خیبرپختونخوا میں 63 خواجہ سراؤں کے قتل میں ناقص تفتیش انصاف کی راہ میں رکاوٹ
خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگے
صوبہ خیبر پختونخوا میں 63 خواجہ سرا قتل ہو گئے لیکن انسانی خون کرنے والے ملزمان معاشرے کی مجموعی بے حسی اور عدم توجہ کی وجہ سے معمولی سزائیں ہی پا سکے، خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
خواجہ سراؤں کے خلاف ہونے والے پر تشدد واقعات اور گذشتہ چار سال کے دوران قتل کئے جانے والے خواجہ سرؤاں کی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کے مطابق سال 2015ء سے 2019ء تک خیبر پختونخوا کے 8 اضلاع میں مجموعی طور پر 63 خواجہ سرا قتل ہوئے، 2015 میں 26 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا، 2016ء میں 22 خواجہ سراؤں کو ابدی نیند سلایا گیا۔
2017ء میں 8 خواجہ سراؤں سے زندگی چھین لی گئی،2018ء میں بھی 8 خواجہ سرا مختلف واقعات میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیھٹے جب کہ سال رواں 2019ء کے آغاز میں ہی خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں خواجہ سرا کو قتل کر دیا گیا۔
خواجہ سراؤں کی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2015ء سے 2017ء تک خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے 1133 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 2015ء میں 607 پر تشدد واقعات، 2016ء میں 318 اور 2017ء میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے 208 ایسے واقعات پیش آئے جن کو رپورٹ کیا گیا، صوبے کے آٹھ اضلاع میں پشاور، چارسدہ، مردان، بنوں، سوات، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ اور کوہاٹ میں خواجہ سراؤں پر تششد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
شی میل ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کی صدر فرزانہ کے مطابق خواجہ سراؤں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف مارپیٹ جیسے واقعات کا سامنا نہیں بلکہ گینگ ریپ، جنسی تشدد، صنفی تشدد جیسے انتہائی سنگین جرائم کے ساتھ معاشرے میں کمیونٹی کو غلط سمجھنا، خواجہ سراؤں کو گالیاں دینا، پولیس تھانوں اور مویسقی کی محلفوں میں تشدد کا نشانہ بنانا، اسپتالوں میں امتیازی سلوک بھی شامل ہے۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ خواجہ سب سے بڑی دکھ بھری بات سراؤں کو والدین کی جانب سے تسلیم نہ کرنا اور پہچان نہ دینا بھی شامل ہے، فرزانہ کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ہمیں اس صوبے میں صنفی تشدد کے واقعات کا سامنا ہے، ہمیں جب ہمارے والدین ہی تسلیم نہیں کرتے تو پھر ہمیں معاشرے میں عزت کون دے سکتا ہے، جب ہر طرف سے مسترد کئے جانے پر مجبور ہو کر کوئی خواجہ سرا ہماری کمیونٹی میں ایک بار شامل ہو جاتا ہے تو گورو ہی اسکا سب کچھ ہوتا ہے، وہی ماں اور وہی باپ اور خواجہ سرا کا جینا مرنا اپنے گورو کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ طالبان کے دور میں ہم نے ناچ گانا ختم کر دیا تھا اور ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے تھے لیکن انتہائی سخت حلات میں خواجہ سرا کچھ منظم ہوئے اور آج خواجہ سرا ایک کمیونٹی کا نام ہے، سپریم کورٹ نے ہمیں شناخت دی ہے، ہمارے 16 خواجہ سراؤں کے پشاور میں شناختی کارڈ بھی بن چکے ہیں، مردم شماری میں بھی ہمارا خانہ شامل کیا جا رہا ہے، آج ہم اپنے فن کے ذرہعے روزگار کما رہے ہیں لیکن افسوس ہمیں بنیادی انسانی حققوق فراہم نہیں کئے جا رہے۔
