بلوچستان بعد ازبگٹی
2001 اور 2002 یعنی فوجی آپریشن سے قبل بلوچستان میں غربت کی شرح 48% تھی۔
LONDON:
26 اگست 2006 کی علی الصبح پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے پاکستانی میڈیا پر 80 سالہ سفید ریش بلوچ رہنما کو ایک خصوصی فوجی آپریشن میں بے شمار بلوچ ساتھیوں سمیت ہلاک (شہید) کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم پرویز مشرف اور اس کے رفقاء کو چند لمحوں کے بعد ہی اپنا بیان بدلنا پڑا۔
نواب بگٹی کی شہادت کی خبر پر بلوچستان میں آتش فشاں سا پھٹ پڑا۔ ریاست سے منسلک تمام نشانات یعنی دفاتر، پرچم، ریل کی پٹریاں حتیٰ کہ بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبے تک بلوچ غیظ و غضب کا نشانہ بنے۔ اسلام آباد کے سفارت کاروں کی دوری اور عالمی میڈیا کی عدم موجودگی کے باعث بلوچستان میں بپا شورش اور ہیبت ناک ردّعمل کو عالمی سطح پر شدّت کے ساتھ محسوس نہیں کیا گیا۔ لیکن بلاشبہ ماضیٔ قریب میں اِس قدر بلوچ ردّعمل و غصے کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔
ایک عشرے تک بلوچستان جلتا رہا۔ بلوچ خون کے آنسو روتے رہے۔ آسماں پر دھویں کے سیاہ بادل نے ڈیرہ جمادیا۔ زمین دوسری جنگِ عظیم کی تباہی و بربادی کا منظر پیش کررہی تھی۔ حکومت اور ریاست نے عملاً اِس دوران مکمل پسپائی اختیار کرلی۔ مائیں، بوڑھے، بچّے، جوان ہر طبقۂ فکر نے بلوچ بزرگ رہنما کی شہادت پر ناقابلِ بیان ردّعمل کا مظاہرہ کیا۔ مشرف کے بیان کی تبدیلی، میڈیا کی آہ و زاری، بلوچ ہمدردی کے لیے بہائے گئے مگرمچھ کے آنسو اور بلوچ درد و کرب سے عاری پاکستانی دانشوروں کے اظہارِ یکجہتی کے کالم اور بیانات بلوچ دکھ و درد کا مداوا نہ کرسکے۔
درحقیقت 26 اگست 2006 کا دن بلوچوں کے لیے صرف ایک سفید ریش رہنما کی شہادت اور حکومت کے ہاتھوں بلوچوں کی تذلیل کا اختتامیہ نہیں تھا بلکہ یہ تو ابتدائیہ ثابت ہوا ایک نہ ختم ہونے والے تکلیف دہ قومی سفر کا جو آج ختم ہوا۔ہزاروں نوجوانوں کے لاپتہ کیے جانے پر... بلوچوں کی جبری ہجرت پر... اور بالآخر بلوچوں کی منصوبہ بند نسل کشی پر، جس کے نتیجے میں اگست 2012 تک ایک ہزار کے قریب پروفیسر، استاد، سیاسی کارکن، نامور سیاسی رہنما اور طالب علموں کو چن چن کر پہلے لاپتا کیا گیا اور بعد ازاں ان کی مسخ شدہ لاشوں کو تذلیل آمیز طریقے سے سڑکوں کے کنارے اور بیابانوں میں پھینک کر بلوچ قومی روح کو اذیت اور تکلیف کے ایک نئے مرحلے سے گزارا جارہا ہے۔ آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ آج نواب بگٹی کی شہادت کے چھ سال بعد بلوچستان کہاں کھڑا ہے۔
شروعات کرتے ہیں ڈیرہ بگٹی سے، 26 اگست 2006 کو نواب بگٹی کی شہادت کے بعد فوجی حکمرانوں نے نواب بگٹی کے تابوت کو تالا لگا کر مدفن کرنے اور بعد ازاں ان کے گھر یعنی قلعہ پر پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے بلند بانگ دعوے کیے کہ بلوچستان سمیت ڈیرہ بگٹی کے عوام کے لیے آج کا دن طلوع صبح ہے اور بلوچستان و ڈیرہ بگٹی کے عوام کو قبائلیت سے آزادی دلا کر اب ڈیرہ بگٹی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی، ترقی و تعمیر کے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے۔ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور لاتعداد کالج بنائے جائیں گے۔ بگٹی قبائل اپنی قدرتی گیس کے مالک ہوں گے... لیکن آج چھ سال گزرنے کے بعد ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے عوام ترقی اور تعمیر دور کی بات، آزاد فضا میں سانس لینے کے لیے بھی محتاج ہیں۔
