اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز و درون

جو لڑکیاں سر جھکا کر چلتی ہیں ان کے باپ بھائی ہمیشہ سر اٹھا کر چلتے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہر لڑکی شہزادی ہوتی ہے (کم ازکم اپنے والدین کی نظر میں) مگر سب لڑکیوں کی کہانی خوبصورت نہیں ہوتی ۔ حالانکہ لڑکیاں محبت کے جذبے کے حوالے سے لڑکوں سے زیادہ وفادار ہوتی ہیں ایک بار جس کو اپنا مان لیں اس کی خاطر جان بھی دے دیتی ہیں۔

لڑکیاں جب غیر مردوں کو دیکھ کر اپنے سر پر دوپٹہ لے لیں تو سمجھیں وہ بڑی ہوگئی ہیں اور پھر لڑکیوں کی قیمت تو ان کی حیا اور پاکیزگی ہی ہوتی ہے، بے حیا یا بے حجاب لڑکیوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔ اس لیے بھی کہ لڑکیوں کی عزت کانچ کے برتن کی طرح بہت نازک ہوتی ہے۔

لڑکیاں خواہشوں سے لبالب بھری ہوتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی اکثر خواہشیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور ادھوری خواہشیں کینسرکی طرح ہوتی ہیں یہ بڑھتی رہتی ہیں اور انسان کو چاٹ چاٹ کر اس کے وجود کوگھٹاتی رہتی ہیں۔ لڑکیاں انھیں کہا جاتا ہے جو اپنے خواب اپنے دل کے صندوق میں رکھتی ہیں اور جب خواب پورے نہ ہوں تو اسے اپنے آنسوؤں میں بہا دیتی ہیں۔

لڑکیاں خواہ کتنی ہی چالاک یا ہوشیارکیوں نہ ہوں بہت جذباتی ہوتی ہیں، وہ بھلے اظہارکریں یا نہ کریں لیکن وہ خود کو ہمیشہ بہت ''خاص'' تصورکرتی ہیں، جو لڑکیوں کی آنکھوں میں جھانکنے اورگہرائی میں اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لڑکیاں بھی ان کے لیے موم کی طرح پگھل جاتی ہیں، وہ اپنے لیے کہے گئے توصیفی کلمات عمر بھر نہیں بھولتیں بلکہ اکثر اپنی سہیلیوں سے یا تنہائی میں خود سے دہرا کے یا سوچ کے بہت خوش ہوتی ہیں۔

''آپ بہت کیوٹ ہیں'' یا ''تم بہت اچھی ہو۔'' یہ جملہ سننے کے بعد ایک بہت عام سی لڑکی بھی دنیا کی خاص یا خوبصورت ترین لڑکی بن جاتی ہے۔ لڑکیاں جب کسی کو پسند کرتی ہیں تو ان کے لیے جاگتی آنکھوں سے سپنے بنتی ہیں ۔ دن کا کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں ہوتا جب وہ ان سے متعلق سوچتی نہیں۔ تعریف سننا ہر لڑکی کو بہت اچھا جو لگتا ہے۔ لڑکیاں بہت غیر متوقع ہوتی ہیں، وہ کسی بھی وقت کسی کو حیران، پریشان، خوش گمان، بدگمان یا پشیمان کرسکتی ہیں۔ لڑکیاں جسے زیادہ پسند کرتی ہیں اسے اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ پکا کر ضرورکھلانا چاہتی ہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے کام کرکے آسودگی محسوس کرتی ہیں۔

لڑکیاں اگر اپنی محبت سے دستبردار ہوجائیں، اسے حاصل نہ کرپائیں یا ایسا ہی اور کچھ کرلیں، تاہم جب ایک شخص ان کا امیدوار بن کر سامنے آتا ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں، اس سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔ لڑکیوں میں لڑکوں کی نسبت لگن، جستجو اور خدا ترسی زیادہ ہوتی ہے وہ Loving اور جذباتی جو ہوئیں۔ وہ لڑکے خود کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں جن کی زندگی میں وژنری لڑکیاں شامل ہوجائیں۔ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے اور پھر ان کو تعبیرکا ملکہ بھی لڑکیوں کو حاصل ہوتا ہے۔ لڑکیاں زندگی بھر محبت، عزت، توجہ اور تحفظ کی طلبگار ہوتی ہیں۔

محبت یا اپنائیت میں الجھی ہوئی لڑکیوں کے پاس معاف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا جب کہ دغا یا فریب دینے والوں کے پاس دس بہانے ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کی بچپن میں اگر منگنی ہوجائے تو لڑکیاں محبت سے دو قدم آگے نکل جاتی ہیں، جس لڑکی کو پتا چل جائے کہ اس کا چاہنے والا اس کے بغیر جی نہیں سکتا تو پھر وہ اس پر نچھاور ہوجانا چاہتی ہیں۔ لڑکیوں کے حوالے سے سب سے منفرد بات یہ ہے کہ لڑکیوں کا دل ان کے جسم کا حصہ نہیں ہوتا۔ لڑکیوں کی غالب اکثریت اپنی نسوانیت ہی میں قید رہتی ہیں لیکن جنھیں قید میں رکھنا پڑے وہ لڑکیاں نہیں ہوتیں ۔ بیشتر لڑکیاں اپنے اطراف یا گرد وپیش کے ماحول سے باغی ہوجاتی ہیں اور باغی کوئی بھی ہو، اس کا تعلق کسی بھی صنف سے ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا ۔


یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ لڑکیوں کا مقصد حیات عام طور پر قربانی دینا ہی ہوتا ہے۔ لڑکیوں بالخصوص سگی بہنوں تک کے مقدر آپس میں نہیں ملتے کسی کو میکہ اچھا نہیں ملتا کسی کو سسرال،کوئی سسرال میں جوتے کھاتی رہتی ہے اور کوئی راج کر رہی ہوتی ہے۔

لڑکی کے حوالے سے یہ بھی صحیح ہے کہ جب وہ ازدواجی بندھن میں بندھتی ہے اور کسی وجہ سے اگر لڑکا (اس کا شوہر) لڑکی کو طلاق دینے کی غلطی یا ارتکاب کرتا ہے تو خاندان تباہ ہوتا ہے لیکن جب لڑکی ایسی غلطی کرلے تو نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں ، لیکن قدرت نے لڑکی (عورت) کا دل بہت بڑا اور بہت نرم رکھا ہے ، اس کے اندر محبت کرنے کی آرزو رکھی ہے۔ لڑکیاں یا صنف نازک آدم کی پسلی سے تخلیق کردہ ہے اور اسے روز اول سے ایک معمہ یا پہیلی کہا گیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے صنف نازک کی تعریف اپنے اس شہرہ آفاق شعر کے ذریعے کچھ اس طرح کی ہے کہ:

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز و درون

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

بلاشبہ وہ ساز ہے، سوز ہے، اس کے ہزار روپ ہیں مگر تاحال سربستہ راز ہے اور شاید تا ابد یہ راز راز ہی رہے گا۔ اس پر ہزاروں دیوان لکھے گئے، کروڑوں تحریریں قلم بند کرکے منظر عام پر لائی گئیں پھر بھی اسے کوئی سمجھ نہیں پایا ہے، وہ ازل سے تشنہ لب ہے اور غالباً ابد تک رہے گی۔ باوجود اس کے کہ وہ لڑکوں (مردوں) سے پہلے اٹھتی ہے اور اپنے تمام گھر والوں کے بعد آرام کرنے اپنے بستر پر جاتی ہے۔ بعض لڑکیاں اپنی ذات میں اتنی مکمل ہوتی ہیں کہ بہتر سے بہتر مرد بھی ان کے لائق نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے تقدس کی خاطر انھیں اپنے سرکا تاج بنا کر رکھتی ہیں۔

صنف نازک کے حوالے سے یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر یا مکان لڑکے یا مرد کا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے صرف لڑکی یا عورت ہی بناتی اور بچاتی ہے، لیکن آج اکیسویں صدی میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لڑکی کو اپنا گھر بنانے یا بہتر بنانے کے لیے مرد کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنا پڑ رہا ہے معاشی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ بہت پہلے لڑکوں کا گھر میں رہنا اور لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔

لڑکیوں کے حوالے سے یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو لڑکیاں سر جھکا کر چلتی ہیں ان کے باپ بھائی ہمیشہ سر اٹھا کر چلتے ہیں۔ لڑکیاں والدین خصوصاً باپ کے جنازے کی رونق ہوتی ہیں، اکثر لڑکے شادی سے پہلے تک والدین کے بیٹے ہوتے ہیں لیکن شادی کے بعد وہ بیٹے نہیں صرف اپنی بیوی کے شوہر بن کے رہ جاتے ہیں لیکن لڑکیاں مرتے دم تک والدین کی چارپائیاں اور دروازے کی چوکھٹ نہیں چھوڑتیں بالخصوص والدین کے علاج معالجے ان کی دیکھ بھال میں مرتے دم تک پیش پیش رہتی ہیں۔ لڑکیوں کے بارے میں یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ بولنے والی لڑکیاں کم ہی لوگوں کو اچھی لگتی ہیں اور لڑنے جھگڑنے والی لڑکیاں بھی لوگوں کے دل سے بہت جلد اتر جاتی ہیں۔

بہرکیف لڑکی (عورت) اور لڑکا (مرد) کے درمیان آج اکیسویں صدی میں بھی ''امتیاز'' ہر جگہ موجود ہے۔ جنس کی بنیاد پر اس امتیاز نے آدھی انسانیت کے ذہنی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی امکان کو مفلوج کر رکھا ہے۔ جنگلوں سے نکل کر شہروں میں آ بسنے والے بھی آج تک عورت (زن) کو مال مویشی کی طرح اپنی ملکیت سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی عورت کو آدھی دنیا کہا جاتا ہے لیکن انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ آدھی دنیا ہونے کے باوجود اسے وہ اہمیت اور حیثیت نہیں دی گئی جس کی وہ واقعتاً مستحق تھی تاہم محسن انسانیت یعنی ہمارے نبیؐ نے اس کا بہت اعلیٰ مقام بتایا ہے اور جنت میں ساتھ رہنے کی ضمانت عطا فرمائی ہے۔
Load Next Story