سامراجی ایجنڈا اور مسلم ورلڈ
امریکی وزیر خارجہ نے پچھلے دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کا پچھلے کئی مہینوں سے انتظار تھا۔ نئی حکومت کے ...
امریکی وزیر خارجہ نے پچھلے دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کا پچھلے کئی مہینوں سے انتظار تھا۔ نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس دورے کی بہت اہمیت ہے، وہائٹ ہائوس کے ترجمان نے اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جان کیری کا دورہ خطے کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ دورہ پاکستان میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈرون حملوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ امریکا دشمنوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہے یا نہیں۔ ان کی رہائی قانونی معاملہ ہے۔ موجودہ دورے میں نواز شریف سے ملاقات میں یہ معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ نے دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات کی بہتری کو سراہا۔ دوحہ مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات ہوں یا نہ ہوں اس سے امریکا کی افغان پالیسی پر مجموعی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت تک بھر پور اقتصادی ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنی ''ملکی حدود میں'' انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسائل پر قابو نہیں پالیتا۔ سب سے اہم سوال جان کیری سے افغانستان سے انخلا کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انھوں نے جواب دیا کہ 2014ء میں افغانستان سے فوج کو واپس نہیں بلائیں گے بلکہ اپنی فوج کی تعداد میں کمی کریں گے۔
ہمارے کچھ سادہ لوح دانشور اور میڈیا مسلسل اس پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ امریکی افواج 2014ء میں افغانستان سے شکست کھا کر بھاگ جائیں گی۔ پتہ نہیں اس طرح سے وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں یا پاکستانی عوام کو تسلی دے رہے ہیں۔ یہ خوش فہم لوگ لفظ ''انخلا'' کی اپنی پسند کے مطابق تشریح کر رہے ہیں جو کہ ان کی پرانی عادت رہی ہے جب کہ اصل حقائق جان کیری نے اپنے حالیہ دورے میں بیان کر دیے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ انخلا کے باوجود افغانستان میں فوجی اڈے موجود رہیں گے جب کہ بحیرہ عرب میں امریکی جنگی طیارہ بردار جہاز بھی افغانستان میں افغان افواج کی مدد کو میسر رہیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے صرف یہ بتایا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے موقعہ امریکی فوج میں کمی ہو گی لیکن کتنی کمی ہو گی اس کے بارے میں سوچ سمجھ کر ابہام رکھا گیا ہے۔ میں اپنے کالموں میں دہراتا رہا ہوں کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا نظر کا دھوکہ ہی ہو گا۔
امریکا نے افغانستان میں اربوں ڈالر اس لیے نہیں خرچے کہ شکست کھا کر بھاگ جائے۔ افغانستان میں اپنی موجودگی سے امریکا نہ صرف ایران بلکہ پاکستان پر بھی دبائو برقرار رکھ سکے گا یا اس طرح سے ان دونوں جگہوں پر اپنی من پسند تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے گا۔ اس وقت ایران اس کے ایجنڈے پر اہم ترین ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کو نیوکلیئر صلاحیت سے محروم کر دیا جائے۔ دوسرے نمبر پر اس کی ترجیح پاک بھارت تعلقات میں بہتری ہے۔ پاک بھارت دوستی کے نتیجے میں ان دونوں ملکوں کے عوام کو تو فائدہ پہنچے گا ہی لیکن اصل فائدہ یہ ہو گا کہ ان دونوں ملکوں میں موجود شدت پسندوں نے جنھوں نے دونوں طرف کے عوام کو اپنا یرغمال بنایا ہوا ہے ان کو شکست ہو گی اور اس کا اثر مشرق وسطیٰ تک پہنچے گا۔ اس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔
وہ تبدیلی جو سوویت یونین کے خاتمے کے نتیجے میں آئی تھی 'وہ تبدیلی ابھی مکمل نہیں ہوئی'' جس کے لیے موجودہ روس، سوویت یونین کے خاتمے میں رضا کارانہ طور پر حصہ بنا تھا کہ اس نے اپنے ایٹمی اسلحے کا استعمال نہیں کیا جو دنیا کے بڑے ذخیروں میں سے تھا۔ لیکن امریکا نے بددیانتی سے کام لیتے ہوئے اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھا کر دنیا پر قبضے کے لیے دہشت گردی کے نام پر عالمی جنگ شروع کر دی۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس شام میں امریکا پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں اور ''شامی باغیوں'' کی آڑ میں شام پر امریکی قبضے کی ہر ممکن مزاحمت کر رہا ہے۔ شام پر امریکی قبضہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک نہ صرف جغرافیائی بلکہ سرحدوں کی تبدیلی لے کر آئے گا۔ امریکی لمبی مار پر ہیں۔ گلوبل سامراج مقامی سامراجوں سے مل کر اگلے سو سال کے لیے دنیا پر قبضے کو اپنی من پسند شکل دینا چاہتا ہے۔ عراق افغانستان اور پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگیں اسی امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہیں۔
اس وقت تو سب سے تشویش ناک صورتحال امریکا کے نزدیک مصر کی ہے جہاں عوام کی قوت نے مرسی حکومت کا خاتمہ کر کے فوج کو سامنے آنے کا موقعہ فراہم کیا۔ اسلامی ملکوں میں عوام کے درمیان مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال اس وقت ترکی اور مصر ہیں۔ اس کے بعد اگلی باری پاکستان کی ہے۔ مسلمانوں کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں کیونکہ دہشت گرد خود ہی مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ جو کچھ مصر میں ہوا جلد ہی پاکستان میں ہونے والا ہے۔ پاکستان میں حکمران طبقوں کی پیدا کردہ ''مذہبی شدت پسندی'' نے جو ان کے اور عالمی سامراج کے مفاد میں ہے پاکستانی قوم کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ لبرل سیکولر، اعتدال پسند اور مذہبی شدت پسندوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ مسلمان ملکوں کے غریب عوام ظالمانہ استحصال کرنے والے حکمران طبقوں کے خلاف طبقاتی جدوجہد کو فراموش کر کے مذہب کے نام ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوگئے ہیں۔ جب تک بھوک، غربت، بیروزگاری، مہنگائی کے مارے ہوئے اس ''سازش'' کو سمجھ نہیں جاتے وہ اپنے اپنے حکمرانوں اور ان کے سرپرست امریکا کو شکست نہیں دے سکتے۔
دہشت گردوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان اپنی فطرت میں لبرل سیکولر اعتدال پسند ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا سے انسان کے وجود کا ہی خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ یہ سب کچھ انسان نے اپنی ہزاروں سال کی تاریخ سے سیکھا، جب مذہب کے نام پر لڑائیاں ہوئیں اور مذہب کے نام پر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے کے کروڑوں افراد ''اچھے اور سچے عیسائی'' بننے کے شوق میں مار دیے۔ اب بالکل یہی کچھ مسلمان مذہب کے نام پر دوسرے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
... مصر کی صورت حال میں بہتری کا آغاز اگست کے دوسرے ہفتے سے ستمبر کے پہلے ہفتے کے درمیان ہو جائے گا۔
...پرویز مشرف کی اہم تاریخیں 17 سے 26 اگست ہیں۔