نواب بگٹی کا قلعہ جو بلوچ مہمان نوازی کا آئینہ دار تھا اور بلوچ مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج حکومتی عقوبت خانہ (ٹارچر سیل) میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ آج نواب بگٹی کے قلعے سے بلوچی روایات کی مہک نہیں بلکہ غیرت مند بلوچوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔ جنھیں شب و روز اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج ڈیرہ بگٹی کے عوام کو ہر چوراہے پر ایک سرکاری سردار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چھ سال بعد آج بھی ڈیرہ بگٹی بلوچوں کے لیے نوگو ایریا ہے۔ یہاں نہ تو کوئی کالج قائم ہوا ہے نہ اسکول... نہ ایک حکومتی ادارہ جو سالانہ 85 ارب روپے منافع گیس سے کماتا ہے نے کوئی ترقی اور خوش حالی کے منصوبے شروع کیے، بلکہ باہر سے آنے والے سرکاری اہلکار دور دوسرے شہر میں موجود اپنے خوش نما دفتر سے بلوچوں کی بے بسی، بدحالی اور قتلِ عام کا بھرپور تماشا دیکھ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چھ سال قبل بلوچستان میں حکومتِ پاکستان کی استحصالی پالیسیوں اور بلوچ قومی حقِ خود ارادیت کے لیے سیاسی مزاحمت زوروں پر تھی لیکن اِس سیاسی مزاحمت سے عوام قطعاً متاثر نہیں تھے۔ مثلاً نہ تو سڑکوں پر چوری و ڈکیتی تھی نہ اغوا برائے تاوان کے واقعات۔ نہ ہندوئوں اور ہزارہ برادری کو ہراساں کرنے کی شکایتیں۔ نہ ہی استادوں کا قتل اور نہ ہی غیر بلوچوں کے خلاف پرتشدد واقعات۔ اور نہ ہی بے حیائی کی حد تک اقربا پروری اور کرپشن۔ یہ سب کیسے یکایک بلوچ معاشرہ میں پھیلا دی گئی۔ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اِس کے جوابات تلاش کرنا مشکل نہیں۔
درحقیقت یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصّہ ہیں تاکہ بلوچستان کے عوام کی سیاسی جدوجہد اور سیاسی معاملات سے مکمل طور پر توجہ ہٹا دی جائے۔ اور اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے چھوٹے موٹے مجرموں کو ترقی دے کر اسلحہ اور خصوصی احکامات اور تحفظ فراہم کرکے جرم کرنے کی کھلے عام چھوٹ دے دی گئی ہے، جس کے باعث آج بلوچستان، عملاً مجرمستان بن گیا ہے، جہاں سرکاری سرپرستی میں جرائم کی تربیت دی جاتی ہے۔
نتیجتاً گزشتہ چھ برسوں میں تقریباً آٹھ ہزار افراد ہلاک، 1800 افراد تاوان کے لیے اغوا اور چار ہزار کے قریب بلوچ سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے، علاوہ ازیں 600کے قریب بلوچ سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کی تشدد زدہ لاشیں مختلف علاقوں سے ملی ہیں۔ اسلام آباد کے اِس طویل المیعاد آپریشن اور بلوچ کش منصوبوں کا نتیجہ صرف قید و بند یا شہادتوں تک محدود نہیں بلکہ اِس جارحیت کے باعث بلوچوں کی تباہ حال معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اور بلوچستان کی ترقی اور سماجی اعداد و شمار افغانستان اور صومالیہ سے بھی بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
2001 اور 2002 یعنی فوجی آپریشن سے قبل بلوچستان میں غربت کی شرح 48% تھی جب کہ پاکستان میں یہ شرح 30% ریکارڈ کی گئی تھی۔ 2005 اور 2006 میں بلوچستان میں یہ شرح بڑھ کر 51% فیصد تک پہنچ گئی۔ اور اقوام متحدہ کے ادارہ ترقیات کی حالیہ رپورٹ میں غربت کی شرح بلوچستان میں 63% ریکارڈ کی گئی ہے۔ یعنی بلوچستان میں 63% سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 2011 کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 73% سے زیادہ لوگ غذائی غربت (CALORIC POVERTY) کا شکار ہیں۔ یعنی 73% لوگ اچھے اور پرغذا (NUTRITION) خوراک سے محروم ہیں۔
