امریکا مذاکرات پر مجبور کیوں ہوا
یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ افغانستان میں 12 سال تک لڑنے والے فریقین (امریکا اور طالبان) اب مذاکرات کی میز...
یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ افغانستان میں 12 سال تک لڑنے والے فریقین (امریکا اور طالبان) اب مذاکرات کی میز پر بیٹھنے لگے ہیں، اس سلسلے میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تحریک طالبان کا دفتر کھولا گیا، جہاں امریکا، افغان حکومت اور تحریک طالبان کے مابین امن مذاکرات ہوں گے، دفتر کھولنے کا مقصد طالبان اور باقی دنیا کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ یہ مذاکرات شروع ہوجاتے درمیان میں افغان صدر حامد کرزئی کی ناراضگی سامنے آگئی، جس وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ تنازع کی وجہ 18جون کو قطر میں کھولے گئے طالبان کے سیاسی دفتر کے نام کے بارے میں ہے، صدر کرزئی طالبان کے دفتر کے نام کے بارے میں خوش نہیں ہیں۔ افغان صدر کرزئی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم اس نام (اسلامک ایمریٹ آف افغانستان) کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ایسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔
امریکا اس سلسلے میں صدر کے موقف سے واقف تھا۔ واضح رہے کہ 1996 میں جب طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کی تو انھوں نے ملک کا یہی نام رکھا تھا۔ معطل کیے گئے مذاکرات میں افغانستان میں 2014 میں بین الاقوامی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکی فوجوں کی موجودگی کی نوعیت پر بات کی جارہی تھی۔ ایکسپریس کے سینئر صحافی سید طلعت حسین کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد اور واشنگٹن میں مہینوں طویل خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں ہی قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق قطر میں طالبان کے دفتر کا افتتاح ایک پیچیدہ عمل کا حصہ ہے اور اس عمل کا مقصد ترمیم شدہ افغان آئین کے تحت تمام شراکت داروں کو انتخابی عمل کے ذریعے طاقت کا حصہ دار بنانا ہے۔ یہ سفر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور انتخابات کے ساتھ ختم ہوگا۔
ایک فوجی افسر کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس طالبان کے سلسلے میں 3 حل تھے۔ پہلا یہ کہ طالبان کو مارو اور ان کی لڑنے کی صلاحیت مستقل طورپر ختم کردو۔ مگر اس میں وہ ناکام رہے۔ دوسرا حل تھا کہ طالبان سے شدید لڑائی کرو اور انھیں افغانستان کی نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کردو تاکہ وہ افغان آئین اور صدر کرزئی کی قیادت کو مان لیں ، مگر اس میں بھی ناکام ہوئی۔ تیسرا حل جسے ایک مجبوری بھی کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو افغانستان کی ایک قانونی طاقت مان لیا جائے، ان سے مذاکرات کیے جائیں اور حامد کرزئی کی حمایت ترک کرنے سمیت ان کے مطالبات مان لیے جائیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے برلن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے افغان حکومت کو طالبان سے مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں۔ افغان امن مذاکرات تمام مشکلات اور چیلنجز کے باوجود جاری رہیں گے۔ گوانتا ناموبے قید خانے کی بندش کے لیے پر عزم ہیں۔ افغان مفاہمتی مذاکرات شروع کرنے میں مشکلات متوقع ہیں۔ طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ اس بات کا فیصلہ افغان عوام نے کرنا ہے کہ آیا مصالحتی عمل کا کیا کیا جاسکتا ہے۔ جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی مصالحت کا متوازی راستہ بھی ضرور ہونا چاہیے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے امریکا اور طالبان دونوں نے بعض شرائط واپس لے لی ہیں۔
اپکسپریس ٹریبیون کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان طالبان کے ترجمان اور سیاسی دفتر کے سربراہ ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں جنگ بندی ایجنڈا میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پہلے اجلاس میں ہم اپنی تجاویز دیں گے اور امریکا کی سنیں گے۔ قطر میں ہمارا دفتر افغانوں کا دوسرا گھر ہے اور ہم ہر افغان کا وہاں خیر مقدم کریں گے اور ان کی بات سنیں گے تاہم افغان حکام نے ابھی تک ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے زیر اثر ہے، ہم اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہیں اور کسی ملک کے زیر اثر نہیں ہیں۔ تاہم طالبان افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ ادھر طالبان جنگجوئوں نے ٹیلی فون پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ اس دفتر کے قیام سے ہم بین الاقوامی کمیونٹی سے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی طرح مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، ہم امریکا کو شکست دینے کے اپنے مقصد کو پہنچ رہے ہیں۔
اب ہم اپنے ملک کو قبضے سے آزاد کرانا چاہتے ہیں اور اپنے طور پر اپنے ملک کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قطر میں آفس کھلنے پر خوش ہیں لیکن طالبان رہنمائوں کو حکومت میں شمولیت کے لیے کوئی ڈیل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہوگی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق افغانستان صدر حامد کرزئی کے اعتراض پر امریکا نے وضاحت کی ہے کہ قطر میں طالبان کا دفتر سفارت خانہ نہیں اور نہ ہی افغان طالبان خود مختار ہیں۔ جان کیری اپنے دورہ قطر کے دوران طالبان سے نہیں ملیںگے نہ ہی امارات اسلامیہ افغانستان کے نام کی تختی کو تسلیم کرتے ہیں، قطر نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے متنازع تختی کو ہٹا دیا ہے۔ طالبان دفتر کا قیام افغان تنازع کے سیاسی حل کی جانب اہم قدم ہے یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی نائب سفیر روز میری ڈی کار سو نے کہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے افغانستان کو خبر دار کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران عالمی برادری کی جانب سے کھینچی گئی ریڈ لائنز کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان نے دوحہ افغان طالبان کا دفتر کھلنے اور طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔ واضح رہے کہ افغان امن کے سلسلے میں پاکستان نے ہمیشہ مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان طویل عرصہ سے افغان مسئلے کے پر امن مذاکرات کے حل کا خواہاں رہا ہے اور امن واستحکام کے لیے ہمیشہ افغان خانہ جنگی کے جلد خاتمے پر بھی زور دیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہاہے کہ طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا تعاون چاہتے ہیں۔ پاکستان نے پہلے بھی امن مذاکرات کے لیے تعاون کا یقین دلایاتھا، امید ہے مذاکراتی عمل میں پاکستان مثبت کردار ادا کرے گا۔
امریکی سیکریٹری دفاع چیک ہیگل نے کہاہے کہ ہم افغانستان میں فوجیوں کی جگہ تبدیل کررہے ہیں مکمل نہیں جارہے، افغانستان میں طویل عرصے تک قیام کا منصوبہ بنایا ہے، 2014 میں فوجی انخلاء کے بعد جرمنی، اٹلی اور ترکی کے فوجی دستے امریکی فورسز کے ساتھ افغانستان میں قیام کریںگے۔ اس بات کا اعلان انھوں نے نیٹو وزرائے دفاع سطح کے اجلاس کے بعد کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پینٹا گون کا کہنا ہے کہ جنگی ساز و سامان کی افغانستان سے امریکی منتقلی پر بھاری اخراجات کے باعث فوجی گاڑیوں اور دیگر جنگی آلات کو 2014 تک تلف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکی فوج نے اب تک افغانستان میں 17 کروڑ پائونڈ سے زائد مالیت کی فوجی گاڑیاں تلف کردی ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کا کہناہے کہ فوجی ٹیکنالوجی اور آلات کو افغان حکومت کے حوالے کرنے میں ٹیکنالوجی کی دیگر ملکوں یا طالبان کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے۔ بعض جنگی ساز وسامان اتحادی ممالک کو فروخت کردیاجائے گا تاہم جنگی ساز وسامان کا بڑا حصہ افغان فوج کے حوالے کردیا جائے گا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بالا تمام حالات وواقعات کے باوجود ابھی امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوئی ہے، امریکا طالبان پر حملے کررہا ہے اور طالبان بھی امریکا پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟ پھر بھی یہ امید کی جا رہی ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان طے شدہ امن بات چیت جتنا جلدی ممکن ہو شروع ہوسکتی ہے۔
امریکا اس سلسلے میں صدر کے موقف سے واقف تھا۔ واضح رہے کہ 1996 میں جب طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کی تو انھوں نے ملک کا یہی نام رکھا تھا۔ معطل کیے گئے مذاکرات میں افغانستان میں 2014 میں بین الاقوامی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکی فوجوں کی موجودگی کی نوعیت پر بات کی جارہی تھی۔ ایکسپریس کے سینئر صحافی سید طلعت حسین کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد اور واشنگٹن میں مہینوں طویل خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں ہی قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق قطر میں طالبان کے دفتر کا افتتاح ایک پیچیدہ عمل کا حصہ ہے اور اس عمل کا مقصد ترمیم شدہ افغان آئین کے تحت تمام شراکت داروں کو انتخابی عمل کے ذریعے طاقت کا حصہ دار بنانا ہے۔ یہ سفر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور انتخابات کے ساتھ ختم ہوگا۔
ایک فوجی افسر کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس طالبان کے سلسلے میں 3 حل تھے۔ پہلا یہ کہ طالبان کو مارو اور ان کی لڑنے کی صلاحیت مستقل طورپر ختم کردو۔ مگر اس میں وہ ناکام رہے۔ دوسرا حل تھا کہ طالبان سے شدید لڑائی کرو اور انھیں افغانستان کی نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کردو تاکہ وہ افغان آئین اور صدر کرزئی کی قیادت کو مان لیں ، مگر اس میں بھی ناکام ہوئی۔ تیسرا حل جسے ایک مجبوری بھی کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو افغانستان کی ایک قانونی طاقت مان لیا جائے، ان سے مذاکرات کیے جائیں اور حامد کرزئی کی حمایت ترک کرنے سمیت ان کے مطالبات مان لیے جائیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے برلن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے افغان حکومت کو طالبان سے مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں۔ افغان امن مذاکرات تمام مشکلات اور چیلنجز کے باوجود جاری رہیں گے۔ گوانتا ناموبے قید خانے کی بندش کے لیے پر عزم ہیں۔ افغان مفاہمتی مذاکرات شروع کرنے میں مشکلات متوقع ہیں۔ طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ اس بات کا فیصلہ افغان عوام نے کرنا ہے کہ آیا مصالحتی عمل کا کیا کیا جاسکتا ہے۔ جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی مصالحت کا متوازی راستہ بھی ضرور ہونا چاہیے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے امریکا اور طالبان دونوں نے بعض شرائط واپس لے لی ہیں۔
