آخر یہ دشمنی کب تلک
بدھ کی شام ہر ٹیلی ویژن چینل دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پرمظاہرین کے دھاوے کے مناظر دکھا رہا تھا۔۔۔
لاہور:
بدھ کی شام ہر ٹیلی ویژن چینل دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پرمظاہرین کے دھاوے کے مناظر دکھا رہا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ کانگریس یوتھ ونگ کے مشتعل کارکن تھے، جو بقول ان کے کنٹرول لائین پر پاکستانی فوج کی فائرنگ سے ہلاک بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر اپنے غم وغصہ کا اظہار کررہے تھے۔ابھی اس افسوسناک واقعہ کی گرد بیٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ عید کے دن یعنی جمعہ کومشتعل مظاہرین نے دوستی بس جودہلی سے لاہورآرہی رہی تھے، کو امرتسرکے قریب کئی گھنٹے تک روکے رکھا۔ اگلے روز یعنی سنیچر کو بھی یہی کچھ کیاگیا۔ معاملہ ان واقعات تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت کے کئی شہروں میں بھی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکاہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکمران اور اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف مظاہروں کاسلسلہ شروع کیا گیاہے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نئے کھیل کامقصد کیاہے اور اس کاانجام کیاہوگا۔
بعض تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی جماعت کے کارکن نہیں ہیں بلکہ بھارتی اسٹبلشمنٹ کے تنخواہ دار کارندے ہیں، جنھیںپاک بھارت مذاکراتی عمل میں ہونے والی پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی اسٹبلشمنٹ اس خطے کے بارے میں ہونے والی فیصلہ سازی پردیگر امور کے مقابلے میں زیادہ اثر اندازہوتی ہیں۔وہ سیاسی قیادتوں کو اس حد تک فری ہینڈدینے کے حق میں نہیں ہیں، جس سے ان کے مخصوص مفادات متاثر ہوں۔یہی سبب ہے کہ کبھی سرحد کے اِس پار اور کبھی اُس پار کی اسٹبلشمنٹ نے مصالحانہ کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکاکران کا راستہ روکاہے۔چنانچہ ان 65 برسوں کے دوران کبھی لائن آف کنٹرول (LoC)پرحالات خراب کردئیے جاتے ہیں، تو کبھی کوئی اور نزاعی مسئلہ کھڑاکرکے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں جانب کے مذہبی شدت پسند عناصر کو بھی نفرتیں بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارت میںلوک سبھاکے لیے عام انتخابات اگلے برس مئی میں متوقع ہیں، لیکن اس سے قبل چارریاستوں میںاسی سال نومبر میں انتخابات ہوں گے۔اس وقت کانگریس کی پوزیشن خاصی کمزور ہے اور بی جے پی کی پوزیشن بہتر ہورہی ہے۔بی جے پی میں شامل اور اس کی اتحادی جماعتیں پہلے ہی پاکستان مخالف جذبات بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ اب اگر کانگریس ان چار ریاستوں میںدو یا تین ریاستوںمیں انتخابات ہار جاتی ہے،تو اس کے اثرات لوک سبھا کے عام انتخابات پربھی مرتب ہوں گے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ کانگریس اگر عام انتخابات میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے،تو بھی مضبوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔اسلیے کانگریس بھی بی جے پی کی طرح پاکستان مخالف جذبات ابھارکرووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔لیکن یہ ایک انتہائی بھونڈا طریقہ ہے، کیونکہ اس طرح دونوں ممالک کے عوام کے درمیاں نفرتیں مزید بڑھیں گی۔
اس کے برعکس پاکستان میں گذشتہ برسوں سے انتخابات میں بھارت کی مخالفت کو بنیادبناکر ووٹ مانگنے کا کلچرتقریباً ختم ہوچکاہے۔بلکہ میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) اس معاملہ میںمزید دو قدم آگے بڑھ چکی ہے۔اس نے حالیہ انتخابات میں نہ صرف اپنے انتخابی منشور میں دیگر وعدوں کے علاوہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو شامل کیا،بلکہ میاں صاحب نے ہمیشہ جرأتمندی کے ساتھ انتخابی تقاریر میںبھی پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔جب کہ پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ہمیشہ پاک بھارت تعلقات کے حق میں رہی ہیں۔جب کہ پاکستان میں مقبول ووٹ انہی جماعتوں کو پڑتاہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں رائے عامہ کی اکثریت پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی مخالف نہیں ہے۔
