم سندھ میں اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف اہم شخصیات معاملہ چھپانے کیلیے سرگرم
ای ایم آئی ایس پروجیکٹ کی ناکامی میں قواعد وضوابط کی سنگین خلاف بھی شامل، سامان کی خریداری میں قوانین نظراندازکیے گئے
سندھ کی اہم شخصیات نے محکمہ تعلیم میں اربوں روپے کی کرپشن کو چھپانے کیلیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آئی بی اے سکھر کی تشخیصی ٹیم کی جانب سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں ای ایم آئی ایس پروجیکٹ ، ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سندھ میں اربوں روپے کی لاگت سے شروع کیے جانے والے منصوبے میں بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
منصوبہ ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کو ڈیجیٹلائز تبدیلی کے تحت کسٹمر ریلیشن شپ مینجمنٹ ( سی آر ایم) اور برنس انٹیلی جنس( بی آئی) کو متعارف کرانے کے لیے ڈائزین کیا گیا تھا تاہم اس کے لیے اسٹیک ہولڈرز کو لاتعلق رکھا گیا، دو مرحلوں میں مکمل کیا جانے والا منصوبہ پہلے ہی مرحلے میں ناکامی سے دوچار ہوگیا،رپورٹ نے سندھ حکومت کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔
سندھ حکومت کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ نے2014 میں 3885.85ملین کی لاگت سے ای ایم آئی ایس پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد پورے ڈپارٹمنٹ کو مؤثر معلومات کا نظام فراہم کرنا تھا ، پروجیکٹ کی تکمیل دو مراحلے میں(2014-15سے2016-17) میں مکمل کی جانا تھی پہلے منصوبے کا آغاز تقریباً500 ملین روپے سے کیا گیا تھا، اس مرحلے میں پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ( پی ایم یو) ،40 آئی سی ٹی( لیب) اکیڈمیز کا قیام ،2 اوبی وینز کی خریداری، ڈیٹا آرکائیونگ اوردستاویزات کی سیکیورٹی کا نظام بنانا شامل تھا ۔
رپورٹ کے مطابق اوبی وینز کی خریداری کے لیے منظور کردہ لاگت22,660,000 تھی جبکہ اصل اخراجات 17,536,000 روپے کے ہوئے اوبی وینز کی خریداری کا کام میسرز سیفیرکو دیا گیا، ڈیٹا آرکائیوئنگ اینڈ ڈیٹا سیکیورٹی کا ٹھیکہ میسرز اے جی سی این کو70,235,000 میں دیا گیا جبکہ اصل لاگت69,900,000 ہے، آئی سی ٹی اکیڈمیز کی تشکیل کا کام میسرز سوشیو انجینئرنگ کنسلٹنٹس کو دیا گیا جس پر248,839,520اخراجات آئے جبکہ 243,327,000 روپے کے اصل اخراجات تھے ۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے کی ناکامی کے بڑے اسباب میں قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزی ، وسائل کا غلط استعمال ، اسٹاف کی کمی ، پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے متعلقہ فورمز کے غیر فعال ہونے اور دیگرعوامل شامل ہیں جبکہ رپورٹ میں چند سرگرمیوں کے لیے پراسرار ہینڈلنگ کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ منصوبے کے لیے سامان کی خریداری کے لیے ایس پی پی آر اے کے قوانین کو نظر انداز کیا گیا۔
ترسیل چالان کی کاپیوں کے مطابق متعلقہ وینڈر نے نے تمام سامان ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کو فراہم کیا جسے عبدالعظیم نامی افسر نے وصول کیا تاہم تحریری بیان کی نقل کے مطابق انھوں نے وصول نہیں کیا تاہم اکائونٹنٹ جنرل سندھ کو کو جمع کرانے لیے صرف تمام رسیدوں پر دستخط کیے جس سے دستاویزات کی صداقت پر سنگین سوالات پیدا ہوئے۔