اعداد و شمار کی یہ تکلیف دہ صورتِ حال بہت طویل ہے اور میں تسلسل کے ساتھ اپنے انگریزی مضامین بین الاقوامی دنیا کی آگاہی کے لیے شامل تحریر کرتا ہوں۔ یقیناً عام بلوچ جو شب و روز اِس تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہیں کے سامنے اِن کو دہرانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسلام آباد اپنی غلط پالیسیوں کو بالترتیب عملی جامہ پہنارہا ہے لیکن قومی خود احتسابی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں کہ ہم نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے۔ کوئی قومی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ کیا ہم انا، خودپرستی اور ڈیڑھ انچ کی بنائی ہوئی سیاسی عمارتوں اور خودساختہ تصوراتی دنیا سے باہر آکر حقیقت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دو اہم مراحل جو بلوچوں کی قومی بقا کے لیے انتہائی اہم ہیں، عنقریب ایک بہت ہولناک زلزلہ کی طرح ہم پر مسلط کرنے کی کوشش تیزی سے جاری ہیں۔ ان میں بالخصوص آنے والی مردم شماری کے نتائج ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق آنے والی مردم شماری نتائج میں بلوچستان کے غیر بلوچ اضلاع میں 200% سے 300% آبادی کا اضافہ ریکارڈ کروایا گیا ہے اور اِس طرح اگر یہ درست ثابت ہوا تو بلوچ آبادی کو بلوچستان میں اقلیت میں تبدیل کرنے کا یہ منصوبہ بھی مکمل ہوجائے گا۔آئیے ایک دفعہ پھر اپنی گریبان میں جھانک کر سوال کرتے ہیں کہ کیا ہمارے اعمال اور طریقۂ کار بشمول ہماری ناروا داری اور بداتفاقی ہمیں کامیابی کی جانب لے جا رہی ہے۔
26 اگست 2006 کی علی الصبح پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے پاکستانی میڈیا پر 80 سالہ سفید ریش بلوچ رہنما کو ایک خصوصی فوجی آپریشن میں بے شمار بلوچ ساتھیوں سمیت ہلاک (شہید) کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم پرویز مشرف اور اس کے رفقاء کو چند لمحوں کے بعد ہی اپنا بیان بدلنا پڑا۔
نواب بگٹی کی شہادت کی خبر پر بلوچستان میں آتش فشاں سا پھٹ پڑا۔ ریاست سے منسلک تمام نشانات یعنی دفاتر، پرچم، ریل کی پٹریاں حتیٰ کہ بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبے تک بلوچ غیظ و غضب کا نشانہ بنے۔ اسلام آباد کے سفارت کاروں کی دوری اور عالمی میڈیا کی عدم موجودگی کے باعث بلوچستان میں بپا شورش اور ہیبت ناک ردّعمل کو عالمی سطح پر شدّت کے ساتھ محسوس نہیں کیا گیا۔ لیکن بلاشبہ ماضیٔ قریب میں اِس قدر بلوچ ردّعمل و غصے کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔
ایک عشرے تک بلوچستان جلتا رہا۔ بلوچ خون کے آنسو روتے رہے۔ آسماں پر دھویں کے سیاہ بادل نے ڈیرہ جمادیا۔ زمین دوسری جنگِ عظیم کی تباہی و بربادی کا منظر پیش کررہی تھی۔ حکومت اور ریاست نے عملاً اِس دوران مکمل پسپائی اختیار کرلی۔ مائیں، بوڑھے، بچّے، جوان ہر طبقۂ فکر نے بلوچ بزرگ رہنما کی شہادت پر ناقابلِ بیان ردّعمل کا مظاہرہ کیا۔ مشرف کے بیان کی تبدیلی، میڈیا کی آہ و زاری، بلوچ ہمدردی کے لیے بہائے گئے مگرمچھ کے آنسو اور بلوچ درد و کرب سے عاری پاکستانی دانشوروں کے اظہارِ یکجہتی کے کالم اور بیانات بلوچ دکھ و درد کا مداوا نہ کرسکے۔
