اولڈ ایج ہومز میں رہنے والے والدین

اﷲ تعالیٰ نے ماں باپ کا رشتہ بھی ایسا بنایا ہے کہ اس میں پیار ہی پیار بسا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ اولاد کا پیار ماں...


لیاقت راجپر August 11, 2013

KARACHI: اﷲ تعالیٰ نے ماں باپ کا رشتہ بھی ایسا بنایا ہے کہ اس میں پیار ہی پیار بسا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ اولاد کا پیار ماں باپ کے لیے ہر چیز سے عزیز رکھا ہے، ہم انسان تو انسان مگر جانور، پرندے اور دوسرے جاندار بھی اپنی اولاد کے پاس کسی خطرے کو بھٹکنے نہیں دیتے، آپ اس بلی، کتے یا پھر ہرنی کا مثال لیں وہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر جتن کرتے ہیں اور اپنے سے زیادہ طاقتور سے بھی لڑ پڑتے ہیں۔ جانور اور پرندے تو اپنے بچوں سے اپنے لیے کوئی توقع نہیں رکھتے ہیں۔ بچے پیدا کرتے ہیں انھیں جوان کرکے پھر دوسرے بچوں کو پالنے میں لگ جاتے ہیں مگر انسان اپنی اولاد کو اس امید پر پالتے ہیں، پڑھاتے ہیں اور اس قابل بناتے ہیں کہ جب وہ خود بوڑھے اور کمزور ہو جائیں گے تو یہ اولاد ان کا سہارا بنے گی۔

دور سے دور بدلتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ معاشرے میں اقدار بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں مگر اسی دور میں جو بچے اپنے والدین کے ساتھ کررہے ہیں وہ نہ تو دیکھنے کے قابل ہیں اور نہ برداشت کے۔ ہم نے اسلام اور اپنے کلچر کو چھوڑ کر یورپ والوں کو فالو کرنا شروع کردیا ہے جہاں پر جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کو اولڈ ہومز میں ڈال دیا جاتا ہے جس کا خرچہ کبھی وہ خود دیتے ہیں ورنہ حکومت یا پھر این جی اوز برداشت کرتی ہیں۔ ہمارے لیے صرف ہماری اولاد ہی سب کچھ ہے اور والدین ایک بوجھ بن گئے ہیں، اس میں ہم یہ نہیں سوچتے کہ آج ہم اپنے والدین کو بوجھ سمجھ کر اولڈ ایج ہومز میں پھینک آتے ہیں اور پھر کبھی وہاں کا رخ نہیں کرتے اور یہ سوچ ذہن میں نہیں آتی کہ آج ہم اپنے والدین کے ساتھ ایسا کررہے ہیں کل ہماری اولاد ہمارے ساتھ یہی سلوک کرے گی۔

ایک باپ اکیلا دس دس بچوں کو پالتا ہے، ماں بچے کو نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے اور پیدا ہونے پر بڑا جشن منایا جاتا ہے اور خاص طور پر بیٹے کے پیدا ہونے پر جسے ہم اپنا جان نشین کہتے ہیں، اسے بڑا کرنے میں والدین کئی راتیں جاگ کر پالتے ہیں، جب بیمار ہوجاتا ہے تو ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں، اس کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھاتے ہیں۔ بھوکا رہ کر قرضے لے کر اسے پڑھایا جاتا ہے اور اسے کوئی اچھی نوکری دلوانے کے لیے سیاست دانوں کے گھروں اور دفتروں کے چکر لگاتے ہیں اور جب اسے نوکری مل جاتی ہے تو ماں باپ کی ایک خواہش جنم لیتی ہے کہ اس کی شادی کروائی جائے اور اپنے بیٹوں کی اولاد دیکھیں، انھیں بھی پالیں پوسیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب بہو گھر آتی ہے تو وہ اس گھر پر اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتی ہے اور آہستہ آہستہ اپنے شوہر کے کان بھرنا شروع کرتی ہے اور وہی بیٹا جو اپنے والدین کو اپنا سب کچھ سمجھتا ہے اب بیوی کو سمجھنے لگتا ہے اور گھر میں جھگڑا اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ماں باپ کو گھر چھوڑنا پڑتا ہے یا پھر بیٹا اپنی بیوی کو لے کر چلا جاتا ہے۔