لیکن جہاں تک پاک بھارت تعلقات کے حوالے کوششوں کا تعلق ہے،توان کے راستے میں رکاوٹوں کا آنابھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے سنجیدہ کو ششیں شروع ہوتی ہیں،کچھ نا دیدہ قوتیںسرحد کی دونوں جانب اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ دور کیوں جائیں فروری 1999ء میںجب اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی دوستی بس پر سوار ہوکرلاہور آئے اور انھوں نے مینار پاکستان پرجاکر علامتی طورپریہ عندیہ بھی دیا کہ بھارت پاکستان کو بحیثیت ایک آزادوخودمختار ریاست تسلیم کرتے ہوئے ماضی کی تلخیوںکوفراموش کرنے پر آمادہ ہے۔مگراس کے باوجود پاک بھارت مذاکرات کاراستہ روکنے کاکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ پہلے ایک مذہبی جماعت کے ذریعہ پرتشدد مظاہرہ کرایاگیا،جس کے نتیجے میں لاہور کی سڑکیں خون میں رنگ گئیں۔لیکن اس کے باوجود دونوں وزرائے اعظم نے کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور کومذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کے معاہدے پر دستخط کردئیے،تو پہلے کارگل کے ذریعہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی اور بالآخر میاں نواز شریف کی حکومت ہی ختم کردی گئی۔
گذشتہ 15برسوں کے دوران ہمارا تسلسل کے ساتھ بھارت جانے کا اتفاق ہوا ہے،جس میںمعاشرے کے دیگر شراکت داروں کے مقابلے میںذرائع ابلاغ کے ساتھ گفت وشنید کے زیادہ مواقع ملے ہیں۔ہمارا مطالعہ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان ا ور بھارت دونوں ممالک میں عوام کی اکثریت نارمل تعلقات کی حامی ہے۔وہ اس حقیقت کوبھی تسلیم کرتی ہے کہ 1947ء میں جو ہوناتھا وہ ہوچکا،اسلیے اب آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور عوامی مسائل کے حل کا واحد راستہ یہی ہے کہ دونوں ممالک اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی گذاریں۔مگردونوں جانب تقریباًپانچ فیصد کے قریب ایسے شدت پسند عناصربھی پائے جاتے ہیں، جوماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔انتہاء پسندو ہندو قیام پاکستان کو پوتر(پاک)بھارت ماتا کی تقسیم سمجھتے ہیں اور اسلیے پاکستان کے وجود کے مخالف ہیں۔
انھیں کون سمجھائے کہ برٹش دور سے پہلے برصغیر کبھی ایک ریاست اور ایک مرکز کے تابع نہیں رہا۔اسی طرح پاکستان میں بھی کم وبیش اتنی ہی تعداد میں ایسے نرگسیت پسند موجود ہیں، جو پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کے خواب دیکھتے ہیں اور دہلی پر پاکستانی پرچم لہرانے کے خواہشمند ہیں۔دونوں جانب کے انہی عناصر کو پاکستان اور بھارت کی اسٹبلشمنٹ اپنے اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعہ ہربارمذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرانے کی کوشش کرتی ہیں۔اس کے علاوہ دونوں ممالک میں ذرائع ابلاغ کا ایک مخصوص حصہ بھی اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر منفی پروپیگنڈا کرکے متعصبانہ سوچ کو آگے بڑھاتاہے ۔جس کی وجہ سے متنازعہ مسائل کے مذاکرات کے ذریعہ حل میںرکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
