پنجاب میں موسمیاتی تبدیلی اور دیگر عوامل سے جنگلی حیات بھی شدید متاثر

گزشتہ 30 برس کے دوران مہاجر پرندوں کی آبادی میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے

دنیا میں مہاجر پرندوں کی 40 فیصد سے زائد اقسام کی کمی واقع ہو چکی ہے فوٹو: فائل

HYDERABAD:
موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیاتی آلودگی، بڑھتی ہوئی شہری آبادی اورفصلوں پرزہروں کے بے دریغ استعمال سے جہاں انسان متاثر ہورہے ہیں وہیں جنگلی حیات پربھی انتہائی مضراثرات سامنے آئے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیوایف کے کنٹری ڈائریکٹر حماد نقی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی اس وقت پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک چیلنج بناہوا ہے، انسان اس قدرتی تبدیلی کو روک نہیں سکتے لیکن اس کے اثرات کو مختلف اقدامات سے کم ضرورکیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ویسے تو انسانوں اور جنگلی حیات سب پر ہی مرتب ہوئے ہیں تاہم اگر ہم پرندوں کی بات کریں تو پاکستان میں ہرسال لاکھوں مہاجر پرندے سائبیریا اور دیگر روسی ریاستوں سے ہزاروں کلومیٹرکا سفرطے کرکے پہنچتے ہیں۔ ان پرندوں کی پاکستان میں آمد ستمبرمیں شروع ہوتی اور پھر مارچ کے وسط تک واپسی مکمل ہوجاتی ہے لیکن اب پاکستان میں غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے ان کی واپسی میں تقریبا ایک ماہ کا فرق پڑچکا ہے اب بھی پنجاب کی مختلف جھیلوں اور آبی گزرگاہوں پر ہزاروں مہاجر پرندے دکھائی دیتے ہیں، توقع کی جارہی ہے کہ ان کی واپسی اب مارچ کی بجائے اپریل میں مکمل ہوجائے گی۔



پرندوں پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں مہاجر پرندوں کی 40 فیصد سے زائد اقسام کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ گزشتہ 30 برس کے دوران مہاجر پرندوں کی آبادی میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اور ان میں سے بہت سے پرندے اب معدومی کا شکار ہیں۔ مزید براں دنیا کے 90 فیصد سے زائد مہاجر پرندے انسانی سرگرمیوں کے باعث غیر محفوظ صورتحال اور اپنی بقاء کی مربوط کوششوں کی کمی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں پرندوں کی 668 اقسام پائی جاتی ہیں جب کہ جامعہ پنجاب کے شعبہ زوالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کے مطابق ملک میں مہاجر پرندوں کی 380اقسام آتی ہیں۔ جن میں نمایاں تلور،عقاب، مختلف طرح کی چھوٹی بڑی مرغابیاںاور بطخیں، کونج ، ہنس، نیل سر، سرخاب، مگ اور دیگر آبی پرندے شامل ہیں
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے ڈائریکٹر محمد نعیم بھٹی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عام طور پر دو اقسام کے پرندے ہیں ، ایک وہ جو پاکستان میں مقامی طور پر پائے جاتے ہیں اور دوسرے مہاجر پرندے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مقامی پرندوں کی بریڈنگ سیزن پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مختلف اقسام کی چڑیوں، طوطے ، تیتر، مینا، کوئل ، بلبل، فاختہ اور لالیاں کا افزائش سیزن فروری کے اختتام سے شروع ہوکر ستمبر تک مکمل ہوجاتا ہے تاہم اب اس میں تبدیلی آئی ہے اورافزائش کا سیزن فروری کی بجائے مارچ کے اختتام سے شروع ہوگا جو اکتوبرمیں مکمل ہوگا۔