ماں باپ جو وقت کے ساتھ بوڑھے ہوجاتے ہیں اور جسمانی اور مالی طورپر کمزور ہوجاتے ہیں اور انھیں اب سہارے کی ضرورت ہوتی ہے مگر ایک ایک کرکے بیٹے چلے جاتے ہیں اور اگر بیٹیاں ہیں تو ان کی شادی ہوجاتی ہے، رشتے دار بھی منہ موڑ لیتے ہیں، اب اس عمر میں اگر وہ بیمار پڑجائیں تو علاج و معالجے کے لیے ان کے پاس رقم نہیں ہوتی اور کوئی ان کی تیمار داری کرنے والا نہیں ہوتا، اولاد انھیں دھوکے سے یا علاج کے بہانے اولڈ ہومز میں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے، جہاں پر انھیں رہنے کی سہولت اور کھانا پینا تو مل جاتا ہے لیکن وہ گھر کا ماحول اور آزادی نہیں ملتی۔ غریب لوگ پھر بھی اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں مگر امیر لوگوں میں یہ عام ہے لیکن وہ طبقہ جو شہروں میں رہتا ہے یا معاشرے میں درمیانی پوزیشن رکھتے ہیں۔ یورپ والے اپنے والدین کو اولڈ ہومز میں اس لیے داخل کراتے ہیں کہ ان کے پاس ٹائم نہ اپنے بچوں کے لیے ہوتا ہے نہ اپنے لیے، وہ ایک مشین کی طرح کام کرتے ہیں اور اپنے بچے ڈے کیئر میں چھوڑتے ہیں۔

اب شاید یورپ میں لوگوں نے کچھ محسوس کرنا شروع کیا ہے اور اب وہ مدر ڈے اور فادر ڈے ہر سال مناتے ہیں۔ لیکن ہم لوگ یورپ کی پیروی کرنے لگے ہیں میں نے کئی ایسی مائیں اور باپ دیکھے ہیں جو اولاد کے ہوتے ہوئے گھروں میں برتن مانجھتے ہیں، جھاڑو پوچھا کرتی ہیں، بچے کھلاتی ہیں اور باپ باہر مزدوری کرتا ہے، دکان پر کام کرتا ہے، کئی تو کچھ نہ کچھ کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ ماں باپ کی عظمت دیکھیں کہ وہ اولاد کو بددعا دینے کے بجائے لمبی عمر اور خوش رہنے کی دعائیں دیتے ہیں۔ ماں کے پائوں میں جنت ہے، ماں آدمی کی پہلی ٹیچر ہے۔ ہماری پاک کتاب میں ہے کہ اپنے ماں باپ کو اف بھی نہ کہو چاہے وہ کتنے بھی برے کیوں نہ ہوں، اگر تم ماں باپ کو خوش نہیں رکھو گے تو جنت کبھی نہیں پاسکو گے۔

مخیر حضرات کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے مختلف اولڈ ایج ہومز بنائے ہیں، جہاں پر ایسے لاوارث بوڑھے، کمزور، محتاج اولاد کے ٹھکرائے ہوئے، اپنوں کے ستائے لوگوں کو سہارا دینے کے لیے آگے آئے، جن کا اجر خدا انھیں اس دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی۔ ایک ایدھی سینٹر کو ہی دیکھیں جہاں پر اس طرح کے چار ہزار سے زائد عورتیں، مرد اور بچے رہتے ہیں، جنھیں کھانا، پینا، کپڑے اور زندگی کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں، ویسے تو یہاں پر یہ لوگ دن اور رات اپنوں کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ شاید ان کے بچوں، بھائی یا اور کوئی رشتے دار آئے گا مگر ان کے انتظار میں آنکھیں بند ہوجاتی ہیں خاص طور پر جب عید کا موقع ہوتا ہے سارے لوگ اپنے رشتے داروں سے عید ملنے آتے جاتے ہیں، مل کر کھانا کھاتے ہیں، ان لوگوں کی اولاد کو جب وہ خود عید نماز کے لیے لے جاتے ہیں انھیں اچھے کپڑے اور جوتے دلاتے ہیں تو انھیں اپنے والدین یاد نہیں آتے۔

کبھی انھیں بھی ان کے والد عیدگاہ لے جاتے تھے، کپڑے اور جوتے دلاتے تھے، عیدی دیتے تھے۔ اولڈ ایج ہومز میں رہنے والے لوگ کہتے ہیں کہ جب ان سے کوئی اپنا ملنے نہیں آتا تو وہ عید کا دن بھی اداس اور آنکھوں میں آنسو لاکر گزارتے ہیں اور ان کا تکیہ ان آنسوئوں کے پانی سے گیلا ہوجاتا ہے۔ سب سے بڑی بے حسی کی حد تو یہ ہے کہ جب کوئی اولڈ ایج ہوم میں مرجاتا ہے اور ان کے بچوں کو یا پھر دوسرے اپنوں کو اطلاع دی جاتی ہے تو وہ پھر بھی نہیں آتے اور مجبوراً انھیں غسل دے کر دفنایا جاتا ہے۔ ان اداروں میں اپنوں کو چھوڑ کر پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کرتے اور فون بھی نہیں اٹھاتے۔ میں اس کالم کے ذریعے ان تمام لوگوں سے التجا کرتا ہوں کہ اپنے والدین کو اولڈ ہومز میں داخل نہ کرایں اور جنھوں نے کیا ہے وہ ان کو لے آئیں، ان سے معافی مانگیں، ورنہ وہ نہ تو جنت میںجائیںگے اور نہ خدا کے عذاب سے بچ سکیںگے۔ آج اگر آپ ان کے ساتھ یہ سلوک کررہے ہو، کل تمہاری اولاد تمہارے ساتھ ایسا کرے گی کیونکہ یہ مکافات عمل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں