امتحان
اس وقت حکومت اور پوری قوم کو ہمت و استقامت سے کام لینے کی ضرورت ہے انشا اللہ تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔
GENEVA:
مسلمانوں پر دہشتگردی کا لیبل لگانے والوں کی آنکھیں اب شایدکھلی کی کھلی ہی نہیں بلکہ پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہوں گی کہ ان کے اپنے بھی دہشت گرد ہی نہیں بلکہ مہا دہشت گرد ہوسکتے ہیں ۔ مسلمان کب سے مغربی ممالک کو یہ باورکرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے مگر افسوس کہ مغرب دہشت گردی کو اسلام سے منسلک کرنے پر بضد تھا۔ اب شاید ان کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوجائے۔
بہرحال اب اس سلسلے میں ضرورت اس امرکی ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کرنے کے خلاف باقاعدہ عالمی سطح پر مہم چلانا چاہیے، ساتھ ہی اقوام متحدہ میں بھی اس ضمن میں قرارداد پاس کرانی چاہیے۔ نیوزی لینڈ میں مسجد جیسی مقدس جگہ پر جس سفاکی سے نمازیوں کوگولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے تو واضح طور پر لگتا ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد بھی صلیبی جنگوں کو نہیں بھلایا جاسکا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ جو متعصبانہ رویہ اختیارکیا جا رہا ہے وہ سراسر اسی بغض کی عکاسی کرتا ہے جہاں تک مسلمانوں کے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا معاملہ ہے تو وہ سراسر مغرب کی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئیں مسلسل زیادتیاں اور ناانصافیاں ہیں۔
مسلمانوں کے سیاسی اور حق خود اختیاری کے پرانے مسائل کو آج تک نہیں سلجھایا گیا ہے بلکہ ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ ان جائز اور حقیقی مسائل کو جن کو حل کرنے کی اقوام متحدہ نے بھی ہدایت کی ہے ان کو بھی بڑی ڈھٹائی اور حقارت سے نظرانداز کردیا گیا ہے اور ان بدقسمت مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے۔
کشمیر اور فلسطین کے مسائل سب کے ہی سامنے ہیں وہاں کے محکوم مسلمان برسوں سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں مگر ان کے مسائل جوں کے توں ہیں جب کہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان نام کے دو نئے ممالک دو مسلم ممالک کو توڑ کر وجود میں لائے جا چکے ہیں۔ امریکا جوکہ سپر پاور ہے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کو بھی حل کرائے مگر افسوس کہ وہ توکھلم کھلا قابض ممالک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
اگر مغربی ممالک واقعی حقوق انسانی کے علم بردار ہیں تو پھر وہ بھارت سے کیوں نہیں پوچھتے کہ اگرکشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور وہاں کوئی علیحدگی کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر اس نے وہاں سات لاکھ فوج کیوں متعین کر رکھی ہے اور وہ حریت پسندوں پرکیوں گولیوں کی بوچھاڑ کر رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ناانصافیاں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ایسی ہی ناانصافیاں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی وجہ بنی تھیں جن میں کروڑوں لوگوں کی جانیں گئی تھیں اور کئی ممالک تباہ و برباد ہوگئے تھے۔
خدشہ ہے کہ مغربی ممالک کی موجودہ ناانصافیاں اور اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا اور اسے لیگ آف نیشن جیسا بے اثر ادارہ بنانا کہیں دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب نہ دھکیل دے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ اس وقت ہندو دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ وہاں تو سرکاری سرپرستی میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ اقلیتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ تو اپنی پسند کی غذا بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی سیکولر حیثیت اور جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے۔
آر ایس ایس کی مسلمانوں سے دشمنی کی جڑیں ماضی سے جڑی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی مسلمان بادشاہوں نے اپنی ہندو رعایا کے ساتھ مثالی مشفقانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ خود ہندو تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں میں مسلمان بادشاہوں کی انصاف پسندی کی تعریفیں کی ہیں۔ اس کے ثبوت میں مانک لال منشی کی Government of Mughal Empire اور رومیلا تھاپرکی History of India اور دیگر تاریخ دانوں کی کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی جو بھی جنگیں ہندو راجاؤں سے ہوئیں وہ تمام علاقوں اور وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے تھیں ہندوؤں یا ان کے مذہب کے خلاف ہرگز نہیں تھیں۔
مہاراجا پرتاب سنگھ کی فوجوں کی اکبر بادشاہ کی فوجوں سے ہلدی گھاٹی میں جو خوف ناک جنگ ہوئی وہ ہرگز ہند و و مسلمانوں کی جنگ نہیں تھی اور ایسا ہوتا تو اکبر بادشاہ کی فوج کی سربراہی راجہ مان سنگھ نہ کر رہے ہوتے اور شیواجی جو کٹر ہندو نظریات کا حامل راجہ تھا اس کی فوج کا کمانڈر مسلمان نہ ہوتا۔ حقیقتاً یہ جنگیں صرف علاقوں کو ہتھیانے اور وسائل کو چھیننے کی جنگیں تھیں۔ دراصل ہندو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے والے انگریز تھے۔ جب انھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانا چاہا تو انھیں ہندو و مسلمانوں دونوں قوموں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
1857 میں انھوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف حتمی جنگ شروع کردی تھی مگر انگریزوں کے کچھ ہندو اور مسلمان نمک خواروں کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کو کامیابی نصیب ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی پورے برصغیر پر ان کی حکومت قائم ہوگئی مگر انھیں پھر بھی ہندو و مسلمانوں کے اتحاد سے خطرہ تھا چنانچہ انھوں نے دونوں قوموں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے کچھ برہمنوں کو اپنے ساتھ ملالیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے کے لیے مقرر کردیا۔ انھوں نے دونوں قوموں کے اتحاد کو مستقل طور پر خراب کرنے کے لیے مذہبی منافرت پھیلانا شروع کردی۔ پھر ان سے مسلمانوں کے عقائد کے خلاف کتابیں اورکتابچے لکھوائے گئے جن میں پیغمبر اسلامؐ کی تضحیک کی گئی تھی۔ انھوں نے مرہٹوں کو ملا کر کئی ہندو قوم پرست تنظیمیں قائم کرائیں۔
ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ سیوک سنگھ ان کی ہی پیداوار ہیں ان کا واضح مقصد مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنا تھا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ کہاں تو پہلے ہندو مسلمان مل کر انگریزوں کو برصغیر سے باہر نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے مگر انگریزوں کی ساختہ ہندو دہشتگرد تنظیموں کا واضح ایجنڈا اب مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنا یا جان سے مارنا تھا۔ انگریزوں نے ان مسلم دشمن تنظیموں کی مالی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں قانون ہاتھ میں لینے کی بھی مکمل چھوٹ دے دی تھی ان تنظیموں نے پورے برصغیر میں مسلمانوں پر حملے شروع کردیے۔
اب قیام پاکستان کے بعد مہاسبھا اور آر ایس ایس جہاں کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں وہاں پاکستان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سرگرم ہیں۔ بی جے پی نے ان دونوں ہی مسلم کش تنظیموں کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور وہی اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے چنانچہ جس دن سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں وہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور کشمیر پر اپنے قبضے کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں مگر پلوامہ حملے کے بعد کشمیریوں کی آزادی کی تحریک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور اب بھارت کے لیے ان کی آزادی کو روکنا محال ہوگیا ہے چنانچہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ کرکے اسے کشمیریوں کی حمایت سے باز رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اسرائیل سے گہری دوستی کے ذریعے امریکا کو مٹھی میں لے چکا ہے چنانچہ امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس کے جوہری پروگرام کو اپنے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے۔
دراصل یہ پاکستانیوں کے لیے ایک امتحانی دور ہے۔ اس وقت حکومت اور پوری قوم کو ہمت و استقامت سے کام لینے کی ضرورت ہے انشا اللہ تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔ دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑے گی اور ان کی نفرت سے ہم پاکستانی ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے حوصلے کبھی بھی پست نہیں ہوں گے۔