ان دونوں ممالک میں موجود بااثر Mindsetیہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کئی سو برس تک ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں رہنے والی یورپی اقوام کو دو عالمی جنگوں کے بعد اس بات اندازہ ہوگیا کہ جنگ، تنائو اور مخاصمت سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا گذشتہ 60برسوں کے دوران یورپ ایک ایسے کنفیڈریشن میں تبدیل ہورہاہے، جہاں عوام کے عوام کے ساتھ براہ راست تعلق کے نتیجے میںسیاسی،سماجی،معاشی اور ثقافتی طورپر یورپ مستحکم ہورہا ہے۔جب کہ برصغیر کامعاملہ یورپ سے مختلف ہے،یہاں آباد مختلف نسلی،لسانی اور مذہبی کمیونٹیز 7سو برس تک ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔جسکی وجہ سے ان کا رہن سہن اور طرز حیات مشترک ہیں۔انھوں نے بیرونی جارحیت اور استعماریت کے خلاف 1857ء میں مشترکہ جدوجہد کی۔اس لیے ان کا ایک دوسرے کے قریب آنایورپی اقوام کی طرح مشکل مرحلہ نہیں ہے۔بلکہ تھوڑی سی سنجیدگی اور وسیع النظری بہت سے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ممالک کی سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادتیں اور دانشوراس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ریاست نہیں عوام پوترہوتے ہیں، ممالک کاجغرافیہ کوئی اٹل حقیقت نہیں ہوتا،بلکہ وقت اور حالات کے تحت تبدیل ہوتا رہتاہے۔انھیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی خطے کے دو یا دو سے زائد ممالک میں تقسیم ہوجانے کا یہ ہرگز مطلب نہیںہوتاکہ وہ اچھے پڑوسیوں کی طرح مل جل کررہ نہ سکیں۔اس کے علاوہ یہ طے ہے کہ تمام متنازعہ مسائل کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہوتے ہیں۔چنانچہ جب دو افراد، کمیونٹیز یا ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل شروع ہوتا ہے، تو بہت سے پیچیدہ مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ اسلیے جدیددنیامیں اختلافات کو انتخابی مہم کا حصہ بنانااور مذاکرات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام کے عوام سے رابطہ کومنقطع کرنے کی کوششیں کسی بھی ریاست کے لیے نہ صرف سود مند نہیں ہوتا بلکہ اس سے عوامی ترقی کی راہیں بھی مسدود ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہم دونوں ممالک کی قیادتوں سے یہی سوال کرسکتے ہیں کہ آخر یہ دشمنی کب تک۔
بدھ کی شام ہر ٹیلی ویژن چینل دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پرمظاہرین کے دھاوے کے مناظر دکھا رہا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ کانگریس یوتھ ونگ کے مشتعل کارکن تھے، جو بقول ان کے کنٹرول لائین پر پاکستانی فوج کی فائرنگ سے ہلاک بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر اپنے غم وغصہ کا اظہار کررہے تھے۔ابھی اس افسوسناک واقعہ کی گرد بیٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ عید کے دن یعنی جمعہ کومشتعل مظاہرین نے دوستی بس جودہلی سے لاہورآرہی رہی تھے، کو امرتسرکے قریب کئی گھنٹے تک روکے رکھا۔ اگلے روز یعنی سنیچر کو بھی یہی کچھ کیاگیا۔ معاملہ ان واقعات تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت کے کئی شہروں میں بھی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکاہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکمران اور اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف مظاہروں کاسلسلہ شروع کیا گیاہے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نئے کھیل کامقصد کیاہے اور اس کاانجام کیاہوگا۔
بعض تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی جماعت کے کارکن نہیں ہیں بلکہ بھارتی اسٹبلشمنٹ کے تنخواہ دار کارندے ہیں، جنھیںپاک بھارت مذاکراتی عمل میں ہونے والی پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی اسٹبلشمنٹ اس خطے کے بارے میں ہونے والی فیصلہ سازی پردیگر امور کے مقابلے میں زیادہ اثر اندازہوتی ہیں۔وہ سیاسی قیادتوں کو اس حد تک فری ہینڈدینے کے حق میں نہیں ہیں، جس سے ان کے مخصوص مفادات متاثر ہوں۔یہی سبب ہے کہ کبھی سرحد کے اِس پار اور کبھی اُس پار کی اسٹبلشمنٹ نے مصالحانہ کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکاکران کا راستہ روکاہے۔