تہواروں کی دھنکملن رنگ کے بغیر ادھوری

خوشیوں کے مواقع اپنوں کی قربت کا ذریعہ ہیں

خوشیوں کے مواقع اپنوں کی قربت کا ذریعہ ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور:
موجودہ دور میں ''مصروفیت'' کے نام پر ایسی وبا عام ہوئی، جس نے ہمارے کنبے' خاندان اور رشتے داروں سے تعلقات کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

ایک طرف معاشی بدحالی کو دوش ہے، تو دوسری طرف کچھ خودغرضی اور مفاد پرستی نے ساراکام تمام کیا۔ ہم مصروفیت کا عذر تو کرتے ہیں، مگر فرصت کاجووقت ملتا ہے، وہ ساراوقت ذاتیات میں صرف ہوتا ہے۔ تعلق داری بس جدید ذرایع روابط کے ذریعے رہ گئی ہے۔ یہ جدید سہولیات ہماری زندگیوںکا ایسا عجیب وغریب جزو بنی ہیں کہ کسی کا آنا اچھا لگتا ہے نہ جانا۔۔۔ بس یہ ہی وہ مختصر سے محرکات ہیں، جنہوں نے خلوص اور محبت کے نہایت خوب صورت احساس سے مزین رشتوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔

یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے کہ جب لوگ باقاعدہ اپنے رشتے داروں کے یہاں ملنے جلنے جایا کرتے تھے اور عید وبقرعید پر تو نہایت اہتمام کے ساتھ ہمارے گھروں میں رشتے داروں کی محفلیں سجا کرتی تھیں۔۔۔ کوئی غرض' فائدہ یامفاد درمیان میں نہ ہوتا تھا۔۔۔ مصلحت اور جھجک نام کی بھی کوئی بلا موجود نہ تھی۔۔۔ بناوٹ اور منافقت کا تو نام ہی شاید کسی نے کبھی سنا ہو۔۔۔ مگر یہ رفتہ رفتہ ہمیں کیا ہوگیا کہ زندگی کی طرح اہم اپنے رشتے بوجھ لگنے لگے۔۔۔ مشینوں کے عمل دخل بڑھنے سے ہم بھی مشین بننے لگے۔۔۔ بے غرضی سے ملنا جلنا اب گراں گزرنے لگا۔۔۔ ہم اپنے رشتوں کی تجارت کرنے لگے۔۔۔ ہم اپنوں کو پیار بھی تول کر دینے لگے اور اپنے خلوص کی بھی پیمایش کرنے لگے۔۔۔ ہمیں کسی کے گھر ملنے جانے سے جھجک آنے لگی۔۔۔ ہم نے ان رشتوں کو مصلحتوں کے تابع بنا لیا۔۔۔ اور اس ہی ''تجارت'' نے ہمارے رشتوں کو نفع ونقصان کی نظر سے دیکھا تو ''کاروبار'' بنتے اس تعلقات میں فاصلے اور دوریاں بڑھنے لگیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے رشتے داروں سے مطلب پرستی کی شکایت ہے' منافقت' جھوٹ اوربناوٹ کا الزام ہے مگر ہم نے کبھی خود اپنا محاسبہ کیا؟



کبھی ہم نے خود سے سوال کیا کہ ہمارے رشتوں اور ناتوں کی حیثیت کیا رہ گئی ہے؟ صرف گلستان اور قبرستان۔۔۔! یعنی ہم اپنے سگے رشتے داروں کو اب صرف زندگی کے دو مواقع پر ہی دیکھتے ہیں۔ ایک شادی اور دوسری فوتگی۔۔۔ وہ بھی اتنا کہ بس پہچان لیتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں ''ارے بھائی آپ تو پہچانے بھی نہیں جا رہے۔۔۔ بہت بدل گئے۔'' تب کچھ ذکر نکلتا ہے بیماری کا یا کسی پریشانی کا جس نے ہمارے مخاطب کے چہرے مُہرے کو اتنا بدل ڈالاہوتا ہے کہ جس سے اُن کی شناخت ہمارے لیے مشکل ہو گئی۔۔۔ یوں زندگی کے ان دوموقعوں سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے یا اپنوں کے حالاتِ زندگی سے جیسی تیسی خبر گیری ہوتی ہے۔۔۔ اب ہر دو موقعوں کا دورانیہ بہ مشکل دو سے ڈھائی گھنٹے پر محیط ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم اس موقع پر موجود ''اپنوں'' سے کس قدر انصاف کر پاتے ہیں اس سے آپ بہ خوبی واقف ہیں۔۔۔ یعنی اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے خونی رشتے بس خوشی و غمی کے ان دو مواقع پر ہی ''رش لگانے'' کے کام آتے ہیں' بشرطے کہ میزبان ہمارے ہاں شادی میں آیا ہواہو ورنہ ہم بدلہ بھی پورا لیتے ہیں کہ جیسے وہ آیا ویسے ہی ہم نے جانا ہے۔ یہاں تک کے تحائف کے تبادلے کے لیے بھی یہ ہی پیمانہ ہے۔۔۔ ''بھئی فلاں نے بڑا بھاری اور بَڑھیا تحفہ دیا ہے۔۔۔ اب اس کا اُتار کرنا ہے۔۔۔!''