فرزانہ نے کہا کہ اسپتالوں میں ہمارے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے، حالانکہ اسپتال انسانیت کی علامت کے طور پر سب سے اہم جگہ ہے لیکن انسانی علاج میں ہسپتال میں ہر سطح کے افراد کی جانب سے رویہ بدسلوکی والا اور افسوسناک ہوتا ہے، ہمارے لئے کوئی الگ کمرہ نہیں، وارڈ نہیں، تھانوں میں ہماری ایف آئی آر درج نہیں ہوتیں، ہم سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں پھر کہیں جا کر ہماری آواز کوئی سنتا ہے۔
اس حوالے سے انسانی حقوق اور خواجہ سراؤں کے مسائل پر کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز کے کوآرڈی نیٹر قمر نسیم کے مطابق خیبر پختونخوا میں اب تک 63 خواجہ سرا قتل ہو چکے ہیں لیکن ان کو قتل کرنے والے کسی ملزم کو عمر قید، پھانسی یا کوئی بڑی سزا نہیں ہوئی، جس کی بڑی وجہ پولیس کی بری تفتیش ہے جب کوئی خواجہ سرا قتل ہوتا ہے تو پولیس کی آپریشن ٹیمیں فوری طور پر ملزم کو گرفتار کر لیتی ہیں لیکن گرفتاری کے بعد کیس تفتیشی افسر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس میں کمزور دفعات لگا دیتا ہے، کیس کی اکثر دفعات تبدیل بھی کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس انسانی خون پر ملزمان کو آج تک بڑی سزا نہیں ہو سکی۔
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو قتل کرنے والے ملزمان کے جلد بری ہوجانے میں ایک بڑی وجہ کسی بھی واقعے کے بعد خواجہ سراؤں کی جانب سے عدم دلچسپی بھی ہے، خواجہ سرا عدالتوں میں تاریخوں پر پیش نہیں ہوتے، ایف آئی آر کے اندراج تک خواجہ سرا کافی ایکٹو ہوتے ہیں لیکن بعد میں کیس کو فالو نہیں کرتے، وکیل کی خدمات حاصل کرنا بھی انکے لئے مسئلہ ہے لیکن ان کی تنظیم فری لیگل سہولت فراہم کرتی ہے۔
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کے والدین یا اہل خانہ قاتلوں کو معاف کر کے ان سے بطور خون بہا پیسے بھی لے لیتے ہیں، پشاور میں خواجہ سرا نازو کو قتل کرنے والے ملزم سے نازو کے والدین نے 10 لاکھ روپے لیکر معاف کر دیا، اسی طرح نوشہرہ میں قتل ہونے والے خواجہ سرا عدنان عرف سفید کے قتل کے بدلے اہل خانہ نے 3 لاکھ روپے لیکر قاتل کو معاف کر دیا۔
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پشاور میں خواجہ سرا عدنان کیساتھ 10 سے 12 افراد نے گینگ ریپ کیا، ایف آئی آر بھی درج ہوئی لیکن پولیس کی بری تفتیش کی وجہ سے ملزمان جلد بری ہو گئے۔
قمر نسیم نے کہا کہ پشاور پولیس نے خواجہ سراؤں کے مسائل حل کرنے کے لئے دو کمیٹیاں بنائیں لیکن 4 ماہ گزر گئے ابھی تک ایک اجلاس بھی نہ ہو سکا، جس سے خواجہ سرا کمیونٹی کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
خواجہ سراؤں کے عدالتی کیسز لڑنے والے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل گل رحمان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ وہ خواجہ سراؤں کے بیشتر کیسز پر کام کر چکے ہیں خواجہ سرا کیسز میں دلچسپی نہیں لیتے، ثبوت ہوتے ہیں انکے پاس لیکن عدالت آنے کی زحمت نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ملزمان کو فائدہ مل جاتا ہے۔
گل رحمان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا 23 مئی 2016ء کو پشاور میں خواجہ سرا علیشا کو قتل کیا گیا، ملزم فضل گجر گرفتار ہے اور 3 سال سے جیل میں ہے، اس کیس میں خواجہ سرا کمیونٹی نے تعاون کیا اور ملزم کی گرفتاری ہوئی اور ابھی تک جیل میں سزا کاٹ کر رہا ہے، اگر خواجہ سرا پولیس کی تفتیشی ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں، عدالتی پیشیوں پر آئیں تو ملزمان کو سزا ہوگی، لیکن انکا مسئلہ یہ ہے کہ رات کو فنکشنز پر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دن کو لیٹ اٹھتے ہیں تو اس وقت تک عدالت کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
