کراچی کی محرومیاں اور 460 ارب روپے
دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر قائد میں ہمہ جہت مشکلات اور مسائل ہیں، جو شہر کے رقبے اور حجم کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں
عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، شہر قائد اور دیگر خوبصورت ناموں سے پکارا جانا والا کراچی، جو اپنے دامن میں ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ ایک ایسا شہر جسے معروف انگریزی جریدے ''اکانومسٹ'' نے دنیا کا سب سے کم خرچ شہر قرار دیا۔ اس شہر میں پاکستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والوں کی بھی کثیر تعداد رہائش اختیار کیے ہوئے ہے۔
ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں ہمہ جہت مشکلات اور مسائل ہیں، جو اس شہر کے رقبے اور وسعت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتے جارہے ہیں، جن کی شدت میں وفاقی اور صوبائی حکومت کی عدم توجہی یا عدم دلچسپی کے باعث روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
افسوسناک امر ہے کہ پاکستان کے معاشی مرکز کی حالت زار کو بدلنے اور اس کی بہتری کےلیے کسی بھی دور میں، کسی بھی حکومت نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، نتیجتاً مسائل گنجلک ہوتے گئے۔ کسی بھی ایک حکومت کو کراچی کا خیر خواہ نہیں کہا جاسکتا چاہے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا ن لیگ کی، یا مقامی طور پر ایم کیو ایم کی۔ تحریک انصاف بھی اب تک کراچی کےلیے کچھ کرتی نظر نہیں آرہی۔ ماضی کی کسی بھی مرکزی، صوبائی اور شہری حکومتوں نے کراچی کی بہتری کےلیے صائب اقدامات نہیں کیے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں کہتے نہیں تھکتیں کہ کراچی اس ملک کا معاشی مرکز ہے، ریڑھ کی ہڈی اور منی پاکستان ہے۔ مقامی حکومتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے اس شہر سے خوب فیض حاصل کیا لیکن جب اس شہر کو کچھ لوٹانے کی باری آئی تو کسی نے اختیارات نہ ہونے کا بہانہ گھڑا تو کسی نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا۔ شہر کے وسائل سے بہرہ ور ہوتے وقت اس شہر پر سب ہی اپنا حق جتاتے رہے۔ ان اسٹیک ہولڈرز کی مثال ان بھائیوں کی طرح ہے جو ورثے میں آنے والی گائے کے دودھ سے تو مستفید ہونا چاہتے ہیں لیکن اسے چارہ کھلانے پر کوئی تیار نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی اور نااہلی اس عظیم شہر کو مستقل تنہا کرتی جارہی ہے۔
ملک کا معاشی محور ہونے کے باوجود، کراچی کو اس کی اپنی پیدا کردہ دولت میں سے بھی منصفانہ حصہ نہیں دیا گیا۔ اس شہر کی حالتِ زار دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے ہر سطح پر اس شہر کو محرومیوں کا شکار بنایا جارہا ہے۔ اس شہر کو مناسب ترقیاتی فنڈز بھی نہیں دیے جاتے۔ شہر کا انفرااسٹرکچر تباہی کا شکار ہے اور جو منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، وہ اپنی مقررہ مدت تکمیل کے طویل عرصے بعد بھی نامکمل ہی رہتے ہیں۔
کراچی کی ترقی میں ہمیشہ فنڈز کی کمی کو بھی بہانہ بنایا گیا ہے۔ اس تناظر میں ایک اہم معاملے پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ اگر ارباب اختیار چاہیں تو "فنڈز کی کمی" کا یہ بہانہ مستقل ختم ہوسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں بحریہ ٹاؤن کیس میں عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرلی۔
سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی پیشکش ماننے کے بعد اب یہ بحث چھڑگئی ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں جائے گی؟ ایک اطلاع کے مطابق 460 ارب روپے کی یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے گی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کوئی لائحہ عمل تیار کرے گا کہ اس رقم کا کیا کیا جائے، جو کہ تفصیلی فیصلے میں ہی واضح ہوگا۔
یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ یہ رقم بعد میں سندھ حکومت کو بھی منتقل کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ تنازعہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین کا معاملہ ہے، جو 16896 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ فیصلے کے مندرجات دیکھیں تو 460 ارب روپے کی یہ خطیر رقم ابتدائی پانچ سال میں ڈھائی ارب روپے ماہانہ کے حساب سے ادا کی جائے گی، یعنی 30 ارب روپے سالانہ۔