درحقیقت 26 اگست 2006 کا دن بلوچوں کے لیے صرف ایک سفید ریش رہنما کی شہادت اور حکومت کے ہاتھوں بلوچوں کی تذلیل کا اختتامیہ نہیں تھا بلکہ یہ تو ابتدائیہ ثابت ہوا ایک نہ ختم ہونے والے تکلیف دہ قومی سفر کا جو آج ختم ہوا۔ہزاروں نوجوانوں کے لاپتہ کیے جانے پر... بلوچوں کی جبری ہجرت پر... اور بالآخر بلوچوں کی منصوبہ بند نسل کشی پر، جس کے نتیجے میں اگست 2012 تک ایک ہزار کے قریب پروفیسر، استاد، سیاسی کارکن، نامور سیاسی رہنما اور طالب علموں کو چن چن کر پہلے لاپتا کیا گیا اور بعد ازاں ان کی مسخ شدہ لاشوں کو تذلیل آمیز طریقے سے سڑکوں کے کنارے اور بیابانوں میں پھینک کر بلوچ قومی روح کو اذیت اور تکلیف کے ایک نئے مرحلے سے گزارا جارہا ہے۔ آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ آج نواب بگٹی کی شہادت کے چھ سال بعد بلوچستان کہاں کھڑا ہے۔
شروعات کرتے ہیں ڈیرہ بگٹی سے، 26 اگست 2006 کو نواب بگٹی کی شہادت کے بعد فوجی حکمرانوں نے نواب بگٹی کے تابوت کو تالا لگا کر مدفن کرنے اور بعد ازاں ان کے گھر یعنی قلعہ پر پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے بلند بانگ دعوے کیے کہ بلوچستان سمیت ڈیرہ بگٹی کے عوام کے لیے آج کا دن طلوع صبح ہے اور بلوچستان و ڈیرہ بگٹی کے عوام کو قبائلیت سے آزادی دلا کر اب ڈیرہ بگٹی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی، ترقی و تعمیر کے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے۔ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور لاتعداد کالج بنائے جائیں گے۔ بگٹی قبائل اپنی قدرتی گیس کے مالک ہوں گے... لیکن آج چھ سال گزرنے کے بعد ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے عوام ترقی اور تعمیر دور کی بات، آزاد فضا میں سانس لینے کے لیے بھی محتاج ہیں۔
نواب بگٹی کا قلعہ جو بلوچ مہمان نوازی کا آئینہ دار تھا اور بلوچ مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج حکومتی عقوبت خانہ (ٹارچر سیل) میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ آج نواب بگٹی کے قلعے سے بلوچی روایات کی مہک نہیں بلکہ غیرت مند بلوچوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔ جنھیں شب و روز اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج ڈیرہ بگٹی کے عوام کو ہر چوراہے پر ایک سرکاری سردار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چھ سال بعد آج بھی ڈیرہ بگٹی بلوچوں کے لیے نوگو ایریا ہے۔ یہاں نہ تو کوئی کالج قائم ہوا ہے نہ اسکول... نہ ایک حکومتی ادارہ جو سالانہ 85 ارب روپے منافع گیس سے کماتا ہے نے کوئی ترقی اور خوش حالی کے منصوبے شروع کیے، بلکہ باہر سے آنے والے سرکاری اہلکار دور دوسرے شہر میں موجود اپنے خوش نما دفتر سے بلوچوں کی بے بسی، بدحالی اور قتلِ عام کا بھرپور تماشا دیکھ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چھ سال قبل بلوچستان میں حکومتِ پاکستان کی استحصالی پالیسیوں اور بلوچ قومی حقِ خود ارادیت کے لیے سیاسی مزاحمت زوروں پر تھی لیکن اِس سیاسی مزاحمت سے عوام قطعاً متاثر نہیں تھے۔ مثلاً نہ تو سڑکوں پر چوری و ڈکیتی تھی نہ اغوا برائے تاوان کے واقعات۔ نہ ہندوئوں اور ہزارہ برادری کو ہراساں کرنے کی شکایتیں۔ نہ ہی استادوں کا قتل اور نہ ہی غیر بلوچوں کے خلاف پرتشدد واقعات۔ اور نہ ہی بے حیائی کی حد تک اقربا پروری اور کرپشن۔ یہ سب کیسے یکایک بلوچ معاشرہ میں پھیلا دی گئی۔ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اِس کے جوابات تلاش کرنا مشکل نہیں۔