خواجہ سراؤں کی تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں قتل ہونے والے خواجہ سراؤں میں 60 سے 70 فیصد خواجہ سرا اپنے دوستوں یا چاہنے والوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، تیمور کمال سماجی کارکن اور خواجہ سراؤں کی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کے کوآرڈی نیٹر کے مطابق خیبر پختونخوا میں قتل ہونے والے 63 خواجہ سراؤں میں 43 خواجہ سرا اپنے سابق دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، جب خواجہ سرا کسی سے دوستی کرتا ہے تو سب کچھ ٹھیک رہتا ہے لیکن اگر خواجہ سرا کسی بھی شخص سے دوستی توڑ کر کوئی نیا دوست بنا لیتا ہے تو اس وقت پرانا دوست اس رویے پر اور دوستی ختم کرنے پر قتل کر دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ میں 6 خواجہ سرا جنسی تعلقات سے انکار کرنے پر قتل ہوئے جب کہ تین خواجہ سراؤں کو اپنے خاندان کے افراد نے ہی عزت کی خاطر قتل کیا، جس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ ان کے خاندان کو ناچ گانا پسند نہیں تھا اور خاندان والوں کو شکوہ تھا کہ وہ کیوں خواجہ سرا بنے۔
تیمور کمال کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سرؤاں پر بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات کی وجہ ایف آئی آرز کا اندراج نہ ہونا اور ناقص تفتیش بھی ہے، ہماری رپورٹ کے مطابق خواجہ سرا کے قتل ہونے کے واقعات میں صرف 19 فیصد 302 کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے، پولیس قاتلوں کے ساتھ ملکر، ملی بھگت کر کے کیس کو کمزور کر دیتی ہے یا قاتل خواجہ سراؤں کے ساتھ راضی نامہ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے خواجہ سرؤاں کو قتل کرنے والے ملزمان کو عمر قید یا پھانسی کی سزا آج تک نہیں ہوئی، خواجہ سراؤں کو قتل کرنے والے صرف گنتی کے ہی ملزمان جیلوں میں قید ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خواجہ سراؤں کے پاس کیس لڑنے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے، خواجہ سرا آرزو جو کہ شی میل ایسوسی ایش کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں کہتی ہیں کہ پشاور میں خواجہ سرا نازو کو قتل کیا گیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پشاور میں رنگ روڈ پر پھینک دیا گیا، پولیس نے اندوہناک قتل کرنے والے ملزم آصف کو گرفتار کیا لیکن خواجہ سرا نازو کو قتل اور لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے دو مرکزی ملزمان میں سے ایک کو پشاور ہائی کورٹ نے پولیس کی بری تفتیش اور عدم دلچسپی کی بنیاد پر ضمانت دے دی۔
تیمور کمال نے کہا کہ ملزم کے پاس سے خواجہ سرا نازو کی لاش کے ٹکڑے شاپنگ بیگ میں برآمد ہوئے تھے، جنھیں وہ نامعلوم مقام پر دفنانے جا رہا تھا، ملزم کی نشاندہی پر لاش کے دیگر ٹکڑے اور آلات قتل بھی برآمد کئے گئے، ملزم نے بتایا تھا کہ قتل اس کے دوست نے کیا تھا جبکہ وہ لاش کو ٹھکانے لگانے میں اس کی مدد کر رہا تھا،ملزم کی رہائی کے بعد پشاور کی خواجہ سرا برادری میں خوف کی فضا پھیل گئی۔
