خواجہ آصف والی بات

میرا موقف یہ ہے کہ خواجہ آصف کی بات تقریباً درست تھی۔


Tariq Mahmood Mian August 25, 2012
طارق محمود میاں

پیسہ اور پیسہ کمانے کی بات کیے ہوئے کئی ہفتے گزر گئے۔ میرا خیال ہے کہ آج مجھے اپنا یہ 'فریضہ' ادا کردینا چاہیے، میرے سامنے دو باتیں ہیں۔ ایک کا تعلق اس معاملے سے ہے جس میں (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف نے جی بھر کے کنفیوژن پھیلایا ہے اور ایک دوسرے کو اٹھا اٹھا کے غلاظت کے ڈھیر میں دے مارا ہے۔ آج بھی اس ڈھیر سے اٹھتے ہیں تو بدبو کے ایک نئے پہاڑ کی طرف چل دیتے ہیں۔ گویا یہی وہ چیز ہے جسے تبدیلی کا نام دیا جاتا ہے اور یہی وہ تعفن سے مالا مال صورت حال ہے جس کا نام انقلاب ہے۔ یہ تو گھر کی کھیتی تھی، ہم خواہ مخواہ 65 برس تک جھک مارتے رہے۔

میرا موقف یہ ہے کہ خواجہ آصف کی بات تقریباً درست تھی۔ کینسر اسپتال نے جو پیسہ انویسٹ کیا وہ سارے کا سارا وہی تھا جو اینڈوومنٹ فنڈ کے لیے جمع کیا گیا تھا یا اس میں وہ رقم بھی شامل تھی جو دوسرے مقاصد کے لیے لوگوں نے دی تھی، اس کے بارے میں خواجہ آصف کو قطعیت کے ساتھ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔ بس ہوا میں تیر چلادیا۔ اور وہ بھی غلط وقت پر۔ ہاں البتہ ان کی باقی باتیں ٹھیک تھیں۔

دراصل ہوا یہ کہ 2008 کے عالمی معاشی بحران سے قبل ہر طرف سرمایہ کاری کی ایک ایسی اندھی لہر آئی ہوئی تھی کہ اس میں طوفان اٹھانے کو ہر کوئی بھاگا آرہا تھا۔ پراپرٹی کی قیمتیں پاکستان میں بھی بڑھ رہی تھیں۔ یہاں کی اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس بھی پونے سولہ ہزار پوائنٹس کی حد کو چھورہا تھا جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح تھی لیکن اصلی دھمال دبئی میں ڈالی جارہی تھی، وہاں لاتعداد نئے پراجیکٹس شروع کیے گئے تھے۔ نئی عمارات تیزی سے تعمیر ہورہی تھیں اور نئی زمینیں ہموار کی جارہی تھیں۔

اس طرف سرمایہ کاری کا رخ اتنا تیز تھا کہ بلامبالغہ لوگ راتوں رات امیر ہورہے تھے۔ میں کچھ لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، جنھوں نے میرے سامنے دبئی کی کسی عمارت کی فروخت کی بکنگ شروع ہونے سے بھی پہلے اس کا پورا ایک فلور خرید لیا۔ یہ صورت حال پری بکنگ کہلاتی تھی اور خریدار کو صرف دس فیصد رقم دینا پڑتی تھی۔ اور پھر دو ہفتوں کے بعد بکنگ شروع ہونے پر وہ چند ہی دنوں میں تمام اپارٹمنٹ دس فیصد زاید قیمت پر فروخت کردیتے تھے۔ یوں رقم دوگنا ہوجاتی۔