اب ذرا ایک نظر کراچی میں مکمل ہونے والے اور تکمیل پذیر ترقیاتی منصوبوں کی لاگت پر بھی ڈال لیجیے۔ لیاری ایکسپریس وے جو پندرہ سال میں مکمل ہوا اس کی لاگت تقریباً 10 ارب ہے۔ پانی کی کمی دور کرنے کےلیے شروع ہونے والے ''کے فور'' منصوبے کی ابتدائی لاگت 25 ارب روپے تھی (جو بعد ازاں 75 ارب تک پہنچ گئی)۔ ابتدائی طور پر گرین لائن بس منصوبے کی لاگت بھی 16 ارب روپے تھی (ناقص حکمت عملی کے باعث اس منصوبے کی لاگت بھی 80 ارب روپے کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اپنی مدتِ تکمیل سے دو سال زیادہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ منصوبہ اب تک مکمل نہیں کیا جاسکا ہے)۔ یہ چیدہ چیدہ ترقیاتی منصوبے ہیں جن کی مجوزہ لاگت بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ادا کی جانے والی سالانہ رقم سے بھی کم ہے، یعنی اگر اس رقم کو کراچی کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جائے تو مذکورہ پروجیکٹس جیسے کئی منصوبے شروع کیے جاسکیں گے اور مکمل رقم سے کراچی کا کونا کونا چمکایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور تجویز بھی پیش ہے۔ گزشتہ ادوار میں دیکھا جاچکا ہے کہ اکثر منصوبوں میں مختص کی جانے والی رقوم خوردبرد کا شکار ہوتی رہی ہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ اگر یہ رقم کراچی کا مقدر بنتی ہے تو پھر اس کےلیے سپریم کورٹ ازخود ایک ایسا کمیشن بنائے جو کراچی کی تعمیر و ترقی کےلیے کام کرے اور یہ رقم اس کے سپرد کردی جائے تاکہ شفاف انداز میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جاسکے۔
اس "خطیر رقم" کو کراچی کے عوام کی بہبود پر خرچ ہونا چاہیے۔ یہ کراچی کا حق بھی ہے۔ بحریہ ٹاؤن کی زمین کراچی ہی کا حصہ ہے۔ کراچی جیسا شہر جو پورے ملک کے عوام کو سمیٹے ہوئے ہے، اسے محروم کرنا "ناحق" ہوگا۔ اس شہر کے ہمہ جہت مسائل کے حل میں وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے جب کہ یہی شہر ملک کی معیشت کا ایک بڑا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ شہر کی ڈیویلپمنٹ کےلیے کام کرنے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن ان کے ثمرات عوام تک پہنچتے دکھائی نہیں دیتے۔ اب ایک خطیر رقم حصے میں آرہی ہے تو اس شہر کی بہتری کےلیے بھی کچھ کیا جائے۔ کراچی کے شہریوں میں احساس محرومی وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ منی پاکستان ہے، جب حکمراں طبقے سے کراچی کا حق مانگا جاتا ہے تو بلاشبہ رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر ہوکر ہر شہری کےلیے مانگا جاتا ہے۔ امید ہے اس مطالبے کو "دیوانے کی بڑ" سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں ہمہ جہت مشکلات اور مسائل ہیں، جو اس شہر کے رقبے اور وسعت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتے جارہے ہیں، جن کی شدت میں وفاقی اور صوبائی حکومت کی عدم توجہی یا عدم دلچسپی کے باعث روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
افسوسناک امر ہے کہ پاکستان کے معاشی مرکز کی حالت زار کو بدلنے اور اس کی بہتری کےلیے کسی بھی دور میں، کسی بھی حکومت نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، نتیجتاً مسائل گنجلک ہوتے گئے۔ کسی بھی ایک حکومت کو کراچی کا خیر خواہ نہیں کہا جاسکتا چاہے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا ن لیگ کی، یا مقامی طور پر ایم کیو ایم کی۔ تحریک انصاف بھی اب تک کراچی کےلیے کچھ کرتی نظر نہیں آرہی۔ ماضی کی کسی بھی مرکزی، صوبائی اور شہری حکومتوں نے کراچی کی بہتری کےلیے صائب اقدامات نہیں کیے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں کہتے نہیں تھکتیں کہ کراچی اس ملک کا معاشی مرکز ہے، ریڑھ کی ہڈی اور منی پاکستان ہے۔ مقامی حکومتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے اس شہر سے خوب فیض حاصل کیا لیکن جب اس شہر کو کچھ لوٹانے کی باری آئی تو کسی نے اختیارات نہ ہونے کا بہانہ گھڑا تو کسی نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا۔ شہر کے وسائل سے بہرہ ور ہوتے وقت اس شہر پر سب ہی اپنا حق جتاتے رہے۔ ان اسٹیک ہولڈرز کی مثال ان بھائیوں کی طرح ہے جو ورثے میں آنے والی گائے کے دودھ سے تو مستفید ہونا چاہتے ہیں لیکن اسے چارہ کھلانے پر کوئی تیار نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی اور نااہلی اس عظیم شہر کو مستقل تنہا کرتی جارہی ہے۔