یاد رہے کہ خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کرنے والے افراد کو پولیس جلد گرفتار کر لیتی ہے لیکن تفتیشی افسران کی عدم دلچسپی اور بری تفتیش کی بنیاد پر ملزمان عدالت سے بری ہوجاتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے بھی ہاجرہ نامی خواجہ سرا کو ورسک روڈ سے آگے غیر آباد علاقہ میں دوستی نہ کرنے کی وجہ سے ذبح کردیا گیا تھا لیکن بری تفتیش کی وجہ سے کیس میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی، کچھ روز پہلے خواجہ سراؤں نے ایس ایس پی پشاور کو اپنے خدشات اور تفتیش کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا، خواجہ سراؤں کو پشاور پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کے جلد ہی اس حوالے سے ایک کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دے کر اس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا لیکن ان کے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود اس کمیٹی کے قیام کے حوالے سے کوئی مثبت پیشرفت سامنے نہیں آئی۔
ایس ایس پی آپریشن پشاور ظہور بابر آفریدی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں کو بھی عام شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہیں خواجہ سراؤں کے لئے بنائی گئی پولیس کوآرڈی نیشن کمیٹی خواجہ سرا کمیونٹی کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہے اگر اس کمیونٹی کے ساتھ کوئی بھی پرتشدد واقعہ پیش آتا ہے تو پولیس فوری طور پر اسکا نوٹس لیتی ہے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے تاہم ملزمان کی گرفتاری کے بعد عدالت سے ملزمان کا جلد بری ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
خواجہ سراؤں کو خیبر پختونخوا میں اپنی خوشیاں منانے کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے، سال 2018ء میں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں خواجہ سراؤں کو پولیس نے ضلع بدر کر دیا، چارسدہ میں 13 فروری کو خواجہ سرا شیبہ کی سالگرہ منانے کی بھی پولیس کی جانب سے اجازت نہیں ملی جس پر خواجہ سراؤں نے پشاور میں احتجاج کیا۔
خواجہ سراؤں کے خلاف ہونے والے پر تشدد واقعات اور گذشتہ چار سال کے دوران قتل کئے جانے والے خواجہ سرؤاں کی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کے مطابق سال 2015ء سے 2019ء تک خیبر پختونخوا کے 8 اضلاع میں مجموعی طور پر 63 خواجہ سرا قتل ہوئے، 2015 میں 26 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا، 2016ء میں 22 خواجہ سراؤں کو ابدی نیند سلایا گیا۔
2017ء میں 8 خواجہ سراؤں سے زندگی چھین لی گئی،2018ء میں بھی 8 خواجہ سرا مختلف واقعات میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیھٹے جب کہ سال رواں 2019ء کے آغاز میں ہی خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں خواجہ سرا کو قتل کر دیا گیا۔
خواجہ سراؤں کی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2015ء سے 2017ء تک خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے 1133 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 2015ء میں 607 پر تشدد واقعات، 2016ء میں 318 اور 2017ء میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے 208 ایسے واقعات پیش آئے جن کو رپورٹ کیا گیا، صوبے کے آٹھ اضلاع میں پشاور، چارسدہ، مردان، بنوں، سوات، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ اور کوہاٹ میں خواجہ سراؤں پر تششد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