دبئی میں پیسہ لگانے کی اس دوڑ میں ہر کوئی شریک ہورہا تھا۔ پاکستان کے بڑے بڑے صنعت کار، رئیل اسٹیٹ انویسٹرز حتیٰ کہ اسٹاک مارکیٹ کے بڑے بڑے بروکرز بھی اس بھیڑ چال کا شکار ہوئے۔ انھوں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ اور جائیداد کی قیمت میں یک رخہ اضافہ دیکھ کے عام خیال یہی تھا کہ اس سٹّے میں جو Bubble بن رہا ہے وہ کسی دن ضرور پھٹے گا۔ یہی وہ وقت تھا جب دبئی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھ کے سرمایہ کاروں نے نئے علاقے تلاش کرنا شروع کردیے۔ ان میں مسقط اور عمان وغیرہ بھی شامل تھے لیکن انھیں سب سے زیادہ غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ غالباً وہاں حکومت کی طرف سے یہ بات بھی واضح کردی گئی تھی کہ وہ نئے صنعتی علاقوں اور عمارات کو بجلی اور دوسری سہولتیں دینے کی پابند نہیں ہے۔

انھی حالات میں کینسر اسپتال کے تین ملین ڈالر وہاں انویسٹ کیے گئے اور ہوا کیا؟ جب سرمایہ کاری کا یہ بلبلہ پھٹا تو وہاں معاہدے، پیسے اور کاروبار چھوڑ کے لوگ اس تیزی سے فرار ہوئے کہ دبئی ایئرپورٹ پر کھڑی سیکڑوں کاریں ایسی پائی گئی تھیں جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔ یہ سٹّے بازی نہیں تھی تو اور کیا تھا؟

باقی رہی یہ بات کہ اسپتال کا پیسہ کس شخص کے ذریعے، کس روٹ سے اور کس کمپنی کے تحت انویسٹ کیا گیا، اس کے بارے میں اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات بادیٔ النظر میں درست ہیں۔ شور شرابہ کرکے، چیخیں مار مار کے اور حقائق کو بے وقت منظرعام پر لانے کے بین ڈال ڈال کے، حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا۔ ویب سائٹ پر اکائونٹس کو شو کرنا کوئی بریت نہیں ہے۔ یہ کارپوریٹ سیکٹر کی ایک ضرورت ہے اور اسے اکائونٹس پبلک کرنا ہی پڑتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کئی کمپنیوں، خصوصاً بینکوں کے اکائونٹس تو اخبارات میں بھی شایع ہوتے ہیں اور صفحوں کے صفحے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

میرے خیال میں اس معاملے کو دونوں فریق مثبت انداز میں لیں تو اچھا ہوگا۔ اسپتال سے ایک غلطی ہوئی سو ہوگئی، اب اسے درست کردینا چاہیے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تین ملین ڈالر کا پیسہ ابھی تک اسپتال کو واپس نہیں ملا ہے۔ اسے واپس آنا چاہیے۔ مشکوک گارنٹر کی مشکوک کمپنی کے مشکوک شیئرز اور بھی مل جائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پرنالہ اب بھی وہیں گر رہا ہے۔

پیسے کی پہلی بات بہت طویل ہوگئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس تقریباً ساڑھے چار برس کے بعد ایک بار پھر 15 ہزار کی سطح عبور کرچکا ہے۔ سرمایہ کاروں میں ایک جشن کی کیفیت ہے جو لوگ دلچسپی رکھتے ہیں ان سے عرض ہے کہ اب بھی بہت سے شیئرز سستے ہیں لیکن صرف ان کی قیمت پر مت جائیں۔ کچرا شیئرز میں ان حالات میں سٹہ شروع ہوجاتا ہے اور وہ تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں۔ کسی بھی وقت والیوم کم ہوا تو آپ ٹریپ ہوجائیں گے۔ محتاط رہیں۔ زیادہ شوق ہے تو بروقت نفع کرکے نکل جائیں بلکہ بہتر ہے کہ قیمت نہ دیکھیں، ویلیو دیکھیں۔ چھ روپے والے سو خراب شیئرز خریدنے سے بہتر ہے کہ سو روپے والے چھ اچھے شیئرز خریدے جائیں۔ ہاں البتہ اگر آپ کے پاس کوئی انڈوومنٹ فنڈ موجود ہے تو پھر جہاں دل چاہے ٹکادیں۔ انقلاب اسی طرح آتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں