دہشت گردی اور وزیراعظم کا بیان
نواز شریف نے اپنے دورہ کراچی کے دوران بعض اہم مسائل پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا ایک معروضی ...
نواز شریف نے اپنے دورہ کراچی کے دوران بعض اہم مسائل پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا ایک معروضی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ''یہ وقت ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا نہیں ہے''۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک آج جس بدترین اقتصادی حالات کا شکار ہے، گیس بجلی کی قلت کی وجہ سے عوام اور صنعتی شعبے جن مشکلات کا شکار ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر میں جو خطرناک کمی آئی ہے، ڈالر کی قیمت میں جو ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، مہنگائی اور کرپشن جس انتہا کو پہنچ گئی ہے، سماجی جرائم میں جو ناقابل یقین اضافہ ہوگیا ہے، منافع خوری جس طرح بے لگام ہوگئی ہے، بے روزگاری جس انتہا کو پہنچ گئی ہے اور دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ملکی سالمیت کے لیے جس طرح سرخ نشان سے بہت آگے جاتی دکھائی دے رہی ہے اس کے پیش نظر اب سیاسی رقابتوں، سیاسی مخالفتوں اور اقتدار کی لڑائیوں کا وقت گزر چکا ہے، اب صرف ایک ہی سوال ہمارے سامنے ہے کہ عوام کے سنگین مسائل کو کس طرح حل کیا جائے اور ملک کو دہشت گردی کی یلغار سے کس طرح بچایا جائے؟
اگرچہ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے سے پہلے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کام سیاسی فریضے کے طور پر انجام دیتی ہے، مسلم لیگ (ن) بھی ماضی میں یہی کرتی رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ٹانگ کھینچنے اور کیچڑ اچھالنے کا کام بڑے تواتر و تن دہی سے کرتی رہی ہے۔ اس پس منظر میں نواز شریف کی یہ خواہش کے ''یہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا وقت نہیں ہے'' بہ ظاہر غیر منطقی غیر روایتی نظر آتی ہے لیکن ہم نے ملک و قوم کو درپیش جن سنگین مسائل کا ذکر کیا ہے ان کے پیش نظر یہ ضروری ہوگیا ہے کہ نہ صرف ان سنگین مسائل کے حل تک اختلافات کی روایات کو بھلادیا جائے بلکہ ان اہم ترین قومی مسائل کے حل کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اکٹھے بیٹھ کر ان مسائل کے حل خصوصاً ملک کی سالمیت کے سر پر لٹکنے والے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور قابل عمل پالیسی وضع کریں۔ یہ مسئلہ اب کسی سیاسی جماعت کے اقتدار کا رہا ہے نہ کسی اپوزیشن کی روایتی پالیسی کا بلکہ یہ مسئلہ ملک کے وجود اور عدم وجود، عوام اور ملک کے مستقبل کا مسئلہ بن گیا ہے۔
میاں صاحب نے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے مینڈیٹ کے احترام کی بات بھی کی ہے، پاکستان میں 65 سال سے جو سیاست کی جارہی ہے وہ نہ اصولی ہے نہ اخلاقی بلکہ صرف اور صرف مفاداتی سیاست ہے۔ اس سیاست کے پس منظر میں نواز شریف کے اس بیان کو ہدف تنقید بنانا جس میں انھوں نے پیپلز پارٹی اور متحدہ کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کا یقین دلایا ہے روایتی تو ہے لیکن بے معنی اور بے وقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ بلاشبہ میاں صاحب کی ماضی کی سیاست کی روشنی میں پی پی پی اور متحدہ سے اظہار یکجہتی اور ان کے مینڈیٹ کا احترام کرنا موقع پرستی نظر آتا ہے لیکن ہم نے ملک و قوم کو درپیش جن سنگین چیلنجز کی نشان دہی کی ہے ان کے پیش نظر سیاسی جماعتوں سے نواز شریف کی اپیل بامعنی بھی ہے وقت کی ضرورت بھی ہے۔
نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے ایسے منصوبوں کی طرف اڑان بھرنے کی کوشش کرتے ہیں جو وقت کی ناگزیر ضرورت نہیں ہوتے مثلاً نواز شریف کا یہ بیان کہ وہ کراچی سے لاہور تک چھ رویہ موٹروے کی بلاتاخیر تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے یہ جلد بازی نظر آتی ہے کہ فی الوقت موٹروے کے بغیر بھی گزارا ہورہا ہے، کراچی سے لاہور تک چھ رویہ موٹروے کوئی چھوٹا موٹا منصوبہ نہیں بلکہ یہ اربوں ڈالر کا منصوبہ ہے اور ایسے وقت میں جب کہ حکومت آئی ایم ایف سے سخت شرائط کے ساتھ 5 ارب ڈالر کا قرض لے رہی ہے اور اس رقم کو استعمال کرنے کے لیے موٹروے سے زیادہ اہم کام موجود ہیں جن میں ریلوے کی بحالی سرفہرست ہے، موٹروے کو اولین ترجیح بنانا ایڈونچر ازم کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر نواز شریف نے یہ بات اہل سندھ کو خوش کرنے کے لیے کہی ہے تو پھر اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں۔