شی میل ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کی صدر فرزانہ کے مطابق خواجہ سراؤں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف مارپیٹ جیسے واقعات کا سامنا نہیں بلکہ گینگ ریپ، جنسی تشدد، صنفی تشدد جیسے انتہائی سنگین جرائم کے ساتھ معاشرے میں کمیونٹی کو غلط سمجھنا، خواجہ سراؤں کو گالیاں دینا، پولیس تھانوں اور مویسقی کی محلفوں میں تشدد کا نشانہ بنانا، اسپتالوں میں امتیازی سلوک بھی شامل ہے۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ خواجہ سب سے بڑی دکھ بھری بات سراؤں کو والدین کی جانب سے تسلیم نہ کرنا اور پہچان نہ دینا بھی شامل ہے، فرزانہ کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ہمیں اس صوبے میں صنفی تشدد کے واقعات کا سامنا ہے، ہمیں جب ہمارے والدین ہی تسلیم نہیں کرتے تو پھر ہمیں معاشرے میں عزت کون دے سکتا ہے، جب ہر طرف سے مسترد کئے جانے پر مجبور ہو کر کوئی خواجہ سرا ہماری کمیونٹی میں ایک بار شامل ہو جاتا ہے تو گورو ہی اسکا سب کچھ ہوتا ہے، وہی ماں اور وہی باپ اور خواجہ سرا کا جینا مرنا اپنے گورو کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ طالبان کے دور میں ہم نے ناچ گانا ختم کر دیا تھا اور ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے تھے لیکن انتہائی سخت حلات میں خواجہ سرا کچھ منظم ہوئے اور آج خواجہ سرا ایک کمیونٹی کا نام ہے، سپریم کورٹ نے ہمیں شناخت دی ہے، ہمارے 16 خواجہ سراؤں کے پشاور میں شناختی کارڈ بھی بن چکے ہیں، مردم شماری میں بھی ہمارا خانہ شامل کیا جا رہا ہے، آج ہم اپنے فن کے ذرہعے روزگار کما رہے ہیں لیکن افسوس ہمیں بنیادی انسانی حققوق فراہم نہیں کئے جا رہے۔
فرزانہ نے کہا کہ اسپتالوں میں ہمارے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے، حالانکہ اسپتال انسانیت کی علامت کے طور پر سب سے اہم جگہ ہے لیکن انسانی علاج میں ہسپتال میں ہر سطح کے افراد کی جانب سے رویہ بدسلوکی والا اور افسوسناک ہوتا ہے، ہمارے لئے کوئی الگ کمرہ نہیں، وارڈ نہیں، تھانوں میں ہماری ایف آئی آر درج نہیں ہوتیں، ہم سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں پھر کہیں جا کر ہماری آواز کوئی سنتا ہے۔
اس حوالے سے انسانی حقوق اور خواجہ سراؤں کے مسائل پر کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز کے کوآرڈی نیٹر قمر نسیم کے مطابق خیبر پختونخوا میں اب تک 63 خواجہ سرا قتل ہو چکے ہیں لیکن ان کو قتل کرنے والے کسی ملزم کو عمر قید، پھانسی یا کوئی بڑی سزا نہیں ہوئی، جس کی بڑی وجہ پولیس کی بری تفتیش ہے جب کوئی خواجہ سرا قتل ہوتا ہے تو پولیس کی آپریشن ٹیمیں فوری طور پر ملزم کو گرفتار کر لیتی ہیں لیکن گرفتاری کے بعد کیس تفتیشی افسر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس میں کمزور دفعات لگا دیتا ہے، کیس کی اکثر دفعات تبدیل بھی کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس انسانی خون پر ملزمان کو آج تک بڑی سزا نہیں ہو سکی۔
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو قتل کرنے والے ملزمان کے جلد بری ہوجانے میں ایک بڑی وجہ کسی بھی واقعے کے بعد خواجہ سراؤں کی جانب سے عدم دلچسپی بھی ہے، خواجہ سرا عدالتوں میں تاریخوں پر پیش نہیں ہوتے، ایف آئی آر کے اندراج تک خواجہ سرا کافی ایکٹو ہوتے ہیں لیکن بعد میں کیس کو فالو نہیں کرتے، وکیل کی خدمات حاصل کرنا بھی انکے لئے مسئلہ ہے لیکن ان کی تنظیم فری لیگل سہولت فراہم کرتی ہے۔
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کے والدین یا اہل خانہ قاتلوں کو معاف کر کے ان سے بطور خون بہا پیسے بھی لے لیتے ہیں، پشاور میں خواجہ سرا نازو کو قتل کرنے والے ملزم سے نازو کے والدین نے 10 لاکھ روپے لیکر معاف کر دیا، اسی طرح نوشہرہ میں قتل ہونے والے خواجہ سرا عدنان عرف سفید کے قتل کے بدلے اہل خانہ نے 3 لاکھ روپے لیکر قاتل کو معاف کر دیا۔