اپکسپریس ٹریبیون کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان طالبان کے ترجمان اور سیاسی دفتر کے سربراہ ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں جنگ بندی ایجنڈا میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پہلے اجلاس میں ہم اپنی تجاویز دیں گے اور امریکا کی سنیں گے۔ قطر میں ہمارا دفتر افغانوں کا دوسرا گھر ہے اور ہم ہر افغان کا وہاں خیر مقدم کریں گے اور ان کی بات سنیں گے تاہم افغان حکام نے ابھی تک ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے زیر اثر ہے، ہم اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہیں اور کسی ملک کے زیر اثر نہیں ہیں۔ تاہم طالبان افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ ادھر طالبان جنگجوئوں نے ٹیلی فون پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ اس دفتر کے قیام سے ہم بین الاقوامی کمیونٹی سے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی طرح مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، ہم امریکا کو شکست دینے کے اپنے مقصد کو پہنچ رہے ہیں۔
اب ہم اپنے ملک کو قبضے سے آزاد کرانا چاہتے ہیں اور اپنے طور پر اپنے ملک کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قطر میں آفس کھلنے پر خوش ہیں لیکن طالبان رہنمائوں کو حکومت میں شمولیت کے لیے کوئی ڈیل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہوگی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق افغانستان صدر حامد کرزئی کے اعتراض پر امریکا نے وضاحت کی ہے کہ قطر میں طالبان کا دفتر سفارت خانہ نہیں اور نہ ہی افغان طالبان خود مختار ہیں۔ جان کیری اپنے دورہ قطر کے دوران طالبان سے نہیں ملیںگے نہ ہی امارات اسلامیہ افغانستان کے نام کی تختی کو تسلیم کرتے ہیں، قطر نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے متنازع تختی کو ہٹا دیا ہے۔ طالبان دفتر کا قیام افغان تنازع کے سیاسی حل کی جانب اہم قدم ہے یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی نائب سفیر روز میری ڈی کار سو نے کہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے افغانستان کو خبر دار کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران عالمی برادری کی جانب سے کھینچی گئی ریڈ لائنز کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان نے دوحہ افغان طالبان کا دفتر کھلنے اور طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔ واضح رہے کہ افغان امن کے سلسلے میں پاکستان نے ہمیشہ مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان طویل عرصہ سے افغان مسئلے کے پر امن مذاکرات کے حل کا خواہاں رہا ہے اور امن واستحکام کے لیے ہمیشہ افغان خانہ جنگی کے جلد خاتمے پر بھی زور دیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہاہے کہ طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا تعاون چاہتے ہیں۔ پاکستان نے پہلے بھی امن مذاکرات کے لیے تعاون کا یقین دلایاتھا، امید ہے مذاکراتی عمل میں پاکستان مثبت کردار ادا کرے گا۔
امریکی سیکریٹری دفاع چیک ہیگل نے کہاہے کہ ہم افغانستان میں فوجیوں کی جگہ تبدیل کررہے ہیں مکمل نہیں جارہے، افغانستان میں طویل عرصے تک قیام کا منصوبہ بنایا ہے، 2014 میں فوجی انخلاء کے بعد جرمنی، اٹلی اور ترکی کے فوجی دستے امریکی فورسز کے ساتھ افغانستان میں قیام کریںگے۔ اس بات کا اعلان انھوں نے نیٹو وزرائے دفاع سطح کے اجلاس کے بعد کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پینٹا گون کا کہنا ہے کہ جنگی ساز و سامان کی افغانستان سے امریکی منتقلی پر بھاری اخراجات کے باعث فوجی گاڑیوں اور دیگر جنگی آلات کو 2014 تک تلف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکی فوج نے اب تک افغانستان میں 17 کروڑ پائونڈ سے زائد مالیت کی فوجی گاڑیاں تلف کردی ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کا کہناہے کہ فوجی ٹیکنالوجی اور آلات کو افغان حکومت کے حوالے کرنے میں ٹیکنالوجی کی دیگر ملکوں یا طالبان کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے۔ بعض جنگی ساز وسامان اتحادی ممالک کو فروخت کردیاجائے گا تاہم جنگی ساز وسامان کا بڑا حصہ افغان فوج کے حوالے کردیا جائے گا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بالا تمام حالات وواقعات کے باوجود ابھی امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوئی ہے، امریکا طالبان پر حملے کررہا ہے اور طالبان بھی امریکا پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟ پھر بھی یہ امید کی جا رہی ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان طے شدہ امن بات چیت جتنا جلدی ممکن ہو شروع ہوسکتی ہے۔