اسی طرح میاں صاحب نے کہا ہے کہ وہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے زیر زمین ریلوے نظام کا جلد افتتاح کرنے والے ہیں۔ یہ بھی حقائق کے منافی خواہش ہے۔ کراچی کے 2 کروڑ عوام عشروں سے بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر بسوں کے دروازوں سے لٹک کر سفر کر رہے ہیں، جو انتہائی خطرناک سفر ہوتا ہے، کراچی کی بسوں، منی بسوں میں مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے، اس کے باوجود ہزاروں لوگ اپنی ملازمتوں پر عموماً لیٹ پہنچتے ہیں اور تادیبی کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہمارے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ بھی ٹرانسپورٹ کی بدترین مشکلات کو نظرانداز کرکے سرکلر ریلوے پر زور دے رہے ہیں جب کہ کراچی کے شہریوں کی فوری ضرورت یہ ہے کہ یہاں کم سے کم 500 بڑی بسوں کو سڑکوں پر لایا جائے اس کے بعد زیر زمین ریلوے اور سرکلر ریلوے کے منصوبوں پر عملدرآمد کی سبیل کی جائے۔
نواز شریف نے اپنے دورہ کراچی کے دوران گڈانی کا بھی دورہ کیا، ان کا کہنا ہے کہ گڈانی میں پاکستان پاور پارک کے منصوبوں پر عملدرآمد سے ملک میں توانائی کے بحران کو حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ انھوں نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ گڈانی پاور پارک کے منصوبے پر فوری عملدرآمد سے سسٹم میں ملکی تاریخ میں پہلی بار 16170 میگاواٹ بجلی آگئی ہے اور مزید 6000 میگاواٹ بجلی اس منصوبے سے سسٹم میں آسکتی ہے۔ اگر سسٹم میں 16170 میگاواٹ بجلی شامل ہوگئی ہے تو وہ گئی کہاں؟ کیونکہ ملک بھر میں اور کراچی میں لوڈشیڈنگ کا وہی حال ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں بجلی کی پیداوار کے فوائد نظر آنے چاہئیں جو نظر نہیں آرہے ہیں۔
متحدہ اور پیپلز پارٹی کے بارے میں نواز شریف کی نئی پالیسی کے نتیجے میں سندھ کی روایتی سیاست میں ایک بھونچال سا آگیا ہے جو سیاسی رہنما کل تک نواز شریف کا کلمہ پڑھتے دکھائی دیتے تھے وہ آج نواز شریف کے خلاف کانا پھوسی کی سیاست میں مشغول ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کے اجزائے ترکیبی میں منافقت، موقع پرستی، دوغلا پن، بے اصولی، ذاتی اور جماعتی مفادات، تعصب، قبائلی دشمنی جیسی متبرک چیزیں شامل ہیں اور پچھلے 65 سال سے یہی سیاست روبہ عمل ہے۔ کیا ان حقائق کی روشنی میں نواز شریف کی طرف سے پیپلز پارٹی اور متحدہ کے مینڈیٹ کے احترام کی بات ہماری سیاست میں کوئی نئی روایت ہے؟ ان خرابیوں کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست ابھی تک قبائلی اور فیوڈل اخلاقیات سے باہر نہیں آسکی، یہاں سیاست چند بااثر صنعتی اور جاگیردار اشرافیہ اور پیروں فقیروں اور موروثی گدی نشینوں کی میراث بنی ہوئی ہے اور ہمارے سیاستدان عوام کو اپنی اسی برتری کے حوالے سے جدھر چاہیں ہانک کر اپنے سیاسی مقاصد پورے کرتے ہیں، اسی اشرافیائی سیاست نے ملک کو اس جگہ پہنچادیا ہے جہاں ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا ہے۔
جیسے کہ ہم نے نشان دہی کی ہے اور پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام محسوس کر رہے ہیں کہ ملک عملاً دہشت گردوں کی تحویل میں جارہا ہے، دہشت گرد انتہائی منظم منصوبہ بند انداز میں جہاں چاہیں جب چاہیں ریاستی مشنری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی کارروائیاں کامیابی کے ساتھ پوری کرتے ہیں۔ خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے خطرناک جرائم میں ملوث اور سزائے موت پانے والے ساتھیوں کو جیلوں سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ آزاد کرواکر سیکڑوں میل دور تک اپنے ٹھکانوں تک بے روک ٹوک لے جارہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت اور ریاستی مشنری کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
میاں صاحب نے اپنے دورہ کراچی میں فرمایا ''دہشت گرد جیلوں کو توڑ کر اپنے مجرم ساتھیوں کو فرار کروا رہے ہیں، بنوں جیل کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے بھی دہشت گرد اپنے 300 کے لگ بھگ ساتھیوں کو چھڑا کر لے گئے ہیں''۔ میں حیرت سے سوچ رہا ہوں کہ دہشت گردوں کی اس کامیاب کارروائی پر میاں صاحب کے بیان کو ایک عام آدمی کا تبصرہ سمجھوں یا اسے ہمارے روایتی سیاستدانوں کا ردعمل سمجھوں، حکمراں طبقات کی تشویش سمجھوں یا کسی ایماندارسیاستدان کی پریشانی سے تعبیر کروں؟ کیا کوئی وزیر اعظم ریاست کو چیلنج کیے جانے والے اس سنگین مسئلے پر صرف تبصرہ کرسکتا ہے؟ عوام میاں صاحب سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست کو لاحق اس خطرے پر اس طرح تبصراتی بیان دینا ایک منتخب وزیر اعظم اور ریاست کے محافظ کے شایان شان ہے؟ یا بحیثیت وزیراعظم اس عفریت کے خلاف انھیں سخت ترین عملی اقدامات کرنے چاہئیں؟