مسلمانوں پر دہشتگردی کا لیبل لگانے والوں کی آنکھیں اب شایدکھلی کی کھلی ہی نہیں بلکہ پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہوں گی کہ ان کے اپنے بھی دہشت گرد ہی نہیں بلکہ مہا دہشت گرد ہوسکتے ہیں ۔ مسلمان کب سے مغربی ممالک کو یہ باورکرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے مگر افسوس کہ مغرب دہشت گردی کو اسلام سے منسلک کرنے پر بضد تھا۔ اب شاید ان کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوجائے۔
بہرحال اب اس سلسلے میں ضرورت اس امرکی ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کرنے کے خلاف باقاعدہ عالمی سطح پر مہم چلانا چاہیے، ساتھ ہی اقوام متحدہ میں بھی اس ضمن میں قرارداد پاس کرانی چاہیے۔ نیوزی لینڈ میں مسجد جیسی مقدس جگہ پر جس سفاکی سے نمازیوں کوگولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے تو واضح طور پر لگتا ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد بھی صلیبی جنگوں کو نہیں بھلایا جاسکا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ جو متعصبانہ رویہ اختیارکیا جا رہا ہے وہ سراسر اسی بغض کی عکاسی کرتا ہے جہاں تک مسلمانوں کے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا معاملہ ہے تو وہ سراسر مغرب کی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئیں مسلسل زیادتیاں اور ناانصافیاں ہیں۔
مسلمانوں کے سیاسی اور حق خود اختیاری کے پرانے مسائل کو آج تک نہیں سلجھایا گیا ہے بلکہ ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ ان جائز اور حقیقی مسائل کو جن کو حل کرنے کی اقوام متحدہ نے بھی ہدایت کی ہے ان کو بھی بڑی ڈھٹائی اور حقارت سے نظرانداز کردیا گیا ہے اور ان بدقسمت مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے۔
کشمیر اور فلسطین کے مسائل سب کے ہی سامنے ہیں وہاں کے محکوم مسلمان برسوں سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں مگر ان کے مسائل جوں کے توں ہیں جب کہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان نام کے دو نئے ممالک دو مسلم ممالک کو توڑ کر وجود میں لائے جا چکے ہیں۔ امریکا جوکہ سپر پاور ہے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کو بھی حل کرائے مگر افسوس کہ وہ توکھلم کھلا قابض ممالک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
اگر مغربی ممالک واقعی حقوق انسانی کے علم بردار ہیں تو پھر وہ بھارت سے کیوں نہیں پوچھتے کہ اگرکشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور وہاں کوئی علیحدگی کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر اس نے وہاں سات لاکھ فوج کیوں متعین کر رکھی ہے اور وہ حریت پسندوں پرکیوں گولیوں کی بوچھاڑ کر رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ناانصافیاں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ایسی ہی ناانصافیاں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی وجہ بنی تھیں جن میں کروڑوں لوگوں کی جانیں گئی تھیں اور کئی ممالک تباہ و برباد ہوگئے تھے۔
خدشہ ہے کہ مغربی ممالک کی موجودہ ناانصافیاں اور اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا اور اسے لیگ آف نیشن جیسا بے اثر ادارہ بنانا کہیں دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب نہ دھکیل دے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ اس وقت ہندو دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ وہاں تو سرکاری سرپرستی میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ اقلیتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ تو اپنی پسند کی غذا بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی سیکولر حیثیت اور جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے۔
آر ایس ایس کی مسلمانوں سے دشمنی کی جڑیں ماضی سے جڑی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی مسلمان بادشاہوں نے اپنی ہندو رعایا کے ساتھ مثالی مشفقانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ خود ہندو تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں میں مسلمان بادشاہوں کی انصاف پسندی کی تعریفیں کی ہیں۔ اس کے ثبوت میں مانک لال منشی کی Government of Mughal Empire اور رومیلا تھاپرکی History of India اور دیگر تاریخ دانوں کی کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی جو بھی جنگیں ہندو راجاؤں سے ہوئیں وہ تمام علاقوں اور وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے تھیں ہندوؤں یا ان کے مذہب کے خلاف ہرگز نہیں تھیں۔