کیا یہ سب طور طریقے کسی طرح بھی انسانی تعلقات کے حوالے سے زیبا ہیں۔۔۔؟ اس کے بعد ہمیں شکایت ہوتی ہے کہ زندگی میں سکون نہیں۔۔۔ چین نہیں' بڑی مشکلات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ درجنوں قسم کی ذہنی وجسمانی بیماریاں موت تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ تیں۔۔۔ ہم اپنی چھٹیوں میں بھی سکون حاصل کرنے کے لیے منہگی اور خواب آور گولیاں پھانکتے ہیں، مگر کسی سگے رشتے دار سے محبت اور خلوص سے ملنا گوارا نہیں کرتے۔۔۔ کیوں کہ ایک مسئلہ ہماری حرص اور ہوس کا بھی ہے، لہٰذا زیادہ سے زیادہ دولت اور تعیشات کے حصول میں ہم ساری زندگی تج دیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کم تر رشتے داروں کو گھاس نہیں ڈالتے' نتیجتاً ہم سے اوپر والے رشتے دار ہمارے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔




رہے برابر کے لوگ تو ہمیں ان سے آگے بڑھنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس ہی دوڑ میں ہم اپنی کام یابیوں اور ترقیوں سے آگاہ نہیں کرتے اور یہ چھُپانے کا بھیانک مرض ہمارے یہاں ایسا غالب آیا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔۔۔ پہلے کہتے تھے کہ خوشیاں بانٹا کیجیے، اس سے خوشیاں بڑھتی ہیں، مگر اب معاملہ الٹ محسوس ہوتا ہے۔۔۔ ہم اظہار ہی نہیں کرنا چاہتے' اس لیے کہ سامنے والے نے بھی فلاں وقت ہم سے یہ بات پوشیدہ رکھی تھی۔۔۔ یوں سارے ملنے ملانے کے راستے مسدوس ہو گئے۔۔۔! تم اپنے گھرخوش' ہم اپنے گھر مگن۔۔۔! کیوں کہ اگر ساتھ بیٹھے تو منہ سے کچھ نکل نہ جائے' یہ بے چارے معصوم بچے بھانڈا نہ پھوڑ دیں، لہٰذا زندگی میں ہی اپنے گھر کی چار دیواری کو ہی زندہ قبریں بنا کر رہو۔۔۔ بس اس ہی کا نام اب زندگی ہے!

زندگی میں خوشیوں کے مواقع پر اسی لیے میل ملاقات کا اہتمام کیاجا تا ہے تاکہ خوشیاں بانٹی جاسکیں، غم ناک لمحات میں یہی صورت دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے واسطے اختیار کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ خوشیوں کا ایک اجتماعی موقع عید اور بقرعید کے تہواروں کی شکل میں ہماری زندگی میں آتے ہیں، مگر حقیقی معنوںمیں معاشرتی سطح پر ہم بھول چکے کہ عید نامی خوشی کیا ہے۔۔۔ عید الفطر پر رمضان اور بقرعید پر قربانی کی تھکن کا جوازہمیں اپنے اپنے گھروں تک محدود رکھتا ہے۔۔۔ یوں زندگی کے ان قیمتی لمحات کی حقیقی حیثیت محض تعطیلات کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جدید ذرایع ابلاغ اور ساری اہم ترین مصروفیات کبھی بھی ان تعلقات کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔



اگر ہم جائزہ لیں کہ ہم نے اپنی عید کو کس طرح گزارا تو ہمیں پتا چل جائے گاکہ ہم نے ان دنوں کو صرف چھٹیوں کے طور پر منایا یا واقعی اس کی خوشیوں کو دل کی گہرائیوں میں اترتا محسوس کیا۔ اگر نہیں تو تیز رفتار اور بھاری بھرکم زندگی میں سے کچھ وقت اپنوں سے بے لوث تعلقات استوار تو کر کے دیکھیے' آپ زندگی کے حقیقی لطف سے ہم کنار ہو جائیں گے۔ مانا کہ مخلص ہونا بھی اس دور میں بہت بڑا مسئلہ ہے، مگر آپ اپنی طرف سے تو نبھا کر دیکھیے' ہو سکتا ہے آپ کی زندگی میں حقیقی خوشیوں کی دھنک بکھیر دے۔۔۔!

کبھی ہم نے خود سے سوال کیا کہ ہمارے رشتوں اور ناتوں کی حیثیت کیا رہ گئی ہے؟ صرف گلستان اور قبرستان۔۔۔! یعنی ہم اپنے سگے رشتے داروں کو اب صرف زندگی کے دو مواقع پر ہی دیکھتے ہیں۔ ایک شادی اور دوسری فوتگی۔۔۔ وہ بھی اتنا کہ بس پہچان لیتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں ''ارے بھائی آپ تو پہچانے بھی نہیں جا رہے۔۔۔ بہت بدل گئے۔''
Load Next Story