ملک کا معاشی محور ہونے کے باوجود، کراچی کو اس کی اپنی پیدا کردہ دولت میں سے بھی منصفانہ حصہ نہیں دیا گیا۔ اس شہر کی حالتِ زار دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے ہر سطح پر اس شہر کو محرومیوں کا شکار بنایا جارہا ہے۔ اس شہر کو مناسب ترقیاتی فنڈز بھی نہیں دیے جاتے۔ شہر کا انفرااسٹرکچر تباہی کا شکار ہے اور جو منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، وہ اپنی مقررہ مدت تکمیل کے طویل عرصے بعد بھی نامکمل ہی رہتے ہیں۔
کراچی کی ترقی میں ہمیشہ فنڈز کی کمی کو بھی بہانہ بنایا گیا ہے۔ اس تناظر میں ایک اہم معاملے پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ اگر ارباب اختیار چاہیں تو "فنڈز کی کمی" کا یہ بہانہ مستقل ختم ہوسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں بحریہ ٹاؤن کیس میں عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرلی۔
سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی پیشکش ماننے کے بعد اب یہ بحث چھڑگئی ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں جائے گی؟ ایک اطلاع کے مطابق 460 ارب روپے کی یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے گی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کوئی لائحہ عمل تیار کرے گا کہ اس رقم کا کیا کیا جائے، جو کہ تفصیلی فیصلے میں ہی واضح ہوگا۔
یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ یہ رقم بعد میں سندھ حکومت کو بھی منتقل کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ تنازعہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین کا معاملہ ہے، جو 16896 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ فیصلے کے مندرجات دیکھیں تو 460 ارب روپے کی یہ خطیر رقم ابتدائی پانچ سال میں ڈھائی ارب روپے ماہانہ کے حساب سے ادا کی جائے گی، یعنی 30 ارب روپے سالانہ۔
اب ذرا ایک نظر کراچی میں مکمل ہونے والے اور تکمیل پذیر ترقیاتی منصوبوں کی لاگت پر بھی ڈال لیجیے۔ لیاری ایکسپریس وے جو پندرہ سال میں مکمل ہوا اس کی لاگت تقریباً 10 ارب ہے۔ پانی کی کمی دور کرنے کےلیے شروع ہونے والے ''کے فور'' منصوبے کی ابتدائی لاگت 25 ارب روپے تھی (جو بعد ازاں 75 ارب تک پہنچ گئی)۔ ابتدائی طور پر گرین لائن بس منصوبے کی لاگت بھی 16 ارب روپے تھی (ناقص حکمت عملی کے باعث اس منصوبے کی لاگت بھی 80 ارب روپے کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اپنی مدتِ تکمیل سے دو سال زیادہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ منصوبہ اب تک مکمل نہیں کیا جاسکا ہے)۔ یہ چیدہ چیدہ ترقیاتی منصوبے ہیں جن کی مجوزہ لاگت بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ادا کی جانے والی سالانہ رقم سے بھی کم ہے، یعنی اگر اس رقم کو کراچی کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جائے تو مذکورہ پروجیکٹس جیسے کئی منصوبے شروع کیے جاسکیں گے اور مکمل رقم سے کراچی کا کونا کونا چمکایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور تجویز بھی پیش ہے۔ گزشتہ ادوار میں دیکھا جاچکا ہے کہ اکثر منصوبوں میں مختص کی جانے والی رقوم خوردبرد کا شکار ہوتی رہی ہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ اگر یہ رقم کراچی کا مقدر بنتی ہے تو پھر اس کےلیے سپریم کورٹ ازخود ایک ایسا کمیشن بنائے جو کراچی کی تعمیر و ترقی کےلیے کام کرے اور یہ رقم اس کے سپرد کردی جائے تاکہ شفاف انداز میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جاسکے۔
اس "خطیر رقم" کو کراچی کے عوام کی بہبود پر خرچ ہونا چاہیے۔ یہ کراچی کا حق بھی ہے۔ بحریہ ٹاؤن کی زمین کراچی ہی کا حصہ ہے۔ کراچی جیسا شہر جو پورے ملک کے عوام کو سمیٹے ہوئے ہے، اسے محروم کرنا "ناحق" ہوگا۔ اس شہر کے ہمہ جہت مسائل کے حل میں وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے جب کہ یہی شہر ملک کی معیشت کا ایک بڑا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ شہر کی ڈیویلپمنٹ کےلیے کام کرنے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن ان کے ثمرات عوام تک پہنچتے دکھائی نہیں دیتے۔ اب ایک خطیر رقم حصے میں آرہی ہے تو اس شہر کی بہتری کےلیے بھی کچھ کیا جائے۔ کراچی کے شہریوں میں احساس محرومی وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ منی پاکستان ہے، جب حکمراں طبقے سے کراچی کا حق مانگا جاتا ہے تو بلاشبہ رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر ہوکر ہر شہری کےلیے مانگا جاتا ہے۔ امید ہے اس مطالبے کو "دیوانے کی بڑ" سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