چنانچہ ان 65 برسوں کے دوران کبھی لائن آف کنٹرول (LoC)پرحالات خراب کردئیے جاتے ہیں، تو کبھی کوئی اور نزاعی مسئلہ کھڑاکرکے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں جانب کے مذہبی شدت پسند عناصر کو بھی نفرتیں بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارت میںلوک سبھاکے لیے عام انتخابات اگلے برس مئی میں متوقع ہیں، لیکن اس سے قبل چارریاستوں میںاسی سال نومبر میں انتخابات ہوں گے۔اس وقت کانگریس کی پوزیشن خاصی کمزور ہے اور بی جے پی کی پوزیشن بہتر ہورہی ہے۔بی جے پی میں شامل اور اس کی اتحادی جماعتیں پہلے ہی پاکستان مخالف جذبات بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ اب اگر کانگریس ان چار ریاستوں میںدو یا تین ریاستوںمیں انتخابات ہار جاتی ہے،تو اس کے اثرات لوک سبھا کے عام انتخابات پربھی مرتب ہوں گے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ کانگریس اگر عام انتخابات میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے،تو بھی مضبوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔اسلیے کانگریس بھی بی جے پی کی طرح پاکستان مخالف جذبات ابھارکرووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔لیکن یہ ایک انتہائی بھونڈا طریقہ ہے، کیونکہ اس طرح دونوں ممالک کے عوام کے درمیاں نفرتیں مزید بڑھیں گی۔
اس کے برعکس پاکستان میں گذشتہ برسوں سے انتخابات میں بھارت کی مخالفت کو بنیادبناکر ووٹ مانگنے کا کلچرتقریباً ختم ہوچکاہے۔بلکہ میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) اس معاملہ میںمزید دو قدم آگے بڑھ چکی ہے۔اس نے حالیہ انتخابات میں نہ صرف اپنے انتخابی منشور میں دیگر وعدوں کے علاوہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو شامل کیا،بلکہ میاں صاحب نے ہمیشہ جرأتمندی کے ساتھ انتخابی تقاریر میںبھی پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔جب کہ پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ہمیشہ پاک بھارت تعلقات کے حق میں رہی ہیں۔جب کہ پاکستان میں مقبول ووٹ انہی جماعتوں کو پڑتاہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں رائے عامہ کی اکثریت پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی مخالف نہیں ہے۔
لیکن جہاں تک پاک بھارت تعلقات کے حوالے کوششوں کا تعلق ہے،توان کے راستے میں رکاوٹوں کا آنابھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے سنجیدہ کو ششیں شروع ہوتی ہیں،کچھ نا دیدہ قوتیںسرحد کی دونوں جانب اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ دور کیوں جائیں فروری 1999ء میںجب اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی دوستی بس پر سوار ہوکرلاہور آئے اور انھوں نے مینار پاکستان پرجاکر علامتی طورپریہ عندیہ بھی دیا کہ بھارت پاکستان کو بحیثیت ایک آزادوخودمختار ریاست تسلیم کرتے ہوئے ماضی کی تلخیوںکوفراموش کرنے پر آمادہ ہے۔مگراس کے باوجود پاک بھارت مذاکرات کاراستہ روکنے کاکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ پہلے ایک مذہبی جماعت کے ذریعہ پرتشدد مظاہرہ کرایاگیا،جس کے نتیجے میں لاہور کی سڑکیں خون میں رنگ گئیں۔لیکن اس کے باوجود دونوں وزرائے اعظم نے کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور کومذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کے معاہدے پر دستخط کردئیے،تو پہلے کارگل کے ذریعہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی اور بالآخر میاں نواز شریف کی حکومت ہی ختم کردی گئی۔