وائلڈ لائف ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی اور فصلوں میں مختلف زہروں کے استعمال سے کئی اقسام کے پرندے اور کیڑے شامل ہیں ان کی نسلیں معدومی کا شکارہیں ۔ ان میں مختلف اقسام کی عام چڑیا، طوطے، مینا، تلیر، کالا اوربھورا تیتر، بلبل ،فاختہ ،لالیاں، جگنو ،تتلیاں اورڈریگن فلائی شامل ہیں۔ ان پرندوں کی تعداد کس حدتک کم ہوئی ہے اس بارے کوئی حتمی سروے رپورٹ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ان پرندوں کا کوئی سروے کیا گیا ہے تاہم عام مشاہدے کے مطابق یہ مقامی پرندے کم ہوتے جارہے ہیں۔ وائلڈ لائف پنجاب نے جس طرح چند جنگلی جانوروں کا سروے کروایا ہے اسی طرح اب مستقبل میں ان پرندوں کا بھی سروے کیا جائے گا تاکہ ان کی درست تعداد کا اندازہ لگا کر ان کی نسلوں کو معدومی سے بچانے کے لئے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔




پنجاب میں معدومی کا شکار پرندوں کو بحالی کے حوالے سے اگرکسی کامیابی کی بات کی جائے تو سفیدپشت والی گدھوں کی مصنوعی ماحول میں بریڈنگ کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ 2005 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور پنجاب وائلڈ لائف کے اشتراک سے چھانگامانگا میں بنائے گئے گدھوں کے بریڈنگ سینٹر میں 14 سال کی محنت کے بعد 6 بچے حاصل کرنے میں کامیابی مل سکی ہے۔ یہ بچے صحت مند طریقے سے پرورش پارہے ہیں۔



پروگرام کے ڈائریکٹر حسن علی سکھیرا نے بتایا کہ پاکستان میں 8 اقسام کے گدھ پائے جاتے تھے۔ جن کی نسل ختم ہوچکی ہے ، ان میں سفید پشت والا گدھ سب سے زیادہ نایاب ہے۔ 2009 میں سندھ اورپنجاب میں ان گدھوں کی تعدادکا تخمینہ صرف 50 لگایا گیا تھا۔ گزشتہ 10 سال سے کوئی نیا سروے نہیں ہوسکا ہے۔

حسن سکھیرا کے مطابق چھانگا مانگا بریڈنگ سینٹر میں گدھوں کے 7 جوڑے رکھے گئے تھے ۔ تاہم 2012 میں پہلی بار کامیابی ملی اور انڈوں سے بچے نکلے جواب صحت مندہیں اورپرورش پارہے ہیں۔ مادہ چیل سال میں صرف ایک انڈہ دیتی ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہرانڈے سے بچہ نکل سکے اور اگر بچہ نکل آئے تو وہ زندہ بھی بچ پائے گا ۔ ابتدائی سالوں میں انہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایک تو کئی مادہ چیلیں انڈے نہیں دیتی تھیں اوراگرانڈے ہوتے توان سے بچے نہیں نکل پاتے تھے۔



بریڈنگ سینٹرمیں ان گدھوں کی خوراک کے لئے بکریاں اورخرگوش بھی پالے گئے ہیں جبکہ گدھے خرید کر ان کا گوشت بھی گدھوں کو کھانے کے لئے دیا جاتا ہے۔ گدھوں کی ایوری میں مختلف درختوں کی ٹہنیاں پھینکی گئی ہے اوردرخت بھی لگائے گئے ہیں جہاں گدھوں نے خود گھونسلے بنائے ہیں۔ ان دنوں گدھوں کا بریڈنگ سیزن چل رہا ہے ۔ حسن سکھیر پرامید ہیں کہ اس سال انڈوں سے گدھوں کے مزید بچے پپدا ہوں گے۔ منتظمین کے مطابق جب گدھوں کی ایک خاطرخواہ تعداد ہوجائے گی تو پھر انہیں مخصوص ایریا میں آزاد چھوڑ دیا جائے گا جہاں یہ قدرتی ماحول میں افزائش کرسکیں گی۔
Load Next Story