مہاراجا پرتاب سنگھ کی فوجوں کی اکبر بادشاہ کی فوجوں سے ہلدی گھاٹی میں جو خوف ناک جنگ ہوئی وہ ہرگز ہند و و مسلمانوں کی جنگ نہیں تھی اور ایسا ہوتا تو اکبر بادشاہ کی فوج کی سربراہی راجہ مان سنگھ نہ کر رہے ہوتے اور شیواجی جو کٹر ہندو نظریات کا حامل راجہ تھا اس کی فوج کا کمانڈر مسلمان نہ ہوتا۔ حقیقتاً یہ جنگیں صرف علاقوں کو ہتھیانے اور وسائل کو چھیننے کی جنگیں تھیں۔ دراصل ہندو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے والے انگریز تھے۔ جب انھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانا چاہا تو انھیں ہندو و مسلمانوں دونوں قوموں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
1857 میں انھوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف حتمی جنگ شروع کردی تھی مگر انگریزوں کے کچھ ہندو اور مسلمان نمک خواروں کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کو کامیابی نصیب ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی پورے برصغیر پر ان کی حکومت قائم ہوگئی مگر انھیں پھر بھی ہندو و مسلمانوں کے اتحاد سے خطرہ تھا چنانچہ انھوں نے دونوں قوموں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے کچھ برہمنوں کو اپنے ساتھ ملالیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے کے لیے مقرر کردیا۔ انھوں نے دونوں قوموں کے اتحاد کو مستقل طور پر خراب کرنے کے لیے مذہبی منافرت پھیلانا شروع کردی۔ پھر ان سے مسلمانوں کے عقائد کے خلاف کتابیں اورکتابچے لکھوائے گئے جن میں پیغمبر اسلامؐ کی تضحیک کی گئی تھی۔ انھوں نے مرہٹوں کو ملا کر کئی ہندو قوم پرست تنظیمیں قائم کرائیں۔
ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ سیوک سنگھ ان کی ہی پیداوار ہیں ان کا واضح مقصد مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنا تھا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ کہاں تو پہلے ہندو مسلمان مل کر انگریزوں کو برصغیر سے باہر نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے مگر انگریزوں کی ساختہ ہندو دہشتگرد تنظیموں کا واضح ایجنڈا اب مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنا یا جان سے مارنا تھا۔ انگریزوں نے ان مسلم دشمن تنظیموں کی مالی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں قانون ہاتھ میں لینے کی بھی مکمل چھوٹ دے دی تھی ان تنظیموں نے پورے برصغیر میں مسلمانوں پر حملے شروع کردیے۔
اب قیام پاکستان کے بعد مہاسبھا اور آر ایس ایس جہاں کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں وہاں پاکستان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سرگرم ہیں۔ بی جے پی نے ان دونوں ہی مسلم کش تنظیموں کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور وہی اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے چنانچہ جس دن سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں وہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور کشمیر پر اپنے قبضے کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں مگر پلوامہ حملے کے بعد کشمیریوں کی آزادی کی تحریک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور اب بھارت کے لیے ان کی آزادی کو روکنا محال ہوگیا ہے چنانچہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ کرکے اسے کشمیریوں کی حمایت سے باز رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اسرائیل سے گہری دوستی کے ذریعے امریکا کو مٹھی میں لے چکا ہے چنانچہ امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس کے جوہری پروگرام کو اپنے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے۔
دراصل یہ پاکستانیوں کے لیے ایک امتحانی دور ہے۔ اس وقت حکومت اور پوری قوم کو ہمت و استقامت سے کام لینے کی ضرورت ہے انشا اللہ تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔ دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑے گی اور ان کی نفرت سے ہم پاکستانی ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے حوصلے کبھی بھی پست نہیں ہوں گے۔