گذشتہ 15برسوں کے دوران ہمارا تسلسل کے ساتھ بھارت جانے کا اتفاق ہوا ہے،جس میںمعاشرے کے دیگر شراکت داروں کے مقابلے میںذرائع ابلاغ کے ساتھ گفت وشنید کے زیادہ مواقع ملے ہیں۔ہمارا مطالعہ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان ا ور بھارت دونوں ممالک میں عوام کی اکثریت نارمل تعلقات کی حامی ہے۔وہ اس حقیقت کوبھی تسلیم کرتی ہے کہ 1947ء میں جو ہوناتھا وہ ہوچکا،اسلیے اب آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور عوامی مسائل کے حل کا واحد راستہ یہی ہے کہ دونوں ممالک اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی گذاریں۔مگردونوں جانب تقریباًپانچ فیصد کے قریب ایسے شدت پسند عناصربھی پائے جاتے ہیں، جوماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔انتہاء پسندو ہندو قیام پاکستان کو پوتر(پاک)بھارت ماتا کی تقسیم سمجھتے ہیں اور اسلیے پاکستان کے وجود کے مخالف ہیں۔
انھیں کون سمجھائے کہ برٹش دور سے پہلے برصغیر کبھی ایک ریاست اور ایک مرکز کے تابع نہیں رہا۔اسی طرح پاکستان میں بھی کم وبیش اتنی ہی تعداد میں ایسے نرگسیت پسند موجود ہیں، جو پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کے خواب دیکھتے ہیں اور دہلی پر پاکستانی پرچم لہرانے کے خواہشمند ہیں۔دونوں جانب کے انہی عناصر کو پاکستان اور بھارت کی اسٹبلشمنٹ اپنے اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعہ ہربارمذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرانے کی کوشش کرتی ہیں۔اس کے علاوہ دونوں ممالک میں ذرائع ابلاغ کا ایک مخصوص حصہ بھی اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر منفی پروپیگنڈا کرکے متعصبانہ سوچ کو آگے بڑھاتاہے ۔جس کی وجہ سے متنازعہ مسائل کے مذاکرات کے ذریعہ حل میںرکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
ان دونوں ممالک میں موجود بااثر Mindsetیہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کئی سو برس تک ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں رہنے والی یورپی اقوام کو دو عالمی جنگوں کے بعد اس بات اندازہ ہوگیا کہ جنگ، تنائو اور مخاصمت سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا گذشتہ 60برسوں کے دوران یورپ ایک ایسے کنفیڈریشن میں تبدیل ہورہاہے، جہاں عوام کے عوام کے ساتھ براہ راست تعلق کے نتیجے میںسیاسی،سماجی،معاشی اور ثقافتی طورپر یورپ مستحکم ہورہا ہے۔جب کہ برصغیر کامعاملہ یورپ سے مختلف ہے،یہاں آباد مختلف نسلی،لسانی اور مذہبی کمیونٹیز 7سو برس تک ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔جسکی وجہ سے ان کا رہن سہن اور طرز حیات مشترک ہیں۔انھوں نے بیرونی جارحیت اور استعماریت کے خلاف 1857ء میں مشترکہ جدوجہد کی۔اس لیے ان کا ایک دوسرے کے قریب آنایورپی اقوام کی طرح مشکل مرحلہ نہیں ہے۔بلکہ تھوڑی سی سنجیدگی اور وسیع النظری بہت سے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ممالک کی سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادتیں اور دانشوراس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ریاست نہیں عوام پوترہوتے ہیں، ممالک کاجغرافیہ کوئی اٹل حقیقت نہیں ہوتا،بلکہ وقت اور حالات کے تحت تبدیل ہوتا رہتاہے۔انھیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی خطے کے دو یا دو سے زائد ممالک میں تقسیم ہوجانے کا یہ ہرگز مطلب نہیںہوتاکہ وہ اچھے پڑوسیوں کی طرح مل جل کررہ نہ سکیں۔اس کے علاوہ یہ طے ہے کہ تمام متنازعہ مسائل کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہوتے ہیں۔چنانچہ جب دو افراد، کمیونٹیز یا ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل شروع ہوتا ہے، تو بہت سے پیچیدہ مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ اسلیے جدیددنیامیں اختلافات کو انتخابی مہم کا حصہ بنانااور مذاکرات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام کے عوام سے رابطہ کومنقطع کرنے کی کوششیں کسی بھی ریاست کے لیے نہ صرف سود مند نہیں ہوتا بلکہ اس سے عوامی ترقی کی راہیں بھی مسدود ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہم دونوں ممالک کی قیادتوں سے یہی سوال کرسکتے ہیں کہ آخر یہ دشمنی کب تک۔