چھٹیوں کے بعد۔۔۔
بچوں کو پرانے معمولات کی طرف لوٹنے میں مدد کیجیے
اسکول جانے والے بچوں کی جانب سے لاپرواہی یا غفلت کا مظاہرہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، خصوصاً چھٹیوں کے بعد جب انہیں دوبارہ سے پرانے والے معمولات کا عادی بنانا ہو، یہ امر خاصا دشوار تر ہو جاتا ہے۔
اس بار موسم گرما کی تعطیلات میں رمضان المبارک کا مہینا بھی موجود تھا، جس میں سب ہی کے معمولات زندگی ہی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بچے تو پھر بچے ہیں، لہٰذا انہیں سابقہ مصروفیات کی طرف لانے کے لیے بڑوں سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بچوں کو اگر شروع سے ذمہ دار بنایا جائے تو پھر ایسے مواقع پر انہیں اپنے معمولات کی طرف لوٹنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی، اور وہ ذرا سی توجہ سے اپنے معمولات کی طرف پلٹ جاتے ہیں، لیکن اگر اس معاملے میں غفلت برتی گئی ہو تو پھر طویل چھٹیوں سے قطع نظر ایک ساتھ دو، تین تعطیلات کے بعد ہی انہیں باقاعدگی سے اپنی ڈگر پر لانا مشکل ہو جاتا ہے، لہٰذا والدین کو بچے میں ابتدائے عمر ہی سے ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی چیزوں کی خود حفاظت کر سکیں اور اپنا ہر کام وقت پر مکمل کرنا سیکھ سکیں۔ ذمہ داری کا یہ احساس آیندہ زندگی میں بہت کام آتا ہے اور جب بھی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں وہ ذمہ داری کے ساتھ اپنی ساری تیاریاں مکمل کرتا ہے۔ نئے تعلیمی سیشن کے حوالے سے خود ساری چیزیں دیکھتا ہے، بالخصوص یونیفارم اور نئی کتابیں اور کاپیاں وغیرہ۔
پرائمری سے سیکینڈری میں داخل ہونے والے بچوں کا معاملہ اور بھی زیادہ توجہ طلب ہے، ان پر ایک طرف پڑھائی کا بوجھ ایک دم سے بڑھ جاتا ہے، تو دوسری طرف ان کی کارکردگی سے متعلق اساتذہ اور والدین کی توقعات بڑھ جاتی ہیں، کیوںکہ تصور یہ ہوتا ہے کہ اب یہ بچے نہیں رہے کہ ان کو ہر بات سکھائی اور سمجھائی جائے۔ اب بہت کچھ ان کو خود سیکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکول میں درمیانی ذہنی سطح والے بچے باقی بچوں کی نسبت زیادہ دبائو کا شکار نظر آتے ہیں۔
بچوں کی صحیح راہ نمائی نہ کی جائے تو وہ لاپروا ہی رہتے ہیں۔ انہیں کبھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر چھٹیوں کے بعد وہ کوتاہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، تو والدین کو چاہیے کہ انہیں صحیح ڈگر پر رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ان کے لیے کچھ خاص طریقے وضع کریں، چاہے اس کے لیے آپ کو اپنا دوستانہ ماحول تھوڑا سا ترک ہی کیوں نہ کرنا پڑ جائے، کیوں کہ بچوں کا جی نہیں چاہ رہا ہوتا کہ چھٹیاں اور ان کی آزادی ختم ہو اور وہ پھر سے پہلے کی طرح اسکول جائیں۔ اس لیے سب سے زیادہ دھیان اس بات پر دیں کہ وہ چھٹیوں کی طرح اپنا زیادہ وقت کھیل کود کی نذر نہ کریں، بلکہ وقت پر کھیلیں اور اپنی پڑھائی کو متاثر نہ کریں۔ ساتھ ہی چھٹیوں کے فوراً بعد ہونے والے ٹیسٹ وغیرہ کے حوالے سے خصوصی طور پر پوچھیں تاکہ انہیں ذمہ داری کا احساس ہو۔