رپورٹ میں منصوبے کی ناکامی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کے بغیر یہ منصوبہ شروع کیا گیا جس کی وجہ سے ابتدا سے ہی ناکامی اور بدانتظامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ پی سی 1 میں موجود مصنوعات کی جو خصوصیات بتائی گئی تھیں، حقیقی طور پر وہ نہیں تھیں، مثال کے طور پر اسکیننگ سافٹ ویئر میں بہت سی چیزیں نامکمل تھیں، اوبی وینز بھی خریدی گئیں لیکن وہ کافی عرصے سے غیر فعال تھیں ، ان کے لیے ضروری عملہ بھی نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے اوبی وینز کے ذریعے جو معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں وہ نہیں ملیں ۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے کی ادائیگیوں کے حوالے سے بھی معاملات شفاف نہیں ہیں، تشخصی ٹیم نے ادائیگیوں کا ریکارڈ پہلے روز ہی طلب کیا تھا لیکن وہ فراہم نہیں کیا گیا ۔ رپورٹ میں منصوبے کی ناکامی کے حوالے سے تجاویز دی گئی ہیں کہ مطلوبہ نتائج کے حصول کیلیے مناسب نظام ضروری ہے جبکہ یہ منصوبہ اس وقت ہی اپنے مکمل نتائج دے پائے گا جب احتساب اور نگرانی کا مؤثر طریقہ کار اپنایا جائے ۔
تعلیم ای گورننس پی ایم یو کے لیے پی سی ون کی منظور شدہ رقم15,291,000 تھی جبکہ میسرز جعفر ،میسرز سیفیر، میسرز ٹیکسٹ میسرز ایلیٹ کے ذریعے مشینری ، آلات، سافت، سی آر ایم اور سول ورکس پر کل اخراجات کی مالیت143,489,956 رہی۔ رپورٹ کے مطابق جو مصنوعات خریدی گئیں۔ ان کا مارکیٹ میں موجود معیاری سی آر ایم کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا نہ ہی ورک آرڈر میں مصنوعات کی فعالیت اور اشیا کے بارے میں کوئی وضاحت کی گئی ہے۔
فراہم کی گئی اوبی وینز کے متعلق یہ معلومات بھی فراہم نہیں کی گئیں کہ انھوں نے کن اسکولوں کا دورہ کیا کیونکہ ان وینز کی ریڈنگ کے مطابق دور دراز کے علاقائی اسکولوں کا کوئی دورہ نہیں کیا گیا۔ اوبی وینز اور ان میں موجود آلات کی خریداری پر بھاری سرمایہ کاری کی گئی اس کے باوجود مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تشخیصی ٹیم نے جعفربرادرز کی جانب سے فراہم کردہ کمپیوٹر ہارڈویئر کو جائزہ لینے کے بعد درست قرار دیا ۔
آئی بی اے سکھر کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ محکمہ تعلیم کو موصول ہونے کے باوجود ملوث حکام کے خلاف کارروائی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے ۔ اس سلسلے میں ایکسپریس نے متعلقہ حکام سے موقف کے لیے فون پر رابطہ کیا مگر جواب نہیں ملا اس کے علاوہ واٹس ایپ پر بھیجے گئے مسیج کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
آئی بی اے سکھر کی تشخیصی ٹیم کی جانب سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں ای ایم آئی ایس پروجیکٹ ، ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سندھ میں اربوں روپے کی لاگت سے شروع کیے جانے والے منصوبے میں بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
منصوبہ ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کو ڈیجیٹلائز تبدیلی کے تحت کسٹمر ریلیشن شپ مینجمنٹ ( سی آر ایم) اور برنس انٹیلی جنس( بی آئی) کو متعارف کرانے کے لیے ڈائزین کیا گیا تھا تاہم اس کے لیے اسٹیک ہولڈرز کو لاتعلق رکھا گیا، دو مرحلوں میں مکمل کیا جانے والا منصوبہ پہلے ہی مرحلے میں ناکامی سے دوچار ہوگیا،رپورٹ نے سندھ حکومت کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔
سندھ حکومت کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ نے2014 میں 3885.85ملین کی لاگت سے ای ایم آئی ایس پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد پورے ڈپارٹمنٹ کو مؤثر معلومات کا نظام فراہم کرنا تھا ، پروجیکٹ کی تکمیل دو مراحلے میں(2014-15سے2016-17) میں مکمل کی جانا تھی پہلے منصوبے کا آغاز تقریباً500 ملین روپے سے کیا گیا تھا، اس مرحلے میں پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ( پی ایم یو) ،40 آئی سی ٹی( لیب) اکیڈمیز کا قیام ،2 اوبی وینز کی خریداری، ڈیٹا آرکائیونگ اوردستاویزات کی سیکیورٹی کا نظام بنانا شامل تھا ۔
رپورٹ کے مطابق اوبی وینز کی خریداری کے لیے منظور کردہ لاگت22,660,000 تھی جبکہ اصل اخراجات 17,536,000 روپے کے ہوئے اوبی وینز کی خریداری کا کام میسرز سیفیرکو دیا گیا، ڈیٹا آرکائیوئنگ اینڈ ڈیٹا سیکیورٹی کا ٹھیکہ میسرز اے جی سی این کو70,235,000 میں دیا گیا جبکہ اصل لاگت69,900,000 ہے، آئی سی ٹی اکیڈمیز کی تشکیل کا کام میسرز سوشیو انجینئرنگ کنسلٹنٹس کو دیا گیا جس پر248,839,520اخراجات آئے جبکہ 243,327,000 روپے کے اصل اخراجات تھے ۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے کی ناکامی کے بڑے اسباب میں قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزی ، وسائل کا غلط استعمال ، اسٹاف کی کمی ، پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے متعلقہ فورمز کے غیر فعال ہونے اور دیگرعوامل شامل ہیں جبکہ رپورٹ میں چند سرگرمیوں کے لیے پراسرار ہینڈلنگ کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ منصوبے کے لیے سامان کی خریداری کے لیے ایس پی پی آر اے کے قوانین کو نظر انداز کیا گیا۔
ترسیل چالان کی کاپیوں کے مطابق متعلقہ وینڈر نے نے تمام سامان ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کو فراہم کیا جسے عبدالعظیم نامی افسر نے وصول کیا تاہم تحریری بیان کی نقل کے مطابق انھوں نے وصول نہیں کیا تاہم اکائونٹنٹ جنرل سندھ کو کو جمع کرانے لیے صرف تمام رسیدوں پر دستخط کیے جس سے دستاویزات کی صداقت پر سنگین سوالات پیدا ہوئے۔
رپورٹ میں منصوبے کی ناکامی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کے بغیر یہ منصوبہ شروع کیا گیا جس کی وجہ سے ابتدا سے ہی ناکامی اور بدانتظامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ پی سی 1 میں موجود مصنوعات کی جو خصوصیات بتائی گئی تھیں، حقیقی طور پر وہ نہیں تھیں، مثال کے طور پر اسکیننگ سافٹ ویئر میں بہت سی چیزیں نامکمل تھیں، اوبی وینز بھی خریدی گئیں لیکن وہ کافی عرصے سے غیر فعال تھیں ، ان کے لیے ضروری عملہ بھی نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے اوبی وینز کے ذریعے جو معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں وہ نہیں ملیں ۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے کی ادائیگیوں کے حوالے سے بھی معاملات شفاف نہیں ہیں، تشخصی ٹیم نے ادائیگیوں کا ریکارڈ پہلے روز ہی طلب کیا تھا لیکن وہ فراہم نہیں کیا گیا ۔ رپورٹ میں منصوبے کی ناکامی کے حوالے سے تجاویز دی گئی ہیں کہ مطلوبہ نتائج کے حصول کیلیے مناسب نظام ضروری ہے جبکہ یہ منصوبہ اس وقت ہی اپنے مکمل نتائج دے پائے گا جب احتساب اور نگرانی کا مؤثر طریقہ کار اپنایا جائے ۔
تعلیم ای گورننس پی ایم یو کے لیے پی سی ون کی منظور شدہ رقم15,291,000 تھی جبکہ میسرز جعفر ،میسرز سیفیر، میسرز ٹیکسٹ میسرز ایلیٹ کے ذریعے مشینری ، آلات، سافت، سی آر ایم اور سول ورکس پر کل اخراجات کی مالیت143,489,956 رہی۔ رپورٹ کے مطابق جو مصنوعات خریدی گئیں۔ ان کا مارکیٹ میں موجود معیاری سی آر ایم کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا نہ ہی ورک آرڈر میں مصنوعات کی فعالیت اور اشیا کے بارے میں کوئی وضاحت کی گئی ہے۔
فراہم کی گئی اوبی وینز کے متعلق یہ معلومات بھی فراہم نہیں کی گئیں کہ انھوں نے کن اسکولوں کا دورہ کیا کیونکہ ان وینز کی ریڈنگ کے مطابق دور دراز کے علاقائی اسکولوں کا کوئی دورہ نہیں کیا گیا۔ اوبی وینز اور ان میں موجود آلات کی خریداری پر بھاری سرمایہ کاری کی گئی اس کے باوجود مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تشخیصی ٹیم نے جعفربرادرز کی جانب سے فراہم کردہ کمپیوٹر ہارڈویئر کو جائزہ لینے کے بعد درست قرار دیا ۔
آئی بی اے سکھر کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ محکمہ تعلیم کو موصول ہونے کے باوجود ملوث حکام کے خلاف کارروائی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے ۔ اس سلسلے میں ایکسپریس نے متعلقہ حکام سے موقف کے لیے فون پر رابطہ کیا مگر جواب نہیں ملا اس کے علاوہ واٹس ایپ پر بھیجے گئے مسیج کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