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پشاور میں خواجہ سرا عدنان کیساتھ 10 سے 12 افراد نے گینگ ریپ کیا، ایف آئی آر بھی درج ہوئی لیکن پولیس کی بری تفتیش کی وجہ سے ملزمان جلد بری ہو گئے۔
قمر نسیم نے کہا کہ پشاور پولیس نے خواجہ سراؤں کے مسائل حل کرنے کے لئے دو کمیٹیاں بنائیں لیکن 4 ماہ گزر گئے ابھی تک ایک اجلاس بھی نہ ہو سکا، جس سے خواجہ سرا کمیونٹی کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
خواجہ سراؤں کے عدالتی کیسز لڑنے والے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل گل رحمان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ وہ خواجہ سراؤں کے بیشتر کیسز پر کام کر چکے ہیں خواجہ سرا کیسز میں دلچسپی نہیں لیتے، ثبوت ہوتے ہیں انکے پاس لیکن عدالت آنے کی زحمت نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ملزمان کو فائدہ مل جاتا ہے۔
گل رحمان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا 23 مئی 2016ء کو پشاور میں خواجہ سرا علیشا کو قتل کیا گیا، ملزم فضل گجر گرفتار ہے اور 3 سال سے جیل میں ہے، اس کیس میں خواجہ سرا کمیونٹی نے تعاون کیا اور ملزم کی گرفتاری ہوئی اور ابھی تک جیل میں سزا کاٹ کر رہا ہے، اگر خواجہ سرا پولیس کی تفتیشی ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں، عدالتی پیشیوں پر آئیں تو ملزمان کو سزا ہوگی، لیکن انکا مسئلہ یہ ہے کہ رات کو فنکشنز پر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دن کو لیٹ اٹھتے ہیں تو اس وقت تک عدالت کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
خواجہ سراؤں کی تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں قتل ہونے والے خواجہ سراؤں میں 60 سے 70 فیصد خواجہ سرا اپنے دوستوں یا چاہنے والوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، تیمور کمال سماجی کارکن اور خواجہ سراؤں کی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کے کوآرڈی نیٹر کے مطابق خیبر پختونخوا میں قتل ہونے والے 63 خواجہ سراؤں میں 43 خواجہ سرا اپنے سابق دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، جب خواجہ سرا کسی سے دوستی کرتا ہے تو سب کچھ ٹھیک رہتا ہے لیکن اگر خواجہ سرا کسی بھی شخص سے دوستی توڑ کر کوئی نیا دوست بنا لیتا ہے تو اس وقت پرانا دوست اس رویے پر اور دوستی ختم کرنے پر قتل کر دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ میں 6 خواجہ سرا جنسی تعلقات سے انکار کرنے پر قتل ہوئے جب کہ تین خواجہ سراؤں کو اپنے خاندان کے افراد نے ہی عزت کی خاطر قتل کیا، جس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ ان کے خاندان کو ناچ گانا پسند نہیں تھا اور خاندان والوں کو شکوہ تھا کہ وہ کیوں خواجہ سرا بنے۔
تیمور کمال کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سرؤاں پر بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات کی وجہ ایف آئی آرز کا اندراج نہ ہونا اور ناقص تفتیش بھی ہے، ہماری رپورٹ کے مطابق خواجہ سرا کے قتل ہونے کے واقعات میں صرف 19 فیصد 302 کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے، پولیس قاتلوں کے ساتھ ملکر، ملی بھگت کر کے کیس کو کمزور کر دیتی ہے یا قاتل خواجہ سراؤں کے ساتھ راضی نامہ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے خواجہ سرؤاں کو قتل کرنے والے ملزمان کو عمر قید یا پھانسی کی سزا آج تک نہیں ہوئی، خواجہ سراؤں کو قتل کرنے والے صرف گنتی کے ہی ملزمان جیلوں میں قید ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خواجہ سراؤں کے پاس کیس لڑنے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے، خواجہ سرا آرزو جو کہ شی میل ایسوسی ایش کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں کہتی ہیں کہ پشاور میں خواجہ سرا نازو کو قتل کیا گیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پشاور میں رنگ روڈ پر پھینک دیا گیا، پولیس نے اندوہناک قتل کرنے والے ملزم آصف کو گرفتار کیا لیکن خواجہ سرا نازو کو قتل اور لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے دو مرکزی ملزمان میں سے ایک کو پشاور ہائی کورٹ نے پولیس کی بری تفتیش اور عدم دلچسپی کی بنیاد پر ضمانت دے دی۔
تیمور کمال نے کہا کہ ملزم کے پاس سے خواجہ سرا نازو کی لاش کے ٹکڑے شاپنگ بیگ میں برآمد ہوئے تھے، جنھیں وہ نامعلوم مقام پر دفنانے جا رہا تھا، ملزم کی نشاندہی پر لاش کے دیگر ٹکڑے اور آلات قتل بھی برآمد کئے گئے، ملزم نے بتایا تھا کہ قتل اس کے دوست نے کیا تھا جبکہ وہ لاش کو ٹھکانے لگانے میں اس کی مدد کر رہا تھا،ملزم کی رہائی کے بعد پشاور کی خواجہ سرا برادری میں خوف کی فضا پھیل گئی۔
یاد رہے کہ خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کرنے والے افراد کو پولیس جلد گرفتار کر لیتی ہے لیکن تفتیشی افسران کی عدم دلچسپی اور بری تفتیش کی بنیاد پر ملزمان عدالت سے بری ہوجاتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے بھی ہاجرہ نامی خواجہ سرا کو ورسک روڈ سے آگے غیر آباد علاقہ میں دوستی نہ کرنے کی وجہ سے ذبح کردیا گیا تھا لیکن بری تفتیش کی وجہ سے کیس میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی، کچھ روز پہلے خواجہ سراؤں نے ایس ایس پی پشاور کو اپنے خدشات اور تفتیش کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا، خواجہ سراؤں کو پشاور پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کے جلد ہی اس حوالے سے ایک کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دے کر اس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا لیکن ان کے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود اس کمیٹی کے قیام کے حوالے سے کوئی مثبت پیشرفت سامنے نہیں آئی۔
ایس ایس پی آپریشن پشاور ظہور بابر آفریدی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں کو بھی عام شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہیں خواجہ سراؤں کے لئے بنائی گئی پولیس کوآرڈی نیشن کمیٹی خواجہ سرا کمیونٹی کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہے اگر اس کمیونٹی کے ساتھ کوئی بھی پرتشدد واقعہ پیش آتا ہے تو پولیس فوری طور پر اسکا نوٹس لیتی ہے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے تاہم ملزمان کی گرفتاری کے بعد عدالت سے ملزمان کا جلد بری ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
خواجہ سراؤں کو خیبر پختونخوا میں اپنی خوشیاں منانے کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے، سال 2018ء میں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں خواجہ سراؤں کو پولیس نے ضلع بدر کر دیا، چارسدہ میں 13 فروری کو خواجہ سرا شیبہ کی سالگرہ منانے کی بھی پولیس کی جانب سے اجازت نہیں ملی جس پر خواجہ سراؤں نے پشاور میں احتجاج کیا۔