اسکول میں پانچ، چھ گھنٹے گزارنے کے بعد بچہ تھک جاتا ہے۔ اسکول سے آنے کے بعد بچے کو کھانا کھانے اور پھر کچھ وقت آرام کرنے کا ضرور دیں۔ کھانا کھانے کے بعد آرام کرنے سے اس کی تمام ذہنی اور جسمانی تھکن دور ہو جاتی ہے، پھر جب وہ اٹھتا ہے تو تازہ دَم ہوتا ہے۔ اگر وہ کچھ دیر کھیلنے کے لیے باہر جانا چاہے تو جانے دیں، کیوں کہ کھیل کود سے بچے کی ذہنی نشونما اور جسمانی صحت اچھی ہوتی ہے۔ بچے کے باہر کھیلنے کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر دیں اور اسے بتا دیںکہ اس وقت تک گھر واپس آجائے۔ بچہ کچھ دیر ٹی وی دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے نہ روکیں، لیکن یہاں بھی ایک وقت مقرر کر دیں۔ ایسا نہ ہو کہ بچہ بہت دیر تک ٹی وی کے آگے ہی بیٹھا رہے۔
چھٹیوں میں کھیلنے کودنے کے اوقات کار کے ساتھ بچے کے سونے کا وقت بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ تعطیلات کے دوران بچے کو رات دیر سے سونے اور دیر سے اٹھنے کی عادت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے چھٹیوں کے بعد صبح سویرے اٹھنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اس بار چھٹیوں کے ساتھ رمضان کے معمولات کی وجہ سے بھی سونے جاگنے کا وقت مکمل طور پر تبدیل رہا۔ اب رمضان کے ساتھ چھٹیاں بھی بیت چکی ہیں، اس لیے نیند کے پرانے معمولات کو بحال کرنے کے لیے کچھ محنت کرنا پڑے گی، تاکہ صبح اسکول جانے کے لیے وقت پر اٹھ کر تیار ہوسکے۔
چھٹیوں کے بعد بعض بچے بہت لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی وہ اپنا شیڈول چیک نہیں کرتے، کبھی ہوم ورک نہیں کرتے۔ تو آخر بچوں کی ان لاپروائیوں پر کیسے قابو پایا جائے؟ دراصل بہت سے بچے وقت پر کام مکمل کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اکثر تو محض اس لیے اپنی کاپیاں یا کتابیں اسکول میں چھوڑ آتے ہیںکہ گھر پر انہیں وہ کام نہ کرنا پڑے۔ اگر بچہ خود کو ہوم ورک مکمل کرنے کے لیے آمادہ نہ پاتا ہو تو والدین کو چاہیے کہ وہ غصے میں نہ آئیں۔ کیوں کہ یہ ایک عام بات ہے۔ بچے ایسا کرتے ہی ہیں۔ اسے ہوم ورک پر آمادہ کرنے کے لیے سختی سے بھی پیش آیا جا سکتا ہے اور نرمی کا رویہ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ سختی کا رویہ اپنانے کے لیے سزا کا اور نرمی کا سلوک کرنے کے لیے انعام کا تصور بچے کے سامنے رکھ دیں۔ بچے کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بے دار کرنے کا یہ بہت مناسب طریقہ ہے۔ لہذا، اسے ضرور آزما کر دیکھیں۔ یقیناً بچہ پھر کام میں دل چسپی لے گا۔
اکثر والدین چھٹیوں کے بعد بچوں کی پہلی جیسی کارکردگی نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں، جب کہ انہیں شکایت کرنے کے بجائے اس موقع پر تھوڑی سی توجہ اورمحنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ آپ کا بچہ پڑھائی سے بھاگ رہا ہے، بلکہ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اسے دوبارہ سے اپنے پرانے معمولات کی طرف لوٹنے کے لیے بڑوں کے سہارے اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ خود بھی چھٹیوں کے بعد خود کو اسکول وغیرہ کے معمولات سے ہم آہنگ کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ایسے میں بچوں کو دوش دینے کے بجائے انہیں اضافی توجہ دیں۔