درحقیقت یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصّہ ہیں تاکہ بلوچستان کے عوام کی سیاسی جدوجہد اور سیاسی معاملات سے مکمل طور پر توجہ ہٹا دی جائے۔ اور اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے چھوٹے موٹے مجرموں کو ترقی دے کر اسلحہ اور خصوصی احکامات اور تحفظ فراہم کرکے جرم کرنے کی کھلے عام چھوٹ دے دی گئی ہے، جس کے باعث آج بلوچستان، عملاً مجرمستان بن گیا ہے، جہاں سرکاری سرپرستی میں جرائم کی تربیت دی جاتی ہے۔
نتیجتاً گزشتہ چھ برسوں میں تقریباً آٹھ ہزار افراد ہلاک، 1800 افراد تاوان کے لیے اغوا اور چار ہزار کے قریب بلوچ سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے، علاوہ ازیں 600کے قریب بلوچ سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کی تشدد زدہ لاشیں مختلف علاقوں سے ملی ہیں۔ اسلام آباد کے اِس طویل المیعاد آپریشن اور بلوچ کش منصوبوں کا نتیجہ صرف قید و بند یا شہادتوں تک محدود نہیں بلکہ اِس جارحیت کے باعث بلوچوں کی تباہ حال معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اور بلوچستان کی ترقی اور سماجی اعداد و شمار افغانستان اور صومالیہ سے بھی بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
2001 اور 2002 یعنی فوجی آپریشن سے قبل بلوچستان میں غربت کی شرح 48% تھی جب کہ پاکستان میں یہ شرح 30% ریکارڈ کی گئی تھی۔ 2005 اور 2006 میں بلوچستان میں یہ شرح بڑھ کر 51% فیصد تک پہنچ گئی۔ اور اقوام متحدہ کے ادارہ ترقیات کی حالیہ رپورٹ میں غربت کی شرح بلوچستان میں 63% ریکارڈ کی گئی ہے۔ یعنی بلوچستان میں 63% سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 2011 کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 73% سے زیادہ لوگ غذائی غربت (CALORIC POVERTY) کا شکار ہیں۔ یعنی 73% لوگ اچھے اور پرغذا (NUTRITION) خوراک سے محروم ہیں۔
اعداد و شمار کی یہ تکلیف دہ صورتِ حال بہت طویل ہے اور میں تسلسل کے ساتھ اپنے انگریزی مضامین بین الاقوامی دنیا کی آگاہی کے لیے شامل تحریر کرتا ہوں۔ یقیناً عام بلوچ جو شب و روز اِس تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہیں کے سامنے اِن کو دہرانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسلام آباد اپنی غلط پالیسیوں کو بالترتیب عملی جامہ پہنارہا ہے لیکن قومی خود احتسابی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں کہ ہم نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے۔ کوئی قومی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ کیا ہم انا، خودپرستی اور ڈیڑھ انچ کی بنائی ہوئی سیاسی عمارتوں اور خودساختہ تصوراتی دنیا سے باہر آکر حقیقت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دو اہم مراحل جو بلوچوں کی قومی بقا کے لیے انتہائی اہم ہیں، عنقریب ایک بہت ہولناک زلزلہ کی طرح ہم پر مسلط کرنے کی کوشش تیزی سے جاری ہیں۔ ان میں بالخصوص آنے والی مردم شماری کے نتائج ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق آنے والی مردم شماری نتائج میں بلوچستان کے غیر بلوچ اضلاع میں 200% سے 300% آبادی کا اضافہ ریکارڈ کروایا گیا ہے اور اِس طرح اگر یہ درست ثابت ہوا تو بلوچ آبادی کو بلوچستان میں اقلیت میں تبدیل کرنے کا یہ منصوبہ بھی مکمل ہوجائے گا۔آئیے ایک دفعہ پھر اپنی گریبان میں جھانک کر سوال کرتے ہیں کہ کیا ہمارے اعمال اور طریقۂ کار بشمول ہماری ناروا داری اور بداتفاقی ہمیں کامیابی کی جانب لے جا رہی ہے۔