اس بار موسم گرما کی تعطیلات میں رمضان المبارک کا مہینا بھی موجود تھا، جس میں سب ہی کے معمولات زندگی ہی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بچے تو پھر بچے ہیں، لہٰذا انہیں سابقہ مصروفیات کی طرف لانے کے لیے بڑوں سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بچوں کو اگر شروع سے ذمہ دار بنایا جائے تو پھر ایسے مواقع پر انہیں اپنے معمولات کی طرف لوٹنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی، اور وہ ذرا سی توجہ سے اپنے معمولات کی طرف پلٹ جاتے ہیں، لیکن اگر اس معاملے میں غفلت برتی گئی ہو تو پھر طویل چھٹیوں سے قطع نظر ایک ساتھ دو، تین تعطیلات کے بعد ہی انہیں باقاعدگی سے اپنی ڈگر پر لانا مشکل ہو جاتا ہے، لہٰذا والدین کو بچے میں ابتدائے عمر ہی سے ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی چیزوں کی خود حفاظت کر سکیں اور اپنا ہر کام وقت پر مکمل کرنا سیکھ سکیں۔ ذمہ داری کا یہ احساس آیندہ زندگی میں بہت کام آتا ہے اور جب بھی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں وہ ذمہ داری کے ساتھ اپنی ساری تیاریاں مکمل کرتا ہے۔ نئے تعلیمی سیشن کے حوالے سے خود ساری چیزیں دیکھتا ہے، بالخصوص یونیفارم اور نئی کتابیں اور کاپیاں وغیرہ۔
پرائمری سے سیکینڈری میں داخل ہونے والے بچوں کا معاملہ اور بھی زیادہ توجہ طلب ہے، ان پر ایک طرف پڑھائی کا بوجھ ایک دم سے بڑھ جاتا ہے، تو دوسری طرف ان کی کارکردگی سے متعلق اساتذہ اور والدین کی توقعات بڑھ جاتی ہیں، کیوںکہ تصور یہ ہوتا ہے کہ اب یہ بچے نہیں رہے کہ ان کو ہر بات سکھائی اور سمجھائی جائے۔ اب بہت کچھ ان کو خود سیکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکول میں درمیانی ذہنی سطح والے بچے باقی بچوں کی نسبت زیادہ دبائو کا شکار نظر آتے ہیں۔
بچوں کی صحیح راہ نمائی نہ کی جائے تو وہ لاپروا ہی رہتے ہیں۔ انہیں کبھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر چھٹیوں کے بعد وہ کوتاہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، تو والدین کو چاہیے کہ انہیں صحیح ڈگر پر رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ان کے لیے کچھ خاص طریقے وضع کریں، چاہے اس کے لیے آپ کو اپنا دوستانہ ماحول تھوڑا سا ترک ہی کیوں نہ کرنا پڑ جائے، کیوں کہ بچوں کا جی نہیں چاہ رہا ہوتا کہ چھٹیاں اور ان کی آزادی ختم ہو اور وہ پھر سے پہلے کی طرح اسکول جائیں۔ اس لیے سب سے زیادہ دھیان اس بات پر دیں کہ وہ چھٹیوں کی طرح اپنا زیادہ وقت کھیل کود کی نذر نہ کریں، بلکہ وقت پر کھیلیں اور اپنی پڑھائی کو متاثر نہ کریں۔ ساتھ ہی چھٹیوں کے فوراً بعد ہونے والے ٹیسٹ وغیرہ کے حوالے سے خصوصی طور پر پوچھیں تاکہ انہیں ذمہ داری کا احساس ہو۔
اسکول میں پانچ، چھ گھنٹے گزارنے کے بعد بچہ تھک جاتا ہے۔ اسکول سے آنے کے بعد بچے کو کھانا کھانے اور پھر کچھ وقت آرام کرنے کا ضرور دیں۔ کھانا کھانے کے بعد آرام کرنے سے اس کی تمام ذہنی اور جسمانی تھکن دور ہو جاتی ہے، پھر جب وہ اٹھتا ہے تو تازہ دَم ہوتا ہے۔ اگر وہ کچھ دیر کھیلنے کے لیے باہر جانا چاہے تو جانے دیں، کیوں کہ کھیل کود سے بچے کی ذہنی نشونما اور جسمانی صحت اچھی ہوتی ہے۔ بچے کے باہر کھیلنے کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر دیں اور اسے بتا دیںکہ اس وقت تک گھر واپس آجائے۔ بچہ کچھ دیر ٹی وی دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے نہ روکیں، لیکن یہاں بھی ایک وقت مقرر کر دیں۔ ایسا نہ ہو کہ بچہ بہت دیر تک ٹی وی کے آگے ہی بیٹھا رہے۔
چھٹیوں میں کھیلنے کودنے کے اوقات کار کے ساتھ بچے کے سونے کا وقت بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ تعطیلات کے دوران بچے کو رات دیر سے سونے اور دیر سے اٹھنے کی عادت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے چھٹیوں کے بعد صبح سویرے اٹھنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اس بار چھٹیوں کے ساتھ رمضان کے معمولات کی وجہ سے بھی سونے جاگنے کا وقت مکمل طور پر تبدیل رہا۔ اب رمضان کے ساتھ چھٹیاں بھی بیت چکی ہیں، اس لیے نیند کے پرانے معمولات کو بحال کرنے کے لیے کچھ محنت کرنا پڑے گی، تاکہ صبح اسکول جانے کے لیے وقت پر اٹھ کر تیار ہوسکے۔
چھٹیوں کے بعد بعض بچے بہت لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی وہ اپنا شیڈول چیک نہیں کرتے، کبھی ہوم ورک نہیں کرتے۔ تو آخر بچوں کی ان لاپروائیوں پر کیسے قابو پایا جائے؟ دراصل بہت سے بچے وقت پر کام مکمل کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اکثر تو محض اس لیے اپنی کاپیاں یا کتابیں اسکول میں چھوڑ آتے ہیںکہ گھر پر انہیں وہ کام نہ کرنا پڑے۔ اگر بچہ خود کو ہوم ورک مکمل کرنے کے لیے آمادہ نہ پاتا ہو تو والدین کو چاہیے کہ وہ غصے میں نہ آئیں۔ کیوں کہ یہ ایک عام بات ہے۔ بچے ایسا کرتے ہی ہیں۔ اسے ہوم ورک پر آمادہ کرنے کے لیے سختی سے بھی پیش آیا جا سکتا ہے اور نرمی کا رویہ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ سختی کا رویہ اپنانے کے لیے سزا کا اور نرمی کا سلوک کرنے کے لیے انعام کا تصور بچے کے سامنے رکھ دیں۔ بچے کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بے دار کرنے کا یہ بہت مناسب طریقہ ہے۔ لہذا، اسے ضرور آزما کر دیکھیں۔ یقیناً بچہ پھر کام میں دل چسپی لے گا۔
اکثر والدین چھٹیوں کے بعد بچوں کی پہلی جیسی کارکردگی نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں، جب کہ انہیں شکایت کرنے کے بجائے اس موقع پر تھوڑی سی توجہ اورمحنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ آپ کا بچہ پڑھائی سے بھاگ رہا ہے، بلکہ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اسے دوبارہ سے اپنے پرانے معمولات کی طرف لوٹنے کے لیے بڑوں کے سہارے اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ خود بھی چھٹیوں کے بعد خود کو اسکول وغیرہ کے معمولات سے ہم آہنگ کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ایسے میں بچوں کو دوش دینے کے بجائے انہیں اضافی توجہ دیں۔